[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
یہ بھی اس تفسیرکی اہم علمی وفکری خصوصیت ہے۔اس سلسلہ میں ہم اُس معرکۃ الآرا بحث کو پیش کرنا چاہتے ہیں جس کو صاحب تفسیر نے مختصراً اٹھایا تھا اوراب اس پر بحث جاری ہوگئی ہے،البتہ بحث کرنے والوں نے ان کاحوالہ نہیں دیاہے۔وہ ہے یہ بحث کہ کیا انسان اللہ کا خلیفہ ہے؟
’استخلاف في الارض‘ کامطلب ہے کہ ایک قوم کے بعد دوسری قوم کو اس کی جگہ لے آنااورایک فرد کے بعد دوسرے فرد کو اس کی جگہ لے آنا۔لفظ ’خلیفه‘،’استخلاف‘اور ’خلائف‘ وغیرہ اوراس کے دوسرے مشتقات قرآن میں تقریباً ۱۵ جگہ استعمال ہوئے ہیں۔اورہرجگہ ان سے یہی معنی مراد لیے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فردیاایک قوم کی جگہ دوسرے فرد یاقوم کو اس کی جگہ عطاکردی۔اکثرمفسرین کرام نے ان آیات کے مفہوم میں غلطی کی ہے۔اوربے دلیل انسان کو خداکا خلیفہ قراردے ڈالاہے۔موجودہ زمانہ میں اس غلط فکر کوعام کرنے میں سب سے زیادہ حصہ مولانا مودودی کارہاہے۔جنھوں نے اس کو ایک پورافلسفہ ہی بنا ڈالا ہے۔ آیت کریمہ ’اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً‘ (البقرہ۲: ۳۰ )جس کو خلافت الٰہیہ کے علم برداروں نے اپنے فلسفہ کی اساس بنایاہے،کی تشریح تفسیر ’’مفتاح القرآن‘‘ کی نہایت معرکۃ الآرا بحث ہے، جو بہت تفصیلی ہے۔اِ س آیت کی تفسیرمیں جومتعدداقوال ہیں، مصنف علام پہلے ان کا محاکمہ کرتے ہیں، پھر نظریۂ خلافت والی راے کونقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’متعدداہل علم حضرات جوخلیفہ کو اس آیت میں خلیفۃ اللہ، یعنی نائب خداکے معنی میں سمجھتے ہیں، وہ یہاں خلیفہ سے مطلق انسان، انسان، یعنی نوع انسانی مرادلیتے ہیں اورہمارے علم میں اس نقطۂ نظرکی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے سب سے بڑھ چڑھ کراورکافی واضح ومفصل ترجمانی فرمائی ہے۔‘‘
آگے مولانامودودی کی عبارت نقل کرکے اس پر نقدکیاہے۔ اور اس آیت کی تفسیرخودمصنف علام نے یوں کی ہے:
’’ ’اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً‘ (ترجمہ: میں انسان کو جانشینی کے ساتھ آبادرہنے والی مخلوق کی حیثیت سے رکھنے والاہوں)۔مطلب یہ ہے کہ میں نے طے کرلیاہے نوع انسان نسل درنسل زمین میں آباد رہے گی یہاں ’جَاعِلٌ‘کے معنی ہیں رکھنے والا ’جعل‘کارکھنے کے معنی میں استعمال معروف ہے …پس انسان ہی وہ مخلوق ہے جس میں خلافت وجانشینی کاطریقہ فطری طورپر پایاجاتاہے،قرآن کریم میں اس معنی کے لحاظ سے انسان کو خلیفہ اورانسانوں کو ’خلائف‘ اور ’خلفاء‘ کہاگیاہے، لیکن شروع سے آخرتک قرآن کریم میں کسی جگہ بھی انسان کو ’خلیفة اللّٰه‘نہیں کہا گیاہے، حتیٰ کہ کسی نبی کے لیے بھی یہ لفظ نہیں آیا۔داؤد علیہ السلام کے متعلق بھی یہ ارشادہواہے کہ ’يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ‘ (صٓ ۳۸: ۲۶) (اے داؤد ہم نے تجھے اس سرزمین میں خلیفہ بنایاہے،یعنی سلطنت میں طالوت کا اورنبوت میں حضرت شمویل علیہ السلام کا…اس کا ترجمہ یہ نہیں ہے کہ اے داؤد ہم نے تجھے اپناخلیفہ بنایاہے۔جن مترجمین نے یہ ترجمہ کیاہے غلط کیاہے اس ’’اپنا‘‘کالفظ بالکل غلط اضافہ ہے۔اسی طرح یہاں ’اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً‘ کا یہ ترجمہ غلط ہے کہ ’’میں زمین میں اپنانائب بنانے والاہوں ‘‘ہاں اگر ’خلیفتی‘یا ’خلیفة لی‘ ہوتا تو یہ ترجمہ صحیح قرار دیا جاتا۔ اس بات کی تائیدمیں انھوں نے آگے حضرت ابوبکرکے اس قول کو بھی دلیل میں نقل کیاہے جس میں انھوں نے اس شخص کی تردیدکی تھی جس نے ان کو ’یاٰخلیفة اللّٰه‘ کہ کرپکاراتھا توآپ نے فرمایا: میں اللہ کا نہیں اللہ کے رسول کا خلیفہ ہوں۔[24]؎ ‘‘
صرف خلافت ہی نہیں، بلکہ عصرحاضرکے دوسرے مسائل پر بھی انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ مثال کے طورپر جہاد اور شوریٰ کا مسئلہ۔جہادکے بارے میں ان کا موقف ٹھیک وہی ہے جوہمارے فقہا کے ہاں پایاجاتاہے،انھوں نے اس مسئلہ میں معاصرعلمااورمصنفین کا موقف قبول نہیں کیا۔اپنے خیالات کا اظہارمختلف مواقع پرکیاہے، مثال کے طورپر آیت ’لَا٘ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ‘ (البقرہ ۲: ۲۵۶) کی تفسیرمیں۔جہاں تک شوریٰ کا معاملہ ہے تو وہ اس کے قائل ہیں کہ شوریٰ ’ملزمة‘ نہیں ہوتی،یعنی امیرالمومنین پر شوریٰ کا اتباع واجب نہیں،البتہ ان کے لفظوں میں ’’حسن سیاست کا تقاضایہی ہے کہ امیرتاامکان کثرت راے کے خلاف عمل نہ کرے‘‘۔اس موقع پرانھوں نے شوریٰ سے مروجہ جمہوریت و ڈیموکریسی کے حق میں دلیل لینے والوں پر نقدبھی کیاہے۔[25]؎
قراء ات سبعہ کا مسئلہ بھی آج بحث وتمحیص کا میدان بناہواہے،مثال کے طورپر قراء توں کے اختلاف کی روایتیں،خاص کر ’سبعة أحرف‘ کی بحث اورتدوین قرآن کے بارے میں یہ عام موقف کہ قرآن عہد ابوبکر میں جمع و مرتب ہوا، اسی طرح یہ قول کہ قرآن مجید کی ترتیب میں اجتہاد کو دخل ہے، نہ کہ نص کو۔مصحف عثمانی سے عبداللہ بن مسعود کے اختلاف کی روایتیں وغیرہ۔ سب سے زیادہ کنفیوژن ’سبعة أحرف‘ کی تاویل پیدا کرتی ہے۔علما کی ایک جماعت کہتی ہے کہ ہم معنی الفاظ ’اقبل‘،’ھلم‘ اور ’تعال‘ میں سے کسی ایک کو اختیار کیا جاسکتا ہے، ’عجل‘کی جگہ ’امھل‘ کا استعمال بھی قرآن میں وہی معنی دے گا۔بقول طبری حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر سے فرمایا کہ ’’قرآن میں ہر طرح کے الفاظ کااستعمال درست ہے۔بشرط یہ کہ تو رحمت کی جگہ عذاب اورعذاب کی جگہ رحمت کا لفظ نہ رکھ دے ‘‘۔بات صرف اتنی ہی نہیں، بلکہ ’’کنز العمال‘‘ اور ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ میں اس قسم کی روایتوں اوراقوال کی کمی نہیں کہ اگر تلاوت میں اعراب کی تبدیلی کی وجہ سے معنی میں تبدیلی ہوجائے تو بھی کوئی حرج نہیں سمجھاجائے گا۔ مثلاً ’فَتَلَقّٰ٘ي اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ‘ کو ’فَتُلَقّٰ٘ي اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ، وَالَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ‘ (المومنون ۲۳: ۸) کو ’لِاَمٰنَتِهِمْ‘ بصیغۂ واحد پڑھنابھی جائز سمجھاگیا۔الفاظ میں تقدیم وتاخیر اورحروف میں کمی بیشی بھی رواکرلی گئی۔ تاہم علامہ میرٹھی ا س قسم کی کسی قراءت کے قائل نہیں ہیں۔وہ بہت سختی سے اس بات کی تردیدکرتے ہیں کہ موجودہ مدون مصحف کے طریقہ سے ہٹ کرقرآن کے کسی لفظ یاکلمہ کی قراءت کی جائے۔چنانچہ ’الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ‘ (البقرہ ۲: ۱۸۴ ) کی تفسیرمیں عطاء نے جوحضرت ابن عباس کی قراءت اور تفسیر یہ نقل کی ہے کہ وہ اس کو ’یطَّوَقونه‘ پڑھاکرتے تھے اس کونقل کرکے لکھتے ہیں:
’’لیکن یہ تفسیربہ دووجہ واجب الرد ہے (الف) اگرعطاء کا بیان صحیح ہے اورفی الواقع حضرت ابن عباس اس آیت میں ’یطوقونه‘ پڑھاکرتے تھے تویہ ٹھیک نہ تھا،کیونکہ قرآن کریم کی عبارت وکلمات میں قیاس آرائی کو کوئی دخل نہیں ہے۔ قرآن کریم بطریق تواتر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے اور بلاشبہ آپ نے ’یطیقونه‘ ہی پڑھا پڑھایا ہے،یہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو تلقین فرمایاتھا،اورنقل متواترکے خلاف کسی کو بھی قرآن کریم کاکوئی لفظ پڑھناجائزنہیں ہے۔مگرمیں سمجھتاہوں کہ عطاء کوحضرت ابن عباس کے متعلق یہ بات نقل کرنے میں وہم ہوگیاہے۔حضرت ابن عباس نے کلمہ ٔ قرآن کی حیثیت سے نہیں، بلکہ تفسیر مطلب و اظہار معنی کی غرض سے ’یطیقونه‘ کو ’یطوقونه‘سے تعبیرکردیاہوگا۔[26]؎‘‘
مزیدیہ کہ آیت کریمہ ’وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ‘کی ان کی تفسیربھی معرکۃ الآرا ہے اورتمام متقدمین ومتاخرین سے الگ ہٹ کرہے اورنہایت مدلل ومستحکم راے پرمبنی ہے،جویوں ہے:
ترجمہ: اوراُن بیماروں اورمسافروں پر فدیہ یعنی ایک مسکین کا کھانالازم ہے جواس کی استطاعت رکھتے ہوں۔
تشریح:مطلب یہ ہے کہ مریض ومسافراگراتنی مالی استطاعت رکھتاہوکہ ایک روزہ کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلادے تو اس پر قضابھی لازم ہے اورفدیہ بھی اوراگراتنی استعاعت نہ رکھتاہوتواس پر صرف قضا واجب ہے فدیہ نہیں۔[27]؎
اس کے بعدعلامہ نے آیت کریمہ کی تفسیرسلف وخلف سے منقول اقوال اوررایوں کا محکم دلائل کے ساتھ محاکمہ کیاہے۔جو مطالعہ کے قابل ہے۔[28]؎
عربی زبان کے قواعدولسانی اصول یوں توسماعی ہیں، مگربعض جگہوں پر علامہ نے ان میں بھی اجتہادسے کام لیاہے اورمتقدمین سے اختلاف کیا ہے، مثال کے طورپر سورۂ ہود کی آیت ’يَوْمَ يَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَّسَعِيْدٌ‘ (۱۱: ۱۰۵) جس وقت روز آخرت آدھمکے گااس حال میں کہ اللہ کی اجازت کے بغیرکوئی شخص بات نہ کرے گا۔توکچھ لوگ توبدبخت ہوں گے، یعنی کفاراورکچھ خوش نصیب ہوں گے، یعنی مومنین۔
اس پرتنبیہات کے تحت لکھتے ہیں:’یوم یأتِ‘ حذف ’یا‘ کے ساتھ ہی ثابت ہے۔بعض قراء نے یہ خیال کرکے اسے ’یاتی‘ پڑھاہے کہ یہاں کوئی جزم کرنے والا حرف یا اسم نہیں ہے اوردیگرآیات قرآنیہ میں ’یاء‘ قطعاً ثابت ہے۔چنانچہ سورۂ ہود کے پہلے رکوع میں ہے ’اَلَا يَوْمَ يَاْتِيْهِمْ لَيْسَ مَصْرُوْفًا عَنْهُمْ‘ (۱۱:۸ ) اور سورۂ نحل میں ہے ’يَوْمَ تَاْتِيْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا‘ (۱۶: ۱۱۱ )اوربھی جگہ جس فعل مضارع پر لفظ ’یوم‘ قرآن میں آیاہے تووہ فعل مرفوع ہی ہے جیسے ’يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ‘ (المائدہ ۵: ۱۰۹ )،’يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ صِدْقُهُمْ‘ (المائدہ ۵: ۱۱۹)، اس لیے یہاں بھی مرفوع ہوناچاہیے، مگراس کے متعلق ابن جریرطبری نے لکھاہے کہ:
’والصواب من القرائة فی ذلک عندی یومَ یأتِ بحذف الیاء فی الوصل والوقف اتباعًا لخط المصحف‘یعنی چونکہ مصحف عثمانی میں ’یأتِ‘ لکھاہواہے نہ کہ ’یأتی‘ اس لیے اسے حذف ’یاء‘ کے ساتھ پڑھنا ہی درست ہے۔ا ب سوال یہ ہے کہ ’یاء‘ کس قانون کے تحت حذف ہوئی ہے؟ اس کا جواب ابن جریروغیرہ نے یہ دیاہے کہ یہ قبیلہ ٔ ہذیل کے محاورہ کے مطابق ہے۔ یہ قبیلہ حالت جزم کی طرح حالت رفع میں بھی مضارع منقوص کے آخر سے حرف علت گرادیتاہے۔چنانچہ وہ ’لا ادری‘ کی جگہ ’لا ادرِ‘بولتے ہیں۔ ابن جریرلکھتے ہیں ’’انھالغة معروفة لهذیل تقول ما اَدرِ ما تقول ومنه قول الشاعر‘
کفاک کف ما تلبق درهما
جودا واخری تعطِ بالسیف الدما
(اصل میں ’تعطی‘ تھا ’ی‘ گرادی گئی۔)
(میرے فیاض وصف شکن ممدوح)تیرے دوہاتھ (محاسن)ہیں ایک بزم یاراں میں جودوسخااورانفاق درہم و دینارکے باعث تہی کف رہتاہے،جب کہ دوسرارزم حق وباطل میں شمشیربکف اورخوں ریزہے۔(ترجمہ مصنف مقالہ کا ہے)
لیکن میرادل اس توجیہ کی طر ف مائل نہیں ہوتا۔اس لیے کہ مضارع منقوص سے بحالت رفع بھی حذف حرف علت فصیح ہوتا تو دیگر مواضع میں بھی ’یوم یاتِ‘ اور ’یوم تاتِ‘ فرمایاجاتا۔پھرقرآن کریم جیساکہ حدیث صحیح میں ہے، لغت قریش پر نازل ہواہے۔ اورمعلوم ہے کہ حضرت عثمان نے نقل مصاحف کے وقت اس حقیقت کا بڑالحاظ واہتمام فرمایاتھا۔میرے نزدیک اس کی صحیح توجیہ یہ ہے کہ ’متٰی‘ کی طرح ’یوم‘ بھی اسم ظرف ہے اورجیسے ’متٰی‘شرط کے لیے بھی مستعمل ہوتاہے جیسے ’متی تذھب اذھب‘ اسی طرح ’یوم‘ بھی شرط کے لیے استعمال کرلیاجاتاہے،جیسے ’یومَ تسافر اُسافر‘ (جس دن توسفرکرے گامیں بھی سفر کروں گا) اگر ’متٰی‘محض ظرف کے معنی میں آئے، شرط کے معنی میں نہ ہوتواس کے بعدآنے والا فعل مضارع مرفوع ہوتاہے جیسے تم کسی سے پوچھو ’متٰی تذھب‘ (توکب جائے گا؟)یہ ہی حکم ’یوم‘ کاہے کہ وہ شرط کے معنی سے مجرد ہوتواس کے بعدآنے والافعل مضارع مجزوم ہوتاہے۔اسی طرح جب ’یوم‘ شرط کے معنی دے تووہ بھی جازم ہوگاجیسے ’یومَ تذھب أذھب‘ پس ’یومَ یاتِ‘ اس آیت میں اس لیے ہے کہ لفظ ’یوم‘ یہاں معناً شرط کے معنی کافائدہ دے رہاہے۔’یومَ یاتِ‘ شرط ہے اور ’فمنھم شقی وسعید‘ اس کی جزاہے اوربیچ میں ’لا تکلم نفس إلا بإذنه‘حال ہے‘‘۔[29]؎
بانی جماعت اسلامی مولانامودودی نے اپنے نظریہ کی تشریح کے لیے’’ قرآن کی چاربنیادی اصطلاحیں ‘‘ لکھی اوراس میں عبادت و اطاعت، دونوں اصطلاحوں کو لغات کی مددسے قریب قریب ایک ہی بنا دیا۔ سید قطب شہید بھی اس سلسلہ میں انھی کے خوشہ چیں ہیں،اگرچہ مشہور اخوانی رہنماحسن الہضیبی نے اس سے اختلاف کیاہے،جماعت اسلامی کے اہل علم عام طورپر مولانامودودی کی اتباع ہی کرتے ہیں۔مولاناکی اس راے سے متعدداہم علم (مثال کے طورپرمولاناعلی میاں ندوی، مولانا منظور احمد نعمانی اورمولاناوحیدالدین خاں )نے اختلاف کیاہے۔جن میں سے علامہ میرٹھی بھی ہیں۔چنانچہ انھوں نے ’’مفتاح القرآن‘‘ میں تفصیل سے اس پر کلام کیاہے کہ عبادت اورطاعت میں جوہری و اساسی فرق ہے۔جس کا خلاصہ یہ ہے:
’’عبادت، پرستش یاپوجااس اختیاری عمل کوکہتے ہیں جوکسی فوق البشری طاقت کی حامل ہستی کو خوش کرنے کے لیے انجام دیاجائے،عبادت کا اصل مفہوم تویہی ہے البتہ کبھی کبھی مجازاً لفظ عبادت کو اطاعت کے معنی میں بھی استعمال کرلیاجاتاہے،مثلاً شیرکا اطلاق انسان پرمجازاً کردیا جاتاہے۔اطاعت کسی صاحب اقتدار و بااختیار ہستی کے حکم کو ماننا اور اس کی رضاچاہناہے۔یہ دونوں معنی آپس میں نہ متضادہیں نہ متلازم۔اس لیے ان دونوں کااجتماع بھی ممکن ہے اورافتراق بھی۔یہ ممکن ہے کہ کوئی عمل عبادت وطاعت دونوں ہو،اوریہ بھی کہ کوئی عمل اطاعت ہو،عبادت نہ ہو۔مثال کے طورپر فرض نماز عبادت بھی ہے اطاعت بھی مگرنفل نماز عبادت ہے اطاعت نہیں،کہ اللہ نے اس کا حکم نہیں دیا۔ اسی طرح چورکاہاتھ کاٹنایازانی کوسزادینااطاعت ہے مگروہ عبادتی عمل نہیں۔اسی طرح مجازاً یہ کہاجاتاہے کہ مومن کا ہرکام عبادت ہے۔حالاں کہ عبادت اوراطاعت میں جوہری فرق ہے۔وہ یوں کہ اسلام میں عبادت صرف خداکا حق ہے،اللہ تعالیٰ کے سواکسی کی عبادت کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں،اس دین کی بنیادہی اِس پرہے کہ اللہ تعالیٰ اورصرف اللہ تعالیٰ کو ہی معبود سمجھا جائے۔ اس میں اللہ کے علاوہ کسی اورکی خواہ وہ مقرب فرشتہ ہویانبی ورسول عبادت کرنا اکبر الکبائر اور گناہ عظیم ہے۔جب کہ اطاعت کے معاملہ میں نسبۃً وسعت ہے کہ اللہ کی اطاعت کے ساتھ ہی رسول کی اطاعت بھی فرض ہوتی ہے اوراولوالامرکی مشروط اطاعت کا بھی حکم ہے۔[30]؎
’وَمَا٘ اُنْزِلَ عَلَي الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَمَارُوْتَ‘ (البقرہ۲: ۱۰۲) میں ’ما‘کو مصدریہ مان کر عام طورپر یہ ترجمہ وتفسیرکرتے ہیں کہ ہاروت و ماروت نامی دوفرشتے تھے جن کو اللہ نے جادوکا علم دے کر آزمایش کے لیے زمین پر بھیجاتھا۔مگراشکال یہ ہے کہ اس سے لازم آتاہے کہ سحر بھی منزل من اللہ اورحق ہو، اور اللہ تعالیٰ ٰنے خودہی لوگوں کو سحرکی تعلیم دینے کا انتظام فرمایا ہو، حالاں کہ سحرکو اللہ تعالیٰ نے کفر بتایا ہے۔ اس نا قابل حل اشکال کے باعث علامہ میرٹھی نے ’ما‘ کو نافیہ مان کریہ ترجمہ وتشریح کی ہے: اورنہ ہی بابل میں ہاروت وماروت نامی دو فرشتوں پر جادو اتارا گیا ہے،(پس یہ بھی ان شیاطین کی دروغ بافی ہے)اصل بات یہ ہے کہ سرزمین بابل میں جوکہ صدیوں سے ویران وغیر آباد پڑی تھی دوجادوگروں نے اپنی کُٹی بنا رکھی تھی۔ …اغلب یہ ہے کہ یہ دونوں عبرانی نسل کے تھے، کیونکہ اس انداز کے نام اسی نسل میں ملتے ہیں … ہاروت وماروت نامی ان جادوگروں نے اپنے ہم پیشہ لوگوں کی طرح ویرانہ نشینی اختیارکرکے اپنی شخصیت کو پراسرار بنا رکھا تھا۔ …وہ کسی خام طلب شخص کو منہ نہ لگاتے، بلکہ اچھی طرح ٹھونک بجاکردیکھ لیتے جسے طلب کا سچاپاتے اسے ہی بتاتے ۔[31]؎‘‘
اسی طرح غزوۂ بدرکے سلسلہ میں آیت کریمہ ’لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيْمَا٘ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ‘ (الانفال ۸: ۶۸) (اگراللہ کی طرف سے ایک حکم نہ ہوتا جو پہلے ہی صادرہوچکاہے تویقیناًاس مال غنیمت کی وجہ سے جوتم نے لیاہے تم پر عذاب آپڑتا)کے بارے میں جوعام تفسیرہے وہ یہ کہ غزوۂ بدر میں مکہ کے ستر مشرک قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا اس پر عتا ب کے بطوریہ آیت نازل ہوئی۔
اس کی تشریح علامہ نے یوں کی ہے کہ: ’’چونکہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی طے فرماچکاہے کہ امت محمدیہ کے مجاہدین کو شکست خوردہ کفارکا مال لیناجائز و حلال ہے،اس لیے اس جنگ میں جواموال غنیمت تم نے حاصل کیے ہیں انھیں تمھارے حق میں جائز رکھاگیاہے،اگراللہ تعالیٰ کا یہ حکم سابق نہ ہوتاتوتمھارایہ پو ری طرح قابوپالینے کے باوجودکفارکی اچھی طرح خونریزی سے گریز کرکے اموال غنیمت جمع کرنے پر ٹوٹ پڑنا اللہ کی نعمت کی ناقدری اورمتاع دنیاکی طر ف رغبت کے معنی میں ہونے کی وجہ سے ایسی سخت بات تھی کہ اس کی وجہ سے تم عذاب عظیم کی گرفت میں آجاتے۔خیرتمھاری یہ غلطی معاف کردی گئی، لہٰذا خمس نکالنے کے بعد جو مال غنیمت تمھیں حصہ میں ملا ہے، اسے شوق سے اپنے تصرف میں لاؤ‘‘اِس کے بعداس آیت کریمہ کے سلسلہ میں مشہورعام تفسیرپر یوں نقدکرتے ہیں:
’’مفسرین سے بعض روایات کی وجہ سے ان آیات کا صحیح مطلب سمجھنے میں چوک ہوگئی ہے۔انھوں نے یہ سمجھاسمجھایاہے کہ غزوۂ بدرمیں جو سترکفارگرفتارہوئے تھے،اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر وغیرہ کے مشورہ سے فدیہ لے کررہاکردیاتھا توان آیات میں اسی پر عتاب کیا گیا ہے،اور بتایا گیا ہے کہ ان قیدیوں کومارڈالناہی اولی وانسب تھا نہ کہ فدیہ لے کرچھوڑدینا۔لیکن حضرات مفسرین نے اگر کما حقہٗ ان آیات پر غور کیاہوتااوران روایات کوبھی پرکھاہوتاتواس غلط فہمی میں نہ پڑتے ‘‘۔[32]؎
مفسرین ایک روایت یہ بیان کرتے ہیں کہ ان قیدیوں کے متعلق وحی الہٰی نے مسلمانوں کو اختیاردیاتھاکہ ’’چاہو تو انھیں قتل کردو چاہو تو فدیہ لے کر چھوڑ دو، لیکن چھوڑوگے توآئندہ سال تم میں سے سترآدمی شہیدہوں گے،صحابہ نے اسی کوترجیح دی ‘‘۔ اس بارے میں علامہ کاکہناہے کہ یہ کوئی حدیث نہیں،بلکہ واقدی اور سدی جیسے افسانہ طراز راویوں کی افسانہ طرازی ہے۔امام بخاری توکیاامام مسلم نے بھی اس کا ذکر نہیں کیا۔ حیرت ہے کہ ان لوگوں نے یہ نہ سوچاکہ اگراللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ اختیاردیاہوتاتوفدیہ لینے پرعتاب کیوں ہوتا اور اسے عذاب عظیم کا سزاوارکیوں قراردیاجاتا؟کیونکہ جب کسی کو دوکاموں کااختیاردیاجائے کہ ’’خواہ یہ کرخواہ وہ کرتووہ ان دوشقوں میں سے جوشق بھی اختیار کرے بہرحال لائق ملامت نہیں ہوتا۔[33]؎‘‘اس کے بعدصحیح مسلم کی ایک متعلق روایت کوبھی زیر نقدلائے ہیں،جس پر بحث تفصیلی ہے اورتین صفحات تک چلی گئی ہے۔اس کے علاوہ اس واقعہ سے متعلق ترمذی کی روایت کردہ روایتوں پر بھی مفصل نقدکیاہے۔[34]؎
اسی طرح آیت کریمہ ’اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۣ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْ٘ا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًاۣ بِجَهَالَةٍ‘ (الحجرات ۴۹: ۶) میں بہت سارے مفسرین نے فاسق سے مراد حضرت ولید بن عقبہ کو لیاہے جوعمال عثمان میں اہم شخصیت تھے، اور جن پر حضرت ابوبکر،حضرت عمر اور حضرت عثمان، تینوں خلفا نے اعتماد کیا اور اہم مناصب پر فائز رکھا۔ مگر خلیفہ ٔ مظلوم حضرت عثمان کو بطور خاص باغیوں نے اورامت کے بہت سے علما نے ولیدکو کوفہ کی امارت دینے پر ظالمانہ طورپر مطعون کیاہے۔مفسر گرامی نے اس سورہ کی تفسیرمیں ان تمام روایات کا تفصیل سے ناقدانہ جائزہ لیاہے اورسب کو موضوع ثابت کرکے حضرت ولید اموی کی شخصیت کو داغ دارکرنے والے قصہ کے تار و پود بکھیر کر رکھ دیے ہیں، جس کوہمارے مفسرین نمک مرچ لگا کربیان کرتے ہیں۔[35]؎
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[24]؎ مزیدتفصیل کے لیے، نیزاس فلسفہ کی تنقید کے لیے دیکھیے: تفسیر مفتاح القرآن، علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی (۱ / ۹۱ - ۹۴)۔ الطاف احمداعظمی، احیاء امت اورتین دینی جماعتیں۔ پروفسیر محمد صبیح الدین انصاری،کیاانسان اللہ کا خلیفہ ہے، مکتبہ الفوزان۔ ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی، کیا انسان اللہ کا خلیفہ ہے؟ ایک علمی بحث، ماہنامہ التبیان دہلی نومبر ۲۰۰۷ء۔ مولانا وحید الدین خاں، تذکیرالقرآن، طبع ثانی، مکتبہ الرسالہ، ۲۰۰۷ء، صفحہ۲۵۔
[25]؎ علامہ میرٹھی،ملاحظہ ہو: مفتاح القرآن، سورۂ آل عمران، ۱/ ۷۵۹۔
[26]؎ مفتاح القرآن ۱/ ۳۶۶۔
[27]؎ مفتاح القرآن ۱/ ۳۶۸ ۔
[28]؎ مفتاح القرآن ۱/ ۳۶۵ - ۳۷۰۔
[29]؎ تفسیرمفتاح القرآن، تفسیر سورۂ ہود، ۳/ ۱۵۰۔
[30]؎ ملاحظہ ہو:مفتاح القرآن، سورہ الفاتحہ، ۱/ ۳۲۔
[31]؎ ملاحظہ ہو:مفتاح القرآن، سورہ الفاتحہ، ۱/ ۲۲۴- ۲۲۷۔
[32]؎ ملاحظہ ہو: مفتاح القرآن، سورۂ انفال، ۲/ ۶۳۶۔
[33]؎ مفتاح القرآن۲/ ۶۳۷۔
[34]؎ مفتاح القرآن۲/ ۶۳۸۔
[35]؎ ملاحظہ ہو: تفسیر مفتاح القرآن، سورۂ حجرات، مسودہ صفحہ ۵۵۳ تا ۵۶۱۔