اشراق ہند، جنوری ۲۰۲۴ء میں ’’ برکتوں کا خاتمہ‘‘ کے تحت راقم نے لکھا تھاکہ:
’’...اللہ اکبر، وہ زمانہ کیسی برکتوں کا زمانہ تھا۔ اب پیسوں کی بہتات ہے، مگر ہر جگہ طیبات کے گھٹنے اور خبائث ’کثُرَ الخَبَثُ‘ (مسلم، رقم ۷۲۳۵) کے بڑھ جانے کے سبب ’برکات‘ سلب ہوکر رہ گئی ہیں۔ سادگی اور قناعت کے بجاے حرص وہوس اور اسٹیٹس کی دوڑ، ’ضروریات‘ کے نام پر مادیات میں بے تحاشا اضافہ ، حالات کے جبر و دباؤ اور ہماری بے حسی اور دنیاپرستی کے نتیجے میں صرف ڈیڑھ سو سال کے دوران اِس قدر زوال و اِدبارآیا اور برکات کا خاتمہ ہوگیاکہ بس اللہ کی پناہ:
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے!!
اِن ’برکات‘کی اُس طرح واپسی آج کے حالات میں ممکن نظر نہیں آتی، اِلّا کہ آدمی حسب حالات اُس فطری اور غیرمصنوعی سطح حیات پرواپس لوٹنے کا فیصلہ کرے، یا خود کسی خدائی مداخلت کے ذریعے سے دجل کے اِس عالم گیر پردے کو چاک کرکے تمام فسادات کا خاتمہ کردیاجائے۔
تاہم، ممکن دائرے میں اِن’برکات‘ کے حصول اور اِن کی واپسی کا عملی طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے دائرے میں لازماً اُن چیزوں کو کم ترین سطح پر لانے کی کوشش کریں جن کے ذریعے سے اِن برکات کا خاتمہ ہواہے، یعنی اپنے درمیان ’طیبات‘ کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا اور ’خبائث‘ کو کم سے کم تر سطح پر پہنچادینا؛ یہ امور خواہ داخلی ہوں یاخارجی،مادی ہوں یاروحانی، عملی ہوں یانظری اوراعتقادی،عادات ہوں یا اشیاے استعمالات۔ مثلاً جسم اور روح کی پاکیزگی،ذکر ِ الٰہی کی کثرت، دعا وتذکر، تلاوت وتدبر، صبر و قناعت، انسانی ہمدردی، لوگوں کے ساتھ بہرصورت زیادہ سے زیادہ تعاون، یتیموں اور بے سہارا افراد کی خبرگیری اور کفالت ، نیز فطری طرزِ حیات کا زیادہ سے زیادہ فروغ، وغیرہ۔‘‘ (۳۹ - ۴۰)
موجودہ زمانے میں خود دوا اور بنیادی غذائی اشیا میں عظیم فساد کی بنا پر ’تغییر خلق ‘( النساء ۴: ۱۱۹) کا چیلنج انسانیت کو درپیش ہے۔ اِس طرح عملاً ہر سطح پر انسان کو غیر انسان بنائے جانے (dehumanization) کا عمل انتہائی تیزی کے ساتھ جاری ہے۔
اِس کے نتیجے میں نہ صرف مہلک بیماری اور عدم تغذیہ کا ناقابل تلافی بحران پیدا ہوگیا ہے، بلکہ اِس فساد کے ذریعے سے سرے سے اُس جوہر فطرت ہی کا خاتمہ کیا جارہا ہے جو نہ صرف وحی ودعوت کا مخاطب ہے ، بلکہ یہی ربانی فطرت آدمی کا اصل امتیاز ہے۔ اِسی فطرت کی بنا پر انسان انسان ہے اور جب خود انسان کا انسان ہونا ہی خطرے میں پڑجائے۔
سورۂ روم (۳۰) کی آیت ۳۰ سے متعین ہوجاتا ہے کہ یہاں ’خَلْق‘ سے مراد وہ اصل فطرت ہے جس پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ یہی فطرت ہے جس کو ’تقویٰ‘ اور ’فجور‘ (الشمس ۹۱: ۸)کا حامل بنایا گیا ہے۔اِسی فطرت کے تحت آدمی حق و باطل کے درمیان تمیز کرتا اورخیر کو خیر اور شر کو شر سمجھتا ہے۔ انسان کے اندر یہ فطرت جب مسخ و تغییر کے فساد کا شکار ہوجائے تو پھر وہ انسان نہیں، بلکہ دو پیروں پر چلنے والا صرف ایک ایسا حیوان بن کر رہ جاتا ہے جس میں حیوانیت کے سوا انسان کے ساتھ اور کوئی مشابہت باقی نہیں رہتی۔
دور آخر میں ظاہر ہونے والے یہی وہ جینیاتی مقلوب افراد (GMS) ہیں جن کو احادیث میں ’حُثالة‘ (بخاری، رقم ۶۷۱۰) اور ’عَجاجة‘(احمد، رقم ۶۹۶۴) کہا گیا ہے، یعنی بے خیر و بے فیض قسم کے پست و اراذل لوگ۔اِنھی کے متعلق ارشاد نبوی ہے: ’لا یعرفون معروفًا، ولا یُنکرون منکرًا‘ (احمد، رقم ۶۹۶۴) یعنی اِن کو نہ کسی معروف کا شعور ہوگا اور نہ کسی منکر کا احساس۔
دوا اورغذا، وغیرہ میں پیداشدہ اِن فسادات کی تفصیل کے لیے حسب ذیل کتب ملاحظہ فرمائیں:
1. Your Doctor Is A Liar, by James Paul Roguski
2. Death By Prescription: The Shocking Truth Behind an Overmedicated Nation, by Ray Strand
3. Safety Of Genetically Modified Foods National Research Council, Washington DC.
ہمارے درمیان علم و اخلاق اور تعلیم وتربیت کا جو بحران پیدا ہوا ہے، اُس کا نتیجہ یہ ہے کہ وقت کی ناقدری اور غیر منصوبہ بند طرز حیات عرصے سے گویا اب ہمارا ایک قومی شعار بن چکا ہے۔ عام زندگی میں اِسی کا ایک ظاہرہ ہمارے اکثر لوگوں کا دیر سے سونا اور دیر سے اٹھنا ہے۔
کائنات کے خالق نے دن کو اصلاً کام کے لیے اور رات کو آرام کے لیے بنایا ہے (الفرقان ۲۵: ۴۷۔ النباء ۷۸: ۱۰- ۱۱)۔ یہ صرف ایک سادہ مثال ہے، ورنہ موجودہ زمانے میں فطرت کے خلاف اِس قسم کے بہت سے ’فسادات‘ و انحرافات عام ہوگئے ہیں۔جیسے ’’ڈیویلپمنٹ‘‘کے نام پر کھیت،درخت اور جنگلات کا خاتمہ کرکے ناقابل تلافی حد تک زمین کا توازن بگاڑ دینا،پانی،ہوا اورروشنی جیسی بنیادی اور فطری چیزوں کے حصول کو تمام تر کمرشلائز کردینا،پانی جیسی عام نعمت کو خرید کر پینا، جو بلاشبہ تاریخ کی وہ بدترین غلامی ہے جس میں آج کا انسان’’جدید کاری و تہذیب ‘‘کے پر فریب نام پر مبتلا ہے۔اِسی طرح ’مصنوعی ذہانت‘ (AI) جیسا سنگین انسانی اور اخلاقی بحران ، وغیرہ۔
فطرت کے خلاف مذکورہ قسم کی بے اعتدالی اور انحراف کوئی سادہ بات نہیں۔قرآن کے مطابق، وہ نظام فطرت میں ’تغییر‘(النساء ۴: ۱۱۹)اور زمین میں ’فساد‘ (الاعراف ۷: ۵۶ ،۸۵)کے ہم معنی ہے۔ موجودہ حالات انسان کے اِنھی ’اعمال‘ (مفسدانہ سرگرمیوں) کا نتیجہ ہیں۔چنانچہ اب جدید تہذیب اپنے اِس فساد کے مہلک انجام کو بھگت رہی ہے۔
اِس ہول ناک صورت حال سے نکلنے کا واحد راستہ صرف یہ ہے کہ آج کا انسان ’فساد بر وبحر‘ کی اِس حالت سے لوٹ کر دوبارہ ’صلاح بر وبحر‘کی ربانی حالت کومکمل طورپر اختیار کرلے۔اِس کے سوا، خدا اور کائنات کی نسبت سے، اپنے جرم کو چھپانے کے لیے ’’گلوبل وارمنگ‘‘کے نام پر کی جانے والی مختلف قسم کی سرگرمیاں ’’پیوند کاری‘‘ (patch up)سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔
واقعہ یہ ہے کہ اِس طرح کے بحرانی معاملات میں جوہری تبدیلی (sea change) مطلوب ہوتی ہے، نہ کہ مذکورہ قسم کی پیوند کاری۔انسان کے ’’ہاتھوں‘ ‘بر پا ہونے والے اِس ’فساد‘ کا انجام بظاہر اِس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اب انسان اِسی دنیا میں اپنے اِس ’عمل‘ کا کچھ مزہ چکھے (الروم ۳۰: ۴۱)۔
ایک زندہ فرد اور قوم کی پہچان یہ ہے کہ وقت اُس کے نزدیک ’’کاٹنے‘‘جیسی کوئی چیز نہیں ہوتا، بلکہ یہ ’زندگی‘ کا وہ قیمتی لمحہ ہوتا ہے جسے بھر پور طورپر وصول کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ مشہور عربی مثل ہے: ’الوقتُ سیفٌ، إن لَمْ تَقْطَعْهُ قَطَعَك‘، یعنی وقت ایک تلوار ہے۔ اگر تم اُس کو نہ کاٹو تو وہ یقیناً تمھیں کاٹ دے گا۔ وقت کا کم تر استعمال ہمیشہ اُس کے برتر استعمال کی قیمت پر ہوتا ہے ،جو بے شعوری کا نتیجہ ہے ، اور اِس کا انجام محرومی کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایک مغربی مفکر نے وقت کی اِسی اہمیت کے متعلق بجا طورپر کہا تھاکہ ـــــ فارغ اوقات کا بہتر استعمال تہذیب کی آخری بلندی کی علامت ہے ،اور ابھی بہت کم لوگ تہذیب کی اِس بلندی تک پہنچ سکے ہیں!
وقت کے استعمال کا بہترین طریقہ اپنے نشانے اور اپنے طے شدہ پروگرام کے اعتبار سے، اپنی زندگی کی منصوبہ بندی ہے۔اِس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنی ترجیحات متعین کرکے اپنے وقت اور اپنی توانائی کومسلسل اُسی محاذ پر صرف کرے۔
یہی صحت (health)کا معاملہ ہے۔کسی آدمی کے پاس سب سے بڑی جو چیز ہوتی ہے، وہ وقت اور صحت ہے، مگر آدمی کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی بے شعوری کی بنا پر اِس معاملے میں سب سے زیادہ گھاٹے میں رہتا ہے۔وہ وقت اور صحت، دونوں کو برباد کردیتا ہے۔
صحت کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ہر اعتبار سے، سادگی اور اعتدال کو اختیار کرے۔اِس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی تعیش اور خواہش پرستی کے بجاے ضرورت پر قانع رہے؛ وہ اعلیٰ معیار زندگی (high standard of living) اور نمایشی طرز حیات (ostentatious living) کے پرفریب ’ نصب العین‘ سے اپنے آپ کو دور رکھے؛وہ ورزش، چہل قدمی، کھیل کود اورزیادہ سے زیادہ پیدل چلنے کو اپنی زندگی کا مستقل معمول بنائے؛ وہ سادہ اور صحت بخش کھانے کو ترجیح دے اور شکم سیری کی مہلک عادت کے بجاے کم خوری کی صحت بخش عادت کا طریقہ اختیار کرے۔
واضح ہو کہ ’اعلیٰ معیار زندگی‘کوئی سادہ چیز نہیں، وہ پورا ایک فلسفہ ٔ حیات ہے جو مغرب کے ملحدانہ تصور کائنات (western world view)پر مبنی ہے۔
’قد أفلح مَن أسلَمَ، ورُزِق کَفافًا، وقنَّعَهُ اللّٰهُ بما اٰتاہ‘ (مسلم، رقم ۱۰۵۴)، یعنی بلاشبہ، کامیاب وہی شخص ہے جس نے اللہ کی فرماں بردار ی کی ، اُس کو ضرورت بھر رزق ملا اورمزید کی فکر کرنے کے بجاے اُس نے اللہ کی طرف سے ملنے والی نعمتوں پر دل سے قناعت اختیار کی۔
دور جدید میں پیدا شدہ اِس ’فساد‘و ’تکاثر‘ سے متعلق تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیں:
1. A Dictionart of Economics and Commerce: J. L. Hanson. Published by Mackdonald & Evans Ltd, London-.1969
2. The Development Dictionary- A Guide to Knowledge as Power, by Wolfgang Sachs. Zed Books, London & Newyork-.2010
3. The Affluent Society, by J. K. Galbraith. A Mariner Book, New York-.1998
[یکم مارچ ۲۰۲۴ء]
ـــــــــــــــــــــــــ