HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الشوریٰ ۴۲: ۱-۱۰ (۱)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

حٰمٓ١ عٓسٓقٓ٢ كَذٰلِكَ يُوْحِيْ٘ اِلَيْكَ وَاِلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ اللّٰهُ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ٣ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ٤ تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْ فَوْقِهِنَّ وَالْمَلٰٓئِكَةُ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِمَنْ فِي الْاَرْضِ اَلَا٘ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ٥ وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖ٘ اَوْلِيَآءَ اللّٰهُ حَفِيْظٌ عَلَيْهِمْ وَمَا٘ اَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيْلٍ٦


ـــــــــــــــــــ ۲ ـــــــــــــــــــ

اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے ، جس کی شفقت ابدی ہے ۔

یہ سورۂ ’حٰمٓ عٓسٓقٓ‘ ہے۔ [73]

اللہ ، غالب اور حکیم[74] اِسی طرح تمھاری طرف وحی کرتا ہے اور جو تم سے پہلے گزرے ہیں، اُن کی طرف بھی اِسی طرح وحی کرتا رہا ہے، (اِنھی مطالب کے ساتھ اور اِسی طریقے سے)۔ [75] آسمانوں میں جو کچھ ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اُسی کا ہے اور وہ برتر اور عظیم ہے۔[76] قریب ہے کہ آسمان (اُس کی ہیبت کے مارے)اپنے اوپر سے پھٹ پڑیں اور فرشتے، وہ تو اپنے پروردگار (کی خشیت کے سبب سے اُس) کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح[77] اور زمین والوں کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔[78] سنو، حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اِس کے باوجود جن لوگوں نے اُس کے سوا دوسرے کارساز بنا رکھے ہیں، اللہ اُن پر نگران ہے[79] اور ، (اے پیغمبر)، تم اُن پر ذمہ دارنہیں بنائے گئے ہو۔[80] ۱- ۶


وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَا٘ اِلَيْكَ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰي وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنْذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيْهِ فَرِيْقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيْقٌ فِي السَّعِيْرِ٧

اِسی طرح، (جیسے کہ بیان ہوا) ہم نے ایک عربی قرآن[81] تمھاری طرف وحی کیا ہے تاکہ تم مکہ والوں[82] کو اور اُس کے گردوپیش رہنے والوں کو خبردار کردو،[83] خاص کر اُس دن سے خبردار کر دو جو سب لوگوں کے جمع ہونے کا دن ہے، جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے۔ اُس دن ایک گروہ جنت میں ہو گا اور ایک گروہ جہنم میں۔۷


وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَهُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰكِنْ يُّدْخِلُ مَنْ يَّشَآءُ فِيْ رَحْمَتِهٖ وَالظّٰلِمُوْنَ مَا لَهُمْ مِّنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ٨ اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖ٘ اَوْلِيَآءَ فَاللّٰهُ هُوَ الْوَلِيُّ وَهُوَ يُحْيِ الْمَوْتٰي وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ٩ وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْهِ مِنْ شَيْءٍ فَحُكْمُهٗ٘ اِلَي اللّٰهِ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبِّيْ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ١٠

(اِس سے زیادہ تمھاری کوئی ذمہ داری نہیں ہے)۔ اگر اللہ چاہتا تو اِن سب کو ایک ہی امت بنا دیتا، لیکن (اُس نے لوگوں کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی، لہٰذا اب) وہ جس کو چاہتا ہے، (اپنے قانون کے مطابق) [84]اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور رہے وہ لوگ جو اپنی جان پر ظلم ڈھانے والے ہیں تو اُن کا نہ کوئی کارساز ہو گا اور نہ مددگار۔ کیا اِن لوگوں نے اللہ کے سوا دوسرے کارساز بنا رکھے ہیں؟ تو یاد رکھیں کہ اللہ ہی کارساز ہے، وہی مردوں کو زندہ کرے گا اور (یہ اُس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں)، وہ ہر چیزپر قدرت رکھتا ہے۔ تم[85] جن چیزوں میں بھی کوئی اختلاف رکھتے ہو، (خواہ وہ توحید ہے یا آخرت)، اُس کا فیصلہ اللہ ہی کے حوالے ہے۔ وہی اللہ میرا پروردگار ہے، اُسی پر میں نے بھروسا کیا ہے اور اُسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔ ۸- ۱۰

[73]۔ اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے متعلق اپنا نقطۂ نظر ہم نے سورۂ بقرہ (۲)کی آیت ۱ کے تحت بیان کردیا ہے۔ پچھلی سورہ کا نام بھی ’حٰمٓ‘ ہے۔ یہاں اُس پر ’عٓسٓقٓ‘ کا اضافہ ہے۔ یہ اِس بات کا قرینہ ہے کہ سورۂ حٰم السجدہ کے ساتھ اِس سورہ کا تعلق ایک تکملہ یا تتمہ کا ہے جس میں بعض خاص مطالب کی توضیح کی گئی ہے جو پچھلی سورہ میں بیان نہیں ہوئے ہیں۔[74]۔ یعنی جو زبردست ہے اور چاہے تو گردن کشوں کی گردن دبا سکتا ہے، لیکن وہ حکیم بھی ہے، اِس لیے اُنھیں مہلت دیتا اور اُن کی ہدایت کے لیے یہ اہتمام فرماتا ہے ـــــ مدعا یہ ہے کہ آپ بھی اپنے رب عزیز و حکیم پر بھروسا رکھیں۔ آپ کے مخاطبین کی مہلت ختم ہو جائے گی تو یہ بھی اُس کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے۔[75]۔ یعنی اُسی دین کی تعلیمات کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں کو وحی کے ذریعے سے دیا۔ چنانچہ اِس قرآن میں نہ کوئی نیا دین بیان ہوا ہے اور نہ اُس کے دینے کے لیے پچھلے پیغمبروں کے طریقے سے مختلف کوئی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ قرآن کے مخاطبین جن چیزوں پر اصرار کر رہے ہیں کہ خدا خود اپنے فرشتوں کے ساتھ بدلیوں میں نمودار ہو یا اُن میں سے ہر شخص سے براہ راست رابطہ کرکے اُس کو اپنا پیغام پہنچائے، اِن میں سے کوئی طریقہ بھی خدا نے کبھی اختیار نہیں کیا۔ اُس کا طریقہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ انسانوں میں سے اپنے کچھ خاص بندوں کو وہ نبوت کے لیے منتخب کرتا ہے، پھر اُن کو وحی کے ذریعے سے اپنا پیغام دیتا اور اُنھی کے ذریعے سے اُس کو لوگوں تک پہنچاتا ہے۔

[76]۔ لہٰذا اُس کی بارگاہ میں اِس طرح کے مطالبات پیش کرنے کی جسارت کسی کو بھی نہیں کرنی چاہیے کہ وہ سامنے آئے اور لوگوں سے خود ہم کلام ہو۔

[77]۔ تسبیح میں تنزیہہ کا پہلو غالب ہے اور حمد میں اثبات کا۔ استاذ امام کے الفاظ میں، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کو تمام خلاف شان باتوں سے، جن میں سب سے زیادہ نمایاں شرک ہے، پاک اور تمام اعلیٰ صفات سے، جن میں سب سے مقدم توحید ہے، متصف قرار دیتے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ تمام قربت کے باوجود ، جو فرشتوں کو خدا کی بارگاہ میں حاصل ہے، اُن کا حال یہ ہے کہ خدا کی خشیت سے لرزاں و ترساں ہیں اور یہ احمق اُنھیں معبود بنائے بیٹھے ہیں، جب کہ وہ اِس کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کسی کو خدا کا شریک ٹھیرا دیں۔

[78]۔ یعنی زمین پر جو اہل ایمان ہیں، اُن کی مغفرت کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ یہی اُن کی شفاعت ہے۔ اِس سے آگے کوئی چیز اُن کے اختیار میں نہیں ہے۔

[79]۔ یہ نہایت سخت وعید ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نگران ہے تو اِن کے تمام کرتوتوں کو دیکھ بھی رہا ہے، لہٰذا مہلت پوری ہو جائے گی تو اِن کواِن کے انجام تک پہنچا دے گا۔

[80]۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ تمھاری ذمہ داری صرف دعوت و تبلیغ کی ہے۔ اِس لیے یہ نہیں مانتے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اِن کی پرسش اِنھی سے ہونی ہے، تم سے نہیں ہونی ہے۔

[81]۔ قرآن کے ساتھ ’عَرَبِيّ‘کی صفت بطور امتنان اور اتمام حجت ہے کہ اِس کے بعد اہل عرب کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے۔

[82]۔ اصل میں لفظ ’اُمَّ الْقُرٰي‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ مرکزی بستی کو کہتے ہیں اور عرب میں مرکزی بستی کی حیثیت مکہ ہی کو حاصل تھی۔ یہ بھی، ظاہر ہے کہ اتمام حجت کے پہلو سے ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...اگر ایک پیغام مرکزی بستی کے لوگوں تک پہنچا دیا گیا ہے تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ اُس ملک کے لوگوں کو اُن کے سر پر چڑھ کر پکار دیا گیا ہے۔ اگر ’اُمُّ الْقُرٰي‘کے بجاے عرب کے کسی گوشے سے یہ دعوت اٹھتی تو باتیں بنانے والے یہ بات بنا سکتے تھے کہ آخر ہمارے اکابر و سادات اور ہمارے ذہین طبقہ کو چھوڑ کر قرآن نے سب سے پہلے عوام کے طبقے کو کیوں مخاطب کیا، اُس کے حق و باطل کے اصلی پرکھنے والے تومکہ کے سادات ہو سکتے تھے!‘‘(تدبرقرآن۷/ ۱۴۳)

[83]۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت براہ راست اہل عرب کی طرف ہوئی تھی۔ اِس میں شبہ نہیں کہ دنیا کی دوسری تمام قومیں بھی آپ پر ایمان اور آپ کی اطاعت کی مکلف ہیں، لیکن اُن تک پیغام پہنچانے کی ذمہ داری قرآن نے براہ راست آپ پر نہیں، بلکہ آپ کی قوم بنی اسمٰعیل پر ڈالی ہے جس میں تبعاً دوسرے مسلمان بھی شریک ہیں۔ اِس کی وضاحت دوسرے مقامات میں ہوگئی ہے۔

[84]۔ یعنی اِس قانون کے مطابق کہ اُس کی رحمت کے مستحق وہی ہوں گے جو شرک اور نافرمانی اختیار کرکے اپنی جان پر ظلم نہیں ڈھائیں گے، بلکہ خدا کی بخشی ہوئی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں گے اور اُس کی ہدایت کی قدر کریں گے۔قرآن میں یہ قانون متعدد جگہوں پر بیان ہوا ہے اور ہر جگہ یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کو کوئی بدل نہیں سکتا، لیکن اُس کی یہ مشیت اندھا دھند نہیں ہے، یہ اُس کے عدل اور اُس کی حکمت کے تحت ہے۔

[85]۔ یہاں سے متکلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہو گئے ہیں۔ گویا اوپر جو فرمایا تھا کہ تمھاری ذمہ داری صرف دعوت و تبلیغ ہے، اِس کے بعد لوگوں کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے تو آپ نے اُس کی تعمیل کر دی۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 

B