بندۂ مومن کا خدا سے تعلق بندگی کا ہے۔ بر صغیر کی مذہبی روایت میں بندگی دو پہلوؤں سے عبارت ہے۔ ایمان و عمل کی صالحیت اور دوسرا احوال قلب کا ظہور۔ جب ہم علما کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو عام طور پر ایمان و عمل کے مباحث سے سابقہ پیش آتا ہے۔بیان دین کے مقصد سے لکھی گئی کتابیں زیادہ تر اس ضرورت کو پورا کرتی ہیں کہ قاری ایمانیات اور شریعت کی تفصیلات سے آگاہی حاصل کرے، لیکن جب ہم صوفیہ کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہاں بیان دین کے مباحث کم اور اصل زور احوال باطن کے بیان پر ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ کتابیں تصوف کے فکری اور عملی پہلوؤں کو بھی بیان کرتی ہیں، لیکن اس وقت ان پر کلام پیش نظر نہیں ہے، صرف اتنی بات کہنا کافی ہے کہ اصول میں فکر تصوف کے باطنی اہداف اور ہیں اور بندگی کے باطنی احوال شئ دیگر ہیں۔اگرچہ بعض الفاظ اور تعبیرات یہ مکاتب فکر مشترک بھی استعمال کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں دعوت کا مرکزی نکتہ فلاح آخرت ہے۔ فلاح آخرت کے لیے لازم ہے کہ زندگی ایمان بر حق اور اعمال صالحہ سے عبارت ہو۔اثم، فاحشات اور سرکشی سے مکمل اجتناب ہو اور عدل واحسان اور مدد و اعانت پر بھر پور عمل ہو۔قرآن مجید میں متعدد جگہ پر ان اعمال کو بیان کیا گیا ہے جو ایک بندۂ مومن سے مطلوب ہیں۔ ان میں اللہ کے حوالے سے اسے الٰہ واحد ماننے اور اس کی عبادت کا ذکر ہوتا ہے اور بندوں کی نسبت سے اعلیٰ اخلاقی اعمال بیان کیے جاتے ہیں۔ان مقامات کے مطالعے سے واضح ہے کہ دینی شعور ان حقائق کے ادراک سے تکمیل پاتا ہے جو اللہ کی ہستی اور انسانوں کے بارے میں اس کے فیصلوں کے علم سے متعلق ہیں۔ اور دینی زندگی ان اعمال سے وجود پذیر ہوتی ہے جو اللہ اوراس کے بندوں کے حقوق کی حیثیت سے بندۂ مومن پر عائد ہوتے ہیں۔پہلے پہلو کے لیے جامع لفظ ’ایمانیات‘ ہے اور دوسرے کے لیے کامل تعبیر ’اعمال صالحہ‘ کی ہے۔
انسان اپنے ادراکات اور حاصلات کے مطابق اپنے اندر احوال بھی پیدا کرتا ہے۔ یہ احوال باطن و ظاہر میں آنے والی تبدیلیوں کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔
اللہ کی صفات اور اللہ کے مقام کا شعور اللہ کے لیے بندے کے اندر صرف اطاعت پیدا نہیں کرتا، بلکہ توکل، تفویض، انابت، یاد اور ہر حال میں راضی برضا ہونے کے احوال بھی پیدا کرتا ہے۔ دینی اعمال پر عمل میں صرف صحت عمل کا جذبہ ہی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ عمل میں درجۂ احسان کو پانے کا ذوق و شوق بھی پیدا ہوتا ہے۔ انسانوں کے ساتھ حسن سلوک صرف حقوق کی ادائیگی تک محدود نہیں رہتا، بلکہ عفو، درگذر، ایثار اور بے نفسی کی منازل بھی طے ہوتی ہیں۔ دین اور دین کے شعائر کے ساتھ تعلق صرف تعمیل و امتثال اور تعظیم ہی کا نہیں ہوتا، بلکہ ان کے ساتھ وابستگی حمیت و حمایت کے پیرہن میں ملبوس ہوتی ہے۔
ظاہر و باطن کے یہ تمام پہلو وجود پذیر ہوں تو بندۂ مومن وہ فضائل اور جمال و کمال حاصل کرتا ہے جو اسے آخرت میں فردوس بریں کی زندگی اور رضوان من اللہ کے مرتبے پر فائز کریں گے۔
ان سطور سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ باطنیت اور سریت کے جو تصورات ہمارے ہاں رائج ہیں قرآن و سنت میں ان کی طرف کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ، دونوں خدا کی صفات و عظمت کاصحیح شعور پیدا کرتے ہیں اور بندگی کے تعلق میں جو قلب و ذہن بنتا ہے اور عبادات و معاملات میں جو جادۂ مستقیم مطلوب ہے، اس کو واضح کرتے ہیں۔ جس طرح دنیا کی کشش انسانوں کو پاکیزہ اعمال سے دور کر دیتی ہے، اسی طرح باطنیت اور سریت کی کشش بندگی کے صحیح شعور سے ہٹا دیتی ہے۔ اسی لیے ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لواور اس سے انحراف نہ کرو۔
ـــــــــــــــــــــــــ