انسان نے جس ادارے سے تعلیم پائی ہو، اس کے ساتھ جذباتی تعلق ایک فطری بات ہے، مگر امین احسن کا مدرستہ الاصلاح کے ساتھ تعلق بہت گہرا تھا ۔انھوں نے وہاں سے تعلیم ہی نہیں پائی، بلکہ تعلیم دی بھی اور ا س کے سربراہ بھی رہے۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام انصاری لکھتے ہیں:
’’مولاناامین اصلاحی کی انمول علمی یادگاروں میں مدرستہ الاصلاح بھی شامل ہے ۔ طالب علم اور استاد کی حیثیت سے انھوں نے وہاں تقریباً تیس برس گزارے ۔ مادر علمی سے انھیں فطری طور پر قلبی تعلق تھا اور اس کی تعمیر و ترقی کے لیے وہ ہمیشہ خواہاں و کوشاں رہے ۔ ایک جانب مولانا مرحوم کی صلاحیتوں کو نکھارنے ، ان کے تحریری و تقریری جوہر کو چمکانے اور ان کے علم و فن کو گہرائی و گیرائی عطا کرنے میں مدرسہ کی تعلیم اور مولانا فراہی و دوسرے اساتذہ کی تربیت کا فیض رہا تو دوسری جانب مولانا مرحوم کی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ اور دیگر علمی و دینی خدمات سے مدرسہ کی جو نیک نامی ہوئی، ہند و بیرونِ ہند کے ایک وسیع حلقہ میں اسے جو تعارف ملا، اور اس کے نظامِ تعلیم و تربیت کو جو قدردانی نصیب ہوئی اس سے صرف ِنظر نہیں کیا جاسکتا ۔ مدرسہ کے بہت سے فارغین اپنے نام کے ساتھ ’’اصلاحی‘‘ لکھتے ہیں لیکن مولانا مرحوم کے ساتھ یہ نسبت ایسی پختہ و معروف ہو گئی تھی کہ صرف ’’مولانا اصلاحی‘‘ کہنے پر اول وہلہ ذہن انھی کی طرف جاتا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر،اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۲۲)
مدرستہ الاصلاح سے متعلق ایک گروہ شکوہ سنج رہتاہے کہ مولانا امین احسن نے جماعت میں شامل ہوکر مدرسہ کا حق ادا نہیں کیا ۔ بہ الفاظ دیگر مدرسے سے بے وفائی کی ہے، جب کہ ایسے محسوس ہوتاہے کہ جماعت میں ایک تاثر یہ موجود تھاکہ امین احسن کا دل مدرسہ میں لگا رہتاہے ۔اس ضمن میں ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔اس میں امین احسن پر یہ’’ الزام ‘‘مذاق کے انداز میں لگایا گیا ہے، مگر ہر مذاق کے پیچھے کچھ نہ کچھ سنجیدگی ضرور ہوتی ہے۔حکیم مشتاق احمد اصلاحی بتاتے ہیں:
’’۴۶- ۱۹۴۵ء کے ایک اجلاس کا یہ واقعہ مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔ اس اجلاس میں زیر بحث موضوع یہ تھا کہ تقسیم ملک کے بعد جماعت اسلامی کا مرکز ہندوستان میں ہونا چاہیے یا پاکستان میں ۔ مسئلہ چونکہ نہایت اہم تھا اور تحریک اسلامی کے مستقبل پر اس فیصلہ کے دور رس اثرات مرتب ہونے تھے ، اس لیے امیر جماعت اسلامی سید مودودی ؒنے فیصلہ کیا کہ اس مسئلہ پر بحث کرنے کے لیے مرکزی مجلس شوریٰ کے ارکان کے ساتھ تمام مقامی جماعتوں کے امراء کو بھی اجلاس میں شریک کیا جائے ۔ اس اہم اجلاس میں ، جماعت اسلامی فیروز پور چھاؤنی کا امیر ہونے کی وجہ سے مجھے بھی شریک ہونے کا موقع مل گیا۔ اجلاس مرکز جماعت سرنا (پٹھان کوٹ) میں سید مودودی کی زیر صدارت بعد نماز عشاء منعقد ہوا ۔ مولانا کی دائیں جانب میاں طفیل محمد صاحب، چودھری محمد اکبر صاحب وغیرہ بیٹھے تھے اور بائیں جانب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب ، ملک نصر اللہ خان عزیز، غازی عبد الجبار صاحب تشریف فرما تھے ۔ دائیں جانب کے ارکان جماعت کا مرکز ، پاکستان میں رکھنے کے حق میں تھے اور بائیں جانب کے ارکان ہندوستان کے حق میں تھے ۔ بحث کا آغاز مولانا امین احسن صاحب اصلاحی کی تقریر سے ہوا ۔ انھوں نے اپنے پرجوش خطاب میں جماعت اسلامی کا مرکز بھارت میں قائم رکھنے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے فرمایا کہ غیر مسلموں کے اندر اسلام کی دعوت قبول کرنے کے زیادہ امکانات ہیں (اس کے لیے انھوں نے کچھ دعوتی اور تبلیغی تجربات بھی بیان فرمائے کہ کس طرح جماعت اسلامی کا لٹریچر ہندوؤں کے اندر نفوذ کر رہا ہے) انھوں نے فرمایا : ’’اگر جماعت اسلامی کا مرکز پاکستان میں رکھا گیاتو پاکستان کے مسلمان تحریک اسلامی کی زیادہ شدت سے مخالفت کریں گے ، دوسری دینی جماعتیں جماعت اسلامی کو برداشت نہ کر سکیں گی ، اسے خلاف قانون قرار دیے جانے کے مطالبات اٹھیں گے ۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس لیے ان کی رائے میں بہتر یہ تھا کہ تقسیم ملک کے بعد جماعت اسلامی کا مرکز بھارت میں ہی رہنے دیا جائے اور پاکستان میں ذیلی د فتر قائم کر لیا جائے ۔ جب مولانا اصلاحی اپنی تقریر ختم کر چکے تو میاں طفیل محمد صاحب نے جو کہ میرے قریب بیٹھے تھے نہایت ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں فرما دیا کہ چونکہ سرائے میر بھارت میں ہے اس لیے جماعت اسلامی کا مرکز ہندوستان میں ہی ہونا چاہیے ۔ میاں صاحب کا یہ کہنا تھا کہ اصلاحی صاحب غصہ سے لال پیلے ہو گئے اور احتجاجاً یہ کہتے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے ۔ ’’اچھا یہ سارے دلائل میں نے اپنے وطن کی وجہ سے دیے ہیں ۔‘‘ حالانکہ نہ میاں طفیل محمد صاحب نے یہ ریمارکس مولانا اصلاحی صاحب کی نیت پر کسی شائبہ کی بنا پر دیے تھے اور نہ حاضرین اجلاس نے میاں محمد طفیل صاحب کے اس فقرہ سے کوئی ایسا اثر ہی لیا تھا ۔ کیونکہ تمام ارکان مجلس شوریٰ اور حاضرین اجلاس یہ جانتے تھے کہ کس طرح سید مودودی کے ایک حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے گھر بار اور وطن کو چھوڑ کر مولانا امین احسن اصلاحی پرنسپل’’مدرستہ الاصلاح‘‘ سرائے میر ضلع اعظم گڑھ اپنے عہدے اور وطن کو خیر آباد کہہ کر بال بچوں سمیت سرنا (پٹھان کوٹ) میں منتقل ہو گئے تھے ۔ مگر مولانا اصلاحی صاحب کے جذبات کی شدت سمجھیے کہ وہ اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے ۔ حاضرین اجلاس نے انھیں روکنے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانے۔ اجلاس ان کی غیر حاضری کی وجہ سے تعطل کا شکار ہو گیا۔ بالآخر مرکزی سٹاف کے دو اصحاب کو مولانا اصلاحی صاحب کو منا کر اجلاس میں لانے کے لیے بھیجا گیا۔ قریباً ایک گھنٹہ کے بعد وہ اصحاب مولانا اصلاحی صاحب کو دوبارہ اجلاس میں لے آئے اور اس طرح اجلاس کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی۔
متعدد ارکان شوریٰ نے بھارت اور پاکستان میں مرکز جماعت کے حق میں دلائل دیے ۔ ان تقاریر کے بعد مولانا مودودی صاحب نے رائے شماری کرانے کا فیصلہ کیا ۔ رائے شماری میں 4/3حاضرین اجلاس نے جماعت اسلامی کا مرکز بھارت کی بجائے پاکستان میں منتقل کرنے کے فیصلہ کے حق میں ووٹ دیا اور اس طرح یہ مسئلہ حسن و خوبی سے طے ہوگیا۔‘‘(تذکرۂ مودودی ۵۸۱-۵۸۲)
انسا ن دنیا کے کسی بھی خطے میں آباد ہوجائے،اسے اپنا آبائی وطن کبھی نہیں بھولتا۔ امین احسن کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی،امین احسن کے ساتھ اپنی ایک گفتگو نقل کرتے ہیں:
’’س۔مو لا نا ابو اللیث اصلا حی ندوی صاحب کی خواہش ہے کہ آپ ہندو ستا ن تشریف لائیں؟
ج۔ابو اللیث صاحب سے میر ا ایک خا ص تعلق ہے۔ ہندوستا ن سے اکثر ان کے پیغامات ملتے رہتے ہیں۔ میں ان کے جذبا ت واشتیا ق کی قدر کر تا ہوں۔ مجھے خود ان سے ملنے کی شدید خواہش ہے کہ ان سے مل کر کچھ حسرتیں نکا لوں۔ اگر میں ہندوستا ن میں ہو تا تو آج میرے یہ تما م چا ہنے وا لے میری نظروں کے سا منے ہوتے۔ انھیں میر ا سلا م کہو کہ وہ دین اِسلام کے لیے کا م کر تے رہیں۔
س۔نو مبر میں ہو نے والے فراہی سیمینا ر میں ہم آپ کو لے کر چلیں گے ۔ آپ صرف افتتاحی تقریر کریں۔
ج۔ابھی میں نے تمھیں اپنی صحت کے با رے میں بتا یا کہ میں اس قا بل نہیں ہوں کہ ہندوستان چلوں۔ اگر وہاں گیا تو میرے چا ہنے والوں کا تا نتا بند ھ جا ئے گا ۔ جما عت اسلا می دلی ہی میں گھیر لے گی ، اعزہ کو معلو م ہوا کہ میں ہندوستا ن آکر ان سے نہ ملا تو وہ الگ ناراض ہوں گے، مادرِ علمی کے فرزندان بھی مجھے گھیر ے میں لے لیں گے اور اعظم گڑھ میں ایک خاص حلقہ بھی مجھے نہ بخشے گا ۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم مجھے سیدھے لے جاؤ گے اور واپس لا کر لا ہور پہنچا دو گے۔ ایسا لگتا ہے کہ تم مجھے ڈربے میں بند کر کے رکھو گے۔ میرے جا نے پر ایک سیلا ب ٹوٹ پڑے گا اور تم اس سیلا ب کو روک نہیں سکتے ۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۷۵)
مولانا کی پہلی شادی ۱۹۲۳ء میں اصیل پور، پھریہا (اعظم گڑھ) کے راجپوت خاندان کی محترمہ رابعہ سے ہوئی، جن سے پانچ بچے: قمرالنسا ء ، شمس النسا ء ، ابوصالح ، ابوسعید اور ابو سعد پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۴ء میں اہلیہ وفات پا گئیں۔ دوسری شادی ۱۹۴۵ء میں راہوں (جالندھر) کے چودھری عبدالرحمٰن کی صاحب زادی انوارالرحمت سے ہوئی، جن سے ایک صاحب زادی مریم ہوئیں۔ [15]؎
امین احسن اپنے بچوں کی ہر پہلو سے تربیت کے بارے میں بہت حساس تھے۔ملتا ن نیو سنٹرل جیل سے ۲۰ / مئی ۱۹۴۹ء کو اپنے بیٹے ابوسعید اصلاحی صاحب کو خط میں لکھتے ہیں:
’’پیا رے بیٹے ! تمہارے اپنے ہا تھ کا لکھا ہو ا خط پا کر بڑی خوشی ہو ئی۔ اللہ تعا لیٰ عزیز سلمہ، کو علم ِنا فع اور عملِ صالح کی دولت دے اور اپنے دین کی خدمت کے لائق بنا ئے۔ امید ہے کہ تم اپنے بھا ئی جا ن کے سا تھ خوش رہو گے اور شو ق سے پڑھو گے اور اپنی تما م عا دتیں ایسی بناؤ گے کہ وہ اللہ تعا لیٰ کو پسند آئیں۔اپنی امی اور اپنی آپا کو بھی بر ابر خط لکھتے رہو۔ اور اپنے ابو سعد بھا ئی کو بھی کبھی کبھی یا د کیا کر و۔ نما ز پرھنے کی عا دت اب پختہ کر ڈا لو اور غصہ جو تم میں بہت زیا دہ ہے اس کو کم کر و یہ بہت بری چیز ہے ۔اس گر می میں دھو پ میں نہ پھر نا اور روزا نہ کم از کم ایک دفعہ ضرور نہا نا۔
میں خدا کے فضل و کر م سے بہت اچھا ہوں۔ پچھلے ہفتہ میں طبیعت ذرا خرا ب ہو گئی تھی، اب اس کا کو ئی اثر با قی نہیں ہے۔ دوسرے حضرات بھی بخیر یت ہیں ۔وہا ں تما م حضرات کو میرا سلا م کہو اور اپنے سا تھیوں کو دعا ۔تمھارے بھا ئی جا ن جب خط لکھیں اس میں تم اپنا رقعہ ضرور ڈال دیا کر و اور اگر وہ خط نہ لکھیں تو تم اوپر لکھے ہو ئے پتہ پر خود خط لکھا کر و ۔مجھے تمہا ری خیر یت کے لئے بڑا انتظا ر رہتا ہے ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر جولائی ۱۹۹۸ء ، ص ۴۲-۴۳)
اپنے بڑے بیٹے ابو صالح اصلاحی کے نام ملتان نیو سنٹرل جیل سے ۳ ؍فروری ۱۹۵۰ء کو لکھتے ہیں:
’’مجھ پر ہلکا سا حملہ ملیریا کا ہو گیا تھا ، مگر اب اچھا ہوں انگریز ی کتا ب اب تک نہیں ملی۔ یاتو تم نے ہی نہیں بھیجی یا ابھی سنسر والوں کے زیر مطا لعہ ہے۔ دو چار دو پلی ٹو پیا ں بھجواؤ۔ میں جانتا ہوں کہ یہا ں کپڑے کی ٹوپیاں سلوانا ایک جہا ز بنوانے سے زیا دہ مشکل کا م ہے، مگر تو جہ کر و گے توکو ئی مہا جر درزی سی ہی دے گا۔ ابوسعید سلمہٗکو دعا ۔ معلوم نہیں ان کی ’’عبادت‘‘ کا کیا حا ل ہے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ ء ، ص ۹۰)
ملک عبد الرشید عراقی صاحب کے نام لاہور سے ۲؍ جنوری ۱۹۸۰ء کو اپنی اہلیہ کی علالت کے باعث اپنی کیفیت بیان کرتے ہیں:
’’میں اہلیہ کی مسلسل علا لت کے سبب سے ۴، ۵ ما ہ سے یہیں مقیم ہو ں( ڈاکٹر زاہدہ درانی کلینک لا ہور میں قیا م مراد ہے ۔ مدیر ) رقبہ پر کسی شدید ضرورت ہی سے جا تا ہو ں اس دوران میں میری ڈاک بر ابرگڑ بڑ رہی بے اطمینا نی کے سبب سے پتہ تبدیل نہ کر ا سکا۔ منشی جب گا ؤں سے آتا ہے تو ڈا ک لا تا ہے اور وہاں بھی ڈا ک کی تقسیم کا کوئی نظم نہیں ہے ۔اس وجہ سے میری ڈاک بیشتر اسکول کے بچوں ہی کی نذر ہو جا تی ہے۔ ڈا کٹر صاحب کی خدمت میں سلا م اور غیرحاضری کی معذرت کیجئے ۔ اگر آپ حضرات نے لا ہور تشریف لا نا ہو تو مذکورہ پتہ پر ملاقات ہو سکتی ہے اور مجھے اس ملا قا ت سے دلی مسرت ہو گی۔ ‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۹۶)
سب سے بڑے او ر ہونہاربیٹے ابوصالح اصلاحی کی جوانی میں موت کا حادثہ حیات امین احسن کا بڑا درد ناک باب ہے۔امین احسن ایک باپ بھی تھے اور قرآن کے عالم بھی۔ان دونوں حیثیتوں کے باعث اس موقع پر ان کے اندر جذبات کی کیسی کشمکش برپا ہوئی،اس کا اندازہ ان تحریروں سے ہوتا ہے جو انھوں نے اس ضمن میں لکھیں۔ اس معاملے میں انھوں نے ایک بے حددل چسپ اور فکر انگیز سچا خواب بھی بیان کیا ہے، جو ایک با پ کے لیے قلبی سکون کا باعث بنا:
’’۲۰ مئی ۱۹۶۵ء کو قاہرہ کے قریب، پی آئی اے کے طیارے کو جو المناک حادثہ پیش آیا وہ یوں تو پورے پاکستان کا ایک المیہ ہے، ہماری پوری قوم کو اس سے صدمہ پہنچا ہے اور میں اس میں قوم کے ساتھ برابر کا شریک ہوں، لیکن میرے لیے یہ حادثہ دہرے رنج و غم کا باعث ہوا ہے اس لیے کہ میرے جوان بیٹے ابوصالح اصلاحی نے بھی اس حادثے میں شہادت پائی۔میں گوشت پوست کا بنا ہوا ایک کمزور انسان ہوں ۔ عام حوادث سے بھی،جن کی خبریں اخباروں میں روز چھپتی رہتی ہیں ، بہت زیادہ متاثر ہوتا ہوں، پھر ایک ایسے حادثے کے اثرات سے اپنے دل کو کیسے بچاپاتا جس نے میرے پورے آشیانے کو سوخت کر کے رکھ دیا ۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ یہ دن مجھ پر بہت سخت گزرے ہیں ۔ اتنی عمر میں ایسے سخت دن مجھ پر نہیں گزرے تھے۔ اگرچہ حادثہ کی خبر سنتے ہی میں نے اپنے آپ کو اپنے رب کے حوالہ کردیا تھا کہ اے رب! اگر یہ تیرے غضب کا نتیجہ نہیں ہے تو میں تیرے فیصلے پر راضی ہوں ۔ تو مجھے صبر و رضا کی توفیق عطا فرما! لیکن اس کے باوجود اس دوران میں میری عقل اور میرے دل میں برابر ایک جنگ برپا رہی ہے اور بارہا میں نے شب کی تنہائیوں میں یہ محسوس کیا ہے کہ میرے جذبات میری عقل پر غالب آرہے ہیں۔ لیکن اب ان جذبات کا ذکر چھیڑکر اپنے اور اپنے ہمدردوں کے غم میں مزید اضافہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ تحدیثِ نعمت کے طور پر بعض ایسی باتوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو اس سلسلے میں ربِ کریم کی طرف سے ظہور میں آئی ہیں اور جن سے مجھے اس غم و الم کے بوجھ کو ہلکا کرنے میں بڑی مدد ملی ہے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس سفر میں ابو صالح مرحوم نے عمرہ کی نیت کی تھی اور اس کے لیے وہ تمام ضروری تیاریاں کر کے گھر سے نکلے تھے ۔ ان کے اس ارادے کی اطلاع میرے برادرِ نسبتی چوہدری فضل الرحمان محمود سلمہٗ کو تو کئی ماہ پہلے سے تھی لیکن سفر سے پہلے انہوں نے اس کی خوشخبری اپنی امی کو او ران کی وساطت سے گویا مجھے بھی دے دی تھی۔ میں مئی کے شروع میں زمین داری کے انتظامات کے سلسلے میں اپنے رقبے پر چلا گیا تھا۔ وہاں مجھے یکے بعد دیگرے ایسے کام پیش آتے گئے کہ توقع سے زیادہ دن لگ گئے ۔ میری اس غیرمعمولی تاخیرسے گھبرا کر میری اہلیہ اور میری چھوٹی لڑکی بھی وہیں پہنچ گئیں۔ حادثہ سے ایک دن پہلے میری اہلیہ نے ذکر کیا کہ ابو صالح مشرقِ وسطیٰ کے سفر پر جارہے ہیں۔ میں نے کہا: یہ کیا نئی بات ہوئی، وہ تو چین، ماچین، امریکا اور انگلستان برابر جاتے ہی رہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : نئی بات یہ ہے کہ اب انہوں نے عمرہ کی نیت کی ہے ۔ میرے پاس آئے تو کہتے تھے امی !آپ تو مجھے دین سے بے پروا سمجھتی ہیں لیکن میں عمرہ کی نیت کیے ہوئے ہوں، اس سفر سے عمرہ کر کے لوٹوں گا۔ میں دن میں دفتر کے کام کرتا ہوں، رات کو حج کی دعائیں یاد کرتا ہوں۔ حج کے سفر نامے میں نے کئی ایک پڑھ لیے ہیں، اگر کوئی ایسا سفر نامہ آپ نے پڑھا ہو جس میں حج کی روحانیت بیان ہوئی ہو تو وہ مجھے بتائیے، ابا جان سے بھی پوچھیے گا۔ میں نے کہا : ہاں ! یہ خبر تو بے شک نئی خبر ہے۔ اس اطلاع سے مجھے فی الواقع بڑی خوشی ہوئی تھی۔
ابو صالح نے اس نوجوانی کی عمر میں اخبار نویسی میں جو ناموری حاصل کر لی تھی اور زندگی کی جدوجہد میں اسے جو کامیابی پر کامیابی حاصل ہو رہی تھی وہ اگر ایک طرف قابل رشک تھی تو دوسری طرف ایک خاص پہلو سے میرے لیے وجۂ تشویش بھی تھی ۔ میرا دل اندر سے ڈر رہا تھا کہ مبادا! ان کامیابیوں کا نشہ اس کوآخرت سے غافل کر دے ۔چنانچہ میں اس کے لیے برابر دعا کرتا رہتا تھا کہ اے رب! تو نے اس کو دنیادی ہے تو دین کی راہ بھی اسے سجھا! اس کی امی برابر، جب وہ ہم سے ملنے آتا ، نماز کی پابندی کی بحث اس سے ضرور چھیڑتیں۔ میں نے بھی اس سے ایک آدھ بار کہا کہ ابو صالح ! تم قابل فخر بیٹے ہو! اگر تم دین دار بن جاؤ تو میں تمہارے جیسے بیٹے پر اپنے رب کا شکر بھی ادا کروں ۔ اس میں غفلت ضرور تھی لیکن طبیعت بڑی نصیحت پذیر تھی۔ دین کے لیے اس میں حمیت بھی بہت تھی۔ اب میں اس کی اس غربت کی موت کا خیال کرتا ہوں، ان آگ کے شعلوں کا تصور کرتا ہوں جن میں اس کا جسم اور میرا دل کباب ہوا ہے، ایک حریق اور غریق مومن کے لیے اس شہادت کو یاد کرتا ہوں جس کا ذکر حدیثوں میں ہے اور پھر اس کی عمرہ کی اس نیت کا دھیان کرتا ہوں تو میرا سینہ اس اچھی امید سے لبریز ہوجاتا ہے کہ کیا عجب ! رب رحیم و کریم نے اس الھڑ نوجوان کو اپنی جنت میں لے جانے کے لیے یہ مختصر راستہ ہی پسند فرمایا ہو! یہ امید میرے غم کو اتنا کم کردیتی ہے کہ بعض اوقات تو میں ایسا محسوس کرنے لگتا ہوں کہ گویا کوئی حادثہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا ۔
ایک اور چیز، جو سب سے زیادہ میرے غم کو دور کرنے میں معین ہوئی، وہ میرے ایک دیرینہ رفیق کا خواب ہے ۔ میں اگرچہ خواب کی باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا لیکن یہ ایک ایسے شخص کا خواب ہے جس کے خوابوں کے سچے ہونے کا مجھے ذاتی تجربہ ہے۔ میں ایک زمانے میں ان کے ساتھ کم و بیش دس ماہ بورسٹل جیل اور لاہور سنٹرل جیل میں گزار چکا ہوں ۔ اس زمانے میں انہوں نے پیش آنے والے معاملات سے متعلق نہایت حیرت انگیزخواب دیکھے اور ان کے سارے خواب سچے ثابت ہوئے۔ انہوں نے ۳۰/ ۳۱مئی کی درمیانی رات میں، صبح تقریبا ًچار بجے، مندرجہ ذیل خواب دیکھا جو خود ان کے الفاظ میں نقل کرتا ہوں:
ابو صالح اصلاحی مرحوم، رات کے لباس میں ملگجے رنگ کے بو شرٹ اور پاجامے میں ملبو س ہشاش بشاش نظر آئے ۔ کہنے لگے کہ مجھے صرف آدھ گھنٹہ تکلیف رہی۔ اب میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں (یہ بات انہوں نے دو تین دفعہ کہی)۔ میں نے کہا: آپ کے والد مولانا اصلاحی صاحب اس حادثہ کی وجہ سے سخت غم زدہ ہیں۔ کہنے لگے ہاں! ٹھیک ہے ۔انہیں سخت غم ہے اور کیوں نہ ہو، اب پوری ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر آن پڑی ہیں ۔ نیز کہنے لگے: آپ میرا (پیغام جو اوپر نقل ہوا) میرے گھر والوں کو پہنچادیں ۔ میں نے کہا ( اور احساس یہ تھا کہ میں یہ خواب دیکھ رہا ہوں ) کہ یہ خواب باتیں شاید وہ مانیں یا نہ مانیں ، میں جا کر کیا message دوں گا ۔ لیکن انہوں نے باصرار دو تین دفعہ کہا کہ آپ کو اس سے کیا ، آپ پیغام دے دیں، وہ مانیں یا نہ مانیں ان کی مرضی!
خواب خاصا لمبا تھا، باتوں کی ترتیب پوری طرح یاد نہیں رہی لیکن گفتگو کے وہ حصے ذہن پر ابھی تک نقش ہیں جو اوپر لکھ دیے ہیں ۔
اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا کہ ان کے تین چار دوست ان کے قریب ادھر ادھر پھر رہے ہیں اور بغیر داڑھی مونچھ کے سفید قمیص اور پتلون میں ملبوس ہیں۔ ان میں سے ایک نے ابو صالح سے پوچھا: بھئی ! نماز کا وقت ہو رہا ہے (اس وقت واقعی فجر کی نماز کا وقت ہوگیا تھا) ہمیں وضو کرنا ہے جگہ تو بتاؤ۔ اس پر ابو صالح نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے میز والے کمرے کے ساتھ غسل خانہ ہے،وہاں وضو کرلیں ۔ اس خواب کی تعبیر تو ارباب ِتعبیر بتا سکیں گے لیکن چند باتیں اس کی مجھ پر بالکل واضح ہیں اور وہی میرے لیے موجب اطمینان و تسلی ہیں۔
ایک تو یہ کہ یہ خواب دیکھنے والے ایک ایسے صاحب ہیں جن سے اگرچہ ایک مدت سے میرا کوئی ربط ضبط نہیں ہے لیکن و ہ واحدشخص ہیں جن کے بارے میں میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ان کے خواب سچے ثابت ہوتے ہیں، اس وجہ سے ان کے واسطہ سے ابو صالح مرحوم کا کوئی پیغام میرے لیے اطمینان کا پہلو رکھتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ حادثے کے بعد دو تین دنوں کے اندر اندر میں نے غم کے تمام اسباب کا تجزیہ کر کے ان میں سے اکثر پر قابو پالیاتھا۔ لیکن ایک سوال میرے لیے برابر سوہانِ روح رہا ہے کہ حادثہ کے وقت اور حادثہ کے بعد رب کریم نے ابو صالح کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ رات میں جب یہ سوال میرے ذہن پر مسلط ہوجاتا ہے تو نیند اچاٹ ہو جاتی ہے ۔ میرے دل میں یہ خواہش بار بار پیدا ہوئی کہ کوئی بات میرے سامنے ایسی آئے جس سے میرے دل پر سے یہ پہاڑ ذرا سر کے ، خواب ہی میں سہی، لیکن میں خود خواب اول تو دیکھتا کم ہوں اور جو دیکھتا ہوں وہ یاد نہیں رہتے ۔ اب جب سے یہ خواب علم میں آیا ہے ، خیال یہی گزرتا ہے کہ یہ میرے اسی سوال کا جواب ہے اور اگر یہ واقعی میرے سوال کا جواب ہے تو بہت ہی خوب اور نہایت مبارک جواب ہے ۔
بریں مژدہ گر جاں فشانم رواست!
خواب میں ابو صالح کے لباس شب خوابی کا جو رنگ نمایاں ہوا ہے گھر میں دریافت سے معلوم ہوا کہ ان کے سلیپنگ سوٹ کا رنگ فی الواقع وہی تھا۔ اسی طرح ان کا وہ کمرا جس میں ان کے کھانے کی میز ہے ان کے صاف ستھرے غسل خانے سے متصل ہے ۔ ان چیزوں کا کوئی تصور خواب دیکھنے والے صاحب کو پہلے سے نہیں تھا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس حادثے نے مجھے اندر سے بالکل ہلا ڈالا تھا لیکن اب میرے رب نے مجھے سنبھال لیا ہے ۔ کبھی کبھی تنہائی میں رونے کو اب بھی جی چاہتا ہے لیکن الحمد للہ ! اس معاملے میں مجھے اپنے پروردگار سے کوئی شکایت نہیں ہے ۔ میرا دل بالکل مطمئن ہے کہ جو کچھ ہوا ہے اسی میں سب کی بہتری ہے ۔ مرحوم کی بھی، اس کے ننھے ننھے بچوں کی بھی، اس کی غمزدہ بیوہ کی بھی، اس کے غمگین ماں باپ اور بھائیوں بہنوں کی بھی! میں اس موقع پر ان تمام مخلصین اور ہمدردوں کا شکر گزار ہوں جنھوں نے مرحوم کے لیے دعائیں کی ہیں اور تعزیت کے کلمات سے ہمارے غم میں شرکت کی ہے ۔ جن مخلصین نے خطوط لکھے ہیں اگر میرے لیے ممکن ہو سکا تو میں ان کا جواب لکھوں گا اور ان کا شکریہ ادا کروں گا۔ اگر یہ ممکن نہ ہوسکا تو مجھے امید ہے کہ یہ مخلصین مجھے معذور سمجھیں گے اور مرحوم کو اس کے بچوں کو اپنی دعاؤں میں برابر یاد رکھیں گے۔ ماہنامہ میثاق لاہور جون ۱۹۶۵‘‘(مقالات اصلاحی۲/ ۳۸۴-۳۸۷ )
اس کے علاوہ یہ حادثہ کہاں کہاں اور کیسے کیسے اثرانداز ہوا ،اس کی تفصیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’میثاق کا یہ شمارہ نہایت پریشانی کے حالات میں مرتب ہوا ہے ۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کیا لکھا گیا ہے اور کیا چھپا ہے ۔ تا خیر تو عام حالات میں بھی اس رسالہ کا معمول بن چکی تھی ، لیکن اب تو جن حالات و مسائل میں میں گھر گیا ہوں، نہیں کہہ سکتا کہ بے نظمی و بے قاعدگی کے ساتھ بھی یہ پرچہ جاری رہ سکے گا یا نہیں ۔ اس دوران میں مجھے نقل مکان کی الجھنوں سے بھی دو چار ہونا پڑا ، اس لیے کہ ابو صالح مرحوم کے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے مجھے رحمان پورہ سے منتقل ہو کر فیروز پور روڈ پر آنا پڑا اور اب تک کوئی ایسا مکان حاصل نہیں ہو سکا ہے جس میں ان بچوں کے ساتھ یکجا قیام کی صورت پیدا ہوسکے ۔ میثاق کا دفتر بھی ابھی ایک عارضی جگہ پر ڈال دیا گیا ہے۔ ہر چیز الجھی ہوئی ہے اور صرف اللہ ہی کو علم ہے کہ اس الجھاؤ کے سلجھنے کی کوئی شکل نکلے گی یانہیں !
میں اب ایک عرصہ سے تفسیر تدبر قرآن اور حلقۂ تدبر قرآن کے سوا دوسرے تمام کاموں سے تقریباً الگ تھلگ ہوگیا تھا۔ذمہ داریاں خواہ گھر کی ہوں یا باہر کی ان سے جی گھبراتا تھا۔ معاشی مجبوریوں کے سبب سے زمین داری کی تھوڑی سی دیکھ بھال کرنی پڑتی تھی لیکن یہ کام بھی مارے باندھے ہی کرتا تھا ۔ لڑکوں نے اپنی ذمہ داریاں خود نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ سنبھال لی تھیں اور اب وہ اس قابل تھے کہ مجھے امید تھی کہ مجھ سے متعلق جو بعض ذمہ داریاں باقی رہ گئی ہیں ان سے وہ مجھ سے زیادہ خوبی کے ساتھ عہدہ برآ ہو سکیں گے۔ لیکن ابو صالح مرحوم کی ناگہانی موت نے حالات کا سارا نقشہ ہی بدل دیا ۔ اب نہ صرف میری ذمہ داریاں مجھ سے از سر نو توجہ کا مطالبہ کر رہی ہیں بلکہ مرحوم ابو صالح نے اپنی ذمہ داریاں بھی میرے ناتواں کندھوں پر ڈال دی ہیں ۔ اس نے چھوٹے چھوٹے چھ بچے چھوڑے ہیں جن میں سے بڑی بچی کی عمر کل آٹھ سال ہے۔ ان بچوں کی اٹھان ایک خاص نہج پر ہوئی ہے ۔ مجھ سے دور رہنے کے سبب سے یہ مجھ سے اچھی طرح مانوس بھی نہیں ہیں۔ ان کے بھولے پن کا ہی عالم ہے کہ میری ایک پوتی جو شکل و شباہت اور مزاج و عادات میں اپنے مرحوم باپ کا کامل نمونہ ہے، ایک شب میں سوتے وقت اپنی نانی اماں سے پوچھ بیٹھی کہ، اماں ! اللہ میاں کس چیز کی فراک پہنتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیاکہ نور کی !، یہ جواب اس کے حافظے میں محفوظ رہ گیا ۔ صبح کو جب وہ اٹھی اور اس کی نانی نے اس کونہلا کر اس کی فراک بدلنے لگیں تو وہ مچل گئی کہ میں تو نور کی فراک پہنوں گی! اور نور کی فراک کے لیے ایسی بضد ہوئی کہ سارے گھر کے لیے ایک مسئلہ پیدا ہوگیا ۔ یہاں تک کہ مجھے اپنے جدید کلامی دلائل کے ساتھ مداخلت کرنی پڑی تب کہیں جا کر یہ نزاع ختم ہوئی۔
مولانا شبلی نعمانی نے اپنے بھائی مولوی اسحاق مرحوم کا جو درد انگیز مرثیہ لکھا ہے وہ بچپن میں مجھے پورا زبانی یاد تھا اور اس کے جو شعر مجھے خاص طور پر پسند تھے ان میں وہ شعر بھی تھا جس میں مولانا نے مولوی اسحاق مرحوم کے بچوں کی طرف اشارہ کیا ہے:
لاڈلے ہیں کہ کسی اور کے بس کے بھی نہیں
اس کے بچے ابھی سات آٹھ برس کے بھی نہیں
یہ شعر میں اکثر نہایت رقت انگیز انداز میں پڑھا کرتا تھا۔ اب یہ راز کھلا کہ یہ شعر مجھے اس درجہ کیوں پسند تھا۔ معلوم ہوا کہ مولانا نے اس شعر میں اپنے ہی درد دل کی کہانی نہیں سنائی تھی بلکہ اس میں میرا درد دل بھی شامل کردیا تھا۔ میرا یہ ایک مستقل نظریہ ہے کہ آدمی کو شعر وہی پسند ہوتے ہیں جن میں وہ اپنے دل کی صدائیں سنتا ہے ۔
مجھے اچھی طرح علم ہے کہ آدمی پر ذمہ داریاں خدا ڈالتا ہے اور وہی ان کے اٹھانے کی توفیق و ہمت بھی عطا فرماتا ہے ۔ میں جو خوف و ہراس محسوس کر رہا ہوں یہ محض علم کی کمی اور طبیعت کی سہل پسندی کا نتیجہ ہے۔ جو امتحان باقی ہیں و ہ ہو کر رہیں گے۔ وہ اس وجہ سے نہیں ملتوی ہو جائیں گے کہ میں امتحان سے گھبراتا ہوں اور کمر کھول کر اب سستانے اور آرام کرنے کا خواہشمند ہوگیا ہوں۔ یہ امتحان اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جس سے کسی حال میں مفر نہیں ہے۔ اسی سے بندے کی صلاحیتیں اجاگر ہوتی اور اس کی کمزوریاں دور ہوتی ہیں ۔آدمی کا بڑھاپا بھی اس کے لیے کوئی عذر نہیں ہے ۔ بڑھاپے میں جس طرح جسمانی بیماریاں اور کمزوریاں لاحق ہوتی ہیں اسی طرح عقل و ایمانی بھی لاحق ہوتی ہیں ۔ آدمی جب عصائے پیری کا محتاج ہوتا ہے تو بہت سی غلط چیزوں پر تکیہ کرنے لگتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی توحید کے معاملے میں بڑا غیور ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کا بندہ کسی اور پر اعتماد کرے ۔ میں محسوس کرتاہوں کہ اس عمر میں آکر میرے اندر بھی غلط قسم کا اعتماد پیداہوچلاتھا، اگرچہ میری کوئی ضرورت ابو صالح سے وابستہ نہیں تھی مگر ایک باپ کو اپنے بیٹے پر جو فخر و ناز ہوتا ہے غیر محسوس طور پر وہ میرے اندر بھی تھا۔ اس کی شہرت و ناموری سے میرے دل کو خوشی ہوتی تھی۔ لوگ اس کی تعریفیں کرتے تھے تو میرے خون میں اضافہ ہوتا تھا ۔ اس کے بھرے گھر کو دیکھ کر میرا دل باغ باغ ہوتا تھا۔ میں جب پیار سے یا غصہ سے اس کو بیوقوف کہتا تھااور وہ مسکرا کر نگاہیں نیچی کر لیتا تھا تو مجھے فخر ہوتا تھا کہ میں ملک کے ایک نامور صاحب قلم اور چوٹی کے صحافی کو بیوقوف کہہ دیتا ہوں اور وہ میرے اس خطاب پر خوش ہوتا ہے ۔ اس طرح غیر محسوس طور پر میں نے ابو صالح کے اعتماد پر اپنے دل کے اندر پندار کا ایک صنم خانہ تعمیر کر لیا تھا۔ قدرت نے ۲۰ ؍ مئی ۱۹۶۵ء کی صبح کو اس صنم خانے کو ڈھادیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ مجھے اس حادثے سے بڑا غم ہوا لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ اس حادثے کے بعد سے میرے اور میرے پر وردگار کے درمیان کوئی حجاب حائل نہیں رہا ۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میراخاتمہ اس حال میں کرے کہ میرا دل اعتماد غیر کے ہرشائبہ سے پاک ہو۔ماہنامہ میثاق لاہور،جولائی۱۹۶۵‘‘ (مقالات اصلاحی ۲/ ۳۸۹-۳۹۱)
ابوصالح کی صالحیت کی وضاحت کرتے ہوئے امین احسن بتاتے ہیں:
’’مرحوم کے بعض دوستوں کی با صرار یہ خواہش ہے کہ میں اس کے ابتدائی حالات اور اس کے مزاج کی خصوصیات پر ایک مضمون لکھ دوں ۔ یہ مضمون میں ان شاء اللہ لکھ دوں گا لیکن ابھی نہیں ۔ ابھی تو میری کوشش یہ ہے کہ دل پر اس کے تصور کا جو غلبہ ہے وہ کچھ کم ہو تاکہ میں کچھ پڑھنے لکھنے اور سوچنے سمجھنے کے قابل ہو سکوں ۔ میرا یہ گمان نہیں ہے کہ ابوصالح میں خوبیاں ہی خوبیاں تھیں ۔ نہیں! اس میں نقائص بھی تھے لیکن میں ان نقائص میں اپنے نقائص کا عکس دیکھتا تھا۔ اس کی امی جب اس طرح کی کسی چیز کی شکایت کرتیں تو میں ان کو جواب دیتا کہ اس چیز کی فکر نہ کرو، یہ چیز اس نے باپ سے وراثت میں پائی ہے ۔ جس طرح باپ کے دماغ کو عمر اور تجربے نے درست کردیا ہے، اسی طرح عمر اور تجربہ سے اس کا دماغ بھی درست ہوجائے گا۔ مجھ سے، میرے خاندان کی روایات کے زیر اثر، اس کو ایک حجاب سا رہا لیکن یہ حجاب محض ظاہر کا پردہ تھا،اس پردے کے پیچھے جس طرح وہ میرے دل میں بسا ہوا تھا، اسی طرح میں بھی اس کے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا۔ بھائیوں ، بہنوں ، اور عزیزوں سے اسے نہایت گہر ی محبت تھی۔ اپنی چھوٹی بہن ــــــ مریم صدیقہ ــــــ کو پیا ر سے ہمیشہ منی ! کہتا تھااور اس کی ہر چھوٹی بڑی خواہش بلاتاخیر پور ی کرتا تھا ۔پچھلے دنوں میں بیمار ہوگئی تو تیمارد اری اور دیکھ بھال میں اس نے رات دن ایک کردیے ۔ اس کے آپریشن کی نوبت آئی تو لاہور میں جو بہتر سے بہترانتظام ممکن تھا اس نے وہ کیا ۔ اس کا ایک چھوٹا بھائی ــــــ ابو سعد سلمہٗ ــــــ بھارت میں ہے اس کے لیے وہ مجھ سے زیادہ فکر مند رہتا تھا۔ اپنے دوسرے چھوٹے بھائی ابوسعید سلمہٗ کو اس نے تعلیم دلائی اور اگست ۱۹۶۵ء میں اس کے امریکہ جانے کا پروگرام تھا۔ طبیعت نہایت خود دار، فیاض اور غمگسار پائی تھی ۔ اس کے اخلاق سے متعلق نہ صرف یہ کہ کبھی کوئی شکایت سننے میں نہیں آئی بلکہ اس کے خاص دوستوں نے بقید قسم یہ شہادت دی کہ اس سے زیادہ پاکیزہ نگاہ نوجوان انہوں نے نہیں دیکھا ! میں جانتا ہوں کہ یہ چیز اس میں بربنائے تقویٰ نہیں تھی بلکہ محض طبیعت کے ترفع کا نتیجہ تھی لیکن میں مطمئن تھا کہ اس ترفع نے اسے بہت سے فتنوں سے محفوظ رکھا۔ اس ترفع ہی کا ایک پہلو یہ تھا کہ معیار زندگی اونچا رکھنے کے باوجود مکان پر نام کی تختی نہیں لگواتے تھے، گھر پر فون نہیں رکھتے تھے، اخبار میں اپنی تصویر نہیں چھپواتے تھے، بلکہ تاکید تھی کہ اگر کسی گروپ کے ساتھ ان کی تصویر بھی ہو تو ان کی تصویر کاٹ کر گروپ کی تصویر اخبار میں دی جائے ۔ اسی طرح اپنے مخصوص کالم پر جس کی اخبار ی دنیا میں بڑی دھوم تھی ، کبھی اپنا نام نہیں دیا ۔
صحت بہت اچھی تھی، آنکھیں ہمیشہ ہنستی ہوئی رہتی تھیں، مطالعہ بہت کرتے تھے اور معلومات بہت وسیع تھیں لیکن مطالعہ اور معلومات کا بوجھ چہرے بشرے سے نمایاں نہیں ہوتا تھا۔ چہرہ ہمیشہ تازہ گلاب کی طرح شگفتہ رہتا ۔ تفریحات میں سے صرف احباب کے ساتھ مجلس آرائی سے دلچسپی تھی۔ ان کے اکثر احباب عمر میں ان سے بڑے تھے لیکن مشہور روایت یہی ہے کہ جس مجلس میں ہوتے اپنے حسن ِبیان، اصابتِ رائے اور وسعت معلومات کی وجہ سے نمایاں رہتے ۔ دل میں دنیا حاصل کرنے کی خواہش تھی لیکن بڑی خود داری اور اصول کے ساتھ! پچھلے دنوں ایک خاص حلقے کی طرف سے بڑی اہم پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے نہایت بے نیازی کے ساتھ ٹھکرادی۔ حلقۂ ملاقات و تعلقات ہر طبقے میں بہت وسیع تھا لیکن اس سے ذاتی فوائد حاصل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ البتہ اس سے دوسرے ضرورت مندوں کو فائدے پہنچائے۔ دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی کمزوریوں سے درگذر فرمائے اور اس کی نیکیوں کو قبول فرمائے!ماہنامہ میثاق لاہور، جولائی ۱۹۶۵‘‘ (مقالات اصلاحی۲/ ۳۹۲)
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[15]؎ ماہنامہ شمس الاسلام، بھیرہ، مولانا امین احسن نمبر، دسمبر ۲۰۱۵ء، ۸- ۱۰۔