[جناب جاوید احمد غامدی کی گفتگو سے اخذ و استفادہ پر مبنی زیر طبع کتاب ’’اسلام اور دیگر مذاہب‘‘ سے انتخاب]
سوال: غیرمسلم خاندان میں پیدا ہونے والے بچے کے ساتھ آخرت میں کیا معاملہ ہو گا؟
جواب:قرآن مجید نے اس سوال کا جواب بڑی تفصیل کے ساتھ دے دیا ہے۔ یہ بتایا ہے کہ انسانوں کی تین قسمیں ہیں:
ایک وہ لوگ جن تک کسی پیغمبر کی دعوت نہیں پہنچی۔ بلکہ قرآن کے الفاظ یہ ہیں کہ نہ صرف یہ کہ ان لوگوں تک دعوت نہیں پہنچی، بلکہ ان کے آبا واجداد کو بھی کسی پیغمبر نے انذار نہیں کیا:
لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا٘ اُنْذِرَ اٰبَآؤُهُمْ فَهُمْ غٰفِلُوْنَ. (یٰس۳۶ :۶)
’’(یہ قرآن) اِس لیے اتارا گیا ہے کہ تم اُن لوگوں کو خبردار کرو جن کے اگلوں کو خبردار نہیں کیا گیا تھا، لہٰذا غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ‘‘
چنانچہ قرآن مجید نے کہا ہے کہ جو اُن کے دل اور شخصیت میں، میں نے اُن کی پیدایش کے وقت دین الہام کر دیا تھا، یعنی اپنا تصور الہام کر دیا تھا، اس کے لیے عہد الست کا حوالہ سورۂ اعراف میں ان الفاظ میں دیا ہے:
وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۣ بَنِيْ٘ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰ٘ي اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوْا بَلٰي شَهِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَ. اَوْ تَقُوْلُوْ٘ا اِنَّمَا٘ اَشْرَكَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّنْۣ بَعْدِهِمْ اَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ. وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ. (۷: ۱۷۲-۱۷۴)
’’ (اے پیغمبر)، اِنھیں وہ وقت بھی یاد دلاؤ، جب تمھارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا اور اُنھیں خود اُن کے اوپر گواہ ٹھیرایا تھا۔ (اُس نے پوچھا تھا): کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ اُنھوں نے جواب دیا: ہاں، ( آپ ہی ہمارے رب ہیں )، ہم اِس کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اِس لیے کیا کہ قیامت کے دن تم کہیں یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اِس بات سے بے خبر ہی رہے یا اپنا یہ عذر پیش کرو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے پہلے سے کر رکھی تھی اور ہم بعد کو اُن کی اولاد ہوئے ہیں، پھر کیا آپ اِن غلط کاروں کے عمل کی پاداش میں ہمیں ہلاک کریں گے؟ ہم اِسی طرح اپنی آیتوں کی تفصیل کرتے ہیں، اِس لیے کہ لوگوں پر حجت قائم ہو اور اِس لیے کہ وہ رجوع کریں۔‘‘
اور یہ بتا دیا ہے کہ اخلاقی شعور الہام کر دیا تھا کہ اچھائی اور برائی کیا ہے:
وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا. فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا. (الشمس۹۱: ۷-۸)
’’اور نفس اور جیسا اُسے سنوارا، پھر اُس کی بدی اور نیکی اُسے سجھا دی۔‘‘
لہٰذا فرمایا ہے کہ میں صرف اس پر سوال کروں گا۔ چونکہ ان تک کسی پیغمبر کی دعوت ہی نہیں پہنچی تو سوال بھی اسی دائرے میں ہو گا۔
دوسرے وہ لوگ ہیں جن تک پیغمبروں کی دعوت پہنچ گئی، جیسے مسیحی یا یہود۔ چنانچہ سورۂ بقرہ اور سورۂ مائدہ میں ایک ایک گروہ کا باقاعدہ نام لے کر، خواہ وہ یہودی ہوں، نصرانی ہوں یا صابئی ہوں، یہ اعلان کر دیا کہ ان سے، البتہ جو اُن کو تعلیم پہنچی ہے، اس میں آخرت کا عقیدہ بھی شامل ہے، اس کے بارے میں ان سے پوچھا جائے گا۔
تیسرے وہ لوگ ہیں جن تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پہنچ گئی اور انھوں نے ضد، ہٹ دھرمی یا عناد کی بنیا پر انکار نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ وہ ان کا عذر ہو گا، لیکن ان سے پوچھا جائے گا کہ یہ دعوت یا پیغام آپ تک پہنچا؟
انسان سے اللہ تعالیٰ کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ وہ اگر مسلمان یا یہودی یا نصرانی پیدا ہو گیا ہے تو اس کو اندھا اور بہرا بن کر اپنے آبا کی پیروی کرنی چاہیے، بلکہ اس سے یہ تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ صحیح بات کو جانے۔ ہم صرف عمل کے امتحان میں نہیں ڈالے گئے، بلکہ علم کے امتحان میں بھی ڈالے گئے ہیں، اس لیے مسلمانوں سے بھی پوچھا جائے گا کہ تم نے جو دین اپنے ماں باب سے سیکھا تھا، اس کے بارے میں سوال کیا تھا؟ تمھارے دل میں کوئی کھٹک پیدا ہوتی تو اس کی تحقیق کرنے کی کوشش کی تھی؟ کبھی کسی دوسرے صاحب علم نے اس کی غلطی بتانا چاہی تو اس کی بات توجہ سے سنی تھی؟ یہ ہم سے بھی پوچھا جائے گا اور ان سے بھی، اس لیے ہم سارے ایک ہی جگہ پر کھڑے ہیں۔ جس شخص کے پاس جتنا علم پہنچا ہے، اس لحاظ سے اس سے پوچھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اعلان کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندوں پر ادنیٰ درجے میں بھی ظلم نہیں کرے گا۔[1]
______
سوال: کیا غیرمسلموں کو مساجد میں عبادت کی اجازت دی جا سکتی ہے؟
جواب: کسی غیرمسلم کو شرک کے لیے تو مسجد نہیں دی جا سکتی، کیونکہ مسجد توحید اور اللہ کی عبادت کی جگہ ہے۔ ایک مسیحی یا یہودی اللہ کی عبادت اپنے طریقے پر کرنا چاہتا ہے تو وہ مسجد میں کر سکتا ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی طریقہ اختیار کیا تھا، یعنی اللہ کی عبادت اپنے طریقے پر۔ ہم مسلمان اللہ کی عبادت کرتے ہیں؛ جس طرح ہمارا نماز پڑھنے کا ایک طریقہ ہے، اسی طرح ان کا بھی ایک طریقہ ہے۔ چنانچہ اگر غیرمسلم مسجد میں آ کر صلیب گاڑ دیں یا سیدہ مریم علیہا السلام کی تصویر رکھ دیں تو اس کے لیے ان سے معذرت کی جائے گی اور انھیں مسجد نہیں دی جائے گی، کیونکہ ہمارے ہاں شرک کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ لیکن ہر شخص کو اپنے طریقے کےمطابق اللہ کی عبادت اور اس کی بندگی کرنے کا حق حاصل ہے ۔ اگر وہ عبادت مسجد میں کرنا چاہیں تو اس میں کوئی مانع نہیں ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں اس کی اجازت دی ہے(الطبقات الکبریٰ ۱/ ۳۵۷)۔[2]
______
سوال: حرمین میں غیر مسلموں کو داخلے کی اجازت کیوں نہیں؟
جواب: یہ نقطۂ نظر ایک غلط تاویل (interpretation) کی بنا پر پیدا ہوا ہے۔ یہ ہر شخص کا حق ہے کہ وہ اس توحید کے مرکز کی طرف جائے اور جا کر دیکھے۔ وہ تو ہماری دعوت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ جب وہاں پر ایک غیرمسلم جائے گا تو آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اس پر کیا اثرات ہوں گے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانے میں غیر مسلم حرمین ہی میں آ کر ملتے تھے۔ چنانچہ یہ بات بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے کہ غیرمسلم حرمین میں داخل نہیں ہو سکتے۔
البتہ مشرکین عرب پر چونکہ اللہ کے عذاب کا فیصلہ ہوا تھا تو قرآن مجید نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ اب اس سال کے بعد یہ قریب نہیں آ سکتے۔ اس کو لوگوں نے عام کر لیا اور اس کے نتیجے میں ان کے داخلے پر پابندی لگا دی۔ پابندی صرف ایک ہی ہے کہ جزیرہ نماے عرب میں کوئی غیرمسلم مستقل رہایش اختیار نہیں کر سکتا۔ وہ زیارت کے لیے جا سکتے ہیں۔[3]
______
سوال: کیا غیرمسلم اسلامی ریاست میں اپنے مذہب کی تبلیغ کر سکتا ہے؟
جواب: اسلامی ریاست میں کسی انسان کو اپنے مذہب کی تبلیغ سے نہیں روکا جا سکتا۔ جب وہ اپنا نقطۂ نظر شایستگی کے ساتھ بیان کرے تو قرآن وحدیث میں کوئی ایسی بات نہیں جس کی بنیاد پر اسے روکا جا سکے۔ اگر غیرمسلمان مسلمانوں کو اپنی بات بتانا چاہتے ہیں تو بتا سکتے ہیں۔ اگر ہم انھیں اپنی بات کہنے کا موقع دیں گے تو ہمیں اپنی بات ان کے سامنے بیان کرنے کا موقع ملے گا۔ قرآن وحدیث میں ایسی کوئی بات نہیں کہ جس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا ہو۔[4]
______
سوال: کیا مسجد اقصیٰ یا بیت المقدس یا ہیکل پر صرف مسلمانوں کا حق ہے؟
جواب: سب سے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ مسجد اقصیٰ اور ہیکل، دونوں الگ الگ مقامات ہیں۔ یہود کہتے ہیں کہ ہیکل کی کچھ بنیادیں اس مسجد کے نیچے آ گئی ہیں۔ تصادم کی بنیاد یہی ہے۔ یہود اس میں ہیکل کی بنیادوں کو تلاش کرنا چاہتے ہیں، جب کہ مسلمانوں کو یہ اندیشہ ہے کہ شاید ان بنیادوں کو تلاش کرنے کی وجہ سے مسجد ہی منہدم ہو جائے گی۔ اس وقت جس مقام کو مسجد اقصیٰ کہتے یا جہاں آپ جاتے یا نماز پڑھتے ہیں، وہ بعینہٖ ہیکل نہیں ہے۔ بیت المقدس تو اللہ تعالیٰ کی وہ عبادت گاہ تھی جو سیدنا داؤد علیہ السلام نے بنانی شروع کی اور سیدنا سلیمان علیہ السلام نے مکمل کی تھی۔ اس کے بعد یہود پر حملے ہوئے اور یہ تباہ کر دی گئی۔ آخری مرتبہ طیطس رومی نے اس کو تباہ کر دیا اور اسے بالکل زمین بوس کر دیا۔ موجودہ دور میں اس کی ایک دیوار باقی رہ گئی ہے، جسے ’دیوار گریہ‘ کہا جاتا ہے۔
۱۹۲۰ء میں فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا تھا۔ اقوام متحدہ نے اسے برطانیہ کو انتداب (Administration) میں دے دیا۔ اس کے بعد ایک خاص وقت میں فاتحین نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ یہود کو ان کے قومی وطن میں واپس لے جائیں۔ اس سے بحث نہیں کہ یہ فیصلہ غلط ہوا یا صحیح ہوا، یہ فیصلہ ایک امر واقع کے طور پر ہو گیا۔ اب وہاں پر یہود کی بھی ایک حکومت قائم ہو گئی ہے۔ یہ حکومت جس اصول پر قائم ہوئی اور اقوام متحدہ نے جس طرح اس کی اجازت دی،وہ سب کچھ لکھا ہوا موجود ہے۔
اس سرزمین میں فلسطینی عرب اور مسلمان بھی موجود ہیں۔ اب صرف ایک ہی راستہ تھا کہ اس مسئلے کا کوئی ایسا حل نکالا جائے جو جنگ وجدال پر مبنی نہ ہو۔ وہ حل اقوام متحدہ کے فیصلے میں موجود تھا کہ بیت المقدس کو سب مذاہب کے لوگوں کے لیے آزاد شہر قرار دے دیا جائے۔ اس کا نظم اس طرح سے قائم کیا جائے کہ مسلمان بھی وہاں جائیں اور عبادت کریں، کیونکہ ان کے لیے یہ ایک مقدس جگہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کی ایک روایت اس کے ساتھ وابستہ ہے۔ جس طرح ہر قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مقدس مقامات پر جائے اور اپنے جذبات کے لحاظ سے جو کرنا چاہتے ہیں، کریں، اسی طرح یہود کو بھی یہ حق حاصل ہے۔
موجودہ صورت حال یہ نہیں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ ہے، آپ نے فلسطین کو فتح کیا ہے اور اب آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ کس کو حق دینا ہے اور کس کو نہیں، بلکہ برطانیہ نے فلسطین کو فتح کر لیا ہے اور فاتح کی حیثیت سے معاملہ اقوام متحدہ کے سپرد کیا، کیونکہ اقوام متحدہ بین الاقوامی قوانین کی نمایندگی کرتی ہے۔ اقوام متحدہ نے ۱۹۴۸ء میں ایک فیصلہ کیا اور اس کے تحت اسرائیل قائم ہو گیا۔ اس فیصلے کے تحت بیت المقدس کو ایک آزاد حیثیت دے دی گئی۔
مسلمانوں کو آج نہیں تو کل اس فیصلے کو تسلیم کر کے اس کے لحاظ سے بیت المقدس کے بارے میں اپنا موقف اختیار کرنا پڑے گا۔ اس کے سوا اب محض خواہشات ہیں۔ وقت اور زمانہ اپنا فیصلہ کر چکا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ زمانے کو تبدیل کر دیں، اور وہ تبدیلی یہ ہے کہ پھر ایک دفعہ فتوحات کا دور ہو اور اس میں بڑے بڑے لشکر لے کر نکلیں، پھر آپ دنیا میں اپنا علم لہرائیں اور اس میں فلسطین کو بھی فتح کریں۔ اس کے بعد وہ باتیں کر لیجیے جو آپ کر رہے ہیں۔
اس وقت آپ نیشن اسٹیٹ (nation-state) کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ دنیا میں بین الاقوامی قوانین کے تحت معاملات ہوتے ہیں۔ غلط یا صحیح، اس قانون کے مطابق اقوام متحدہ نے فیصلہ کر دیا ہے اور وہ نافذ ہو چکا ہے۔ آپ کو اس کی روح کے مطابق اسے ماننا ہے۔ جب آپ اس کو مان لیں گے تو اس میں جو کچھ بیت المقدس کے بارے میں کہا گیا ہے، وہی آپ کا موقف ہونا چاہیے۔ عملی طور پر جو فیصلہ ہو چکا ہے، وہی نافذ ہو گا۔ اس میں بیت المقدس کی حیثیت کیا طے کی گئی تھی، اگر آپ اس فیصلے کو مان کر یہ موقف اختیار کریں تو اسرائیل جو کچھ کررہا ہے، وہ اس کا قانونی اور اخلاقی جواز کھو دے گا۔[5]
______
سوال: کفار مکہ مشرک، جب کہ شرکیہ اعمال کے باوجود مسیحی اور یہودی مشرک کیوں نہیں؟
جواب: پہلی بات یہ کہ قرآن مجید نے جگہ جگہ یہ بیان کیا ہے کہ قریش مکہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں مانتے تھے۔ جنوں کو بھی وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نسلی لحاظ سے منسوب کرنے کی جسارت کرتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ آدمی کسی چیز کو کس حیثیت سے مانتا ہے؟ آپ اس سے پوچھتے ہیں کہ تم یہ کیا مانتے ہو؟ تو وہ کہتا ہے کہ میں اس کو شرک نہیں سمجھتا۔ وہ اس کی ایک تاویل اور توجیہ کرتا ہے۔ اہل کتاب کا معاملہ یہی ہےکہ وہ اپنے شرک کی تاویل وتوجیہ کرتے ہیں، جب کہ مشرکین مکہ اپنے شرک کا صاف اعتراف کرتے تھے کہ اللہ نے اپنے شریک ٹھیرائے ہیں، یہ ہمارے شرکا ہیں اور ہم ان کو اسی حیثیت سے مانتے ہیں۔ انھوں نے اپنے شرک کو اپنے اقرار کے ساتھ بطور دین اختیار کیا ہوا تھا۔
قرآن مجید نے اس حوالے سے ہمیں بڑی تعلیم دی ہے کہ وہ آدمی کیا کہتا ہے، یعنی ہم یہ تو دیکھ رہے ہیں کہ وہ ایک غلط بات کہہ رہا ہے اور شرک کی بات کر رہا ہے، لیکن یہ ہم کہہ رہے ہیں، مگر وہ اپنے اس عمل کو کیا کہہ رہا ہے، اس کو مدنظر رکھا جائے گا۔ اہل کتاب یہ تاویل پیش کر رہے ہیں کہ یہ جو ’بیٹے‘ کا لفظ ہم نے اختیار کیا ہے، یہ اس طرح نہیں ہے، جس طرح آپ اس کو سمجھ رہے ہیں، بلکہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک ذات ہیں، اُس ذات کا اس صورت میں ایک جسدی ظہور ہوا ہے۔ یہ ایسے ہی، جیسے صوفیانہ مذاہب میں یہ کہا جاتا ہے کہ پوری کائنات خدا کا جسدی ظہور ہے۔ چنانچہ وہ تو اصرار کرتے ہیں کہ ہم درحقیقت کسی کو خدا کا شریک ٹھیرا ہی نہیں رہے۔ قرآن مجید نے اس کو شرک قرار دیا ہے اور ہم بھی بتائیں گے کہ یہ شرک ہے، لیکن شرک کرنے والا اسے شرک نہیں مان رہا تو قرآن نے یہ تعلیم دی ہے کہ جب تک وہ نہیں مان رہا، تم اس کی طرف اُس اقرار کو منسوب نہیں کر سکتے۔ جیساکہ سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ٘ا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَتَبَيَّنُوْا وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰ٘ي اِلَيْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا. (۴: ۹۴)
’’ایمان والو، جب تم اللہ کی راہ میں نکلو تو (کسی اقدام سے پہلے) تحقیق کر لیا کرو اور جو تمھیں سلام کرے، اُسے یہ نہ کہا کرو کہ تم مسلمان نہیں ہو۔‘‘
آپ دیکھیے کہ قرآن مجید نے اہل کتاب کے ایک ایک شرک کو بیان کیا ہے، مگر ان کو اہل کتاب ہی کہا ہے۔
ان کی یہ تاویل دنیا میں تو چل جائے گی، مگر قیامت میں تو بتانا پڑے گا کہ واقعی ان کو غلطی لگی تھی۔ چنانچہ پروردگار کے سامنے کھڑے ہو کر یہ کہنا کوئی آسان کام نہیں ہو گا، اس لیے کہ دنیا میں بہت سی تاویلات چل جاتی ہیں۔ ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب کوئی آدمی اپنی بات کی تاویل کرتا ہے اور وہ اصلاً اس عقیدے کا اقرار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے تو چونکہ ہم دنیا میں کسی کے اندر اتر کر نہیں دیکھ سکتے، اس لیے آپ کا یہ کام نہیں کہ اس پر وہ چیز چسپاں کر دیں۔ اہل کتاب اصرار کرتے ہیں کہ وہ توحید کو ماننے والے ہیں۔ اسی چیز کو اصول میں سمجھنا چاہیے کہ کسی شخص پر آپ حکم لگانے کا حق نہیں رکھتے، بلکہ وہ خود بتائے گا کہ میں کیا ہوں۔ اگر وہ کہتا ہے کہ میں مشرک ہوں تو وہ مشرک ہے، وہ کہتا ہے کہ میں کافر ہوں تو وہ کافر ہے اور اگر وہ نہیں مان رہا تو وہ مشرک و کافر نہیں ہو گا۔ اگر وہ نہیں مان رہا تو پھر آپ اس کو کوئی نام نہیں دے سکتے۔ بس یہیں تک محدود رہیے، جہاں تک اللہ تعالیٰ نے محدود کر دیا ہے۔
مسلمانوں میں بھی لوگوں کو کافر و مشرک کہنا آپ کا کام نہیں ہے۔ ہاں، البتہ شایستگی کے ساتھ ان کو بتائیے کہ آپ ٹھیک ہوں گے، مگر آپ کا یہ عمل قرآن مجید اور حدیث کی روشنی میں شرک ہے۔ ابھی بحث اور گفتگو ہورہی ہوتی ہے، مگر ہوتا یہ ہے کہ ہم جس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں، وہ دوسرے پر ڈال دیتے ہیں، حالاں کہ وہ ابھی اس نتیجے کو مان ہی نہیں رہا۔[6]
______
سوال: کیا اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے؟
جواب: ابھی تک کوئی ایسا سائنسی طریقہ ایجاد نہیں ہو سکا کہ جس میں گوشت کو مصنوعی طور پر پیدا کرلیا جائے۔ اگر کوئی ایسا سائنسی طریقہ ایجاد ہو جائے تو یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا، لیکن اس وقت گوشت حاصل کرنے کے لیے آپ کو ایک جانور کی جان لینا پڑتی ہے۔ جانوروں کا گوشت حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ جارحانہ رویہ (aggressive behaviour) اختیار کرتے ہوئے ان کے گلے پر چھری چلائی جاتی ہے، ان کو زندگی سے محروم کر دیا جاتاہے اور جس جان کو حرمت حاصل ہے، اس کو چھین لیا جاتا ہے ۔
جانور کو ذبح کرنے سے پہلے اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ آپ کیا کام کرنے جا رہے ہیں۔ اس کام کو خدا کے حکم اور اذن کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین میں ہمیشہ سے یہ بات لازم کر دی ہے کہ میں تمھیں جانور کی جان لے کر گوشت حاصل کرنے کی اجازت دے رہا ہوں، لیکن یہ میرے نام اور اتھارٹی پر حاصل کیا جائے گا تاکہ تمھیں ہمیشہ یہ معلوم رہے کہ جان لینا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔
کسی جانور کو ذبح کرنے کے شرائط درج ذیل ہیں:
ایک یہ کہ جانور خدا کے نام پر ذبح کیا جائے۔ انسان کی جان تو پھر بھی انسان کی جان ہے، مگر خدا نے جانور کی جان کو بھی یہ حرمت دی ہے کہ آپ اگر اس کو مار کر گوشت لینا چاہتے ہیں تو پھر خدا کی اتھارٹی پر لیں۔ یہ ’بسم اللہ، اللہ اکبر‘ اسی لیے کہا جاتا ہے، یعنی ہم چھری پکڑ کر یہ کہتے ہیں کہ پروردگار، ہم اسے تیری اجازت اور تیرے نام سے ذبح کر رہے ہیں، اس لیے اللہ کا نام لینا لازم ہے، اس کےبغیر آپ کسی جانور کا گوشت لینے کا حق ہی نہیں رکھتے۔ جو شخص خدا کی اجازت کے بغیر ذبح کر رہا ہے، وہ ایک ناحق کام کر رہا ہے۔
دوسری یہ کہ جانور کا خون نکلنا چاہیے۔ چونکہ خون حرام ہے، اس لیے کہ ہر وہ چیز حرام ہے جس سے درندگی کی بو آتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمام درندوں، مثلاً شیر اور چیتے کا گوشت کھانا ممنوع ہے۔ اسی اصول پر خون پینا بھی حرام ہے۔ جانور کا خون کسی بھی طریقے سے نکال دیں تو یہ حلال ہے، یعنی ذبح کرنے کا کوئی مخصوص طریقہ ضروری نہیں ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکار کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس طریقے سے بھی خون نکال دو۔
جانور کا خون بہ جانا چاہیے اور اللہ کا نام لے کر ذبح کرنا چاہیے۔ اللہ کانام لینے کے لیے کسی مسلمان کا ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ خدا کو ماننے والی کوئی قوم بھی اللہ کا نام لے کر ذبح کر دے اور خون نکال دے تو گوشت بالکل جائز ہو جاتا ہے۔ لیکن ان دو شرائط کے بغیر گوشت کھانا تو الگ بات ہے، جانور کی جان لینے کا کسی کو حق ہی حاصل نہیں ہے ۔ موجودہ زمانے میں تو یہ مسئلہ رہا ہی نہیں، کیونکہ اس کام کے لیے مسلمان دنیا کے ہر کونے میں مل سکتے ہیں۔[7]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] -https://ghamidi.com/videos/on-the-day-of-judgement-what-will-happen-to-a-child-born-in-a-nonmuslim-family-2215
[2] -https://ghamidi.com/videos/can-nonmuslims-be-allowed-to-worship-in-the-mosque-3099
[3]-https://ghamidi.com/videos/why-are-non-muslims-not-permitted-entry-to-makkah-3100
[4]-https://ghamidi.com/videos/can-a-nonmuslim-preach-his-religion-in-a-muslim-state-2769
[5]-https://ghamidi.com/videos/do-only-muslims-have-a-right-over-jerusalem-3158
[6]-https://ghamidi.com/videos/why-are-christians-and-jews-not-called-polytheists-despite-their-polytheistic-practices-3113
[7]-https://ghamidi.com/videos/eating-meat-slaughtered-by-jews-and-christians-lawful-or-not-2851