HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

’’مولانا امین احسن اصلاحی کے بارے میں شدید غلط بیانی‘‘ کے جواب میں

 تنقید ایک نعمت ہے۔اس سے مسائل کے مخفی پہلواجاگر ہوتے، حقائق نکھر کر سامنے آتے،جس سے بہتر راے قائم کرنے میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ تعمیری تنقید میں کسی چیز کی خوبیوں اور خامیوں ،دونوں کو زیر بحث لایا جاتاہے،مگر مذہبی لوگ جب کسی بات پر تنقید کرتے ہیں تو انھیں اس کے اندر جو خامیاں دکھائی دیتی ہیں، وہ بالعموم ان تک ہی محدود رہتے، بلکہ بسااوقات بات کرنے والے کی ذات کو بھی اپنا ہدف بنا لیتے ہیں ۔

عقل عام کا تقاضا ہے کہ کسی کتاب پر تنقید کرنے سے قبل پہلے اسے پوراپڑھا جائے، خا ص طور پر اس کا دیباچہ،جس میں مصنف کتاب لکھنے کابنیادی مقصد واضح کرتاہے۔اس کے علاوہ قارئین کو پیشگی طور پر کچھ اہم امور سے آگاہ کرتاہے۔یہ سیاق وسباق کو نظر کرنا ہی ہے جس کے باعث ہمارے ہاں ایک قرآن کو ماننے کے باوجود اتنے فرقے بن گئے، جن کے باہمی’’ علمی‘‘ دنگل صدیوں سے جاری ہیں اور نتیجے کے طو رپر بے شمار لوگ مذہب اور مذہبی پیشواؤ ں سے بے زار ہورہے ہیں ۔ کاش !ناقد محترم صاحب زادہ ڈاکٹر انوار احمد بگوی نے راقم کی اس کتاب کا دیباچہ پڑھنے کی زحمت فرمائی ہوتی تو انھیں میری کتاب کے حوالے سے یہ تحریر لکھنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ دیباچے میں یہ لکھا گیا تھا کہ:

 ’’امین احسن کہاکرتے تھے کہ عام آدمی خلاصہ پسند ہوتاہے۔اسی لیے یہاں اختصار کو پیش نظر رکھا گیا ہے،اس پہلو سے یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ اس کتاب کی زبان آسان ترین اور بول چال کے قریب ترین ہو۔ اور پھریہ بے قراری بھی ہے کہ لوگوں کی امین احسن کی اصل شخصیت سے ناواقفیت کو ختم کرنے کا جلد از جلد کوئی اہتمام ہو، اس لیے فی الحال مختصر اورعمومی کتاب کو ترجیح دی ہے۔‘‘

راقم نے’’حیات امین احسن‘‘ ۱۸ برس میں نہیں، بلکہ ۸ ماہ میں لکھی تھی۔ ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے حوالے سے جو بحثیں بگوی صاحب کی تنقیدی تحریر میں کی گئی ہیں ، میر ی ان کے اندر دل چسپی نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے۔ اسی لیے اس کتاب کو مرتب کرتے وقت انھیں موضوع نہیں بنایا گیا تھا۔ دیباچہ واضح ہے کہ میرے پیش نظر مولانا کے کام اور شخصیت کابنیاد ی اور مختصر تعارف جلد از جلد کرانا مقصود تھا۔ میرا مخاطب عام آدمی تھا اوربقول مولانا امین احسن ’’عام آدمی خلاصہ پسند ہوتاہے۔‘‘اور میرا ذاتی مشاہد ہ ہے کہ عام آدمی علما کے اس نوعیت کے جھگڑوں سے بہت پریشان ہوجاتاہے۔وہ دین کے علم برداروں سے ایسے رویوں کی توقع نہیں رکھتا۔بہرحال راقم تو چونکہ ’’مسٹر ‘‘ قسم کا آدمی ہے، اس لیے بہتر ہے کوئی مذہبی متقی پرہیزگار عالم فاضل ہستی ایسی بحثوں کے بارے میں تحقیق کرے اور اپنی راے پیش کر ے۔

یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ڈاکٹر شرف الدین کے نقل کیے گئے جس اقتباس پر بگوی صاحب نے تنقید کی بنیاد رکھی ہے،وہ ’’حیات امین احسن‘‘ میں ’’فراہی کی تقلید ‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت درج کیا گیا تھا۔اور ڈاکٹر شر ف الدین کا اقتباس نقل کرنے سے قبل یہ بھی لکھا گیا تھا:’’اور جب امین احسن نے تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ مکمل کر کے اس امانت کا حق اداکیاتو ان کے جذبات کاعالم کیاتھا؟ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی لکھتے ہیں :‘‘یعنی یہاں اصل موضوعات ’’فراہی کی تقلید‘‘ اور’’تدبر قرآن‘‘ کی تکمیل پر مولانا امین احسن اصلاحی کے جذبات کا بیان ہے۔چنانچہ اس اقتباس میں ضمنی یا جزوی طور پر جو کچھ دوسری باتیں بیان ہوئی ہیں، ان کی حیثیت میرے نزدیک ثانوی ہے۔

بگوی صاحب نے مزید لکھا ہے کہ ’’مرتب نے مولانا امین احسن اصلاحی کے حالات زندگی کے بارے میں ابھی تک صرف مختلف ذرائع سے لیے اقتباسات پر اتقاق کیا ہے اورجہاں کسی امر کی وضاحت یاغلط بات کی تردید کی ضرورت تھی، ا س کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔اس سے بظاہر گمان ہوتاہے کہ کتاب کا مرتب ان الزامات سے متفق ہے۔‘‘

حیرت ہوتی ہے بگوی صاحب،’’ تدبر قرآن‘‘ کے مفسر کے ساتھ اپنا تعلق بھی ظاہر کر رہے ہیں اور بدگمانی بھی کر رہے ہیں ۔وہ تو اس معاملے میں بہت حساس تھے۔ راقم نے ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی کا یہ اقتباس دیباچے ہی میں نقل کر دیا تھا کہ ’’ یہ کتاب موجودہ حالت میں خامیوں سے بھری ہوئی ہے۔‘‘ لہٰذا ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی کی کتاب سے جہاں جہاں بھی اقتباسات نقل کیے گئے، دیباچے میں اصولی طورپر ان میں غلطی کا امکان تسلیم کر لیا گیاتھا۔اور اس حقیقت سے بھی کو ن انکار کر سکتاہے کہ قرآن مجید کے سوا کوئی کتاب اور انبیاے کرام کے سواکوئی انسان غلطیوں سے پاک نہیں ہے۔اقتباس کو نقل کرتے وقت میرے ذہن میں یہی بات تھی کہ امام فراہی نے اپنے فکرکا ’’امین‘‘ مولاناامین احسن کو قرار دیا تھا، اس لیے ان کے مسودات کے اصل مالک مولانا امین احسن ہی قرار پاتے ہیں ۔ اگرانھوں نے کچھ مسودات استفادے کے لیے اپنے پاس رکھ لیے تویہ ان کاحق بھی ہے اور فرض بھی۔بگوی صاحب ڈاکٹر شرف الدین کی کتاب سے اس ضمن میں مزید حوالے دے کراپنی بات کو میرے درج کیے گئے اقتباس کے دائرے سے باہر لے آئے ہیں، جس پر اب ڈاکٹر شرف الدین کے حلقے کی جانب سے وضاحت آنی چاہیے، کیونکہ انھی لوگوں کے پاس ان معاملات کی براہ راست معلومات ہوں گی۔

راقم نے کسی بھی شخصیت پر یہ پہلی کتاب مرتب کی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مولانا اور ا ن کے کام سے بہت متاثر ہے۔اس لیے مولانا امین احسن اور ڈاکٹرشرف الدین کے مابین جب بھی کوئی اختلاف ہوگا تو اس کا فطر ی جھکاؤ مولانا امین احسن کی طرف ہوگا،مگر اس کے باوجود وہ اپنی راے دلیل کی بنیاد پر قائم کرے گا،لیکن بگوی صاحب نے اسی موقع پر ہی اسے مولانا امین احسن کے برخلاف نقطۂ نظر کا حامی قرار دے ڈالا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسی باتوں پر اب حیرت نہیں ہوتی،اس لیے کہ ایسی باتیں ہماری مذہبی دنیا میں معمول بن چکی ہیں، مگر پھر بھی انھیں زیر بحث لانا ضروری ہے، ا س لیے کہ دین اصل میں ایمان و اخلا ق کانام ہے۔اس وقت مسلمانوں، بلکہ دنیا کے تمام تر مسائل کی بنیادی وجہ اخلاق سے دوری ہی ہے۔الاستاذ جاوید احمد صاحب غامدی اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں ’’اخلاقیات‘‘ کے زیرعنوان لکھتے ہیں :

’’ایمان کے بعد دین کا اہم ترین مطالبہ تزکیۂ اخلاق ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ انسان خلق اور خالق، دونوں سے متعلق اپنے عمل کو پاکیزہ بنائے۔ یہی وہ چیز ہے جسے ’عمل صالح‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تمام شریعت اِسی کی فرع ہے۔ تمدن کی تبدیلی کے ساتھ شریعت تو بے شک، تبدیل بھی ہوئی ہے، لیکن ایمان اور عمل صالح اصل دین ہیں ، اِن میں کوئی ترمیم وتغیر کبھی نہیں ہوا۔ قرآن اِس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ جو شخص اِن دونوں کے ساتھ اللہ کے حضور میں آئے گا، اُس کے لیے جنت ہے اور وہ اُس میں ہمیشہ رہے گا۔ ‘‘(۲۰۱)

چنانچہ ضروری محسوس ہوتاہے کہ بدگمانی کے حوالے سے کچھ یا ددہانی حاصل کر لی جائے،اس لیے کہ انسان کا یہ مسئلہ ہے کہ وہ ما نی ہوئی باتیں بھی بھول جاتاہے۔ قرآن مجید بھی اسی پہلو سے اپنے آپ کو Reminder کہتاہے۔ اصل دین اس قدر اہم ہے کہ کسی نہ کسی بہانے سے اس کی تذکیر کرتے رہنا چاہیے۔ فرع سے اصل کی جانب سفر کرتے رہنا چاہیے۔بصورت دیگر دین صرفی، نحوی، فنی،فقہی،تاریخی اورشخصی بحثوں کامیدان بن کر رہ جائے گا۔

سورۂ حجرات میں ہے:

’’اے ایمان والو، بہت سے گمانوں سے بچو، کیونکہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں ۔‘‘(۴۹: ۱۲)

مولانا امین احسن اصلاحی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں : 

’’ ایسی باتوں سے روکا گیا ہے جو بظاہر تو معمولی نظر آتی ہیں لیکن یہ انسان کے خود اپنے دل کو ایسے روگ میں مبتلا کر دیتی ہیں کہ وہ تقویٰ کی روئیدگی کے لیے بالکل ناسازگار ہو جاتا ہے۔… بدگمانی: پہلی بات یہ اشارہ ہوئی کہ انسان اپنے دل کو دوسروں سے متعلق بدگمانیوں کی پرورش گاہ نہ بنا لے کہ جس کی نسبت جو برا گمان بھی دل میں پیدا ہو جائے اس کو کسی گوشے میں محفوظ کر لے۔ انسان کو جن سے زندگی میں واسطہ پڑتا ہے ان کی بابت کوئی اچھا یا برا گمان دل میں پیدا ہونا ایک امر فطری ہے۔ یہی گمان آدمی کو آدمی سے جوڑتا یا توڑتا ہے۔ اس پہلو سے معاشرے میں یہ وصل و فصل کی بنیاد ہے۔ … اہل ایمان کو اسلام نے اس باب میں یہ رہنمائی دی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے بارے میں ہمیشہ نیک گمان رکھے اِلّاآنکہ یہ ثابت ہو جائے کہ وہ اس نیک گمان کا سزاوار نہیں ہے۔ یہ نیک گمانی اس ایمانی اخوت کا لازمی تقاضا ہے جس پر اسلام نے معاشرے کی بنیاد رکھی ہے...۔ اگر کوئی شخص اس کے برعکس یہ اصول ٹھیرا لے کہ جو رطب و یابس گمان اس کے دل میں پیدا ہوتے جائیں ان سب کو سینت کے رکھتا جائے تو گمانوں کے ایسے شوقین کی مثال اس شکاری کی ہے جو مچھلیاں پکڑنے کے شوق میں ایسا اندھا ہو جائے کہ مچھلیاں پکڑتے پکڑتے سانپ بھی پکڑ لے۔ ‘‘(تدبر قرآن۷/ ۵۰۸ - ۵۰۹)

بگوی صاحب نے اعتراض فرمایا ہے کہ :

’’ایک صاحب مولانا امین احسن اصلاحی ؒ کی زندگی کے حالات قلم بند کر رہے ہیں ۔ان کی زیر ترتیب کتاب کانام ’’حیات امین احسن ‘‘ ہے۔اصولی طور پر عنوان میں پورا نام آنا چاہیے، ادھورا نام نامناسب ہے۔ اس سلسلے میں ماہنامہ ’’اشراق ‘‘ میں مسٹر محمد بلال کا ایک سلسلۂ مضامین جاری ہے جس کی ایک قسط(نومبر ۲۰۲۳ء ) ہمارے سامنے ہے۔ ‘‘

اس ضمن میں پہلے تو اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ کتاب ۲۰۱۶ء میں مکمل ہوگئی تھی۔ ۲۰۲۳ ء  میں انٹرنیٹ پر اس کا e-book version شائع ہوا۔اسی کتاب کو ’’اشراق ‘‘ اقساط میں شائع کر رہاہے۔ صنف کے اعتبار سے یہ سوانح عمری ہے،مضمون نہیں ۔ کتاب میں اس کا نام کچھ اندا ز سے لکھا گیا ہے:

حیاتِ امین احسن

(سوانح عمری مولانا امین احسن اصلاحی)

اس ضمن میں عرض ہے کہ کتاب کا نام رکھنا مصنف کے ادبی ذوق پر منحصر ہے،ادب کے دونوں مطالب کی رو سے کسی کے ذوقی معاملے پر نکتہ چینی کو مناسب نہیں سمجھا جاتا۔علامہ اقبال نے ’’بانگ درا‘‘ میں بابا گورونانک پر نظم لکھی تو اس کا عنوان صرف ’’نانک‘‘ قائم کیا۔اسی نظم میں گوتم بدھ کا ذکر بھی کیا تو صرف ’’گوتم‘‘ کہہ کر کیا۔ علامہ شبلی نعمانی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر کتاب لکھی تو نام ’’الفاروق‘‘ رکھا، اور ’’المامون‘‘ کے نام سے مامون الرشید عباسی کی سوانح لکھی۔مالک رام نے ابوالکلام آزاد کے خطبات کو ’’خطبات آزاد‘‘ کے نام سے مرتب کیا۔ادب نثری ہویا شعری،اس میں مانوس اورمختصر الفاظ استعما ل کیے جاتے ہیں ۔ تفصیل سے گریز اور اشاراتی اندازکو اختیار کیا جاتاہے۔ ادب میں اختصار کو فصاحت کی روح سمجھا جاتاہے۔اور جو موسیقیت (Rhythm) اور روانی ’’حیاتِ امین احسن‘‘ میں ہے، وہ’’ حیاتِ مولانا امین احسن اصلاحی‘‘ میں نہیں ہے۔

اس موقع پر ایک اور تشویش نا ک بات کرنا ضروری محسوس ہوتی ہے، اس لیے کہ یہ مسئلہ ایمان کے بعد دین کے اہم ترین مطالبہ تزکیۂ اخلاق کے بارے ہی میں ہے۔ مذہبی لٹریچر اور سوشل میڈیا کو دیکھاجائے تو یہ محسوس ہوتاہے کہ بہت سے مذہبی لوگ نیکی، علم اورمعلومات کے تکبر میں مبتلا ہیں ۔ وہ جانے انجانے میں ان معاملات میں خود کو برتر اوردوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں، بلکہ حقیر قرار دیتے بھی ہیں ۔وہ دوسروں کوجاہل، کم علم یا مسٹر وغیرہ کہہ کر اپنے آپ کو بلندیا خاص مقدس مقام پر فائز کرتے ہیں ۔یہاں مولانا امین احسن کی کتاب ’’تزکیۂ نفس ‘‘ یاد آتی ہے۔وہ ’’تکبر‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت لکھتے ہیں اوریہ وہ باتیں ہیں جو مولانا کے حوالے سے باربار عام کرنے کی ضرورت ہے:

’’علم ومعرفت کی راہ میں دوسرا بڑا حجاب تکبر ہے۔تکبر کی تعریف خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال کے جواب میں نہایت واضح طور پر فرما دی ... کہ جس کے دل کے اندر ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں داخل ہوگا۔ایک شخص نے سوال کیا کہ آدمی اس بات کو پسند کرتاہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں، اس کاجوتااچھا ہو،تو کیا یہ بھی تکبر ہے؟آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ خود صاحبِ جمال ہے اور جمال پسند فرماتا ہے۔تکبر یہ ہے کہ آدمی حق کا انکار کر ے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ تکبر کی اصل حقیقت حق کا انکار اور دوسروں کو حقیر سمجھنا ہے۔بعض لوگ اپنے آپ کو اتنی بڑی چیزسمجھنے لگ جاتے ہیں کہ ان کے لیے یہ باور کرنا نہایت مشکل ہوجاتاہے کہ جس بات کو وہ جانتے اور مانتے ہیں حق اس کے سواکچھ اور بھی ہو سکتا ہے اور ان کے یا ا ن کے زمرہ کے سوا کوئی اور شخص بھی کسی احترام یا اعتراف کا مستحق ہو سکتاہے۔ان کو جو عزت و نعمت حاصل ہوتی ہے اس کو وہ اللہ کا فضل سمجھنے اور اس کے شکر گزار ہونے کے بجائے اس کو یا تو اپنا پیدائشی اور خاندانی حق سمجھ بیٹھتے ہیں یا اس کو اپنی کوشش اور قابلیت کاثمرہ خیال کر تے ہیں اور پھر اس پر اتراتے اورفخر کرتے ہیں ۔...قرآن مجید میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ سب سے پہلے خدا کی نافرمانی شیطان نے کی اور اس کی نافرمانی کی تہہ میں یہی تکبر کا جذبہ کارفرما تھا۔ ...اس تکبر کے ساتھ حسد اور غصہ کا پایا جانا بھی لازمی ہے۔‘‘( ۱۲۹-   ۱۳۱)

اسی طرح ڈاکٹر شرف الدین کے حوالے سے بگوی صاحب ’’خبث باطن‘‘…’’دل کی بیماری‘‘…’’سیلانی الطبع‘‘ …’’غیر مستقل مزاج‘‘…’’بے خانماں زندگی گزاری‘‘… جیسے الفاظ اگر استعمال نہ کرتے تو اچھا تھا۔ تنقید کرنے والے کے پاس دلائل مضبوط ہوں تو اسے ان دلائل تک محدود رہتے ہوئے پُر اعتماد رہنا چاہیے۔یہ دلائل اس کے موقف کو اگر وہ درست ہے تو منوانے کے لیے کافی ہوتے ہیں ۔اور اگر دوسرے کاموقف کم زور ہوتواسے وقت کی گزران خود ہی ختم کر دیتی ہے۔مولاناوحید الدین خاں ’’آسان حل ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں :

’’جھوٹی مخالفتوں کاسب سے زیادہ آسان اور کارگر جواب یہ ہے کہ اس کا کوئی جواب نہ دیا جائے۔جھوٹی مخالفت ہمیشہ بے بنیاد ہوتی ہے۔اس کے لیے مقدر ہوتاہے کہ اپنے آپ ڈھے پڑے۔ایسی مخالفت کا جواب دیناگویا اس کی مدت ِ عمر میں اضافہ کرنا ہے۔اگر آدمی صبر کر لے تو بے جڑ درخت کی طرح ایک روز وہ اپنے آپ گر پڑے گی۔وہ کبھی دیر تک خدا کی زمین پرقائم نہیں رہ سکتی۔
جھوٹ کا سب سے بڑا قاتل وقت ہے۔آپ آنے والے وقت کا انتظار کیجئے۔اور اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ وقت نے اس فتنہ کو زیادہ کامل طورپر ہلاک کردیا ہے جس کوآپ صرف ناقص طور پر ہلاک کرنے کی تدبیر کر رہے تھے۔‘‘(کتاب زندگی ۱۴۷)

ایک مقام پر بگوی صاحب نے ’’المورد‘‘ کو تنظیم قرار دیا ہے،حالاں کہ ’’المورد‘‘ پہلے دن سے ایک ادارہ ہے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کے اصل معاملات کی طرف متوجہ رکھے، بدگمانی وتکبر کے ذرے سے بھی بچائے اور مخالفانہ صورت حال میں صبر کے ذریعے سے اللہ کی مدد حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 

B