HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

حیات امین احسن (۲۰)

نئی نسل کی اصلاح وتربیت

کسی بھی قوم کے باشعور رہنما کی ایک پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ مستقبل پر نگاہ رکھتاہے۔ وہ نئی نسل کی اصلاح و تربیت سے کبھی غافل نہیں  ہوتا۔ امین احسن کے درج ذیل خطاب سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ وہ کس درجے کے رہنما تھے:

’’میں  آپ کی اس ذرہ نوازی کے لیے شکر گزار ہوں  کہ آپ نے اپنی اس علمی مجلس میں  مجھے تقریر کی دعوت دی۔ میں نے آپ کے نمائندوں  سے معذرت کردی تھی کہ میں  کوئی تقریر نہیں  کروں  گا البتہ آپ کے تجویز کردہ عنوان پر کچھ متفر ق باتیں  طلبہ و طالبات کے سامنے عرض کردوں  گا۔ تقریر کا معاملہ یہ ہے کہ نوجوانی میں  تو آدمی تقریر شوقیہ کرتا ہے، ادھیڑ پن میں  فرائض اور ذمہ داریوں  کے تحت یہ کام کرنا پڑتا ہے لیکن بڑھاپے میں  آکر یہ چیز بوجھ بن جاتی ہے۔ میرا حال یہ ہے کہ میں  جوانی میں  بھی اس ذمہ داری سے گھبراتا رہا ہوں  اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں  کہ اب اس دور میں  میرے لیے یہ کام کتنا مشکل بن گیا ہوگا۔
ہر قوم کے مستقبل کا انحصار اس کے نوجوانوں پر ہے۔ اس میں  کوئی شبہ نہیں  ہے کہ یہ دنیاکی عظیم سچائیوں  میں  سے ایک عظیم سچائی ہے۔ خواہ ہم اس کی قدر کریں  یا نہ کریں۔ قومیں  اپنے رقبوں، اپنی عمارتوں ، اپنے باغوں  اور چمنوں ، اپنے دریاؤں  اور پہاڑوں  سے باقی نہیں  رہتی ہیں  بلکہ اپنی آئندہ نسلوں  اوراپنے نوجوان سے باقی رہتی ہیں۔نوجوان اچھے ہوں  تو قوم زندہ رہے گی۔ اگر اس کے پاس دریا اور پہاڑ نہ ہوں  گے تووہ اپنے لیے نئے دریا اور نئے پہاڑ پیدا کرلے گی۔ برعکس اس کے نوجوان مردہ ہوں  تو اشبیلیہ، غرناطہ اور قرطبہ کی عظمتیں  تعمیر کرنے والے بھی صرف تاریخ کی ایک داستان عبرت بن کے رہ جاتے ہیں !یہی نکتہ ہے کہ دنیا کی ہر زندہ رہنے والی قوم نے سب سے زیادہ اہمیت اپنے نوجوانوں  کی اصلاح و تربیت کو دی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن قوموں کو یہ بات عزیز ہوتی ہے کہ صفحۂ عالم میں  ان کا مادی وجود بھی قائم رہے اور ان کی معنوی ہستی بھی کار فرما رہے، انہوں  نے اپنے بام ودر کی آرائش کی بجائے اپنے آگے آنے والے اخلاف کی تہذیب و تربیت کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ میں  تاریخ کا طالب علم نہیں  ہوں  لیکن سپارٹا کے لوگوں  سے لے کر آج تک قابل ذکر قوموں  کے جو حالات سر سری طور پر معلوم ہوئے ہیں ، ان کی بنا پر یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں  کہ رومی و یونانی ہوں  یا انگریز و امریکن، دنیا کے نقشے پر کوئی پائیدار نقش اسی قوم نے چھوڑا ہے جس نے اپنی آنے والی نسل کی فکر کی ہے۔ سپارٹا والوں  کے متعلق میں  نے کہیں  پڑھا ہے کہ وہ اپنی عمارتوں  میں  کوئی تراشا ہوا پتھر لگانے کی اجازت نہیں  دیتے تھے۔ ان کاتصور یہ تھا کہ عمارتوں  میں  کوئی تراشے ہوئے پتھر لگانا قوم کے اندر تن آسانی ا ور تعیش پسندی کے رجحان کی دلیل ہے۔ اسی طرح اپنی آئندہ نسلوں  کی صحت مندی کے معاملے میں ،میں  نے سنا ہے کہ وہ اس قدر حساس تھے کہ اس کے لیے انہوں  نے بعض ظالمانہ طریقے بھی اختیار کرلیے تھے، مثلاً یہ کہ وہ کمزور بچوں  کو سرے سے زندہ ہی نہیں  رہنے دیتے تھے۔
ہمارے ہاں، یعنی اسلام میں ، اولاد کی اصلاح و تربیت کا جو اہتما م رہا ہے اس کے لیے دوسری چیزوں  سے قطع نظر کر کے اگر صرف قرآن ہی پر نظر ڈالیے تو اس کی اہمیت واضح کردینے کے لیے وہ کافی ہے۔ حضرت ابراہیم کی وصیت اپنی اولاد کوحضرت اسحٰق و حضرت یعقوب کی وصیت و نصیحت اپنی ذریت کو، حضرت لقمان کی تلقین اپنے بیٹے کو۔ یہ ساری سرگذشتیں  اسی لیے بیان ہوئی ہیں  کہ ہم ان سے یہ سبق حاصل کریں  کہ اچھے اسلاف کے نام اور کام اچھے اخلاق ہی سے باقی رہتے ہیں۔ حضرت نوح کی سرگذشت پڑھیے تو دل تڑپ تڑپ جاتا ہے کہ ان کو اپنے بیٹے کی نا اہلی کا کتنا غم تھا اور انہوں  نے اصلاح و تربیت کے لیے کیا کیا زحمتیں  اٹھائیں  اور کس کس طرح اپنے رب کے آگے آہ و فغاں  کی۔ ماہنامہ میثاق لاہور۔اپریل ۱۹۶۷‘‘(مقالات اصلاحی ۲/ ۳۶۵)        

دوکاموں  کی اہمیت

کسی بھی قوم میں  سیاسی اور سماجی سطح پر بہتری اسی وقت آتی ہے جب اس قوم میں  فکری سطح پراصلاحی کا م کیا جائے۔امین احسن اس نکتے سے پوری طرح واقف تھے۔ سردار محمد اجمل خان لغاری صاحب کے نام ایک خط میں  لاہور سے ۲۴/جنوری ۱۹۶۰ء کو انھوں  نے لکھا:

’’میرے سا منے جو دو کا م ہیں  وہ یہ ہیں:
ایک ایسے فکری و تربیتی مر کز کا قیا م جو اسلا م کے خلاف اٹھنے والے فتنوں  کے مقا بلہ کے لیے بلند پا یہ تصنیفات بھی تیار کر ے اور اس مقصد کے لیے اشخا ص کی تر بیت بھی کرے۔
دوسرا ذہین اور سرگرم لو گو ں کے ذریعہ سے جس حد تک بھی ممکن ہو معا شرے کو تبا ہی سے بچانے کی کوشش کر نا۔ ان دو نوں  کا مو ں  کی ذمہ داری ہر اس مسلما ن پر عائد ہو تی ہے جو صورت حال کا احسا س رکھتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اگر صاحبِ جذب و تسخیر اشخا ص اٹھیں  تو ہما ری خوش قسمتی ہے لیکن ان کا انتظار کرکے ہم اپنے فر ض سے سبک دوش نہیں  ہو سکتے۔
اس دوران میں  جو خطوط مجھے مو صو ل ہوئے ہیں  ان سے اندازہ ہو تا ہے کہ ان کا موں  کے لئے وقت اور مال کی قر با نی کر نے والے تو مو جود ہیں  لیکن سب اپنے اپنے مقا می میلا نا ت کے تحت سو چ رہے ہیں  جس کے سبب سے کو ئی مو ثر کا م نہیں  ہو رہا ہے۔ اگر یہ قو تیں  ایک بڑے کا م کے لئے مجتمع ہو جائیں  تو کچھ مفید اور مو ثر کا م ہو سکتا ہے، میں  نے فروری کے ’’میثا ق‘‘ میں  اس چیز کی طر ف تو جہ دلا ئی ہے۔ ملا حظہ فرمائیے گا۔
میں  درحقیقت موجودہ زما نے کی فا سد عقلیت کو بغیر چیلنج کئے جا نے نہیں  دینا چا ہتا۔ ا ب یہ اللہ جا نتا ہے کہ اس کا م کے لئے میر ے اندر صلا حیت ہے یا نہیں  اور ہے تو کتنی ہے۔
میرے نزدیک یہ کا م ضرور ہو نا چاہیے اور منظم طور پر ہو نا چاہیے، ورنہ ہمیں  ڈوب مر نا چاہیے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۳۴)

افکار کے ضبط کی فکر

لاہور سے۱۵/ اگست ۱۹۸۵ء کو ملک عبد الرشید عراقی صاحب کے نام ایک خط میں  امین احسن لکھتے ہیں:

’’رمضا ن سے پہلے میں  نے اصول ِتفسیر پر اپنے دس لیکچر ز ریکا رڈ کر ائے ہیں  ان میں  پوری ایک کتا ب کا مواد ہے اور ایسے اہم مبا حث بھی ہیں  جو تدبر ِقرآن کے مقد مہ میں  نہیں  آسکے تھے۔ اب اس مو ضو ع پر میرے تما م افکار ضبط میں  آگئے اور ان شا ء اللہ اہل ِ علم کے استفادہ کے لئے شائع ہو جائیں  گے۔
اب اصولِ حدیث پر اپنے لیکچرز میں  نے ریکا رڈ کرا نے شروع کر دیے ہیں۔ غا لباًکل پندرہ لیکچر ز اصولی مباحث پر ہو ں  گے۔ یہ اس لیے ریکارڈ کر ا رہا ہوں  کہ معلوم نہیں  مجھے لکھنے کا موقع ملے نہ ملے افکار کا ضبط میں  آجا نا ضروری ہے۔ اگر میں  ان کو کتا بی شکل میں  نہ لا سکا تو شا ید اللہ تعالیٰ دوسروں  کو ان کے جمع و ترتیب کی تو فیق بخشے۔ اب اگر چہ ہر سمت سے ایسی کتاب کے لیے مطالبہ ہو رہا ہے لیکن میر ی قوت ِکا ر اب کم ہو گئی ہے۔ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ جب تک زندہ رکھے اپنے دین کی کوئی چھوٹی مو ٹی خدمت لیتا رہے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۳۶)

ذہنی الجھنوں سے نبرد آزما مخاطب

امین احسن اندھی تقلید کرنے والوں  کو پسند نہیں  کرتے تھے۔وہ ایسے لوگوں  کو پسند کرتے تھے جو غوروفکر کرتے ہیں،اگرچہ وہ الجھے ہوئے ہی کیوں  نہ ہوں۔ لاہور سے ۱۶؍ فروری ۱۹۶۷ء کو محمود احمد لودھی صاحب کے نام ایک خط میں  امین احسن لکھتے ہیں:

’’خوشی ہو ئی کہ آپ کی بیگم صا حبہ کو میرے بعض مضا مین پسند آئے۔ خدا کر ے تفسیر بھی پسند آئے۔ دوسری چیزیں  بھی میر ی ان کو پڑھنے کو دیجئے۔ جو لو گ مجھے داد دیتے ہیں  ان سے اس پہلو سے مجھے خو شی ہو تی ہے کہ ان کی سمجھ کے با ب میں  مجھے حسنِ ظن ہو جاتا ہے۔ آپ اس کو خودپسندی پر محمول نہ کیجئے گا۔ واقعہ یہی ہے کہ روشِ عا م کے پیر و یا لکیر کے فقیر میر ی چیز یں  پسند نہیں  کرسکتے۔ صرف وہی لو گ پسند کر تے ہیں  جو ذہنی الجھنوں سے نبرد آزما ہوئے ہوں۔‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص  ۱۱)

فکر فراہی کی فکر

فراہی جو علمی کا م ادھورے چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے، امین احسن کو ان کی تکمیل کی فکر ہر وقت دامن گیر رہتی تھی، ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی لکھتے ہیں:

’’ ایک ملاقات میں  کہا:
میں  نے ایک دھیلا خرچ کیے بغیر وہ کام کر دیا جس کے لیے ڈاکٹر حفیظ اللہ نے پچاس ہزار کا عطیہ دیا تھا۔ اب انھیں  مجھ سے یہ شکایت نہیں  ہو سکتی کہ میں  نے کچھ نہ کیا۔ اور روز حشر مجھ ان سے شرمندہ نہیں  ہونا پڑے گا۔
اصلاحی صاحب کی یہ بات من وجہ صحیح ہے، لیکن مولانا فراہی کے اصل مسودات آج بھی کسی فرہاد کوہکن کے منتظر ہیں۔
ایک موقع پر ’’تدبر قرآن‘‘ اور فکر فراہی پر دوسرے کاموں  کا ذکر کرتے ہوئے اکیسویں  صدی کے حوالے سے کہا ’’یہ فراہی کی صدی ہے۔‘‘
’’تدبر قرآن‘‘ ہی کے پس منظر کو ذہن میں  رکھ کر ایک ملاقات میں  کہا:
جنھوں  نے تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ پڑھی ہے وہ کہتے ہیں  کہ آپ نے اپنی تمام محنت استاد کے کھاتے میں  ڈال دی ہے۔
اصلاحی صاحب پانچ سال شب و روز فراہی کی صحبت میں  رہے ہیں  اور فراہی کی ایک ایک چیز کو پڑھ ڈالا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن کے طالب علم ہی نہیں  عالم ہیں۔ استاذ ہیں، امام ہیں۔ ان حالات میں  اصلاحی صاحب کی زبان سے ذکر فراہی خوشی کی بات ہے:
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں  ہے
لیکن موقع و محل اور سیاق و سباق کے لحاظ سے اصلاحی صاحب کا ایک پرانا خواب یہاں  درج نہ کیا جائے تو شہادت حق کے منافی اور کتمان حق کے مترادف ہو گا خواب اگرچہ خواب ہی ہوتا ہے۔ ’’اضغاث احلام‘‘ لیکن کہتے ہیں  بزرگوں  کے خواب سچے ہوتے ہیں۔ پہلے خواب سن لیں۔ اصلاحی صاحب نے مجھ سے بیان کیا:
’’مولانا فراہی کو کبھی کبھی خواب میں  دیکھتا ہوں۔ حال ہی میں  وہ مجھے خواب میں  نظر آئے۔ ملاقات ہوئی تو فرمایا: میں  جا رہا ہوں ، میں  نے دوسری جلد لے لی ہے، بکس خالد کو دے دو۔‘‘
دوسری جلد سے ظاہر ہے مولانا اصلاحی کا اشارہ ’’تدبر قرآن‘‘ کی طرف تھا۔ خالد سے مراد خالد مسعود، مولانا اصلاحی کے ایک شاگرد ہیں۔ بکس کے بارے میں  مولانا اصلاحی نے مجھ سے پوچھا کہ بکس سے مولانا کی کیا مراد رہی ہو گی۔ میں  نے کہا کہ بکس سے مراد مسودات کا بکس ہو گا، اس کے علاوہ اور کیا چیز ہو سکتی ہے۔ اصلاحی صاحب نے کہا: ہاں  ٹھیک ہے۔
جو لوگ خوابوں  کے بارے میں  جانتے ہیں۔ اور اس خواب کے محولہ امور کے بارے میں  بھی معلومات رکھتے ہیں۔ وہ اس کی بہتر تشریح کر سکتے ہیں۔ یہ خواب دس بارہ سال پرانا ہے۔ اس کے بعد جوں  جوں  دن گزرتے گئے اصلاحی صاحب کے ذہن سے ماضی قریب بھی محو ہوتا گیا اور ماضی بعید بھی۔
 بات خواب کی ہو یا بیداری کی ہمارے ساتھ ان کی گفتگوؤں  میں  زیادہ مدرستہ الاصلاح، دائرۂ حمیدیہ، سرائے میر، پھریہا، اعظم گڑھ، بمہور اور مولانا فراہی کا تذکرہ ہوتا تھا۔ ایک دن میں  گیا تو مولانا کو ہچکیاں  آنے لگیں۔ کہنے لگے: میرے استاد کی موت ہچکیوں  میں  ہوئی تھی میں  بھی اسی میں  مروں  گا۔‘‘(ذکر فراہی ۵۸۲)

تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ کے بارے میں سردار محمد اجمل خان لغاری صاحب کو ایک خط میں  لکھتے ہیں:

’’میں  چا ہتا ہوں  کہ ایک جلد میر ی زندگی میں  ضرور چھپ جائے تا کہ میر ی روح استا ذ مرحوم سے شرمسار نہ ہو۔‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۸)

قمر الدین اعظمی کا نپور کے نام لاہور سے ۱۷/ مئی ۱۹۹۰ء کو خط میں امین احسن نے فراہی سیمینار میں  اپنی شرکت کو شرعی فریضہ قرار دیا:          

’’آپ نے فراہی سیمینا ر کے مو قع پر میری حا ضری کو ضروری قرار دیا ہے۔میرے نزدیک یہ ضروری ہی نہیں، بلکہ میرا شرعی فرض بھی تھا، لیکن میں  سمجھتا ہوں  کہ آپ ابھی اس پوزیشن میں  نہیں  ہیں  کہ ایک نو ے سا ل کے بوڑھے کی نا توانیوں  کا اندازہ کر سکیں۔میں  اس معا ملہ میں  آپ لو گوں  کو مجبور سمجھتا ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب میں  بھا رت کا سفر تو درکنا ر لا ہور کے اندر ہی کسی سفر سے بھی با لکل قا صر ہو ں  اگر کسی اہم ضرورت سے گھر سے نکلنا پڑتا ہے تو داہنے بائیں  دو مدد گاروں  کا سہا را لینا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے اب میری حاضری کا خیا ل دل سے نکا ل دیجئے۔ ویسے امید ہے کہ یہا ں  سے بعض احباب جا ئیں  گے اور ان کے ذریعہ سے میر ی نمائندگی ہو جا ئے گی۔ البتہ یہ ذمہ داری میں  لیتا ہوں  کہ میں  برابر دعا کروں  گا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اس سیمینا ر کو ہر پہلو سے کا میا ب بنائے۔ اب تک آ پ نے طلبا ئے قدیم کی پر زور تر جما نی کی ہے۔ میں  امید کر تا ہوں  کہ اب اسی زور کے سا تھ میری ترجما نی کا فریضہ بھی ادا کریں  گے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۸۸)

خالد مسعود اور جاوید احمدغامدی کی حیثیت

خالد مسعود صاحب اور غامدی صاحب کا امین احسن کے ہاں  کیا مقام تھا،اس کی وضاحت ایک گفتگو سے ہوتی ہے، جو امین احسن نے ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی کے ساتھ کی۔ڈاکٹر ابوسفیان لکھتے ہیں:

’’س۔ فراہی سیمینا ر کے لیے آپ کا پیغا م ریکارڈ کر نا چا ہتا ہوں ؟
ج۔ابھی سے پیغام ریکا رڈ کر کے کیا کر و گے، جب یہاں  سے لو گ جا ئیں  گے میں  انہیں  کچھ نہ کچھ ریکا رڈ کر واکے دے دوں  گا اور اگر ہو سکا تو انہیں املا کرا دوں گا۔
س۔فراہی سیمنا ر میں  کن کن لو گو ں  کو یہاں  سے بھیجیں گے؟
ج۔دیکھو فراہیا ت کے سلسلے میں  یہاں  دو لو گوں  کا خا ص تعلق ہے: ایک خا لد مسعود اور دوسرے جاوید الغا مدی۔ ان دونوں  کو میں  نے تا کید کی ہے کہ وہ مقا لا ت کے سا تھ سیمنا ر میں  شریک ہو ں۔ با قی ممکن ہے کہ کچھ اور لو گ بھی جا ئیں۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۷۵)

اہم ترین ساتھی

’’تدبر قرآن‘‘ کی تکمیل پر ریڈیو پاکستان نے ۲۳/مارچ ۱۹۸۲ء کو لاہور میں  امین احسن کا انٹرویو لیا۔ اس میں  امین احسن نے اپنے اہم ترین ساتھیوں  کا نام لیا۔

’’سوال: وہ کون لو گ ہیں  جن سے آپ کو توقع ہے؟
جواب: میرے سا تھیوں  میں  سے خا لد مسعود صا حب ہیں، عبد اللہ صا حب ہیں ، جاوید احمد صا حب ہیں۔ اسی طرح اعظم گڑھ میں  جو لو گ کا م کر رہے ہیں  ان میں  مو لا نا بدر الدین صاحب ہیں۔اب ان لو گو ں  سے میں  یہ چا ہتا ہوں  کہ یہ اس کا م میں  حصہ لیں۔‘‘ (ماہنامہ اشراق،جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ص ۱۲۴)

شاگردوں  کی جستجو

علمی کاموں  میں  کسی صاحب علم کے بہترین ساتھی اس کے شاگرد ہوتے ہیں۔یہ شاگرد ہی ہوتے ہیں  جو استاد کے ادھورے کاموں  کی تکمیل کرتے ہیں  اور استاد کے مشن کے لیے تسلسل اور دوام کا باعث بنتے ہیں۔ ۱۹۶۶ء میں  لاہور سے جناب محمود احمد لودھی کے نام امین احسن ایک خط میں  لکھتے ہیں:

’’آپ کے لا ہو ر آنے کا آپ سے زیا دہ میں  طا لب ہوں۔ استا ذ مرحوم کو آخر ی دورِ زندگی میں  سب سے زیا دہ جستجو چند شا گر دوں  کی ہو ئی تھی، یہی حا ل اس دور میں  میرا ہے۔ انھی کی طرح میں  بھی بہت کم لکھ سکا۔ پھر میر ے پا س اپنی ہی نہیں  بلکہ ان کی بھی اما نت ہے۔ یہ تو اللہ کو علم ہے کہ اب کتنی مہلت با قی ہے، لیکن اب میں  اپنی صحت کی طرف سے زیادہ پر امید نہیں  ہوں۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۴۴)

شاگردوں  کی تربیت اور حوصلہ افزائی

 اچھے استاد کو صرف اپنے کاموں  کی تکمیل ہی کی فکر نہیں ہوتی، بلکہ وہ اپنے شاگردوں  کی صلاحیتوں  کو اجاگر کرنے اور ان کی نشوونما کے لیے بھی بے چین رہتا ہے۔ لاہور سے ۱۳ ؍فروری ۱۹۶۷ء کو جناب محمود احمد لودھی کے نام امین احسن ایک خط میں  لکھتے ہیں:

’’لکھنے کے معا ملے میں  اپنے شر میلے پن کو خدار ا ا ب دور کر دیجئے۔ اب اس کو طول دینے کی گنجائش نہیں  ہے۔اگر آپ نے اس حجا ب کو دور نہ کیا تو مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کی یہ صلا حیت جا مد ہو کر رہ جا ئے گی اور یہ ناقابل ِتلا فی نقصا ن ہو گا۔ اس کے لیے میر ی دعا اسی وقت کا ر گر ہوگی جب آپ عملا ًکچھ کریں  گے اور کچھ نہیں  تو پہلے کچھ تر جمہ و تلخیص ہی کا کا م شر وع کیجئے۔ مولانا ؒ کا کو ئی مسود ہ سا منے رکھ کر لکھئے یا جمہرہ ( مراد امام فرا ہی ؒ کی کتا ب جمہرۃ البلا غہ ہے۔ مدیر ) کو اردو میں  کر ڈ الیے مقصودآپ کے حجا ب کو توڑنا ہے…
ادھر دو ہفتے طبیعت بجھی رہی۔ مجھ پر یہ دورے پڑتے رہتے ہیں۔ شکر گزار ہو ں  کہ آپ لو گ میرے لیے دعا کر تے رہتے ہیں۔‘‘

اسی طرح ۲۷/ فروری ۱۹۶۷ء کو لودھی صاحب کو خط میں  کہتے ہیں:

’’خو شی ہو ئی کہ آپ نے لکھنے کے لیے اسلحہ سنبھا ل لیے ہیں۔ اصل میں  جس سبب سے میں  زیا دہ زور دے رہا ہوں  وہ یہ ہے کہ اس کا م میں جو جھجک ہو تی ہے اس کے دور ہو نے کا یہی زما نہ ہے اگر آج یہ دور نہ ہو ئی تو پھر اس کا دور ہو نا بڑا مشکل ہو گا۔نتیجہ یہ ہو گا کہ آپ کی افادی حیثیت بہت محدود ہو کر رہ جائے گی۔ شہر ت حاصل کر نے کی خواہش تو بے شک کو ئی اچھی چیز نہیں  ہے لیکن حصول ِکما ل کی جدو جہد نہ صرف محمود ہے بلکہ ذی صلا حیت لو گو ں  کے لیے فرائض میں  ہے۔ آپ اپنی ذہا نت کی قدر کریں  اور اس دور میں  اس کی صحیح قدر کی شکل یہی ہے کہ قرآن کو اپنی فکر کا مو ضو ع بنا ئیں  اور اپنے فکر کو عمدہ اسلو ب سے پیش کر نے کا سلیقہ پیدا کریں۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۴۵)

لاہور سے ۱۳/ مارچ ۱۹۸۶ء کو ایک خط میں  لکھا:

’’شا نِ نزول اور احوالِ عرب کے زیا دہ درپے ہو نے کی ضرورت نہیں  ہے۔ شا ن نزول اور کلا م کے موقع و محل کو خود کلا م سے اخذ کر نے کی کو شش کیجئے۔ایک اعلیٰ کلا م اپنے پس منظر اور     ما حو ل کو خود بہتر طریقہ پر واضح کر دیتا ہے۔اگر اس طر ح کی کوئی چیز پڑھئے تو او نچے درجے کے ذی علم لو گو ں  کی چیز پڑھئے۔گھٹیا قسم کے کتا ب فر و شوں  کی چیز یں  پڑھنے پر وقت صرف نہ کیجئے۔‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء،  ص۳۱)

ذہنی تربیت کی غذا دیتے رہنا

 مولانا وحیدالدین خاں،امین احسن کے طرز تعلیم کا ایک انداز واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ میرے زمانۂ تعلیم میں  مولانا امین احسن اصلاحی مدرستہ الاصلاح کے صدر مدرس تھے۔ تجربے کے مطابق مولانا موصوف ایک بہترین مدرس تھے۔ وہ اگر مدرسے میں  مستقل قیام کرتے تو وہ زیادہ بڑا کا م کرسکتے تھے۔ تقسیم ملک کے وقت وہ پاکستان چلے گئے اور وہیں  ان کا انتقال ہو گیا۔ میرے نزدیک، مولانا موصوف کا مدرستہ الاصلاح چھوڑ کر جانا کوئی درست فیصلہ نہ تھا۔ اگر وہ آخر وقت تک مدرسہ میں  قیام کرتے تو وہ تعمیر ِافراد کی صورت میں  ملت کو زیادہ بڑا فائدہ پہنچا سکتے تھے۔

مولانا امین احسن اصلاحی کے اندر ایک خاص صفت تھی جو میں  نے اپنے تجربے میں  کسی اور استاد میں  نہیں  پائی، وہ ہے تدریس کے دوران ذہنی تربیت کی غذا دیتے رہنا۔ اس نوعیت کا ایک نمایاں  واقعہ یہاں  راقم الحروف کی کتاب ’’دین و شریعت ‘‘ سے نقل کیا جاتا ہے:

’’مدرسۃالاصلاح میں  قرآن خصوصی طور پر داخلِ نصاب تھا۔ یہاں  مجھے یہ موقع ملا کہ میں  مشہور عالمِ دین اور مفسر مولانا امین احسن اصلاحی (صاحب تدبر قرآن) سے براہِ راست قرآن کی تعلیم حاصل کروں۔ مولانا محترم اس مدر سے میں  استادِ تفسیر بھی تھے اور صدر مدرس بھی۔ ایک روز درس قرآن کے تیسویں  پارہ کی یہ آیت سامنے آئی:
اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَي الْاِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ.[14]؎  (سورۃ الغاشیۃ: آیت ۱۷)
استاد محترم امین احسن اصلاحی نے اس موقع پر طلبہ سے سوال کیا کہ اونٹ کے سم پھٹے ہوتے ہیں  یا جڑے ہوئے ہوتے ہیں، یعنی وہ بیل کی مانند ہوتے ہیں یا گھوڑے کی مانند۔ اس وقت ہماری جماعت میں  تقریباً ۲۰ طالب ِعلم تھے مگر کوئی بھی شخص یقین کے ساتھ اس کا جواب نہ دے سکا۔ ہر ایک اٹکل سے کبھی ایک جواب دیتا کبھی دوسرا جواب۔
اس کے بعد استاد محترم نے ایک تقریر کی۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے جوابات سے اندازہ ہوتا ہے کہ تم لوگ اونٹ کے سم کی نوعیت کے بارے میں  نہیں  جانتے۔ پھر انہوں نے عربی زبان کا یہ مقولہ سنایا: ’’لا ادری نصف العلم‘‘ (میں  نہیں  جانتا آدھا علم ہے) اس کی تشریح کرتے ہوئے انہوں  نے کہا کہ اگر تم لوگ یہ جانتے کہ تم اونٹ کے سم کے بارے میں  بے خبر ہو تو گویا کہ اس معاملے میں  تمہارے پاس آدھا علم موجود ہوتا۔ کیونکہ اپنی لاعلمی کو جاننے کے بعد تمہارے اندر یہ شوق پیدا ہوتا کہ تم اپنے علم کو مکمل کرنے کے لئے یہ معلوم کرو کہ اونٹ کے سم کیسے ہوتے ہیں۔ ’لاادری ‘ کا شعور تمہارے اندر بیدار ہوتا تو اونٹ پر نظر پڑتے ہی تم اس کے سم کو غور سے دیکھتے اور پھر تم اپنے نہ جاننے کو جاننا بنا لیتے۔
مدرسے کا یہ واقعہ میرے لئے اتنا موثر ثابت ہوا کہ یہ میرا عمومی مزاج بن گیا کہ میں  ہر معاملے میں  اپنی ناواقفیت کو جانوں، تاکہ میں  اس کو واقفیت بنا سکوں۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ، مئی ۲۰۰۹ء، ص ۳۸)             

ریاضت

امین احسن قرآ ن مجید کا مطالعہ ریاضت کے انداز میں  کرتے اور اسی کی اپنے شاگردوں  کو بھی ہدایت کرتے۔  سلیم کیانی صاحب لکھتے ہیں:

’’مولانا قرآن پرتدبرمیں  پوری طرح منہمک رہتے۔ ان کے شاگردوں  کو ان کی اس ریاضت سے بڑا فائدہ ہوتا۔ ان کی ہدایت یہ ہوتی ’’ ایک سورۃ کا اس وقت تک مطالعہ کیا کرو کہ جب تم اپنی آنکھیں  بند کرو تو پوری سورۃ کا سراپا اس کے شروع سے آخر تک اپنے پورے جمال کے ساتھ تمھارے ذہن کے سامنے آجائے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۲۷)

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[14]؎ ’’کیا وہ اونٹوں پر نگا ہ نہیں کرتے،وہ کیسے بنائے گئے ہیں۔ ‘‘

B