HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے ابتدائی لوگ

سیرة النبی

ترجمہ و تحقیق: محمد رفیع مفتی/محسن ممتاز


ــــــ ۱ ــــــ

عَنْ شَدَّادِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ الدِّمَشْقِيِّ - وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ:1 قَالَ أَبُو أُمَامَةَ: يَا عَمْرُو بْنَ عَبَسَةَ - صَاحِبَ الْعَقْلِ عَقْلِ الصَّدَقَةِ -، رَجُلٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ بِأَيِّ شَيْءٍ تَدَّعِي أَنَّكَ رُبُعُ الْإِسْلَامِ؟

قَالَ: [رَغِبْتُ عَنْ آلِهَةِ قَوْمِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَرَأَيْتُ أَنَّهَا آلِهَةٌ بَاطِلَةٌ، يَعْبُدُونَ الْحِجَارَةَ، وَالْحِجَارَةُ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ.

فَلَقِيتُ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ فَسَأَلْتُهُ عَنْ أَفْضَلِ الدِّينِ فَقَالَ: يَخْرُجُ رَجُلٌ بِمَكَّةَ وَيَرْغَبُ عَنْ آلِهَةِ قَوْمِهِ وَيَدْعُو إِلَى غَيْرِهَا وَهُوَ يَأْتِي بِأَفْضَلِ الدِّينِ. فَإِذَا سَمِعْتَ بِهِ فَاتَّبِعْهُ.۲

فَلَمْ يَكُنْ لِي هَمٌّ إِلَّا مَكَّةَ فَآتِيهَا فَأَسْأَلُ: هَلْ حَدَثَ فِيهَا أَمْرٌ؟ فَيَقُولُونَ: لَا، فَأَنْصَرِفُ إِلَى أَهْلِي، وَأَهْلِي مِنَ الطَّرِيقِ غَيْرُ بَعِيدٍ، فَأَعْتَرِضُ الرُّكْبَانَ خَارِجِينَ مِنْ مَكَّةَ فَأَسْأَلُهُمْ: هَلْ حَدَثَ فِيهَا خَبَرٌ أَوْ أَمْرٌ؟ فَيَقُولُونَ: لَا، وَإِنِّي لَقَائِمٌ عَلَى الطَّرِيقِ إِذْ مَرَّ بِي رَاكِبٌ فَقُلْتُ: مِنْ أَيْنَ جِئْتَ؟ فَقَالَ: مِنْ مَكَّةَ، فَقُلْتُ: هَلْ حَدَثَ فِيهَا خَبَرٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، رَجُلٌ رَغِبَ عَنْ آلِهَةِ قَوْمِهِ وَدَعَا إِلَى غَيْرِهَا، قُلْتُ: صَاحِبِي الَّذِي أُرِيدُ.

فَشَدَدْتُ عَلَى رَاحِلَتِي  ]،۳ [فَأَقْبَلْتُ إِلَى مَكَّةَ أَسْأَلُ عَنْهُ، (وَوَجَدْتُ قُرَيْشًا عَلَيْهِ حِراصًا جُرَآءَ)۴ فَأُخْبِرْتُ أَنَّهُ مُخْتَفٍ لَا يَقْدِرُ عَلَيْهِ إِلَّا بِاللَّيْلِ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ. فَقُمْتُ بَيْنَ الْكَعْبَةِ وَأَسْتَارِهَا فَمَا عَلِمْتُ إِلَّا بِصَوْتِهِ يُهَلِّلُ اللّٰهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ،۵ فَقُلْتُ: مَا أَنْتَ؟ فَقَالَ: «رَسُولُ اللّٰهِ». فَقُلْتُ: وَبِمَا أَرْسَلَكَ رَبُّكَ؟ قَالَ: «أَنْ يُعْبَدَ اللّٰهُ تَعَالَى وَلَا يُشْرَكَ بِهِ شَيْئًا وَتُحْقَنَ الدِّمَاءُ وَتُوصَلَ الْأَرْحَامُ (وَتُؤَمَّنَ السُّبُلُ وَتُكَسَّرَ الْأَوْثَانُ)». ۶ قُلْتُ: وَمَنْ مَعَكَ عَلَى هَذَا؟ قَالَ: «حُرٌّ وَعَبْدٌ». (قُلْتُ: نِعْمَ مَا أَرْسَلَكَ بِهِ أُشْهِدُكَ أَنِّي قَدْ آمَنْتُ بِكَ وَصَدَّقْتُ قَوْلَكَ)۷ فَقُلْتُ: ابْسُطْ يَدَكَ أُبَايِعْكَ. فَبَسَطَ يَدَهُ فَبَايَعْتُهُ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي رُبُعَ الْإِسْلَام ]،۸ قُلْتُ: إِنِّي مُتَّبِعُكَ، قَالَ: «[قَدْ تَرَى كَرَاهَةَ النَّاسِ لِمَا جِئْتُ بِهِ ]،۹ إِنَّكَ لَا تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ يَوْمَكَ هَذَا، وَلَكِنْ ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ، فَإِذَا سَمِعْتَ بِي قَدْ ظَهَرْتُ فَالْحَقْ بِي».

قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى أَهْلِي وَقَدْ أَسْلَمْتُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهَاجِرًا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَجَعَلْتُ أَتَخَبَّرُ الْأَخْبَارَ حَتَّى جَاءَ رَكَبَةٌ مِنْ يَثْرِبَ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا الْمَكِّيُّ الَّذِي أَتَاكُمْ؟10 قَالُوا: أَرَادَ قَوْمُهُ قَتْلَهُ، فَلَمْ يَسْتَطِيعُوا ذَلِكَ، وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَهُ، وَتَرَكْنَا النَّاسَ سِرَاعًا، قَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ: فَرَكِبْتُ رَاحِلَتِي حَتَّى قَدِمْتُ عَلَيْهِ الْمَدِينَةَ، فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، أَتَعْرِفُنِي؟ قَالَ: «[نَعَمْ، أَنْتَ السُّلَمِيُّ الَّذِي جِئْتَنِي بِمَكَّةَ، فَقُلْتُ لَكَ: كَذَا وَكَذَا، وَقُلْتَ لِي: كَذَا وَكَذَا ]» 11 قَالَ: قُلْتُ: بَلَى....

___________________

شداد بن عبداللہ دمشقی سے روایت ہے  ــــــ  اِنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ کا زمانہ پایا تھا  ــــــ  وہ کہتے ہیں: ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے  دِیتوں کا بار اتارنے میں صدقہ کرنے والے  بنو سُلیم۱؎ کے فرد عمرو بن عبسہ ۲؎ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ یہ دعویٰ کس طرح کرتے ہیں   کہ آپ اسلام قبول کرنے والے چوتھے فرد ہیں؟۳؎

اُنھوں نے بتایا: میں زمانۂ جاہلیت ہی میں اپنی قوم کے خداؤں سے بے زار تھا۔ میں اُنھیں معبودان باطل خیال کرتا تھا۔ وہ لوگ پتھروں کو پوجتے تھے اور پتھر نہ کوئی نقصان دے سکتے ہیں نہ نفع۔

پھر میں اہل کتاب کے ایک آدمی سے ملا تو میں نے اُس سے پوچھا : کون سا دین بہترین ہے؟ اُس نے بتایا کہ مکہ میں ایک آدمی ظاہر ہو گا، جو اپنی قوم کے معبودوں کو چھوڑ دے گا اور اُن کےسوا کسی اور معبودکی طرف بلائے گا۔ وہ سب سے بہتر دین لائے گا۔ جب تم اُس کے بارے میں سنو تو اُس کی پیروی کرنا۔۴؎

بس (اِس کے بعد) میرا مقصد مکہ کو جانا ہی ہوا کرتا تھا، لہٰذا میں (موقع بہ موقع) وہاں جایا کرتا اور لوگوں سے پوچھتا : یہاں کوئی خاص واقعہ ہوا ہے؟ وہ کہا کرتے: نہیں، تو میں گھر لوٹ آتا۔  میرا گھرمکے کے راستے سے زیادہ دور نہ تھا،  لہٰذا میں مکہ سے باہر جانے والے قافلوں سے بھی پوچھا کرتا تھا كہ     مکہ کی سناؤ، وہاں کی کوئی خاص خبر ہے یا کوئی واقعہ وہاں ہوا ہے؟ وہ کہا کرتے: نہیں۔   (اِسی دوران میں ایک دن) ، جب میں راستے میں کھڑا تھا، ایک سوار میرے پاس سے گزرا۔ میں نے اُس سے پوچھا: کہاں سے آ رہے ہو؟ اُس نے کہا: مکہ سے۔ میں نے پوچھا: وہاں کی کوئی خبر ؟ اُس نے کہا: ہاں، وہاں ایک آدمی نے اپنی قوم کے معبودوں کو چھوڑ دیا ہے اور اب وہ لوگوں کو کسی اور معبود کی طرف بلاتا ہے۔ میں نے دل میں کہا : یہی تو وہ آدمی ہے، جس کی مجھے تلاش تھی۔

 چنانچہ میں نے رخت سفر باندھا اور مکہ کا رخ کیا۔ میں آپ کے بارے میں پوچھتا رہا اور میں نے قریش کو آپ کے سخت خلاف پایا۔ پھر مجھے بتایا گیا کہ وہ تو چھپے ہوئے ہیں اور اُن تک صرف رات کے وقت پہنچا جا سکتا ہے، جب وہ بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں۔اِس پر میں کعبہ اور اُس کے پردوں کے درمیان (چھپ کر) کھڑا ہو گیا۔ پھر مجھے آپ کی تسبیح و تہلیل ہی سے آپ کی آمد کی خبر ہوئی۔ میں نے یہ دیکھا تو آپ کے سامنے آ گیا اور آپ سے پوچھا :آپ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا : میں اللہ کا پیغام بر ہوں۔  میں نے پوچھا : آپ کے پروردگار نے آپ کو کیا پیغام دے کر بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ کہ اللہ ہی کی عبادت کی جائے، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرایا جائے، خون نہ بہایا جائے، صلۂ رحمی کی جائے، راستوں کو پُرامن بنایا جائے اور بتوں کو توڑ دیا جائے۔۵؎

 میں نےپوچھا : (اِس دین میں) آپ کے ساتھ کون کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ایک آزاد اور ایک غلام۔۶؎ میں نے کہا: کیا ہی اچھا پیغام دے کر اللہ نے آپ کو بھیجا ہے، میں آپ کے سامنے گواہی دیتا ہوں کہ میں آپ پر ایمان لایا اور آپ کی بات کو میں نے سچ مان لیا ہے۔  پھر میں نے عرض کیا: آپ اپنا ہاتھ بڑھائیں، میں آپ سے بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا   تو میں نے آپ سے اسلام پر بیعت کر لی۔۷؎ چنانچہ میں نے دیکھا کہ میں چوتھا اسلام لانے والا ہوں۔میں نے عرض کیا: میں آپ (کے ساتھ رہ کر آپ) کی پیروی کرنا چاہتا ہوں۔  آپ نے فرمایا:جو پیغام میں لے کر آیا  ہوں، اُس سے لوگوں کی ناگواری تم دیکھ ہی رہے ہو۔ اِن حالات میں تمھارے لیے یہ ممکن نہ ہوگا۔ اِس لیے یہی بہتر ہے کہ ابھی اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ جاؤ۔پھر جب تمھیں معلوم ہو کہ میرا غلبہ ہو گیا ہے تو میرے پاس آ جانا۔

 عمرو بن عبسہ کہتے ہیں : میں اسلام قبول کرنے کے بعد گھر لوٹ آیا۔ پھر (ایک عرصہ بعد)  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ آ گئے۔  میں (اِس عرصے میں وہیں اپنے گھر میں بیٹھا)، آپ کے بارے میں لوگوں سے خبریں لیتا رہتا تھا،  یہاں تک کہ مدینہ کے کچھ سوار آئے اور میں نے اُن سے پوچھا: وہ شخص، جو مکہ کا رہنے والا تمھارے پاس آیا ہے، اُس کی کیا خبر ہے؟ اُنھوں نے بتایا : اُن کی قوم اُن کے قتل کے درپے رہی، لیکن خدا کو منظور نہ تھا، اِس لیے وہ کچھ نہ کر سکے اور اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ لوگ تیزی سے اُن کی طرف بڑھ رہے (اور اسلام قبول کررہے ) ہیں۔ 

عمرو بن عبسہ کہتے ہیں : میں نے اپنی سواری پکڑی  اور آپ کے پاس مدینے آ پہنچا۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے گزارش کی: اے اللہ کے رسول، کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں ، تم وہی سُلَّمی ہو، جو میرے پاس مکے میں آیا تھا اور میں نے(اُس وقت) تم سے یہ یہ باتیں کی تھیں اور تم نے مجھ سے یہ اور یہ کہا تھا۔ عمرو کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : کیوں نہیں، میں وہی تو ہوں ...۔

___________________

۱؎  بنو سلیم قبیلۂ قیس عیلان کی ایک شاخ تھی، جو عدنان کی نسل سے تھے۔ قریش کا تعلق بھی اِسی نسل سے تھا، تاہم یہ قریش میں سے نہیں تھے۔ اِن کے شجرۂ نسب کو دیکھا جائے تو دونوں اوپر مضر بن نزار پر جا کر اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ اِس کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو: جمہرۃ انساب العرب، ابن حزم ۴۸۱۔

۲؎  یہ ماں کی طرف سے ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں۔ ملاحظہ ہو: العدۃ فی شرح العمدۃ فی احادیث الاحکام، ابن العطار ۱/ ۳۳۰۔

۳؎  یہ سوال غالباً اِس لیے پوچھا گیا ہے کہ ابتدا میں تو دعوت خاموشی کے ساتھ اور صرف قریش ہی کو دی گئی تھی ، پھر اُن میں باہر کا کوئی فرد کس طرح شامل ہو گیا؟

۴؎   اِس سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كی  بعثت سے پہلے عرب کے اہل کتاب کس یقین کے ساتھ جانتے تھے کہ آپ کی پیدایش کس قوم میں اور کہاں ہونے والی ہے۔ قرآن نے اِسی بنا پر فرمایا ہے کہ وہ تو اُس کو اِس طرح پہچانتے ہیں، جس طرح کوئی مہجور باپ اپنے بیٹوں کو پہچانتا ہے۔

۵؎  یہ، اگر غور کیجیے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی چیزیں بیان فرمائی ہیں، جن کا تقاضا اُس وقت آپ کے مخاطبین سے ابتدا ہی میں کرنا ضروری تھا۔

۶؎  آزاد سے مراد سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ اور غلام بلال رضی اللہ عنہ  ہیں۔

۷؎  یہ بیعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دور صحابہ میں پھر کسی سے کبھی نہیں لی گئی۔ اِس لیے کہ اسلام خدا کا دین ہے اور اُس کی بیعت خدا کی طرف سے مبعوث کسی شخص کے ہاتھ ہی پر کی جا سکتی ہے۔

متن کے حواشی

۱۔ یہ روایت اصلاً مسند احمد، رقم ۱۷۰۱۹ سے لی گئی ہے۔ اِس کے تنہا راوی عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ اِس کے متابعات اِن مراجع  میں منقول ہیں:

الطبقات الکبریٰ،ابن سعد، رقم۹۳۷۷۔ مسند احمد، رقم ۱۷۰۱۶۔الآحاد والمثانی، ا بن ابی عاصم، رقم ۱۳۲۶،  ۱۳۲۷، ۱۳۲۹۔ صحیح ابن خزیمہ، رقم ۲۶۰، ۱۱۴۷۔مستخرج ابی عوانہ، رقم ۶۶۸۔ معجم ابن الاعرابی، رقم ۱۲۲۔ الشریعہ، آجری، رقم ۹۷۷۔المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۴۲۲۔مسند شامیین، طبرانی، رقم ۸۶۳۔مستدرک حاکم، رقم ۵۸۴، ۱۱۶۲، ۴۴۱۸، ۶۵۸۴، ۷۲۴۰۔ معرفۃ الصحابۃ، ابو نعیم، رقم ۴۹۷۷۔ السنن الکبرىٰ، بیہقی، رقم ۱۳۰۹۵۔  دلائل النبوة، بیہقی۲ /۱۶۸۔

اِس روایت کا کوئی شاہد نہیں ہے۔

۲۔ بعض روایات، مثلاً الآحاد والمثانی، ابن ابی عاصم، رقم ۱۳۲۹ میں اُن کا یہ جواب اِس طرح نقل ہوا ہے:

أُلْقِيَ فِي رُوعِيِ أَنَّ عِبَادَةَ الْأَوْثَانِ بَاطِلٌ. قَالَ: فَسَمِعَنِي رَجُلٌ وَأَنَا أَتَكَلَّمُ بِذَاكَ فَقَالَ: يَا عَمْرُو، بِمَكَّةَ رَجُلٌ يَقُولُ كَمَا تَقُولُ.
’’میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ بتوں کی عبادت باطل ہے۔ راوی کہتے ہیں: ایک آدمی نے مجھے یہ بات کہتے ہوئے سنا تو کہنے لگا: اے عمرو، مکہ میں ایک شخص ہے، جو وہی کچھ کہتا ہے جو تم کہہ رہے ہو۔‘‘

۳۔ مسند شامیین، طبرانی، رقم ۸۶۳۔

۴۔ ’وَوَجَدْتُ قُرَيْشًا عَلَيْهِ حِراصًا جُرَآءَ‘۔ یہ  ٹکڑا مسند شامیین، رقم ۸۶۳ سے لیا گیا ہے۔

۵۔ بعض روایات، مثلاً صحیح ابن خزیمہ، رقم ۱۱۴۷ میں ’فَأُخْبِرْتُ أَنَّهُ مُخْتَفٍ لَا يَقْدِرُ عَلَيْهِ إِلَّا بِاللَّيْلِ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ. فَقُمْتُ بَيْنَ الْكَعْبَةِ وَأَسْتَارِهَا فَمَا عَلِمْتُ إِلَّا بِصَوْتِهِ يُهَلِّلُ اللّٰهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ‘ کے بجاے ’أَتَيْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَازِلٌ بِعُكَاظَ‘، ’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جب کہ آپ عکاظ میں قیام پذیر تھے‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔

۶۔ ’وَتُؤَمَّنَ السُّبُلُ وَتُكَسَّرَ الْأَوْثَانُ‘، یہ ٹکڑا مسند احمد، رقم ۱۷۰۱۶ سے لیاگیا ہے۔

۷۔ ’قُلْتُ: نِعْمَ مَا أَرْسَلَكَ بِهِ أُشْهِدُكَ أَنِّي قَدْ آمَنْتُ بِكَ وَصَدَّقْتُ قَوْلَكَ‘ یہ ٹکڑا مسند شامیین، رقم ۸۶۳ سے لیا گیا ہے۔

۸۔ الآحاد والمثانی، ابن ابی عاصم، رقم ۱۳۲۹۔

۹۔  ’قَدْ تَرَى كَرَاهَةَ النَّاسِ لِمَا جِئْتُ بِهِ‘ یہ ٹکڑا مسند شامیین، رقم ۸۶۳ سے لیا گیا ہے۔

۱۰۔ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے وطن واپس چلے گئے۔ اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کرنے کے فوراً بعد مدینہ نہیں آئے، بلکہ اِنھوں نے غزوہٴ خندق کے بعد کسی وقت ہجرت کی‘‘ (الفتح الربانی فقہی ترتیب مسند احمد ۲۲/ ۳۳۵)۔

۱۱۔ ’نَعَمْ أَنْتَ السُّلَمِيُّ الَّذِي جِئْتَنِي بِمَكَّةَ، فَقُلْتُ لَكَ: كَذَا وَكَذَا، وَقُلْتَ لِي: كَذَا وَكَذَا‘ یہ جملہ مسند شامیین، رقم ۸۶۳ سے لیا گیا ہے۔


ــــــ ۲ ــــــ

عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ:1 أَوَّلُ مَنْ أَظْهَرَ إِسْلَامَهُ سَبْعَةٌ: رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعَمَّارٌ، وَأُمُّهُ سُمَيَّةُ، وَصُهَيْبٌ،2 وَبِلَالٌ، وَالْمِقْدَادُ، فَأَمَّا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنَعَهُ اللّٰهُ بِعَمِّهِ أَبِي طَالِبٍ، وَأَمَّا أَبُو بَكْرٍ، فَمَنَعَهُ اللّٰهُ بِقَوْمِهِ، وَأَمَّا سَائِرُهُمْ فَأَخَذَهُمُ الْمُشْرِكُونَ، فَأَلْبَسُوهُمْ أَدْرَاعَ الْحَدِيدِ، وَصَهَرُوهُمْ فِي الشَّمْسِ، فَمَا مِنْهُمْ إِنْسَانٌ إِلَّا وَقَدْ وَاتَاهُمْ عَلَى مَا أَرَادُوا، إِلَّا بِلَالٌ، فَإِنَّهُ هَانَتْ عَلَيْهِ نَفْسُهُ فِي اللّٰهِ، وَهَانَ عَلَى قَوْمِهِ، فَأَعْطَوْهُ الْوِلْدَانَ، وَأَخَذُوا يَطُوفُونَ بِهِ شِعَابَ مَكَّةَ، وَهُوَ يَقُولُ: أَحَدٌ، أَحَدٌ.

___________________

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:   ابتدا میں اسلام کو علانیہ قبول کرنے والے سات افرا دتھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود ، ابوبکر، عمار،  اُن کی والدہ سمیہ،  صہیب، بلال اور مقداد رضوان اللہ  علیہم اجمعین۔  (مشرکین مکہ نے جب اِن کے اسلام لانے پر شدید رد عمل ظاہر کیا تو) جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا تعلق ہے، آپ کو تو اللہ نے آپ کے چچا ابوطالب کے ذریعے سے محفوظ رکھا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اُن کی قوم کے ذریعے سے بچایا۔ رہے باقی افراد، (جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے آزمایش مقدر کر رکھی تھی) تو اُنھیں مشرکین نے پکڑ لیا۔ وہ اُنھیں  لوہے کی زرہیں پہناتے اور دھوپ میں جھلسنے  کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔ اُن میں سے بلال رضی اللہ عنہ کے سوا باقی لوگوں نے (بادل نخواستہ) مشرکین کا مطالبہ پورا کر دیا،۱؎ لیکن سیدنا  بلال نے اللہ کی راہ میں اپنی ذات کو کوئی حیثیت نہ دی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ  وہ اپنی قوم (قریش) کے لیے آسان ہدف بن گئے۔ وہ اُنھیں (خود عذاب دینے کے بعد) لڑکوں کے حوالے کر دیتے،  جو اُنھیں (تنگ کرتے اور ستاتے ہوئے) مکہ کی گھاٹیوں میں گھسیٹتے  پھرتے اور سیدنا بلال اِس حال میں بھی ’أحد، أحد‘ ’’وہ اکیلا ہے،وہ اکیلا ہے‘‘کہتے جاتے تھے۔۲؎

___________________

۱؎  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت جس قبائلی تمدن میں ہوئی تھی، وہاں زیردستوں کے لیے اِس کی کوئی گنجایش نہ تھی کہ اپنے آقاؤں کی مرضی کے خلاف وہ کوئی مذہب اختیار کر لیں ، لہٰذا زیادہ تر لوگوں کو اِسی طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ اِس کی تفصیلات تاریخ کی کتابوں میں دیکھ لی جا سکتی ہیں۔

۲؎  بلال رضی اللہ عنہ کی یہی استقامت ہے، جس کی بنا پر صدیق و فاروق جیسے اساطین امت بھی اپنی سعادت سمجھتے تھے کہ اُنھیں سیدنا بلال کہہ کر پکاریں۔

متن کے حواشی

۱۔اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۳۸۳۲ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے تنہا راوی عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔اِس کے متابعات اِن مراجع میں دیکھے جا سکتے ہیں:

مصنف ابن ابی  شیبہ، رقم۳۲۳۳۳، ۳۵۷۹۵، ۳۶۵۹۳۔فضائل الصحابۃ، احمد بن حنبل، رقم ۱۹۱۔ سنن ابن ماجہ، رقم۱۵۰۔ الآحاد والمثانی، ابن ابی عاصم، رقم ۲۶۹۔مسند بزار، رقم ۱۸۴۵۔ مسند شاشی، رقم۶۴۱۔ صحیح ابن حبان، رقم ۷۰۸۳۔ الشریعہ، آجری، رقم ۱۲۵۶، ۱۲۵۷۔ حلیۃ الاولیاء، ابو نعیم اصبہانی ۱/۱۴۹۔ السنن الکبرىٰ، بیہقی، رقم ۶۸۹۷۔دلائل النبوة، بیہقی   ۲/ ۱۷۰، ۲۸۱۔

اِس روایت کا کوئی شاہد نہیں ہے۔

۲۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم  ۳۲۳۳۳ میں ’صہیب‘ صحابی کی جگہ ’عمر ‘ کا لفظ آیا ہے، اِس حوالے سے یہ روایت شاذ ہے ۔


ــــــ۳ ــــــ

عَنْ عَمَّارٍ، یقُولُ:1 رَأَيْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا مَعَهُ إِلَّا خَمْسَةُ أَعْبُدٍ، وَامْرَأَتَانِ وَأَبُو بَكْرٍ.

___________________

عمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا ہے کہ (اسلام لانے والوں میں سے ) آپ کے ساتھ پانچ غلاموں، دو عورتوں اور ابوبکر رضی اللہ عنہم کے سوا اور کوئی نہ تھا۔۱؎

___________________

۱؎  اِس پر تعجب نہ ہونا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بعد میں وہ وقت بھی دیکھ لیا، جب لوگ ہزاروں کی تعداد میں فوج در فوج آپ کے دین میں داخل ہو گئے، لیکن قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک کے تہذیبی غلبے کے زمانے میں جن پیغمبروں نے توحید کی دعوت دی ہے، اُن میں سے بعض کے اپنی قوم کو چھوڑ کر جانے کے وقت بھی اتنے لوگ اُن کے ساتھ نہیں تھے، جتنے یہاں ابتدا میں بیان ہوئے ہیں۔

متن کے حواشی

۱۔اِس روایت کا متن صحیح بخاری، رقم ۳۶۶۰ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے تنہا راوی عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ہیں۔اِس کے متابعات اِن مراجع میں منقول ہیں:

فضائل الصحابۃ، احمد بن حنبل، رقم ۲۳۲۔ صحیح بخاری، رقم ۳۶۶۰، ۳۸۵۷۔ معجم ابن الاعرابی، رقم ۱۲۳۔ مستدرک حاکم، رقم ۵۶۸۲۔ معرفۃ الصحابۃ، ابو نعیم، رقم ۵۲۰۶۔السنن الکبرىٰ، بیہقی، رقم ۱۳۰۹۴۔ دلائل النبوة، بیہقی ۲/ ۱۶۷۔

اِس روایت کا بھی کوئی شاہد نہیں ہے۔

المصادر و المراجع

ابن أبي حاتم عبد الرحمٰن الرازي. (1427هـ/2006م). العلل. ط 1. تحقيق: فريق من الباحثين بإشراف وعناية د/ سعد بن عبد الله الحميد و د/ خالد بن عبد الرحمٰن الجريسي. الرياض: مطابع الحميضي.

ابن أبي حاتم عبد الرحمٰن الحنظلي. (1271هـ/1952م). الجرح والتعديل. ط 1. حيدر آباد الدكن. الهند: طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية. بيروت: دار إحياء التراث العربي.

ابن أبي شيبة عبد الله بن محمد. (1409هـ). الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار. ط1. تحقيق: كمال يوسف الحوت. الرياض: مكتبة الرشد.

ابن أبي شيبة أبو بكر عبد الله بن محمد العبسي. (۱۹۹۷م). المسند. ط۱. تحقيق: عادل بن يوسف العزازي وأحمد بن فريد المزيدي. الرياض: دار الوطن.

ابن أبي عاصم أحمد بن عمرو الشيباني. الأوائل لابن أبي عاصم. المحقق: محمد بن ناصر العجمي. الكويت: دار الخلفاء للكتاب الإسلامي.

ابن أبي عاصم أحمد بن عمرو الشيباني. (۱٤۱۱هـ/۱۹۹۱م). الآحاد والمثاني. ط۱. تحقيق: د. باسم فيصل أحمد الجوابرة. الرياض: دار الراية.

ابن الأعرابي أبو سعيد أحمد بن محمد البصري. (۱٤۱۸هـ/۱۹۹۷م). كتاب المعجم. ط۱. تحقيق وتخريج: عبد المحسن بن إبراهيم بن أحمد الحسيني. الناشر: الدمام: دار ابن الجوزي.

ابن حبان محمد بن حبان. (1420هـ/2000م). المجروحين من المحدثين. ط1. تحقيق: حمدي بن عبد المجيد السلفى. دار السميعي.

ابن حبان محمد بن حبان البُستي. (۱4۱4هـ/۱۹۹۳م). صحيح ابن حبان. ط۲. تحقيق: شعيب الأرنؤوط. بيروت: مؤسسة الرسالة.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1406هـ/1986م). لسان الميزان. ط 3. تحقيق: دائرة المعرف النظامية الهند. بيروت: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1417هـ/1997م). تحرير تقريب التهذيب. ط1. تاليف: الدكتور بشار عواد معروف، الشيخ شعيب الأرنؤوط. بيروت: لبنان. مؤسسة الرسالة للطباعة والنشر والتوزيع.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1403هـ/1983م). طبقات المدلسين. ط 1. تحقيق: د. عاصم بن عبد الله القريوتي. عمان: مكتبة المنار.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1404هـ/1984م). النكت على كتاب ابن الصلاح. ط 1. تحقيق: ربيع بن هادي المدخلي. المدينة المنورة، المملكة العربية السعودية: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية.

ابن خزيمة أبو بكر محمد بن إسحٰق النيسابوري. (د.ت). الصحيح. د.ط. تحقيق: د. محمد مصطفى الأعظمي. بيروت: المكتب الإسلامي.

ابن رجب عبد الرحمٰن السَلامي. (1407هـ/1987م). شرح علل الترمذي. ط1. تحقيق: الدكتور همام عبد الرحيم سعيد. الأردن: مكتبة المنار (الزرقاء).

ابن سعد محمد بن سعد. (۱٤۰۸ه). الطبقات الكبرى. ط ۲. تحقيق: زياد محمد منصور. المدينة المنورة: مكتبة العلوم والحكم.

ابن عدي عبد الله بن عدي الجرجاني. (1418هـ/1997م). الكامل في ضعفاء الرجال. ط1. تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود، علي محمد معوض. بيروت: الكتب العلمية.

ابن الکيال ابو البركات محمد بن احمد. (1420هـ/1999م). الکواکب النيرات. ط 2. تحقيق: عبد القيوم عبد رب النبي. مكة مكرمة: المكتبة الامدادية.

ابن ماجه محمد بن يزيد القزويني. (د.ت). سنن ابن ماجه. ط۱. تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي. بيروت: دار الفکر.

ابن المِبرَد يوسف بن حسن الحنبلي. (1413هـ/1992م). بحر الدم فيمن تكلم فيه الإمام أحمد بمدح أو ذم. ط1. تحقيق وتعليق: الدكتورة روحية عبد الرحمٰن السويفي. لبنان، بيروت: دار الكتب العلمية.

ابن المديني علي بن عبد الله السعدي. (1980م). العلل. ط 2. تحقيق: محمد مصطفى الأعظمي. بيروت: المكتب الإسلامي.

ابن معين يحيى بن معين البغدادي. (1399هـ/1979م). تاريخ ابن معين. ط1. تحقيق: د. أحمد محمد نور سيف. مكة المكرمة: مركز البحث العلمي وإحياء التراث الإسلامي.

أبو اسحاق الحويني. (1433هـ/2012م). نثل النبال بمعجم الرجال. ط 1. جمعه ورتبه: أبو عمرو أحمد بن عطية الوكيل. مصر: دار ابن عباس.

أبو داود سليمان بن الأشعث السَّجِسْتاني. (1403هـ/1983م). سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود السجستاني في الجرح والتعديل. ط 1. تحقيق: محمد علي قاسم العمري. المدينة المنورة: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية.

أبو عوانة يعقوب بن إسحٰق. (۱٤۱۹هـ/۱۹۹۸م). المستخرج. ط۱. تحقيق: أيمن بن عارف الدمشقي. بيروت: دار المعرفة.

أبو نعيم احمد بن عبدالله اصبهاني. (د.ت). معرفة الصحابة. ط۱. تحقيق: مسعد السعدني. بيروت: دارالکتاب العلمية.

أبو نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني. (۱۳۹٤هـ/۱۹۷٤م). حلية الأولياء وطبقات الأصفياء. د. ط. بيروت: دار الكتاب العربي.

الآجُرِّيُّ محمد بن الحسين. (۱٤۲۰هـ/۱۹۹۹م). الشريعة. ط ۲. تحقيق: الدكتور عبد الله بن عمر بن سليمان الدميجي. الرياض: دار الوطن.

أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني. (1422هـ/2001م). العلل و معرفة الرجال. ط 2. تحقيق و تخريج: د وصي الله بن محمد عباس. الرياض: دار الخاني فرقد فريد الخاني.

أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني. (1421هـ/2001م). مسند الإمام أحمد بن حنبل. ط 1. تحقيق: شعيب الأرنؤوط - عادل مرشد، وآخرون. إشراف: د عبد الله بن عبد المحسن التركي. دار النشر: مؤسسة الرسالة. بيروت: مؤسسة الرسالة.

أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني. (1408هـ/1988م). العلل و معرفة الرجال. ط 1. تحقيق و تخريج: د وصي الله بن محمد عباس. بيروت: المكتب الإسلامي. الرياض: دار الخاني.

أحمد بن محمد بن حنبل أبو عبد الله الشيباني. (۱٤۰۳هـ/۱۹۸۳م). فضائل الصحابة. ط۱. تحقيق: د. وصي الله محمد عباس. بيروت: مؤسسة الرسالة.

الألباني محمد ناصر الدين. (1421هـ/2001م). صحيح السيرة النبوية. ط1. عمان الاردن: المكتبة الإسلامية.

البخاري محمد بن إسمٰعيل الجعفي. (2009م). التاريخ الكبير. تحقيق: السيد هاشم الندوي. بيروت: دار الفكر.

البخاري محمد بن إسمٰعيل الجعفي. (1397هـ/1977م). التاريخ الأوسط. ط 1. حلب. القاهرة: دار الوعي مكتبة دار التراث.

البخاري محمد بن إسمٰعيل. (۱٤۲۲هـ). الجامع الصحيح. ط۱. تحقيق: زهير الناصر. بيروت: دار طوق النجاة.

البزار أحمد بن عمرو. (۲۰۰۹م). مسند البزار. ط۱. تحقيق: محفوظ الرحمٰن زين الله، وعادل بن سعد، وصبري عبد الخالق الشافعي. المدينة المنورة: مکتبة العلوم والحکم.

البيهقي أحمد بن الحسين. (1414هـ/1994م). السنن الکبري. ط۱. تحقيق: محمد عبد القادر عطاء. مکة المکرمة: مکتبة دار الباز.

البيهقي أحمد بن الحسين. (۱٤۰5هـ). دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة. ط۱. بيروت: دار الكتب العلمية.

الحاكم محمد بن عبد الله المعروف بابن البيع. (۱٤۱۱هـ/۱۹۹۰م). المستدرك على الصحيحين. ط۱. تحقيق: مصطفى عبد القادر عطاء. بيروت: دار الكتب العلمية.

خالد الرباط سيد عزت عيد. (1430هـ/2009م). الجامع لعلوم الإمام أحمد (الأدب والزهد). ط1. مصر: دار الفلاح للبحث العلمي وتحقيق التراث.

الدارقطني علي بن عمر. (1405هـ/1985م). العلل الواردة في الأحاديث النبوية. ط1. تحقيق وتخريج: محفوظ الرحمٰن زين الله السلفي. الرياض: دار طيبة.

الذهبي محمد بن أحمد. (1413هـ/1992م). الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة. ط1. تعليق: امام برهان الدين أبي الوفاء إبراهيم بن محمد. جدة: دار القبلة للثقافة الاسلامية، مؤسسة علوم القرآن.

الذهبي محمد بن أحمد. (2003م). تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام. ط 1. تحقيق: الدكتور بشار عوّاد معروف. بيروت: دار الغرب الإسلامي.

الذهبي محمد بن أحمد. (1387هـ/1967م). ديوان الضعفاء والمتروكين. ط 2. تحقيق: حماد بن محمد الانصاري. مكة: مكتبة النهضة الحديثة.

سبط ابن العجمي برهان الدين الحلبي. (1988م). الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط. ط 1. تحقيق: علاء الدين علي رضا. القاهرة: دار الحديث.

سبط ابن العجمي برهان الدين الحلبي. (1986م). التبيين لأسماء المدلسين. ط 1. تحقيق: يحيى شفيق حسن. بيروت: دار الكتب العلمية.

سبط ابن العجمي برهان الدين الحلبي. (1407هـ/1987م). الكشف الحثيث عمن رمي بوضع الحديث. ط 1. المحقق: صبحي السامرائي. بيروت: عالم الكتب، مكتبة النهضة العربية.

الشاشي الهيثم بن کليب. (1410هـ). مسند الشاشي. ط۱. تحقيق: محفوظ الرحمٰن زين اللّٰه. المدينة المنورة: مکتبة العلوم والحکم.

الطبراني أبو القاسم سليمان بن أحمد الشامي. (۱٤۰5ه/۱۹۸٤م). مسند الشاميين. ط۱. تحقيق: حمدي بن عبد المجيد السلفي. بيروت: مؤسسة الرسالة.

الطيالسي سليمان بن داود. (1419هـ/1999م). مسند أبي داود الطيالسي. ط 1. تحقيق: الدكتور محمد بن عبد المحسن التركي. مصر: دار هجر.

العجلي أحمد بن عبد الله. (1405هـ/1985م). معرفة الثقات. ط 1. تحقيق: عبد العليم عبد العظيم البستوي. المدينة المنورة: مكتبة الدار.

الكَشّي أبو محمد عبد الحميد بن حميد بن نصر. (۱٤۰۸هـ/۱۹۸۸م). المنتخب من مسند عبد بن حميد. ط۱. تحقيق: صبحي البدري السامرائي، محمود محمد خليل الصعيدي. القاهرة: مكتبة السنة.

مسلم بن الحجاج النيسابوري. (د.ت). الجامع الصحيح. د.ط. تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي. بيروت: دار إحياء التراث العربي.

مغلطاي علاء الدين بن قليج. (1422هـ/2001م). إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال. ط 1. تحقيق: أبو عبد الرحمٰن عادل بن محمد، أبو محمد أسامة بن إبراهيم. القاهرة: الفاروق الحديثة للطباعة والنشر.

النسائي أحمد بن شعيب. (۱4۰6هـ/۱۹۸6م). السنن الصغري. ط۲. تحقيق: عبد الفتاح أبو غدة. حلب: مکتب المطبوعات الإسلامية.

النسائي أحمد بن شعيب. (1411هـ/1991م). السنن الکبري. ط۱. تحقيق: عبد الغفار سليمان البنداري، سيد کسروي حسن. بيروت: دار الکتب العلمية.

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 

B