[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]
[اس مضمون کی چھتیسویں قسط نومبر۲۰۲۴ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔اس سلسلے کی آخری قسط اس شمارے میں شائع کی جارہی ہے۔ ادارہ]
حضرت عبداللہ بن مخرمہ ہجرت سے انتیس سال پہلے مکہ میں قر یش کی شاخ بنو عامر بن لؤی میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے والد کے اکلوتے بیٹے تھے۔عبد العزیٰ بن ابو قیس دادا اور عامر بن لؤی آٹھویں جد تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کا نسب لؤی بن غالب پر جا ملتا ہے۔ لؤی کے دوسرے بیٹے کعب آپ کے آٹھویں جد تھے۔ بنو مالک بن کنانہ کی ام نہیک بہنانہ بنت صفوان حضرت عبداللہ کی والدہ تھیں۔
حضرت عبداللہ بن مخرمہ عبداللہ اکبر کے لقب سے مشہور ہیں۔ ابو محمد ان کی کنیت ہے، قریش سے تعلق رکھنے کی وجہ سے قرشی اور عامر بن لؤی کی نسبت سے عامری جانے جاتے ہیں۔
ابتداے اسلام میں اسلام کی نعمت سے مالا مال ہوئے۔
پہلی ہجرت سوے حبشہ
رجب ۵/ نبوی(۵۱۶ء) :دین حق کی طرف لپکنے والے مخلصین پرمشرکین مکہ کی ایذائیں حد سے بڑھ گئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے ارشاد فرمایا: ”تم حبشہ کی سرزمین کو نکل جاؤ، وہاں ایسا بادشاہ حکمران ہے جس کی سلطنت میں ظلم نہیں کیا جاتا۔ وہ امن اور سچائی کی سرزمین ہے،(وہاں اس وقت تک قیام کرنا) جب تک اللہ تمھاری سختیوں سے چھٹکارے کی راہ نہیں نکال دیتا۔“چنانچہ سب سے پہلے حضرت عثمان بن عفان کی قیادت میں سولہ اہل ایمان نصف دینار فی مسافر کرائے پر کشتی لے کر حبشہ روانہ ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن مخرمہ ان سولہ اصحاب میں شامل نہ تھے۔ شوال کے مہینے میں دو کشتیوں پر سوارسڑسٹھ اہل ایمان کا دوسرا قافلہ نکلا جس کی قیادت حضرت جعفر بن ابوطالب نے کی، حضرت عبداللہ بن مخرمہ اس قافلے کا حصہ تھے۔بنو عامر بن لؤی کے حضرت ابو سبرہ بن ابو رہم، ان کی اہلیہ حضرت ام کلثوم بنت سہیل،حضرت عبداللہ بن سہیل، حضرت سلیط بن عمرو، حضرت سکرا ن بن عمرو، ان کی اہلیہ حضرت سودہ بنت زمعہ ،حضرت مالک بن زمعہ ، ان کی اہلیہ حضرت عمرہ بنت سعدی، حضرت حاطب عمرواور حضرت سعد بن خولہ ان کے ہم سفر تھے۔
مہاجرین کے حبشہ پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد قریش کے قبول اسلام کی غلط خبر پہنچی تو تینتیس اصحاب اور چھ صحابیات نے یہ کہہ کر مکہ کا رخ کیا کہ ہمارے کنبے ہی ہمیں زیادہ محبوب ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مخرمہ بھی مکہ لوٹ آئے،بنو عامر بن لؤی کے حضرت عبداللہ بن سہیل، حضرت ابو سبرہ بن ابو رہم،ان کی اہلیہ حضرت ام کلثوم بنت سہیل، حضرت سکرا ن بن عمر و اور ان کی اہلیہ حضرت سودہ بنت زمعہ ان کے سا تھ تھے۔
مکہ میں داخل ہونے کے بعد قریش کا تعذیب وایذا کا سلسلہ زیادہ شدت کے ساتھ دوبارہ شروع ہو گیاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے باردگر حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ مہاجرین کے قائدحضرت عثمان بن عفان نے کہا:ہماری ہجرت اولیٰ اور یہ ہجرت نجاشی کی جانب ہے اور آپ ہمارے ساتھ نہ ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: تم اللہ اور میری طرف ہجرت کررہےہو اور تمھیں ان دونوں ہجرتوں کا ثواب ملےگا(الطبقات الکبریٰ۱/ ۱۴۱)۔ ابن سعد اسے ہجرت ثانیہ قرار دیتے ہیں، حالاں کہ ہجرت ثانیہ حضرت جعفر بن ابو طالب کی قیادت میں پہلے ہوچکی تھی۔ حبشہ سے واپس آنے کے بعد حضرت عبداللہ بن مخرمہ مکہ میں مقیم رہے۔
بیعت عقبۂ ثانیہ میں انصارنے جان و مال کی قربانی دینے کا عہد کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کر لی تو آپ نے مکہ کے ستم رسیدہ اہل ایمان کو مدینہ ہجرت کرنے کا اذن دیا۔ حضرت ابوسلمہ نے پہلے مہاجرہونے کا شرف حاصل کیا۔ان کے بعد حضرت عامر بن ربیعہ، حضرت ابو احمد بن جحش اور ان کے اعزہ و اقارب دار ہجرت پہنچے،پھر حضرت عمرنے بیس افراد کا قافلہ لے کر مدینہ کا رخ کیا۔حضرت عبداللہ بن مخرمہ بھی ہجرت کر کے حضرت کلثوم بن ہدم کے مہمان ہوئے ۔ان کے ساتھ حضرت ابو عبیدہ بن جراح، حضرت مقداد بن عمرو،حضرت خباب بن ارت، حضرت سہیل بن بیضا، حضرت صفوان بن بیضا، حضرت عیاض بن زہیر اور کئی اصحاب حضرت کلثوم بن ہدم کی مہمانی میں رہے۔
ہجرت کے پانچ ماہ بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پینتالیس (یا پچاس ) مہاجرین اور اسی تعداد میں انصار کو حضرت انس بن مالک کے گھر جمع کیا اور ان میں مواخات قائم فرمائی۔آپ نے حضرت فروہ بن عمرو بیاضی کو حضرت عبداللہ بن مخرمہ کا انصاری بھائی قراردیا۔
ابن عبدالبر کہتے ہیں: حضرت عبداللہ بن مخرمہ کو حضرت سلمہ بن ہشام، حضرت عیاش بن ابو ربیعہ اور حضرت ولیدبن ولید کی طرح کفار نے مدینہ ہجرت کرنے سے روک دیا۔ حضرت سلمہ ، حضرت عیاش اور حضرت ولیدتو جنگ خندق سے پہلے مدینہ نہ جا سکے، تاہم حضرت عبداللہ بن مخرمہ جنگ بدر کے روز بھاگ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آن ملے(الدرر فی اختصار المغازی والسیر۵۸)۔ ابن عبدالبرکی اس روایت کی ہمیں کسی ذریعے سے تائید نہیں مل سکی، اس لیے اسے حضرت عبداللہ بن مخرمہ کی ہجرت و مواخات کے بارے میں بیان کردہ مشہور روایت پر ترجیح نہیں دی جا سکتی ۔
ابن حجر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مخرمہ نے مدینہ کے مقام بلاط میں حضرت عبداللہ بن عوف کے گھر کے سامنے مکان بنایا تھا۔بلاط مسجد نبوی اوربازار کے درمیان کھلی جگہ تھی جہاں پتھر بچھا ہوا تھا (فتح الباری، رقم۲۴۷۰۔السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۳۰۷۲۔معجم البلدان۱/ ۲۶۰)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں یہودی مرد اور عورت کو رجم کرایا تھا(احمد، رقم ۵۲۷۶)۔ حضرت عبداللہ بن عوف نےاس مقام کے قریب گھر بنایا جسے دار البلاط کہا جاتا تھا، حضرت عبداللہ بن مخرمہ بھی ان کے بالمقابل آن بسے۔
جنگ بدر ۱۷/ رمضان ۲ھ (۱۳/ مارچ ۶۲۴ء) میں مدینہ سے اسّی میل دور بدر کے میدان میں لڑی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں تین سو تیرہ اہل ایمان ابو جہل کے لائے ہوئے ایک ہزارکفارکے خلاف نبردآز ما ہوئے اورنصرت الہٰی سے فتح عظیم حاصل کی ۔ حضرت عبداللہ بن مخرمہ نے بھی داد شجاعت دی اورتیس سال کی عمر میں بدری ہونے کا امتیاز حاصل کیا۔
جنگ احد ۱۷/ شوال ۳ ھ(۲۳/ مارچ۶۲۵ء) میں مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان جبل احدکے دامن میں ہوئی۔ تین ہزار سے زائد مشرک جنگجوؤں کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا، آخر کار مشرک فوج لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلی گئی ۔ حضرت عبداللہ بن مخرمہ اس غزوہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔
قطن بنو اسد بن خزیمہ کے پہاڑ کا نام ہے،وہاں ایک چشمہ بھی تھا۔محرم ۴ ھ میں بنو اسد بن خزیمہ کے ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع دی کہ طلیحہ بن خویلد اور سلمہ بن خویلد اپنے قبیلےکے لوگوں اور حلیفوں کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر اکسا رہے ہیں۔ آپ نے حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد کی قیادت میں ڈیڑھ سو انصار و مہاجرین کا سریہ قطن کی طرف روانہ فرمایا۔اس سریہ میں حضرت عبداللہ بن مخرمہ بھی شا مل تھے۔ سریہ کی آمد پر بنواسد قطن کے چشمہ پراپنے مال مویشی چھوڑ کر بھاگ نکلے۔حضرت ابو سلمہ نے ان کے مویشی دبوچ لیے،تین غلاموں کو پکڑا اور چند دنوں کے بعدمدینہ لوٹ آئے۔ جاسوسی کرنے والے اسدی کو غنیمت میں سے حصہ دیا گیا۔
حضرت عبد اللہ بن مخرمہ نے خندق (ذی قعد ۵ھ، مارچ ۶۲۷ء) اور خیبر(محرم۷ھ۔مئی۶۲۸ء) کے غزوات میں بھی حصہ لیا۔
جمادی الاولیٰ۱۲ھ(دسمبر۶۳۲ء):حضرت عبداللہ بن مخرمہ نے عہدصدیقی میں مدعیِ نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف برپا ہونے والی جنگ یمامہ میں شہادت حاصل کی۔شوق شہادت سے سرشار ہو کر دعا کی : اے اللہ، مجھے اس وقت تک موت نہ آئے جب تک میرا بند بند تیری راہ میں زخموں سے چور چور نہ ہو جائے۔یہ دعا قبول ہوئی، مرتدین کی سرکوبی کرتے ہوئےا س جاں فشانی سے لڑے کہ ہر عضو مجروح تھا۔
حضرت عبداللہ بن مخرمہ ، حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابو حذیفہ کے آزادکردہ حضرت سالم رفقاے کار تھے، باری باری اپنی بکریاں چراتے تھے۔ جس دن جنگ شروع ہوئی ،حضرت عبداللہ بن عمرکی باری تھی۔وہ میدان جنگ میں پہنچے توحضرت عبداللہ بن مخرمہ کو گرا ہوا پایا ، غروب آفتاب ہو چکا تھا اورابن مخرمہ کا آفتاب عمر بھی گہنارہا تھا۔انھوں نے پوچھا: روزہ داروں نے روزہ افطار کر لیا ہے؟ حضرت عبداللہ بن عمر نے کہا: ہاں۔کہا: اس ڈھال میں پانی لا کرمیرے منہ میں پانی ڈال دو، میں بھی روزہ کھول لوں۔وہ پانی لے کر پہنچے تو حضرت عبداللہ بن مخرمہ دم دے چکے تھے۔ ان کی عمر ۴۱ برس ہوئی۔
جنگ یمامہ میں حضرت عبداللہ بن مخرمہ ، حضرت عبداللہ بن سہیل،حضرت ابو دجانہ، حضرت طفیل بن عمرو دوسی، حضرت زرارہ بن قیس اور حضرت ضرار بن ازور سمیت اٹھاون انصار و مہاجرین اور ساڑھے چا رسو دیگر مسلمانوں نے جام شہا دت نوش کیا(البدایۃ والنہایۃ، وفیات سنہ۱۱ھ)۔خلیفہ بن خیاط کہتے ہیں:کل ساڑھے چار سو شہدا میں سے ایک سو چالیس مہاجرین و انصار تھے(تاریخ خلیفہ بن خیاط۱۱۱)۔
حضرت عبد اللہ بن مخرمہ کی اہلیہ حضرت زینب بنت سراقہ کے بطن سے مساحق نے جنم لیا۔یہ بھی اپنے والد کی طرح اکلوتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مخرمہ کےپوتےنوفل بن مساحق اور پرپوتے سعید بن نوفل اموی دور میں زکوٰۃ کے عامل رہے۔نوفل بن مسا حق اور ان کے بیٹے عبدالملک بن نوفل سےکچھ روایات مروی ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مخرمہ کے سکڑ پوتے سعید بن سلیمان تیسرے عباسی خلیفہ مہدی باللہ کے دور حکومت میں مدینہ کے قاضی رہے ۔سعید بن سلیمان کے بیٹے عبدالجبار بن سعید حضرت عبداللہ بن مخرمہ کی نسل کے آخری فرد تھے جنھوں نے مامون الرشید کے عہد میں مدینہ کی گورنری اورپھر قضا کا منصب سنبھالا۔
مطالعۂ مزید: کتاب المغازی (واقدی)، السیرة النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، نسب قریش (مصعب زبیری)، انساب الاشراف(بلاذری)، جمہرة انساب العرب (ابن حزم)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)،الدرر فی اختصار المغازی والسیر(ابن عبدالبر)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم(ابن جوزی)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ (ابن کثیر)،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، اصحاب بدر (قاضی سلیمان منصورپوری)۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ