HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

صوفیت اور نجات

ڈاکٹر عدیل احمد


زیر نظر مضمون بالخصوص ان افراد کے لیے لکھا گیا ہے جو نجات کے لیے کسی ایک دین کی اتباع کو ضروری نہیں گردانتے اور انسان کے لیے انسان کی محبت، اور ایک عمومی بھائی چارے اور امن وسلامتی کے فروغ کو ہی انسانیت کی معراج سمجھتے ہیں۔ اس مضمون کے عنوان کے انتخاب میں ہم نے ایک جسارت بھی کی ہے، یعنی ایک نئی اصطلاح، ’صوفیت‘ کا استعمال۔ یہ کوئی مروجہ اصطلاح نہیں ہے، لیکن ایک تو اپنے اس مضمون میں جس خیال اور جس رویے کو دین اسلام سے ممیز کرنے کے لیے ہم اپنی معروضات پیش کریں گے، اس کے احاطے کے لیے، ہم اعتراف کریں گے کہ ہمیں اس سے بہتر لفظ نہیں سوجھا، اور دوسرے ہم بہرحال اسے تصوف کے ساتھ بھی خلط مبحث نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ تصوف کیا ہے، اور کسی بھی دین کے ساتھ اس کا رشتہ کس نوعیت کا ہے، وہ کس قدر ضروری یا غیر ضروری ہے؟ اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب کا طویل مضمون ’’اسلام اورتصوف ‘‘(مطبوعہ المورد۔ ۱۹۹۵ء) اس بارے میں ہمارے خیالات کی مکمل ترجمانی کرتا ہے۔ لہٰذا فی الوقت ہم اس پر گفتگو کو قطعی ضروری نہیں سمجھتے۔جس رویے کو ہم یہاں ’صوفیت‘ کے نام سے زیر بحث لارہے ہیں، اس پر البتہ ہماری محدود معلومات کے مطابق کچھ زیادہ نہیں لکھا گیا ہے اور اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

جہاں تصوف کے حامی تصوف کو کسی بھی دین کی روح سمجھتے ہیں، وہاں ایک اچھا خاصا طبقہ ایسے لوگوں کا ہے جو کسی ایک دین کے دائرے میں شامل ہو نا اور کچھ لگے بندھے ضابطوں، قوانین اور ارکان کی پابندی کرنا ضروری نہیں جانتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن میں سے کچھ تو ہمت کر کے خود کو صوفی کہہ دیتے ہیں، باقی کی اکثریت انسان دوست، انسانیت کو ماننے والا یا ہیومینیٹیرین(Humanitarian) کہلانا پسند کرتی ہے۔ جو بات انھیں دہریوں سے الگ کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ آخر الذکر کے برخلاف یہ ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں۔ یوں مذاہب کو بھی مانتے ہیں،بلکہ ان مذاہب کو بھی تسلیم کرتے ہیں جنھیں عام طور پر آفاقی یا افلاکی نہیں سمجھا جاتا۔ بسا اوقات تو یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے ان مذاہب کو زیادہ مانتے ہیں، لیکن کسی بھی دین پر یقین رکھنا یا اس کی پیروی کرنا ان کے نزدیک نجات کے لیے لازمی شرط نہیں ہے۔

بہت مناسب ہے کہ اسی مقام پر مضمون کے عنوان میں سے ’نجات‘ کی بھی وضاحت کردی جائے۔ہم نے یہاں یہ لفظ ’فلاح‘یا ’کامیابی‘، خصوصاً اخروی کامیابی کے مفہوم کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا ہے، کیونکہ ہمارے نزدیک ان معنوں میں یہ لفظ اپنے ہم معنی الفاظ سے زیادہ موزونیت کا حامل ہے اور دوسرے اس طرح ہم اس وحشت کو بھی کم سے کم سطح پر رکھنا چاہتے ہیں جو ہمارے ان قارئین کو جن کا ذکرہم نے صوفیت کے حوالے سے کیا ہے، ممکنہ طور پر ان تمام اصطلاحات سے ہوتی ہے جو کسی طور ’اسلامی‘ ہونے کا تاثر رکھتی ہیں۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ ہمارے یہ دوست جن کے عقیدے کی وضاحت کے لیے ہم صوفیت کی اصطلاح استعمال کررہے ہیں، خود کو کسی ایک مذہب کے دائرے میں قید رکھنا پسند نہیں کرتے، رچیوئلز(rituals) اور مذہبی رسوم کی ادائیگی ضروری نہیں گردانتے، بالخصوص انسان سے، اور بالعموم ہر ذی روح سے محبت کو اپنا خاصا جانتے ہیں، اور اسی محبت کو اصل میں خدا کی لافانی محبت اور رضا حاصل کرلینے کی کنجی سمجھتے ہیں۔ حقوق العباد اور حقوق اللہ کی درجہ بندی اگرچہ دینی حوالے سے بھی کی جاتی ہے اور عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ اپنے حقوق تو اللہ معاف کر دے گا، لیکن حقوق العباد نہیں بخشے گا، لہٰذا ان کا پورا کرنا ترجیحاً زیادہ ضروری ہے، تاہم ہمارے یہ ’’انسان دوست‘‘ ساتھی منہ سے کہہ دینے کی حد تک گو اس جملے سے کلی اتفاق کرتے ہوں، لیکن درحقیقت حقوق اللہ ان کے ہاں دوسرے درجے کی ترجیح بھی نہیں ہیں۔ اللہ یا کسی ایک خالق کے تصور سے انھیں انکار نہیں ہے، یا کم از کم اس شدت سے انکار نہیں ہے جو دہریوں کے ہاں پائی جاتی ہے، لیکن رسولوں کو وہ صرف اچھے انسان، عظیم رہنما اور مصلحین سمجھتے ہیں اور اسی حیثیت سے ان کا احترام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ خیر اور شر کی کائناتی قدریں ابتداے آفرینش سے ہی موجود ہیں اور ان کے نزدیک ان کی پہچان کے لیے کسی پیغام یا ان پر عمل کے لیے کسی شریعت کی ضرورت نہیں ہے۔اسی طرح ان کا ماننا ہے کہ حقوق و فرائض کا احساس انسان کے اندر ازل ہی سے قائم ہے اور تمدن کے ارتقا کے ساتھ ساتھ شعوری سطح پر اجاگر ہوتا جارہا ہے۔

ان میں سے جو لوگ قرآن کریم کے مطالعے سے مشرف ہیں، وہ اپنے نقطۂ نظر کے حق میں سورۂ بقرہ (۲)کی آیت ۶۲ [1]؎  کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم ان سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کہنے کی جسارت کریں گے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو کسی بھی مذہب، ملت یا دین کے فرق سے بلا لحاظ، بلکہ کفر، شرک، اور ایمان، الحاد کی تقسیم سے بھی ماورا، سب لوگوں کو معاف کردے اور اس عام معافی کے لیے کوئی بھی شرط عائد نہ کرے۔ اس امکان کا اظہار ہم صرف اپنی خوش فہمی کے نتیجے میں نہیں کررہے ہیں، بلکہ اس کے لیے بھی قرآن کریم ہی کی ایک آیت پیش کرسکتے ہیں جو درحقیقت مجھ جیسے خطاکاروں اور بد عملوں کے لیے سب سے بڑا سہارا ہے۔[2]؎   لیکن یہاں دو نکات قابل وضاحت ہیں: ایک تو اول الذکر آیۂ مبارکہ کا مفہوم سمجھنے کی ضرورت ہے، جو درحقیقت بالکل سادہ ا ور آسان ہے۔ قرآن کریم ہی میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے( آل عمران ۳: ۱۹)، یعنی لوگ اپنے طور پراس پیغام کو چاہے جو بھی نام دے لیں اور خود کو یہودی، نصرانی، یا صابی کچھ بھی کہلوائیں، ان کے خالق کی طرف سے توحید، اعمال صالح اور آخرت پر ایمان کا بنیادی پیغام ہمیشہ ایک ہی رہا ہے جو مختلف زمانوں میں، مختلف علاقوں میں مختلف پیغمبر لاتے رہے ہیں۔ اب اگر کوئی ان اساسی عناصر پر یقین رکھتا ہو اور اس کی زندگی اسی یقین کی روشنی میں بسر ہو تو اس کا بدلہ اس کے رب کے ہاں موجود ہے اور اسے کسی رنج یا خوف کا اندیشہ نہیں ہے۔ اور یہ پالیسی بیان دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کوئی استثنیٰ نہیں دیا، بلکہ سب سے پہلے انھی کا ذکر کیا ہے۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس پیغام کو سچے دل سے مان لینے کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کوئی شخص، وہ چاہے یہودی، عیسائی یا کسی بھی ایسے خود ساختہ گروہ سے متعلق ہو، اس پیغام کو پا لینے کے بعدخود کو ان سے علیحدہ کر کے صرف اور صرف اسی ایک دین سے جڑجائے گا جس کے لیے اس کے خالق نے اسلام کا نام پسند کیا ہے اور جو اصل میں تحریف اور آلایش سے پاک تمام ادیان کی صحیح شکل ہے۔

یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے، اگر ضمنی طور پر اس ایک آیت میں موجود پیغام کی جامعیت پر ایک دو جملے عرض کر دیے جائیں۔ ان تین اجزا میں جو اس آیۂ مبارکہ کا حصہ ہیں، ہدایت کا ایک جہان ہے۔ پہلی شرط توحید کی ہے، جو اپنے دامن میں خالق کے ساتھ تعارف، عبودیت اور خالق کی طرف سے مخلوق کی رہنمائی کے مکمل سلسلے پر یقین کا تقاضا لیے ہوئے ہے۔ دوسرا جز نیک اعمال سے متعلق ہے، جو فرد اور سماج کی نمو اور ارتقا کے ضامن ہیں اور پھر آخرت کا ذکر ہے، جو احتساب کا ایک بے مثال احساس پیدا کرتا ہے۔ اگر غور کریں تو یہی وہ تین باتیں ہیں جو ایک انسان یا ایک معاشرے کی متوازن زندگی کے لیے اساس فراہم کرتی ہیں۔ کسی معاشرے میں نہ تو تربیت کے بغیرمحض قانون کے نفاذ سے انصاف، امن اور سلامتی کا ماحول برقرار رکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی قانون کی منصفانہ عمل داری کے بغیر فقط تزکیہ اور تربیت کے سہارے یہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اسلام کے اولین دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی اجزا پر بالترتیب کام کر کے ایک مثالی معاشرے کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اس آیۂ مبارکہ کے تین اجزا جہاں ایک فرد کے لیے نجات کا فارمولا فراہم کرتے ہیں، وہیں اگر ایک دوسرے زاویے سے غور کیا جائے تو مجموعی بھلائی کے لیے بھی یہی تینوں اجزا بالترتیب پہلے توحید کے ذریعے سے دلوں کے تزکیے اور تقویٰ کا اہتمام کرتے ہیں، پھر اعمال صالحہ کی تربیت اور ترغیب کا ذکر ہے کہ ایک مثالی معاشرے کا قیام عمل میں آئے اور پھر اس کے بعد احتساب اور جزا و سزا کے ساتھ اس قائم کیے گئے نظام کی بقا کو یقینی بنایا گیا ہے۔

وہ تمام لوگ جو سخت سزاؤں کے خلاف ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انسانی ارتقا کے اس موڑ پر سزا براے تادیب شاید اب ایک فرسودہ رسم ہوگئی ہے اور یہ مقصد فقط تربیت اور اصلاح سے پورا ہونا چاہیے،اور ہمارے صوفیت پسند دوستوں کی ایک بڑی تعداد ان میں شامل ہے، اس معاملے میں مسئلے کا صرف ایک رخ دیکھتے ہیں۔ یوں تو کسی بھی معاملے کے تمام پہلوؤں پر وقت کے کسی ایک حصے میں پوری نگاہ رکھنا کسی بھی انسان کے بس میں نہیں ہے۔ مثال کے لیے ہم انسانی حقوق ہی کو لے لیتے ہیں، اس لیے بھی کہ ایک تو یہ موضوع ہمارے مضمون کے عنوان سے سیدھا تعلق رکھتا ہے، کیونکہ صوفیت پسند، انسانیت کو اپنا مذہب قرار دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ انسانیت کو اگر موجود آفاقی مذاہب کے متوازی ایک علیحدہ مذہب ہی مان لیا جائے تو انسانی حقوق سے بہتر اس مذہب کی کتاب(شریعت) کیا ہوگی۔ اور دوسرے بظاہر انسان کے بنائے ہوئے دوسرے تمام قوانین، معاہدوں، چارٹرز(Charters) اور پالیسیز(Policies) کی نسبت انسانی حقوق کی دستاویز ایک بڑے عام فہم اور آسان اصول پر مبنی ہے، یعنی ایک فرد کو انتخاب اور عمل کے لیے ہر طرح کی آزادی ہے، جب تک کہ اس کی وجہ سے کسی دوسرے فرد کو نقصان نہ پہنچے۔ خیر یہ فائدہ و نقصان بھی نسبتی معاملات ہیں، لیکن ان پر بحث ہمارے مضمون سے دور جا پڑے گی۔ ہم بتانا یہ چاہ رہے ہیں کہ انسانی حقوق جیسے بظاہر سیدھے سادے اور سمجھ میں آنے والے معاملے میں بھی ایسی پیچیدگیاں موجود ہیں کہ اگر ہم غور کرنے بیٹھ جائیں تو آخر کار یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہوگا کہ انسانی حقوق کا فیصلہ بہرحال انسان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اپنے اس خیال کی تائید کے لیے ہم نہایت اختصار کے ساتھ صرف ایک مثال کا تذکرہ کریں گے۔ اپنی جائز ذرائع سے حاصل کی ہوئی دولت، اپنے اختیار کا مظاہرہ، اپنے لیے لباس کا انتخاب آپ کا حق ہے، لیکن اس نمودونمایش سے کسی دوسرے شخص کے جذبات اور احساسات میں جو اشتعال، برانگیختگی یا محرومی پیدا ہوتی ہے، اسے انسانی حقوق کی کوئی شق خطاب نہیں کرتی۔ اس کے لیے بہرحال آپ کو دین ہی کا دامن پکڑنا پڑتا ہے۔ اور اس مثال کو معمولی مت سمجھیے گا۔ مغربی معاشروں میں زیادہ اور اب بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی ہونے والے اکثر جرائم کی بنیاد انھی مجروح اور مشتعل جذبات و احساسات پر رکھی جاسکتی ہے۔

اگر ہم خدا کو نہیں مانتے تو یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ الوہیت اور الحاد کی بحث کے لیے ہمارا مضمون، ’’دین یا لادینیت: ایک عقلی جائزہ‘‘(مطبوعہ اشراق، جولائی ۲۰۱۴ء) دیکھیے۔ لیکن اگر ہم خدا کو مانتے ہیں اور مختلف ادوار میں اس کے بھیجے ہوئے پیغامات کی حقانیت کو بھی تسلیم کرتے ہیں، لیکن فقط انسان کی محبت کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیتے ہیں اور خالق کی طرف سے آئے ہوئے پیغام کو سمجھنے یا اس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرنے کو اپنی نجات کے لیے ضروری نہیں گردانتے تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہم خالق سے بڑھ کر اس کی مخلوق کے ساتھ محبت نہیں کرسکتے۔ درحقیقت محبت ہے ہی وہ جو اللہ اپنی تخلیق، اپنی مخلوق کے ساتھ کرتا ہے۔ ہمارے دلوں میں جو احساس پایا جاتا ہے، وہ تو اصل میں اس لافانی محبت کا پرتو ہے اور گو بظاہر ہماری یہ محبت کتنی ہی خالص اور بے غرض ہو، جب وقت اور حالات کے امتحان سے گزرتی ہے اور علم اور آگہی کی روشنی جس قدر اس پر پڑتی ہے، اس کے کھوٹ، اس کی آلایشیں اور اس کی ناپایداری اسی قدر واضح ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہم وقت کے ایک خاص حصے میں رہتے ہوئے اور واقعات اور حالات کے صرف ایک ٹکڑے پر ایک مخصوص زاویے سے نظر ڈالتے ہوئے کسی مجرم سے نمٹتے ہوئے ایک قانون کو بے رحم قرار دے سکتے ہیں، لیکن ہماری راے تبھی درست کہلائے گی جب یا تو ہم اس جرم سے خود براہ راست متاثر ہوئے ہوں اور یا پھر اس پوری تصویر کا ہی حصہ نہ ہوں، بلکہ کینویس سے آزاد ہو کر اسے دیکھ رہے ہوں، جو ہمارے لیے ممکن نہیں ہے، کیونکہ ہم تخلیق ہیں۔ کائنات کے اس وسیع کینویس پر اس عظیم منظرنامے کا، جسے المصور نے بنایا ہے، کوئی ایک جز ہیں، جو بظاہر اس بڑی تصویر کے کسی دوسرے حصے سے جس قدر بھی دور اور لاتعلق نظر آتا ہو، بہر حال اس کا ایک حصہ ہے۔

اس مضمون کے لکھنے سے ہمارا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ اپناتمام زور بیان یہ ثابت کرنے میں صرف کردیں کہ وہ سب لوگ جو ہمارے نقطۂ نظر سے اتفاق نہیں کرتے یا خاص طور پر کسی ایک مروجہ الوہی دین کے بجاے صوفیت(یا انسانیت) کے قائل ہیں، جہنم کے کندے ہیں۔ ہم اللہ کی رحمت سے نہ اپنے لیے اور نہ ہی دوسروں کے لیے نا امید ہیں اور اس سلسلے میں پہلے ہی اپنی راے کا اظہار کر چکے ہیں۔ ہاں، جس راستے کو، البتہ ہم سب سے زیادہ محفوظ اور یقینی سمجھتے ہیں، اس کی طرف بلانا ہمارا حق بھی ہے اور فرض بھی۔

اسے ایک مثال سے سمجھ لیجیے۔فرض کیجیے، آپ لاہور سے راولپنڈی کے لیے عازم سفر ہوتے ہیں ۔ اس مقصد کے لیے آپ پوری تیاری کرتے ہیں۔سامان سفر باندھتے ہیں۔گاڑی میں پیٹرول ڈلواتے ہیں۔اس کا تیل پانی بھی پورا کرتے ہیں، اور دیگر امور جیسے ٹائروں کی ہوا وغیرہ کے بارے میں بھی اپنی تسلی کرتے ہیں۔اپنے ساتھ مناسب رقم بھی رکھ لیتے ہیں کہ سفر میں ضرورت پڑنے پر کام آئے۔ اس تمام تیاری کے بعد آپ نکل کھڑے ہوتے ہیں اور اس کی بالکل ضرورت نہیں سمجھتے کہ سمت کے بارے میں معلوم کریں یا راستہ سمجھیں۔ نہ آپ کے پاس رہنمائی کے لیے کوئی نقشہ ہے، نہ آپ کسی سے پوچھتے ہیں اور نہ جی پی آر ایس(GPRS) وغیرہ سے مدد لیتے ہیں۔ آپ کا خیال ہے کہ کسی خاص سمت کی یا کسی مخصوص راستے پر چلنے کی ضرورت نہیں ہے، بس چونکہ آپ کی نیت ٹھیک ہے، تیاری مکمل ہے اور سفر کا سامان بھی پورا ہے، لہٰذا آپ منزل پر پہنچ جائیں گے۔ہمارا کہنا یہ ہے کہ بہر حال اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ اس طرح بھی آپ آخرکار راولپنڈی پہنچ ہی جائیں، لیکن زیادہ خدشہ اس بات کا ہے کہ آپ کبھی اپنی منزل پر نہ پہنچ سکیں۔پھر آخر اس میں کیا حرج ہے کہ جس نے آپ کو لاہور سے راولپنڈی بلایا ہے، اس نے دعوت نامے کے ساتھ رہنمائی کے لیے جو نقشہ بھیجا ہے، اس سے مدد لی جائے۔

یہاں ایک اور سوال پوچھا جاتا ہے کہ صرف اسلام ہی کیوں اور آخر باقی مذاہب کیوں نہیں ؟اس سوال کا جزوی جواب تو ہم اسی مضمون میں پیچھے کہیں دے چکے ہیں۔اصل میں ہر مذہب اسلام ہی ہے۔ یا یوں کہیے کہ دین صرف ایک ہی ہے: اسلام۔ خالق نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے جو پیغام بھیجا ہے، آپ اسے جو بھی نام دے دیں، مختلف اوقات میں پیغام لانے والوں کے ناموں پر اسے یہودیت کہہ لیں، عیسائیت کہیں یا کچھ اور، اللہ نے اس کے لیے ’اسلام‘ کا نام پسند کیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے اس بنیادی پیغام میں جو تحریفات اور آمیزشیں کیں، ان کی درستی کے لیے یہ پیغام ہر زمانے میں تطہیر کے ایک عمل سے گزرا۔ لوگوں نے تطہیر اور درستی کے اس عمل کو ہی اس کی پہچان بنا لیا، ورنہ پیغام بھیجنے والا بھی وہی ہے اور پیغام بھی۔خالق کی طرف سے آنے والے اس ہدایت نامے کی آخری تطہیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوئی اور اس کے نتیجے میں اس کا وہی اصل نام بحال کردیا گیا جو خالق نے اس کے لیے پسند کیا تھا۔انسان کی عمومی عقل اس سے تقاضا کرتی ہے کہ اگر وہ یہ مان لیتا ہے کہ اس کے خالق نے اس کے لیے کوئی ہدایت نامہ بھیجا ہے تو یقیناً وہ اس کے آخری اور حتمی متن کو قبول کرے گا۔

صوفیت پسندوں کی طرف سے ایک خوب صورت اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ان ابدی پیغامات کا بنیادی مقصد تو صرف ایک پرامن، خوش حال اور مبنی برانصاف معاشرے کا قیام ہے اور ان کی اساس تو درحقیقت محبت اور سلامتی ہی ہے، پھر اگر کسی خاص مذہب کو مانے بغیر انسان اپنے تمدن کے ارتقا میں اپنی غلطیوں، تجربوں اور تاریخ سے سیکھ کر اس طرح کا معاشرہ قائم کرلیتا ہے تو کیا ضروری ہے کہ وہ کسی ایک مذہب کے عقائد و نظریات کا بھی پیروکار ہو اور اس کے رسوم و آداب پر بھی عامل ہو؟ اس سوال کا جواب دو حصوں پر مشتمل ہے:

اولاً، یہ کہ امن و سلامتی، محبت اور انصاف گو اس پیغام کے انتہائی اہم اور بے حد ضروری جز ہیں، لیکن اس کا بنیادی مقصد مخلوق کی خالق سے پہچان کرانا ہے، بلکہ یوں کہیے کہ انسان کے شعور کے کسی نہاں خانے میں خالق نے اپنی ہستی کا جواحساس رکھ دیا ہے، یہ پیغام اصلاً اس کی یاد دہانی ہے۔ اس یاد دہانی اور اس کے قیام و تسلسل کے لیے ہمارا خالق ہم سے اگر کچھ عبادات و اعمال اپنانے کے لیے کہتا ہے تو ضروری نہیں کہ ان کی ساری کی ساری منطق اور توجیہ ہم ایک ساتھ، اور فوراً ہی سمجھ جائیں۔یوں بھی اس دنیا میں اپنے اردگرد کارفرما عوامل میں سے کتنے ہیں جنھیں ہم ابھی تک مکمل طور پر سمجھ سکے ہیں۔ ہمارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے اخلاص اور عمل کو سنوارتے ہوئے ان فرائض پر کاربند رہیں ۔ امید ہے کہ ان کے فوائد اور ان کی ضرورت بھی رفتہ رفتہ ہم پر واضح ہوتی چلی جائے گی۔

ثانیاً، یہ کہ اسی ہدایت نامے پر عمل کرنے کا لازمی نتیجہ ہے کہ معاشرے میں انصاف، محبت، ہم دردی اور رواداری کا فروغ ہوگا۔ بلکہ ہم تو کہیں گے کہ صحیح معنوں میں ایک مثالی معاشرہ قائم ہی تب ہو سکتا ہے جب لوگ اس الوہی پیغام کو دل و جان سے تسلیم کرلیں، ورنہ بھلا بتائیے، خود احتسابی، جزا اور سزا، نیکی اور ثواب اور پوچھ گچھ کا ایسا مکمل خیال اور کون سا نظام پیش کرتا ہے۔ پھر تاریخ ہمیں جہاں وہ نمونے دکھاتی ہے جب کبھی معاشرے نے اس پیغام کو اپنا حرزجاں بنا کر جرم و جبر میں حیرت انگیز کمی کی ہے تو کہیں کمیونزم کے جبر اور کہیں سامراجی نظام کے استحصال کی مثالیں بھی پیش کرتی ہے، جب انسان نے اس پیغام کو فراموش کر کے خود اپنی عقل کی رہنمائی میں ارتقا کا یہ سفر طے کرنا چاہا ہے۔ اس راستے پر ہمیشہ ادھورے علم، لالچ، خواہش اور مفاد طلبی کی دھندچھائی رہی ہے۔

وہ تمام مذاہب جو آج اس دنیا میں کسی بھی شکل میں موجود ہیں، یہ سوچ کر ان کا احترام کرنا کہ عین ممکن ہے وہ اپنے وقت کے خالص دین اسلام کے طور پر ہی رب کائنات کی طرف سے اتارے گئے ہوں، اور ان میں سے خاص طور پر ان ادیان کے من جانب حق تعالیٰ ہونے کا یقین رکھنا، جن کا ذکر اسی دین اسلام کی آخری کتاب میں موجود ہے، بہرحال ایمان کے بنیادی شرائط میں شامل ہے۔ اس اعتبار سے ہمارے یہ ’صوفیت‘زدہ دوست جس فراخیِ قلب کے ساتھ ہر طرح کے مسلک، مذہب اور عقائد کے مجموعوں کو چاہے وہ کیسے ہی دور ازکار کیوں نہ ہوں،محض اپنی انسان دوستی اور انسانیت کے احترام کی بدولت گلے سے لگانے کے لیے تیار رہتے ہیں، وہ لائق تحسین ہے۔ یہاں یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ گلے سے لگانے سے یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ وہ ان میں سے کسی بھی مذہب کے دائرے میں عملی طور پر داخل ہوجائیں، بلکہ دل چسپ بات یہ ہے کہ مستند اور مقبول آفاقی مذاہب کے لیے ان کا یہ احترام اور یہ محبت بتدریج کم ہوتے ہوتے اس سلسلے کے آخری دین کے لیے فقط براے نام ہی رہ جاتے ہیں اور جس قدر کوئی عملی طور پر ان مذاہب کا پیرو ہوگا، اسی قدر وہ ان کی اس ہمہ گیر محبت اور احترام کے لیے استحقاق کھو دے گا۔

ایک متعلقہ نکتے کی وضاحت یہاں بہت مناسب معلوم ہوتی ہے۔ کسی کا احترام کرنا ا ور کسی پر یقین لے آنا دو مختلف باتیں ہیں۔ایسا ممکن ہے کہ آپ کسی کی بات نہ مانیں، لیکن بہر حال اس کی راے کا احترام کریں اور اس کی شخصیت سے محبت بھی کریں اور اس کی عزت بھی کرتے رہیں، لیکن کسی کی بات کو مان لینے کا مطلب بہرحال یہی ہے کہ اس کی حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے۔ایک دین اپنے اندر ہمیشہ ایک دعوت لیے ہوتا ہے اور جب آپ اسے برحق تسلیم کرتے ہیں تو درحقیقت آپ کے پاس اب اس دعوت کو قبول نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں رہتی۔ ممکن ہے کہ آپ ایک دین کو درست مان لینے کے بعد، یعنی اس پر ایمان لے آنے کے باوجود اس کے چند شرائط پر عمل پیرا نہ ہوپائیں، اس صورت میں آپ بے عمل کہلائیں گے اور اگر اس کے کچھ احکام کی صریح خلاف ورزی کریں تو گناہ گار، لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ ایک دین کو سچ تسلیم کریں اور پھر ساتھ ہی ساتھ اس کے احکام بجالانا ضروری بھی نہ سمجھیں۔ اس صورت میں آپ کا یہ ایمان زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں، جسے کوئی چاہے تومصلحت پسندی قرارد ے، لیکن اسلام اس کے لیے منافقت کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔

اس طرح کی صورت حال، آج کل اصل میں نفاق سے زیادہ لاعلمی کی مرہون منت ہے۔ انسانی حقوق کی تکرار اور انسانیت نوازی کے چڑھتے سورج کے رعب نے ہم میں سے بہت سوں کو ان حقوق و فرائض اور ان سے متعلق قواعد و ضوابط کے منبع سے ہی بے نیاز کردیا ہے۔ اور یوں کسی بھی دین کے مطالعے کے بغیر، اس کو سمجھنے اور جاننے کی کوشش کیے بنا ہی فقط انسانی حقوق اور انسانیت کے نام پر اسے تسلیم کرلینا بھی تقریباً ایسا ہی ہے جیسا کہ اسی انداز میں اسے مسترد کردینا۔ درحقیقت کسی دین کو درست مان لینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم اسی کو نجات کا واحد راستہ مان رہے ہیں۔ ہم یہ تسلیم کررہے ہیں کہ قواعد وضوابط کی یہ دستاویز اسی ہستی کی جانب سے ہے جو ہمارا ا ور تمام جہانوں کا خالق ہے۔ اس صورت میں، ظاہر ہے کہ کامیابی کے لیے جو روڈ میپ اس دین میں موجود ہے، وہ ہمیں اور کہاں دستیاب ہوگا۔ اور خاص طور پر جب اس کاا صرار بھی ہے کہ اس ایک راستے کے سوا باقی تمام گذرگاہیں باطل ہیں۔

اب رہ گیا یہ معاملہ کہ جب سبھی ادیان درست ہیں، آفاقی ہیں اور اسی ایک خالق کی جانب سے ہیں تو پھر کیا ضروری ہے کہ کسی ایک کو ہی اپنا ضابطۂ حیات تصور کیا جائے اور پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ سب کو برحق تسلیم بھی کیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ ایک کے سوا باقی سب کو مسترد بھی کردیا جائے۔ اس بظاہر مشکل گتھی کا حل بڑا سادہ سا ہے۔ اس معمے کی کلید یہ حقیقت مان لینے میں ہے کہ یہ بہت سارے مختلف مذاہب نہیں ہیں، بلکہ ایک ہی دین کے مختلف ایڈیشنز ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے میں رہنمائی کے لیے تازہ ترین ایڈیشن ہی پر بھروسا کیا جاسکتاہے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

 

[1]؎ بے شک جو لوگ ایمان لائے، اور وہ جو یہودی ہوئے، اور عیسائی اور صابی، تو جو بھی ان میں سے اللہ پر اور یوم آخرت پر یقین رکھے اور نیک کام کرتا رہے، اس کے لیے اس کے رب کے پاس اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ کسی طرح کا غم۔

[2]؎ سورۂ زمر آیت نمبر ۵۳: کہہ دیجیے کہ اے میرے وہ بندو جو اپنی جانوں پر زیادتی کر بیٹھے ہو، اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہوجانا۔ بے شک اللہ سب کے سب گناہ بخشنے والا ہے، وہ تو ہے ہی معاف کردینے والا مہربان۔

B