صاحب زادہ ڈاکٹر انوار احمد بگوی
[ماہنامہ ’’اشراق‘‘ میں محمد بلال صاحب کا مضمون ’’حیات امین احسن‘‘ کے نام سے قسط وار شائع ہورہا ہے۔ اس مضمون پر صاحب زادہ ڈاکٹر انوار احمد بگوی صاحب نے زیر نظر مضمون میں نقد کیا ہے۔ ان صفحات میں بگوی صاحب کا مضمون اور اس نقد پر بلال صاحب کا جواب قارئین کے استفادے کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)]
ایک صاحب مولا نا امین احسن اصلاحی کی زندگی کے حالات قلم بند کر رہے ہیں ۔ ان کی زیر ترتیب کتاب کا نام ’’حیات امین احسن ‘‘ ہے۔ اصولی طور پر عنوان میں مولا نا کا پورا نام آنا چاہیے، ادھورا نام نا مناسب ہے۔ اس سلسلے میں ماہنامہ ’’اشراق‘‘ لاہور میں مسٹرمحمد بلال کا ایک سلسلۂ مضامین جاری ہے، جس کی ایک قسط (نومبر ۲۰۲۳ء ) ہمارے سامنے ہے۔ مرتب نے مولانا امین احسن اصلاحی (۱۹۰۴ء - ۱۹۹۷ء) کے حالات زندگی کے بارے میں ابھی تک صرف مختلف ذرائع سے لیے ہوئے اقتباسات پر اتفاق کیا ہے اور جہاں کسی امر کی وضاحت یا غلط بات کی تردید کی ضرورت تھی، اس کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ اس سے بظاہر یہ گمان ہوتا ہے کہ کتاب کا مرتب ان الزامات سے متفق ہے جو کسی دوسرے مبصر یا مرتب نے مولانا اصلاحی کے بارے میں لکھ دیے ہیں یا مرتب اپنی کم علمی کے باعث ان الزامات کی کاٹ اور ان کے منفی اثرات سے بے خبر ہے۔
ماہنامہ ’’اشراق‘‘ لاہور مشہور اسکالر جاوید احمد غامدی صاحب کا سرکاری ترجمان رسالہ ہے، جس کوان کی تنظیم ’’المورد ‘‘ شائع کرتی ہے۔ اس میں غامدی صاحب کی تفسیر ’’البیان‘‘ اور ان کے شاگردوں اور خوشہ چینوں کی تخلیقات اور نگارشات شائع کی جاتی ہیں، گو بعض تحریروں سے ادار ہ متعلق ہونے کی حامی نہیں بھرتا ۔
کسی بھی شخصیت پر لکھتے ہوئے پہلے اس کے بارے میں دستیاب تمام لٹریچر دیکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ ان تحریروں میں عام طور پر ظاہر ہے۔ شخصیت کے حسن و قبح یا اس کی اچھائی برائی کا ضرور ذکر کیا جاتا ہے۔ اچھی بات کی تحسین کے ساتھ اس خوشگوار پہلو کو مزید مدلل کیا جاتا ہے اور کسی اعتراض یا تنقیص پر تنقید اور مخالفت کے لیے دلائل فراہم کیے جاتے ہیں، مگر جہاں باتیں سرے سے حقائق کے منافی ہوں یا غلط مفروضات اور بے بنیاد خیالات کو الزامات کا بہروپ دیا جائے ، وہاں ان کا ابطال بہت ضروری ہوتا ہے۔ بصورت دیگر وہ غلط مفروضہ یا بے بنیاد الزام Repeat ہوکر مستقل عنوان قرار پاتا ہے، خاص طور پر جب ایک مخالف کو کسی دوسرے کی عیب جوئی مطلوب ہو۔
مضمون کے صفحہ نمبر ۳۹ پر محمد بلال صاحب نے ایک کتاب کا اقتباس شائع کیا ہے۔ ’’ذکر فراہی‘‘ کے نام سے اس کتاب میں تحقیق کی آڑ میں یہ الزام مدرسۃ الاصلاح اعظم گڑھ ہی کے ایک فارغ التحصیل طالب علم اور شاگرد شرف الدین اصلاحی نے عائد کیا تھا، جو ’’ ذکر فراہی‘‘ کے مرتب ومؤلف ہیں۔ اس کتاب کے صفحات ۸۴۰ ہیں اور اس کو سن ۲۰۰۱ء میں دائرۂ حمیدیہ مدرستہ الاصلاح سرائے اعظم گڑھ ہندوستان نے شائع کیا تھا۔[1]؎ ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی[2]؎ بنیادی طور پر کچھ صحافی تھے اور کچھ محقق ۔ بظاہر دونوں شعبوں کے ساتھ ان کا اتنا گہرا تعلق نہیں ہے، مگر اس کتاب میں ان کی سنسنی خیزی اور اجنبی انکشافات بطور صحافی زیادہ نمایاں ہیں! جس نے بھی شرف الدین صاحب کا تذکرہ دیکھا ہے تو وہ یہ بات بخوبی سمجھ جاتا ہے کہ ان کے دل میں مولانا اصلاحی کے بارے میں گہرا بغض بیٹھا ہوا ہے۔ چنانچہ انھوں نے ایک مفروضہ قائم کیا ہوا ہے جس کے تحت انھوں نے مولانا اصلاحی کے علمی اور تفسیری کام کو ہیٹا اور دو نمبر قرار دینا ہے۔ چنانچہ ان کا جھکاؤ برابر اس بات کی طرف رہتا ہے کہ وہ مولانا اصلاحی کی خدمات کو کم تر دکھا ئیں۔ وہ قارئین کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ’’ تدبر قرآن ‘‘ اور دیگر علمی خدمات میں مولانا اصلاحی کا حصہ بس ایک نقال اور رپورٹر جیسا ہے۔ مولانا نے اپنی محنت سے اور اپنی فکر سے اپنے استاذ کے علمی کارناموں میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا، البتہ اتنے شان دار علمی کام کا کریڈٹ اکیلے خود لے لیا ہے۔ مزید یہ کہ ہندوستان میں دائرۂ حمید یہ مولانا اصلاحی کے واپس نہ جانے کی وجہ سے پنپ نہ سکا۔ وہاں کے لوگ مولانا فراہی پر کچھ قابل ذکر کام نہ کر سکے تو یہ بھی مولانا اصلاحی کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا اصلاحی نے اپنی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ میں مولانا فراہی کے مرتبے، ان کے اعلیٰ نظریات اور ان کی شان دار خدمات کا اعتراف جس اعلیٰ ظرفی سے کیا اور بار بار اپنے استاذ کو خراج تحسین پیش کیا ہے، وہ اصل کام کی بات تھی اور یہ اعتراف کتاب کے دیباچے سے لے کر تفسیر ’’ تدبر قرآن‘‘ کی مختلف سورتوں کی تشریح میں جگہ جگہ بڑے واشگاف اور شان دار الفاظ میں ملتا ہے۔ مولانا اصلاحی تکرار اور اصرار سے اپنے استاذ مولانا فراہی کی عظمت اور ان کے علم، تقویٰ اور فراست و حکمت کو خراج عقیدت پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے مولانا فراہی کے حالات زندگی میں جس عقیدت، محبت اور ہیر و در شپ کا اظہار کیا ہے وہ کمال اعتراف و تحسین ہے!
ڈاکٹر شریف الدین اپنے خبث باطن اور دل کی بیماری کو ایک اور لبادے میں پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مولانا فراہی کے زیر مطالعہ قرآن مجید کے نسخے جن پر مولانا فراہی کے ہاتھ سے لکھے ہوئے حاشیے اور نوٹس موجود ہیں، وہ مولانا اصلاحی کے پاس تھے اور وہ مدرستہ الاصلاح کی ملکیت تھے۔ ایک طرف ڈاکٹر شرف الدین یہ فرماتے ہیں کہ مولا نا فراہی کے سارے مسودات واپس چلے گئے تھے، مگر مولا نافراہی کے حاشیے والے دونوں قرآن واپس کرنے سے مولانا اصلاحی نے انکار کر دیا۔ بدلحاظی اور بد نیتی کی اسی رو میں ڈاکٹر اصلاحی مزید شک کرتے ہیں کہ بقول بدرالدین اصلاحی مرحوم، کچھ عربی مسودات بھی واپس نہیں کیے گئے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر شرف الدین نے مزید زبانی کلامی الزامات لکھے ہیں اور مولانا اصلاحی کے کام کی قدر و قیمت کو گھٹانے کی شعوری کوشش کی اور ان کی اعلیٰ شخصیت پر گرد اڑانے کی کوشش کی ہے۔ جیسے ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی کے الفاظ الہامی ہوں اور انھیں کسی سند یا ثبوت کی ضرورت نہ ہو۔ اتنی بڑی شخصیت کے خلاف بے پر کی بات کہنے کے لیے شاید شرف الدین صاحب کے پاس بڑا منہ ہوگا، لیکن کوئی دلیل، کوئی ثبوت، کوئی گواہ، کسی خط کا اشارہ کچھ ذکر نہیں کیا ۔ جو من میں آیا اسے بے دھڑک اگل دیا۔
یہاں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ پاکستان میں حال ہی میں چند نادان دوستوں نے مولا نا فراہی کے حواشی قرآن کو کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔[3]؎ اس پر میں نے ایک تبصرہ تحریر کیا ہے، جو جریدہ ’’شمس الاسلام‘‘ بھیرہ میں شائع ہو چکا ہے ۔ ڈاکٹر عبید اللہ فراہی کی اس کاوش میں اہل علم کے لیے کوئی رہنمائی یا کسی دل چسپی کا سامان موجود نہیں ہے، بلکہ ان نوٹس کو شائع کرکے نادان دوستوں نے فکر فراہی کے گرد مزید دھول اڑائی ہے۔ وہ فکر پہلے بھی گنے چنے لوگوں کی دل چسپی کا مرکز تھا، نامکمل اور تشنہ نوٹس، بلکہ غیر مربوط اشارے ان کے افکار کو مزید گنجلگ اور لاینحل بنادیں گے؟
یہ نوٹس تو کسی عربی دان عالم فاضل کی سمجھ سے بھی باہر ہیں، چہ جائیکہ ان سے کوئی طالب علم استفادہ کرسکے۔
خدا معلوم ڈاکٹر شرف الدین کن حواشی کا ماتم کر رہے ہیں جن کو وہ خود بھی نہ پڑھ سکیں اور نہ سمجھ سکیں۔
اگر قرآن پر حواشی واپس نہیں گئے تو ڈاکٹر عبید اللہ فراہی نے کہاں سے حاصل کیے اور پھر ہندوستان سے شائع کردیے؟
ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی ’’ذکر فراہی‘‘ میں ایک اور درفتنی نکالتے ہیں کہ مولانا اصلاحی نے مولا نا فراہی کے مطبوعہ اجزاے تفسیر (عربی) کو اردو میں ترجمہ کیا تو کہیں کہیں ترجمے میں کمی بیشی کر دی۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا اصلاحی نے بہت پہلے اس بات کی خود وضاحت کر دی تھی کہ ترجمے میں ان کے حک وترمیم سے کوئی ترمیم مقصود نہ تھی، بلکہ اس کی مدد سے عبارت کے اصل مقصد کومزید واضح کرنا تھا جو مولانا کے نزدیک بالکل ناتمام یادداشتوں کی شکل میں تھے اور ان کو کھولنا یا سمجھنا بہت دشوار تھا۔
ایک انتہائی فاضل اور مزاج شناس شاگرد اگر توضیح کے لیے ایسا کرتا ہے اور پھر اس کی وضاحت بھی کرتا ہے تو اس میں غلط بات کیا ہے؟
ایک اور درفتنی میں ڈاکٹر شرف الدین ۵۰ ہزار روپے کے ایک خطیر عطیے کا ذکر کرتے ہیں، جو مولا نا فراہی کے ایک عقیدت مند ڈاکٹر حفیظ اللہ نے دائرۂ حمیدیہ کے لیے مولانا اصلاحی کے نام بصورت چیک دیے تھے تاکہ مولانا فراہی کے نامکمل کاموں اور علمی مسودوں کوشائع کیا جائے۔ یہ بات مولانا اصلاحی سے تب کہی جارہی ہے جب وہ اقامت دین کے لیے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پٹھان کوٹ میں جماعت اسلامی کی تعمیر میں مصروف تھے ۔ یہاں شرف الدین صاحب پھر اپنی فطری نیش زنی سے باز نہیں آئے اور کلیم کیا کہ ان کے ہم نوالہ، بلکہ ہم نوا بدرالدین اصلاحی صاحب نے مولانا اصلاحی کو جب مولا نا فراہی کے مسودات کی اشاعت کی جانب توجہ دلائی تو مولانا اصلاحی نے جواب دیا:
’’مولانا فراہی کے مسودات کی اشاعت کا کوئی فائدہ نہ ہوگا کہ ان کو سمجھے گا کون[4]؎ ( ایک تو عربی اور وہ بھی مولا نا فراہی کے اشارے ) بہتر ہوگا کہ ان کے افکار کوسامنے رکھ کر اردو میں نئے سرے سے ایک تفسیر لکھی جائے۔[5]؎‘‘
اس کے بعد بقول ڈاکٹر شرف الدین ، بدر الدین صاحب اس جواب پر حد درجہ افسردہ اور مایوس ہوئے، گویا ’’فاضل محقق ‘‘ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ مولانا اصلاحی کواپنی نام وری اور شہرت زیادہ عزیز تھی، ان کے لیے مولانا فراہی کا نام، پہچان اور قدرومنزلت ثانوی تھا۔ ثبوت کے لیے شرف الدین صاحب کو پھر خط نہ مل سکا!
مولانا اصلاحی کی ہدایات کی روشنی میں ان کے شاگرد رشید جناب خالد مسعود مرحوم نے مولا نا فراہی کے متعدد مسودات کو اردو میں ترجمہ کیا اور افادۂ عام کے لیے سہ ماہی ’’تدبر‘‘لاہور میں باقاعدگی سے شائع کرتے رہے۔ پاکستان میں یہ مقصد مولانا اصلاحی کی زیر نگرانی بہت احسن طریقے سے سرانجام پاتا رہا۔ ترجمہ شد ہ مقالات کتابی شکل میں دستیاب ہیں۔
ایک اور جگہ شریف الدین صاحب جماعت اسلامی کے حلقوں میں نظم وربط آیات کی تفہیم کے حوالے سے اپنی پخ لگاتے ہیں:
’’اعیان وا کابر یہ کہتے کہ اصلاحی صاحب نظم کی جو باتیں کرتے ہیں وہ زیادہ ترکھینچا تانی ہوتی ہے ( اور اہل ) ان کے مخاطب اپنی دینی اور عملی سطح کے لحاظ سے اس کے اہل نہیں تھے۔‘‘
ڈاکٹر شرف الدین کے خبث باطن کی آگ ان بے بنیاد الزامات سے ٹھنڈی نہیں ہو پائی اور وہ آگے بڑھے اور مولانا اصلاحی سے لاہور میں ان کے ساتھ ملاقات میں کہیں ’’دائرۂ حمیدیہ‘‘ ہندوستان کی علمی وراثت کا ذکر کیا جب بدرالدین اصلاحی وفات پا چکے تھے۔ گویا ہندوستان میں واقع مدرسۃ الاصلاح اور دائرۂ حمیدیہ کے حالات سے بے خبر اور لاتعلق ہونے کے باوجود مولانا اصلاحی پاکستان سے از خود مداخلت کریں اور وہاں کے حالات میں فیصلے صادر کریں۔ چنانچہ اس تجویز کے جواب میں اور اپنی علمی وراثت کے لیے مولانا اصلاحی نے اس موقع پر اپنے شاگرد رشید خالد مسعود کا نام لیا۔ اس کا صاف مطلب تھا کہ فکر فراہی و اصلاحی کے لیے برصغیر پاک وہند میں ان کے وارث خالد مسعود ہو ں گے ۔ اس مسکت جواب کے بعد ڈاکٹر شرف الدین صاحب ذرا ٹھٹکے، مگر رکے نہیں۔
اب اضافہ شک و الزام کے لیے ڈاکٹر شرف الدین کی توجہ کسی بکس کی جانب مبذول ہوتی ہے جو بقول ان کے ابھی تک مولانا اصلاحی کے کمرے میں ہے ۔ لاہور ڈیفنس میں جب مولانا حیات تھے، مگر شدید بیمار تھے۔ شرف الدین صاحب مولانا کی شدید علالت کی حالت میں پھر دو نسخوں کا ذکر کرتے ہیں، جس کے بارے میں مولانا اصلاحی کے عزیز ترین ، قریب ترین اور قابل ترین شاگرد خالد مسعود صاحب بھی لاعلم تھے۔ ڈاکٹر شرف الدین کے بقول مولانا اصلاحی کے داماد انجینئر نعمان علی مرحوم نے بتایا کہ وہ نسخے محفوظ ہیں اور وہ بکس مولانا اصلاحی کے کمرے میں ان کی چار پائی کے نیچے دھرا ہے!
اول تو نعمان علی مرحوم کوئی علمی شخصیت نہ تھے اور نہ ہی عربی لکھ پڑھ سکتے تھے۔ دوسرے وہ اتنے غیر ذمہ دار بھی نہ تھے کہ مسودات کو جستی ٹرنک میں ڈال کر چار پائی کے نیچے رکھ دیتے! جیسے یہ کوئی خزانہ ہو اور اس کی حفاظت اس پر بیٹھ کر کی جا سکتی ہے!
حیرت ہے کہ قرآن کا طالب علم قرآن کے نسخوں پر اپنے استاد کے حواشی کو ایک صندوق میں ڈال کر شدید علالت میں بھی اپنی چار پائی کے نیچے رکھتا ہے اور کسی کو بھی ان نسخوں کی اہمیت اور برکت کا اتا پتا نہیں ہے، جب کہ مولانا خود شدید ڈیمنشیا میں مبتلا تھے۔
اگر واقعی ایسا ہے تو پھر ہندوستان سے مولا نا فراہی کے پوتے ڈاکٹر عبید اللہ فراہی نے نسخہ ہاے قرآن پر حواشی سے ایک کتاب کیسے مرتب کی اور پھر اسے شائع کر لیا ؟
ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی اس قبیل کے محقق تھے جو ایک منفی سوچ اور ایک طے شدہ مخالف بیانیے کے ساتھ ہندوستان پاکستان میں لوگوں سے ملتے رہے۔ ان سے اپنے مطلب کی بات کہلواتے اور بلاسند و ثبوت آگے اپنی غرض کے لیے Quote کرتے رہے۔ کرید کرید کر اختلافی ایشوز ڈھونڈتے رہے، بے پر کی اڑانے کے لیے ہوائی تیر چلاتے رہے۔ مفروضہ فائلیں اور جگہ جگہ کا غذات کھنگالتے رہے۔ ان کا واحد مقصد عیب جوئی تھا، وہ مولانا احسن اختر اصلاحی کی معصومیت، حق تلفی اور ثانوی حیثیت تھی یا مولانا امین احسن اصلاحی کی تنک مزاجی، علمی وجاہت اور خودستایش کا بہانہ ،مگر خوش قسمتی سے انھیں کوئی ایسی بات ملی یا سند حاصل نہ ہو سکی جس سے وہ مولانا اصلاحی پر کسی علمی بددیانتی یا اپنے استاذ کے ساتھ بد عہدی یا کسی پرانے رفیق کے ساتھ زیادتی کا ثبوت دے سکتے۔ ڈاکٹر شرف الدین کے تمام تر مفروضے بے بنیاد ادر سب اتہامات غلط ثابت ہوئے ۔ اتفاق سے انھوں نے جو سب سے صحیح بات لکھی، وہ مولانا اصلاحی کے الفاظ میں یہ ہے:
’’مولانا فراہی ایک سر مخفی تھے، میں نے انہیں آشکار کیا ... میں نے ایک دھیلا خرچ کیے بغیر وہ کام کر دیا جس کے لیے ڈاکٹر حفیظ اللہ نے پچاس ہزار کا عطیہ دیا تھا۔ اب انھیں مجھ سے یہ شکایت نہیں ہو سکتی کہ میں نے کچھ نہ کیا اور روز حشر مجھے ان سے شرمندہ نہیں ہونا پڑے گا ... یہ (اکیسویں ) فراہی صدی ہے ۔‘‘ ( ذکر فراہی ۵۸۲)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1]؎ ’’ذکر فراہی‘‘ کے نام سے کتاب کا ایک ایڈیشن لاہور پاکستان سے بھی شائع ہوا ہے۔ اس نسخے میں ڈاکٹر اصلاحی کے مفروضہ اتہامات سے کلی صرف نظر کیا گیا ہے اور صرف مصدقہ امور کو اجا گر کیا ہے۔ (ااب)
[2]؎ ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی ایک سیلانی الطبع اور غیر مستقل مزاج انسان تھے۔ ایک عرصہ معروف صحافی مولانا اصلاحی کے فرزند اکبر جناب ابو صالح اصلاحی مرحوم کے ساتھ وابستہ رہے ۔ ان کی سفارش پر پھر مشہور ناول نگار نسیم حجازی کے ذریعے سے روزنامہ ’’کو ہستان‘‘ راولپنڈی میں کام کرتے رہے، مگر جلد اکتا گئے۔ طویل عرصہ وہ شرکت پر نٹنگ پریس لاہور کے بانی کے گھر مستقل مہمان رہے ۔ بظاہر بے خانماں زندگی گزاری۔
[3]؎ ’’امام فراہی کے قرآنی حواشی‘‘، مرتبہ: ڈاکٹر عبید اللہ فراہی، تصحیح: مولا نا محمد امانت اللہ اصلاحی، مطبوعہ: مکتبہ حزب الانصار بھیرہ پاکستان ۔ (ااب)
[4]؎ حواشی قرآن کو دیکھ کر مولانا اصلاحی کی بات بہت معقول اور مفید دکھائی دیتی ہے۔ (ااب)
[5]؎ مولا نا امین احسن اصلاحی نے ۵۳ سال کی طویل تحقیق اور مطالعے کے بعد فکر فراہی کی روشنی میں شان دار تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ لکھی جو ۹ جلدوں میں دستیاب ہے۔ مطبع فاران پبلی کیشنز لاہور۔