HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

تفسیر ’’مفتاح القرآن‘‘ کا ایک علمی مطالعہ (۲)

[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

قدیم و  جدید مفسرین سے استفادہ

 مفسرگرامی قدیم مفسرین میں امام رازی،طبری،ابن کثیر، زمخشری، ابوحیان اندلسی اور ابومسلم اصفہانی سے استفادہ کرتے ہیں۔ اوراس بارے میں وہ کسی مسلکی و مشربی تعصب سے کام نہیں لیتے۔ زمخشری اورابومسلم اصفہانی، دونوں معتزلی ہیں، مگردونوں کے ہاں فہم قرآن کا جو ذوق ہے، وہ بہت بلندہے، اس لیے ان دونوں سے وہ کافی استفادہ کرتے ہیں۔مگرمتاخرمفسرین پر وہ زیادہ ترنقدہی کرتے ہیں، خاص کر ’’تفسیر مدارک‘‘ اور ’’تفسیر خازن‘‘  کے مصنفین پر۔اردوترجموں کے بارے میں ان کی راے اچھی نہ تھی۔ مولانا اشرف علی تھانوی کے ترجمہ و تفسیر کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’مولاناتھانوی کو نہ معلوم کیوں تفسیرروح المعانی بہت پسند آگئی تھی۔جورطب و یابس اورفضولیات سے بھری ہوئی کتاب ہے۔مجموعی لحاظ سے مولاناتھانوی کی تفسیر بیان القرآن اردوتفسیروں میں پسندیدہ ترہونے کے لائق ہے۔[14]؎ ‘‘

اسی طرح مولانا عبدالماجددریابادی کی خدمت قرآنی کو بھی سراہا ہے۔[15]؎ علامہ حمیدالدین فراہی سے بہت سی باتوں میں اختلاف رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر مولانافراہی کی تفسیرسورۂ فیل پر انھوں نے علمی نقد کیا اور سلف کی تفسیر کی تائیدکی ہے۔تاہم ان کے بارے میں بلند کلمات لکھے ہیں:

’’مولانا حمید الدین فراہی صاحب فکروبصیرت عالم تھے،... بہرحال قرآن کریم ان کے فکر و نظر کاموضوع تھا،موصوف نے یہی مبارک روح سراے میر(اعظم گڑھ ) کی مشہورعربی درس گاہ مدرسۃ الاصلاح میں پھونک دی تھی۔‘‘[16]؎

اردو تفسیروں میں علامہ میرٹھی نے سرسید،چودھری غلام احمدپرویز کے علاوہ متعددمواقع پر ’’تفہیم القرآن‘‘ پر بھی نقدکیاہے، حالاں کہ وہ مولانامودودی کے عصری فہم و بصیرت وعظمت کے قائل تھے، مگر علوم اسلامیہ، خاص کر تفسیر و حدیث کے میدان میں ان کے چنداں قائل نہ تھے۔[17]؎

آیات وسور کا باہمی ربط

مفسرگرامی نے سورہ وآیات کے باہمی ربط وتعلق پربھی جابجاروشنی ڈالی ہے،مثال کے طورپر سورۂ نور اور سورۂ مومنون کے باہمی ربط کو ان الفاظ میں تحریرکرتے ہیں:

’’سورۂ مومنون کے شروع میں مذکورہے کہ عفت وپارسائی سے متصف ہونامومن کی شان ہے اوریہ وصف ان چھ اوصاف میں سے ہے جو فوزوفلاح کا سبب ہیں اورسورۂ نورمیں عفت وپارسائی کی تاکیدمذکورہے اوراس کی حفاظت کی سلبی اورایجابی تدبیریں ارشادہوئی ہیں۔ اس لحاظ سے سورۂ نورکابیش ترحصہ سورۂ مومنون کی آیت ۶ ’وَالَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ. اِلَّا عَلٰ٘ي اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ‘ کی شرح و تفسیر ہے۔‘‘[18]؎

ہرسورہ مرتب ومنظم نازل ہوئی

نظم قرآنی کے سلسلہ میں صاحب ’’مفتاح القرآن‘‘ کی راے یہ ہے کہ ہرسورہ اسی ترتیب سے اتری ہے جس ترتیب سے وہ درج مصحف ہے۔ یہ توہواہے کہ کوئی سورہ پہلے نازل ہوئی ہو،اسے مصحف میں بعدمیں درج کیاگیاہو،مگرایسانہیں ہواکہ ایک ہی سورہ کی آیات میں تقدیم و تاخیر ہوگئی ہو۔نہ ہی ایساہواہے کہ کوئی آیت یاکوئی سورہ کئی بارنازل ہوئی ہو۔اس سلسلہ میں وہ لکھتے ہیں:

’’حق وصحیح بات یہ کہ دیگر دوسری سورتوں کی طرح سورۂ آل عمران کی آیات بھی اسی ترتیب کے ساتھ نازل ہوئی تھیں جس ترتیب سے وہ درج مصحف ہیں۔بے شک قرآن کریم کی سورتوں میں زمانی ترتیب نہیں ہے۔ چنانچہ چارابتدائی سورتیں،سورۂ بقرہ،وآل عمران وسورۂ نساء وسورۂ مائدہ مدنیہ ہیں پھرسورۂ انعام و سورۂ اعراف دونوں مکیہ ہیں۔لیکن یقین کرناچاہیے کہ ہرسورہ شریفہ کی آیات میں زمانی ترتیب ہے۔ان میں عدم ترتیب کا خیال کرنا، یعنی یہ سمجھناکہ کسی سورۃ میں بعدمیں نازل ہونے والی آیات پہلے اورپہلے نازل ہونے والی آیات بعدمیں درج مصحف ہیں بالکل غلط ہے۔کسی سورۃ کی آیات میں ترتیب زمانی نہ ہونے کا غلط وبیہودہ خیال دراصل اہل رفض کا تراشیدہ ہے۔خاص مقصد، یعنی صحابۂ کرام کو مطعون کرنا ان کے پیش نظر تھا۔ غیر محتاط راویوں نے یاتقیہ اختیارکرکے رافضیوں نے ہی اہل سنت میں اس خیال کو قوت پہنچانے والی روایات پھیلائی ہیں۔‘‘[19]؎

اس راے کا اظہارعلامہ نے اوربھی متعددجگہوں میں کیاہے۔سورۂ آل عمران کی شان نزول میں مولانا مودوی نے چارتقریریں قراردی ہیں۔[20]؎

اس پر نقدکرتے ہوئے علامہ میرٹھی لکھتے ہیں:

’’سوال یہ ہے کہ یہ سورت حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو کب تعلیم فرمائی تھی اورکاتبان وحی سے کب لکھوائی تھی ؟ کیاتکمیل نزول کے بعدسنہ ۹ھ میں جب وہ تقریرنازل ہوچکی ہے جسے مودودی صاحب اس سورہ کی تقریر۲بتارہے ہیں اورجس کا زمانۂ نزول ۹ھ قراردے رہے ہیں ؟ یاجیسے جیسے اس کی آیات نازل ہوتی رہیں آپ صحابہ کو تلقین فرماتے اورکاتبان وحی سے لکھواتے رہے؟ یقیناًپہلی صورت نہیں ہوئی نہ ہی کوئی شخص اس کا قائل ہے،دوسری ہی صورت تھی، یعنی جوآیات نازل ہوئیں فوراً ان کی تلقین بھی فرمادی گئی اور کاتبان وحی سے وہ لکھوادی گئیں۔پس مولانامودودی کے خیال مذکورکو مان لینے سے لازم آتاہے کہ اہل ایمان سنہ ۴، ۵، ۶، ۷، اور سنہ۸  تک پورے پانچ سال تک اس سورہ کو اس طرح پڑھتے رہے ہوں کہ چوتھے رکوع کی دوآیتوں کے بعد ’قُلْ يٰ٘اَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰي كَلِمَةٍ سَوَآءٍۣ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ‘ (آل عمران ۳: ۶۴) پڑھتے ہوں جواس سورہ کا ساتواں رکوع ہے اوراسی طرح لکھنے والوں نے لکھا ہو، پھرجب سنہ ۹ میں یہ آیات جنھیں (مولانا) مودودی صاحب نے اس سورت کی دوسری تقریر بتایاہے، اتری ہوں تب حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بتایا ہو کہ یہ سورہ جوتمھیں محفوظ ہے یاتمھارے پاس بصورت مکتوب موجودہے تواس میں فلاں آیت اور فلاں آیت کے درمیان یہ آیات اوریادکرلواورلکھ لو،یہ لازم آنے والی بات یقیناًغلط ہے۔ لامحالہ جس بات سے یہ غلط بات لازم آرہی ہے وہی غلط ہے۔‘‘ ( مفتاح القرآن۱ /۵۸۳)

حروف مقطعات

حروف مقطعات کے بارے میں مفسرین کا عام رجحان یہ ہے کہ ان کے معانی اللہ تعالیٰ ٰ ہی کومعلوم ہیں۔ اور ان کو معلوم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، مگربعض مفسرین نے، اس کے برخلاف ان کے معانی متعین کرنے کی کوشش بھی فرمائی ہے۔اردومیں مولاناثناء اللہ امرتسری نے اس کی کوشش کی ہے۔[21]؎  علامہ میرٹھی بھی اسی گروہ علما سے تعلق رکھتے ہیں،انھوں نے حروف مقطعات میں ہرایک کے معنی ومفہوم کو متعین کیاہے اوران کو سورۂ بقرہ کے شروع میں جمع کردیاہے۔ اوریہ بحث ان کی تفسیرمیں ۷صفحات تک چلی گئی ہے اورپوری بحث پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔اس بحث کے آغازکے چندجملے ہم یہاں نقل کرتے ہیں:

’’’الٰم‘۔ اِس سورۂ شریفہ کا عنوان ہے۔اوریہ ہی اس کے بعدکی سورہ یعنی سورۂ آل عمران کا پھرسورۂ عنکبوت و سورۂ روم وسورۂ لقمان وسورۂ سجدہ کا بھی عنوان ہے۔ اس طرح اوربھی متعددسورتوں کے عناوین ایسے ہی رکھے گئے ہیں۔قرآن کریم میں اِ س انداز کی سورتیں انتیس ہیں،ان میں سے دو ــــــ سورۂ بقرہ وسورۂ آل عمران ــــــ مدنیہ ہیں اوربقیہ سب مکیہ ہیں۔اِ ن عناوین کو اصطلاح میں حروف مقطعات کہتے ہیں، کیونکہ ان کا تلفظ حروف ہجاء کے طورپر پوراپورااورالگ الگ کیاجاتاہے۔ اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی قراء ت اسی طرح ثابت و منقول ہے۔ مثلاً ’الٓم‘ کو الف لام میم پڑھاجاتاہے۔ان حروف مقطعات میں فی الواقع ان مضامین و مطالب کی طرف اشارات فرمائے گئے ہیں جن کا ان سورتوں میں ذکرہے۔.......
۱۔ صٓ:اس سورۂ شریفہ کے آغاز میں ہی ذی اثر کافروں کا یہ قول نقل کیاگیاہے: ’امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰ٘ي اٰلِهَتِكُمْ‘ (صٓ ۳۸: ۶ ) (اپنے قدیم مسلک ومذہب پر چلتے رہواوراپنے معبودوں اوردیوتاؤں پر جمے رہو) یعنی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت حق میں جدوجہدکو دیکھ کراُن لوگوں نے باہم یہ طے کیاتھا اور اپنے عوام کو یہ پیغا م دیاتھاکہ اس دعوت توحیدکو بالکل ناکام بنادو،صبروثبات اوراستقلال کے ساتھ اپنے دھرم پر قائم رہو۔ اس کے بعد ان کی اورچندبے ہودہ وگستاخانہ باتیں نقل کرکے اورانھیں زجروتوبیخ فرما کر اللہ تعالیٰ ٰ نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایاہے: ’اِصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَيْدِ‘ (صٓ ۳۸:  ۱۷)یعنی آپ ان کی باتوں پر صبرفرمائیں اوراپنے کام میں لگے رہیں اورتسلی کے لیے گذشتہ انبیاے کرام علیہم السلام کی سیرت صبر و ثبات پیش نظررکھیں۔اس کے بعدان حضرات کے صبروثبا ت اوراس کے مختلف مظاہرکو پیش کیا ہے۔ پھر چوتھے رکوع کے آخرمیں حق پر صبرکرنے والوں اورباطل سے چمٹے رہنے والوں کے الگ الگ اورمتضاداخروی انجام کا ذکر کیا ہے۔ پھرپانچویں رکوع میں باطل پر صبرکرنے والوں کے سب سے بڑے لیڈر اور پیشوا، یعنی ابلیس اوراس کے انجام بدکا ذکرہواہے۔پس اس سورۂ شریفہ کا مرکزی و بنیادی مضمون صبرہے اوراس میں نہایت بلیغ ودلنشین انداز سے صبر علی الحق اختیارکرنے اورصبرعلی الباطل کوچھوڑدینے کی ترغیب و تاکید فرمائی گئی ہے۔اورحرف صادکو اس کا عنوان وعلم قراردے کر اس کے اس موضوع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے‘‘۔الخ[22]؎

 حروف مقطعات کی بحث کے اخیرمیں انھوں نے لکھاہے:

’’پھریہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ حروف مقطعات کوسورتوں کے عنوان وعَلم کے طورپر استعمال کرناقرآن کریم کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت اوراس کے معجزانہ تفردات میں سے ایک تفردہے۔کلام عرب میں حروف مقطعات کواس طرح استعمال کرنے کی کوئی نظیرثابت نہیں …واقعہ یہ ہے کہ یہ اسلو ب نہ تونزول قرآن سے پہلے معروف تھا نہ نزول قرآن کے وقت رائج تھا، اس لیے اس کا متروک ہوجانابے معنی بات ہے۔اوریہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن کریم کے نزول کے وقت صحیح وفصیح عربی میں اداے مطالب کے جواسالیب رائج ومعروف تھے وہ تمام کے تما م بلااستثنا قرآن کریم کی بدولت صحیح وفصیح عربی زبان میں اب بھی معروف ورائج ہیں اورجب تک روے زمین پر قرآن باقی ہے معروف ورائج رہیں گے۔‘‘ (مفتاح القرآن ۱ / ۳۸)

لغوی دقائق

مفسررحمہ اللہ عربی زبان وادب،لغت واشتقاق،نحووصرف اوربلاغت میں بھی یدطولیٰ رکھتے ہیں،جس کی وجہ سے وہ لغوی دقائق اورنکتہ سنجیوں تک بہ آسانی پہنچ جاتے ہیں۔ان کاسب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ ان علوم پر بھی مجتہدانہ نظررکھتے ہیں۔لہٰذا آیات کی تفسیرکے بعد تنبیہ کے عنوان سے جہاں بھی کوئی فنی، ادبی، لغوی یا حدیثی تحقیق پیش کرتے ہیں، ان میں وہ اکثرجگہوں میں نہایت اطمینان بخش راے دیتے ہیں۔ عقلی ووجدانی طور پر  قاری ان کی بات سے مطمئن اورسابق مفسرین کی راے سے غیرمطمئن ہو جاتا ہے۔ مفسرگرامی قرآن پر مسلسل غور و فکر اور تدبر کرتے تھے، لہٰذا اس تدبراورغورفکرسے ان پر نت نئے معانی اورتحقیقات کا انکشاف ہوتا رہتا تھا،گویاوہ کیفیت تھی کہ :

 ترے ضمیر پر نہ ہو جب تک نزول کتاب

گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف

مثال کے طورپر آیت کریمہ ’حَتّٰ٘ي اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ‘(ہود۱۱: ۴۰ ) کاترجمہ یوں کیاہے:

’’یہاں تک کہ جب آجائے گا ہمارا حکم اورابل پڑے گاتنورتوہم فرمائیں گے کہ سوارکرلے اس میں ہر ایک نوع سے نر و مادہ کویعنی دو فرد کو اور اپنے گھر والوں کو اُس کے سوا جس کی تباہی کا حکم صادر ہو چکا ہے۔ اور اس گروہ کو جو ایمان لے آیاہے۔ اوراس قوم میں تھوڑے ہی لوگ ایمان لاکراس کے ساتھ ہوئے تھے۔‘‘

آگے تنبیہات کے عنوان سے لکھتے ہیں:

’’اس ترجمہ وتفسیرسے ناظرین سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ آیت ’وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا‘ (ہوداا:  ۳۷ ) سے مرتبط ہے۔ اس آیت کا ترجمہ کرنے میں دیگرمفسرین و مترجمین سے چوک ہوگئی ہے، انھوں نے ’حَتّٰ٘ي اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ‘ (ہوداا: ۴۰)  کاترجمہ یہ کیا ہے: یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور نے جوش مارا تو ہم نے کہا‘‘ حالاں کہ لفظ ’اذا‘ اس ترجمہ کی صحت سے مانع ہے۔ اگر ’اذا‘ کی بجاے ’لما‘ یا ’اذ‘  ہوتا تو یہ ترجمہ درست ہوتا کیونکہ ’اذا‘ کلمۂ استقبال ہے ماضی کوبھی مضارع کے معنی میں کردیتاہے،ان مترجمین نے اس آیت کا ترجمہ کرتے وقت سورۃ المومنین کی اِس آیت کوبھی پیش نظررکھاہوتاتوغلطی سے بچ جاتے:’فَاَوْحَيْنَا٘ اِلَيْهِ اَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَاِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ فَاسْلُكْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ‘ (المومنون: ۲۷)۔‘‘ (مفتاح القرآن ۳ / ۱۱۵)

لوح محفوظ کی تحقیق

قرآن میں متعددجگہ کتاب مبین یا روزنامچہ ٔ خداوندی کا تذکرہ آیاہے،جوتمام حوادث وواقعات عالم کومحیط ہے اورجس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں ہے۔مفسرگرامی نے اس کتاب مبین کی متعددآیات کے تتبع سے تین قسمیں کی ہیں۔(الف) منصوبہ ٔ کائنات جو تخلیق کائنات سے بہت پہلے ہی لکھا جا چکا ہے۔ اس کے بارے میں قرآن کے علاوہ صحیح مسلم کی ایک حدیث بھی ناطق ہے۔(ب) عالم میں رونما ہونے والے حوادث وواقعات کا تفصیلی رجسٹر جیسا کہ متعدد آیات کریمہ بتاتی ہیں۔ (ج) ہر شخص کا نامہ ٔ اعمال،متعددآیات میں مذکورہے کہ قیامت کے دن نیک بندوں کو یہی نامہ ٔ اعمال داہنے ہاتھ میں ملے گااورکفارفجارکو بائیں ہاتھ میں۔اس کے بعد لکھتے ہیں:

’’پس قرآن مجیدسے اندراجات کی یہ تینوں قسم کی کتابیں ثابت ہیں،لیکن تعجب ہے کہ جمہورمفسرین کو ان میں تمییز کی توفیق نہیں ملی۔انھوں نے قسم اول وثانی پر دلالت کرنے والی آیات میں ہر جگہ کتاب کو ’’لوح محفوظ‘‘ سے تعبیرکیاہے۔اور لوح محفوظ کے متعلق یہ تصوردیاہے کہ وہ ایک کتاب عظیم ہے جس میں دنیا بھر کی ہرچیز بے کم وکاست عالم کی آفرینش سے پہلے ہی درج کردی گئی ہے۔حتیٰ کہ تمام بندوں کے اچھے برے اعمال وافعال اورانھیں پیش آنے والے تمام احوال سب اس میں ثبت ہیں۔جتنے صحیفے انبیاء کرام پر نازل ہوئے قرآن کریم سمیت سب اس میں پہلے سے ہی لکھ دیے گئے تھے۔یہ لوح زمردکی ہے،اس کا طول ۵۰۰ سال کی مسافت کاہے اور عرض  ۱۰۰ سال کی مسافت کا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مزعومہ لوح محفوظ کا ذکر نہ توقرآن کریم میں کہیں ہے نہ کسی حدیث صحیح میں...۔‘‘ (مفتاح القرآن ۲ / ۳۸۲)

تفسیرالقرآن بالقرآن

ڈاکٹرسیدشاہدعلی کی تحقیق کے مطابق: ’’آیات کی تفسیرکے سلسلہ میں آپ تفسیرالقرآن بالقرآن کے طرز کی مکمل پیروی کرتے ہیں۔آپ کی زیادہ ترکوشش یہ ہوتی ہے کہ آپ ایک آیت کی دوسری آیات کی مددسے تفسیر کریں،مزیدیہ کہ دوسری آیات کے بیان پر ہی اکتفا نہیں کرتے، بلکہ ان کی بھی تشریح وتوضیح کردیتے ہیں۔ جس سے موضوع کا پورا احاطہ ہو جاتا ہے اورسلف صالحین کے مسلک کی مکمل پیروی بھی ہوتی ہے۔ ’وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَةِ نُؤْتِهٖ مِنْهَا وَسَنَجْزِي الشّٰكِرِيْنَ‘ (اورجودنیاکے فائدے کو مقصودبنائے توہم اسے دنیاسے دے دیتے ہیں اورجوآخرت کے فائدہ کو مقصودبنائے توہم آخرت سے عطافرماتے ہیں اورشکرکرنے والوں کو ہم جزاعطافرمائیں گے)۔‘‘[23]؎  

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[14]؎ اردومترجمین ومفسرین کے بارے میں علامہ میرٹھی نے یہ رائیں اپنے ایک غیرمطبوعہ مختصرسے مضمون ’’اردو میں لکھی گئی تفاسیر قرآن ‘‘میں ظاہرکی ہیں۔ یہ مضمون اپنی اصل صورت میں راقم کے پاس محفوظ ہے۔

[15]؎ علامہ میرٹھی لکھتے ہیں :’’مولاناعبدالماجددریابادی نے عربی نہ جاننے کے باوجودقرآن کریم کی خدمت احتیاط سے کی ہے۔ترجمہ و تفسیرمیں ان علماے کرام کی باتیں نقل کی ہیں جوان کے نزدیک علم وتقویٰ میں معتمدعلیہ تھے۔‘‘

[16]؎ حوالۂ بالا۔

[17]؎ حوالۂ بالا۔

[18]؎ معاصرتفسیروں میں مصنف نے سب سے زیادہ نقد ’’تفہیم القرآن‘‘ پر ہی کیاہے۔

[19]؎ مفتاح القرآن ۴/ ۲، فاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز، نئی دہلی، ۲۰۲۴ء۔

[20]؎ تفہیم القرآن ج۱،دیباچہ تفسیرآل عمران ۔

[21]؎ مفتاح القرآن۱ /۵۸۱۔

[22]؎ مولاناامرتسری لکھتے ہیں:

’’ان حروف کے معنی بتلانے میں بہت ہی اختلاف ہوا… میرے نزدیک زیادہ صحیح معنی وہ ہیں جوابن عباس سے مروی ہیں کہ ہرحرف اللہ کے نام اورصفت کا مظہرہے۔اس لیے میں نے، یہ ترجمہ جسے آپ دیکھ رہے ہیں، کیاہے۔یہ حضرت ابن عباس سے منقول ہے۔مثال کے طورپربعض حروف مقطعات کاترجمہ یوں کیاہے ’الٰم‘: میں ہوں اللہ سب سے بڑاعلم والا،’الٰرا‘: میں ہوں اللہ سب کچھ دیکھتا اورسنتا۔‘‘ (تفسیرثنائی ۳، ۴۶)

[23]؎ ڈاکٹرسیدشاہدعلی،اردوتفسیروں کامطالعہ بیسویں صدی میں ۱۱۰۔

B