[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]
حضر ت عوف بن عفرایثرب میں پیدا ہوئے۔شاذ روایت میں ان کا نام عوذبتایا گیا ہے۔ ان کے والد کا نام حارث بن رفاعہ تھا، لیکن وہ اپنی والدہ حضرت عفرا کی نسبت سے مشہور ہیں۔مالک بن نجار ان کے ساتویں، خزرج قبیلے کے بانی خزرج بن حارثہ گیارھویں اور ازد بن غوث انیسویں جد تھے۔نسبت قبیلہ سے خزرجی اور نسبت ایمانی سے انصاری کہلاتے ہیں۔
حضرت عوف کی والدہ حضرت عفرا بنت عبید بنو نجار سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کی پہلی شادی حارث بن رفاعہ سے ہوئی۔ حضرت معاذ اور حضرت معوذ کی پیدایش کے بعد حارث نےان کوطلاق دے دی تو وہ حج کرنےمکہ آئیں۔یہاں بنو عدی کے حلیف بکیر (یا ابوالبکیر) بن عبدیا لیل سے ان کا عقد ثانی ہو گیا اور حضرت عاقل،حضرت عامر،حضرت خالداورحضرت ایاس کی ولادت ہوئی۔ اس کے بعد معلوم نہیں، ابو البکیر کی وفات ہو گئی یا وہ ان سے علیحدہ ہو گئیں۔تب حضرت عفرا مدینہ لوٹ آئیں اور اسلام قبول کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر لی۔ حارث نے رجوع کر کے دوبارہ ان سے نکاح کیا تو حضرت عوف کی ولادت ہوئی۔ (انساب الاشراف۱/ ۲۸۱)۔البتہ حارث بن رفاعہ کے قبول اسلام کی کوئی خبر نہیں۔ ابن اسحٰق نے حضرت رفاعہ کوبھی حضرت عوف کا بھائی بتایا ہے(الطبقات الکبریٰ،رقم ۱۶۳)۔
مکہ کے نا موافق حالات میں تعلیم و تبلیغ جاری رکھنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ارقم بن ابوارقم کے گھر منتقل ہوئے توحضرت خالد بن بکیر، حضرت عاقل بن بکیر،حضرت عامر بن بکیر اورحضرت ایاس بن بکیر سب سے پہلے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر ایمان لے آئے۔ان کے والد کے قبول اسلام کی کوئی اطلاع نہیں۔
حضرت عوف بن عفرا انصار کے ان چھ السابقون الاولون میں شامل تھے جنھوں نے سب سے پہلے یثرب سے مکہ آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی۔۱۱/ نبوی (جولائی ۶۲۰ء) کے موسم حج میں آنے والے قبائل کو دعوت دین دینے کے لیے آپ منیٰ تشریف لائے تھے کہ آپ کی ملاقات بنوخزرج کے چھ افراد سے ہوئی۔ آپ نے انھیں قرآن مجید سناکر اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو وہ بہت متاثر ہوئے اورکہنے لگے کہ یہودی جن خاتم النبیین کے ظہور سے ہمیں ڈراتے ہیں، یہی ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ہم سے پہلے اسلام قبول کر لیں۔چنانچہ سب ایمان لے آئے اور امید ظاہر کی کہ اگر یثرب کی ساری قومیں اوس اور خزرج آپ کی دعوت قبول کر لیں تو ان کی باہمی دشمنیاں ختم ہو جائیں گی۔ ان چھ خوش نصیبوں کے نام یہ ہیں: حضرت اسعد بن زرارہ، حضرت عوف بن عفرا،حضرت رافع بن مالک، حضرت قطبہ بن عامر، حضرت عقبہ بن عامراور حضرت جابر بن عبداﷲ بن رئاب۔ یثرب جا کر انھوں نے اپنے اہل خاندان اور رشتہ داروں کو بھی اسلام کی دعوت دی۔
دوسری روایت کے مطابق ان چھ اصحاب کے ایمان لانے سے پہلے حضرت رافع بن مالک اور حضرت معاذ بن عفرا مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کر کے اسلام قبول کر چکے تھے(البدایہ۳/ ۳۹۹)۔
۱۲/ نبوی(جولائی ۶۲۱ء):حج کے دوران میں ۱۱؍ نبوی کی بیعت میں شامل پانچ اصحاب حضرت اسعد بن زرارہ، حضرت عوف بن عفرا، حضرت رافع بن مالک، حضرت عقبہ بن عامر ، حضرت قطبہ بن عامر کے علاوہ حسب ذیل سات مزید اہل ایمان نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی:
حضرت معاذ (معوذ: بلاذری، ابن جوزی) بن عفرا، حضرت ذکوان بن عبد قیس، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت یزید بن ثعلبہ،حضرت عباس بن عبادہ، حضرت ابوالہیثم مالک بن تیہان اور حضرت عویم بن ساعدہ۔ حضرت ابو الہیثم اور حضرت عویم اوس سے تھے، جب کہ باقی دس صحابہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ عقبہ کے مقام پرہونے والی انصار کے ان بارہ السابقون الاولون کی بیعت، بیعت عقبۂ اولیٰ کہلاتی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوشش تھی کہ اسلام میں داخل ہونے وا لے ہر نئے مومن کا ایمان کامل ہو جائے، اخلاق حسنہ سے مزین ہو اور کبائر سے دور ہو جائے۔ چنانچہ آپ نے یثرب کےان اہل ایمان سے ان الفاظ میں بیعت لی:آؤ، اس بات پر میری بیعت کروکہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیراؤ گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے،اپنے ہاتھوں پاؤں کے درمیان(اعضاے صنفی)سے متعلق کوئی بہتان نہ تراشو گے اور معروف میں میری نافرمانی نہ کرو گے۔ تم میں سے جو عہد پورا کرے گا،اس کا اجر اللہ کےذمہ ہو گا اور جس نے ان میں سے کوئی عہد شکنی کی اور اللہ نے اس کا پردہ رکھاتو اس کا فیصلہ اللہ کرے گا، چاہے سزا دے، چاہے معاف کر دے (بخاری، رقم ۳۸۹۳۔مسلم، رقم ۴۴۸۱۔ احمد، رقم ۲۲۷۵۴۔مسند شاشی، رقم ۱۱۵۰)۔ اسے ’بیعت النساء‘ کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ جنگ فرض ہونے سے پہلےلی گئی اور اس کے الفاظ اس بیعت سے ملتےہیں جو بعد میں صلح حدیبیہ کے موقع پر اللہ کے حکم پر عورتوں سے لی گئی (الممتحنہ۶۰: ۱۲)۔
۱۳ / نبوی ( جون ۶۲۲ ء ): حج کے موقع پرجمرۂ اولیٰ کی گھاٹی میں پچھتر انصار نےاپنے بت پرست ساتھیوں سے چھپ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر جو بیعت کی، اسے بیعت عقبۂ ثانیہ کہا جاتا ہے۔ موسم حج میں وہ اپنے مشرک اہل وطن کے ساتھ فریضہ حج ادا کرنے نکلے۔ راستے میں باہم مشورہ کرنے لگے کہ ہم کب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کے پہاڑوں میں چکر کاٹتے، خوف زدہ رہنے دیں گے۔ مکہ پہنچ کر انھوں نے آپ سے درپردہ سلسلۂ جنبانی شروع کیا، آخر کار اس امرپر اتفاق ہو گیا کہ وہ ایام تشریق کے درمیانی دن، یعنی ۱۲؍ ذی الحجہ کو منیٰ میں جمرۂ عقبہ کی گھاٹی میں آپ کے پاس خفیہ طور پر جمع ہوں گے۔ تہائی رات گزر گئی تو تہتر مرد اور دو عورتیں سست روی سے چھپتے چھپاتے گھاٹی میں پہنچ گئے۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو مدینہ تشریف لانے کی دعوت دی اور عہد کیا کہ ہم لوگ آپ اور اسلام کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں گے۔
۱۲/ نبوی کاسال گزرنے کےبعد حالات میں تبدیلی آئی اور اسلامی ریاست کے آثار نظر آنے لگےتو نصرت دین اور اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد ضروری ہو گیا۔چنانچہ بیعت عقبۂ ثانیہ میں جہاد اور مملکت اسلامیہ کے دفاع کی شقیں شامل کی گئیں، اس لیے اسے ’بیعت الحرب‘ کہتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی آیات تلاوت فرمائیں،اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دی اور اسلام کی رغبت دلائی۔ صحابہ ایک ایک دو دو کرکے آپ کے پاس آئےاور آپ کے دست مبارک پر بیعت کی۔آپ نے فرمایا:میں تم سے بیعت لیتا ہوں، مستعدی اورکسل مندی میں سمع و طاعت کی، تنگی اور کشادگی میں انفاق کی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی،اس بات کی کہ تم اللہ کی راہ میں اٹھ کھڑے ہو گے،اللہ کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈرو گے، میری نصرت کرو گے جب میں تمھارے پاس آؤں گا،میرا دفاع کرو گے ان معاملات میں جن میں اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا دفاع کرتے ہو، بدلے میں تمھیں جنت ملے گی (احمد، رقم ۱۴۴۵۶ ، ۱۴۶۵۳۔ مستدرک حاکم، رقم ۴۲۵۱۔السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۷۷۳۵۔المعجم الکبیر،طبرانی، رقم ۱۵۵۲۴۔ صحیح ابن حبان، رقم ۷۰۱۲)۔
حضرت ابو ایوب انصاری، حضرت معاذ بن عفرا، حضرت عوف بن عفرا، حضرت معوذ بن عفرا، حضرت عمارہ بن حزم ، حضرت اسعد بن زرارہ، حضرت سہل بن عتیک، حضرت اوس بن ثابت، حضرت ابو طلحہ انصاری، حضرت قیس بن ابو صعصہ، حضرت عمرو بن غزیہ۔ابن ہشام نے حضرت عوف کے چوتھے بھائی حضرت رفاعہ بن عفرا کو بھی بیعت عقبۂ ثانیہ کرنے والوں میں شمار کیا ہے۔
مدینہ پہنچ کر حضرت عوف بن عفر ا،حضرت اسعدبن زرارہ اورحضرت عمارہ بن حزم نے اپنے قبیلے بنو مالک بن نجار کے بت پاش پاش کر دیے۔
جنگ بدر ۱۷/ رمضان ۲ھ (۱۳/ مارچ ۶۲۴ء) میں مدینہ سے اسّی میل(ایک سو تیس کلو میٹر)دور بدر کے میدان میں لڑی گئی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں تین سو تیرہ اہل ایمان ابو جہل کے لائے ہوئے ایک ہزارکفارکے خلاف نبردآز ما ہوئے اورنصرت الہٰی سے فتح عظیم حاصل کی ۔ حضرت عوف بن عفرا نے اس معرکۂ فرقان میں شہادت حاصل کی۔
ہجرت کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے مدینہ کے پاس سے گزرنے والے تجارتی قافلوں کو ہدف بنانے کا فیصلہ کیا۔ جمادی الثانی ۲ھ(جنوری۴۲۶ ء) میں آپ نے قریش کی سرگرمیوں کی خبر لینے کے لیے حضرت عبداللہ بن جحش کی سربراہی میں نو مہاجرین کا سریہ روانہ کیا۔سریے میں شامل حضرت واقد بن عبداللہ نے تیر مار کر قافلے کے سردار عمرو بن حضرمی کو قتل کر دیا۔اس پر سرداران قریش مشتعل ہو گئے اور انتقام لینے پر تل گئے۔ چنا نچہ یہی قتل جنگ بدر برپا ہونے کااہم سبب بن گیا،دوسری وجہ یہ ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان بن حرب کی قیادت میں شام سے آنےوالے تجارتی قافلے کو روکنے کے لیے ایک چھوٹا لشکر تیار کیا۔ ابو سفیان نے خطرہ بھانپ کر مدینہ سے دور سمندر کے قریب ایک لمبا اور محفوظ راستہ اختیار کرلیا، ساتھ ہی ضمضم بن عمرو کنانی کو مدد لانے کے لیے مکہ بھیج دیا۔ ابو جہل نےنو سو سے زیادہ مسلح افراد پر مشتمل لشکر تیار کیا اور بدر کا رخ کیا۔ا س اثنا میں ابو سفیان کا قافلہ خیر و عافیت سے مکہ پہنچ گیا،تاہم ابوجہل نے پیش قدمی جاری رکھی اور ۱۶/ رمضان ۲ھ کے دن بدر کے میدان میں پہنچ گیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۱۲/ رمضان کو تین سو تیرہ جاں نثاروں کے سا تھ مدینہ سے نکلے اور ۱۷/ رمضا ن کو میدان جنگ میں پہنچے۔
میدان جنگ میں حضرت علی نے مہاجرین کا پرچم اٹھایا، جب کہ حضرت سعد بن عبادہ نے انصار کا پرچم تھاما۔جنگ شروع ہونے سے پہلے مشرک لیڈروں حکیم بن حزام او رعتبہ بن ربیعہ نے سریۂ عبداللہ بن جحش میں مارے جانے والے عمروبن حضرمی کی دیت لے کرمکہ واپس لوٹنے کا مشورہ دیا۔ابو جہل نے انھیں خوب طعن و تشنیع کی اور عمرو بن حضرمی کے بھائی عامر سے کہا کہ اپنے بھائی کا بین کر کے لوگوں کو جنگ پر آمادہ کرو۔عتبہ ابن حضرمی کا حلیف تھا،اس لیے غیرت میں آکر نکلا،کوئی خود پورا نہ آیا تو سر پرچادرلپیٹی اوراپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اوربیٹے ولید کو لے کر دوبدو مقابلے (duel) کے لیےپکارا۔ اس کے للکارنے پر انصار کے تین نوجوان حضرت عوف بن عفرا، حضرت معوّذبن عفرا اور حضرت عبداللہ بن رواحہ(یا حضرت معاذبن عفرا) آگے آئے اور بتایا: ہم انصاری ہیں۔ عتبہ بولا: ہمیں تم سے کچھ نہیں لینا دینا۔ محمد،ہماری قوم کے ہم سر بھیجو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سبقت کرنے والے انصار کو صفوں میں واپس جانے کو کہااورفرمایا: اے بنی ہاشم،اٹھ کر مقابلہ کرو، اٹھوحمزہ، اٹھو عبیدہ بن حارث، اٹھوعلی۔تینوں نکل کر آئے توعتبہ بولا:اب برابر کے، صاحب شرف لوگوں سے جوڑ پڑا ہے۔ اولاً اس نے اپنے بیٹے ولید کو بھیجا،حضرت علی اس کے مقابلے پر آئے۔دونوں نے ایک دوسرے پرتلوار سے وار کیا۔ ولید کا وار خالی گیا، جب کہ حضرت علی نے ایک ہی ضرب میں اس کا کام تمام کر دیا۔ پھر شیبہ آگے بڑھا اورحضرت حمزہ اس کا سامنا کرنے نکلے۔ ان دونوں میں بھی دو ضربوں کا تبادلہ ہوااور شیبہ جہنم رسید ہوا۔ اب عتبہ کی باری تھی،حضرت عبیدہ بن حارث سے اس کا دوبدو مقابلہ ہوا، دونوں نے ایک دوسرے پر کاری ضربیں لگائیں۔ حضرت عبیدہ کی پنڈلی پر تلوار لگی اور ان کا پاؤں کٹ گیا۔ حضرت حمزہ اور حضرت علی پلٹ کر عتبہ پر پل پڑے،اسے جہنم رسید کیا اور زخمی حضرت عبیدہ کو اس حال میں اٹھا کر لے آئے کہ ان کی ٹانگ کی نلی سے گودا بہ رہاتھا۔ان کی شہادت اسی زخم سے ہوئی۔ قریش نے اپنے نام ور سرداروں کو یوں کٹتے دیکھا تو یک بارگی حملہ کر دیا تاکہ اکثریت کے بل بوتے پر لشکر اسلام کو شکست دیں۔ حضرت واقد بن عبداللہ جنھوں نے عمرو کو قتل کیا اور حضرت عبداللہ بن جحش جو اس مہم کے امیر تھے، مشرکوں کا ٹارگٹ تھے۔اللہ کا کرنا ہے کہ اس غزوہ میں دونوں ان کے ہاتھ نہ آ سکے۔
حضرت عوف بن عفرا اور ان کے بھائیوں حضرت معاذ بن عفرا اور حضرت معوذ بن عفرا نے جنگ بدر میں بھرپور شرکت کی۔ ابن اسحٰق کا کہنا ہے کہ حضرت عوف بن عفراکے چوتھے بھائی حضرت رفاعہ بن عفرا بھی معرکۂ فرقان میں شامل تھے(السیرۃ النبویۃ ۲/ ۷۶۔ طبقات ابن سعد، رقم ۱۶۳)۔ دوسرے ذرائع سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ ان بھائیوں کی شجاعت کے بارے میں مختلف روایا ت ملتی ہیں۔ انھیں الگ الگ بیان کیا جاتا ہے۔
پہلی روایت:جنگ کی صف میں حضرت معاذ بن عمروبن جموح اور حضرت معاذ بن عفرا حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کے دائیں بائیں کھڑے تھے۔ایک نے پوچھا: چچا، آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں ؟ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گالیاں بکتا ہے۔ اگر میں اس کو دیکھ لوں تو اس وقت تک نہ چھوڑوں جب تک کہ وہ مر نہ جائے یامیں شہید نہ ہو جاؤں۔دوسرے نے بھی ایسی ہی گفتگو کی۔ حضرت عبدالرحمٰن نے ابو جہل کو مشرکوں کے بیچ گھومتے پھرتے دیکھ لیا تو اس کی طرف اشارہ کر دیا۔ دونوں مجاہد تلواریں لے کر اس کی طرف لپکے اور پے درپے وار کر کے اسے قتل کر دیا۔پھر دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ابوجہل کے انجام کی خبر دی۔ آپ نے سوال فرمایا:تم میں سےکس نے اسے قتل کیا ہے؟دونوں بولے:میں نے قتل کیا ہے۔آپ نےپوچھا: کیا تم نے اپنی تلواریں پونچھ لی ہیں؟ عرض کیا: نہیں۔آپ نے تلواروں کو ملاحظہ کر کے فرمایا:تم دونوں نے اسے جہنم رسید کیا ہے، لیکن اس کا چھوڑا ہوا مال غنیمت (تلوار اور سامان حرب) معاذ بن عمرو کو ملے گا(بخاری، رقم ۳۱۴۱۔مسلم، رقم ۳۹۸۸۔ احمد، رقم ۱۶۷۳۔مستدرک حاکم، رقم ۵۷۹۶۔ صحیح ابن حبان، رقم ۴۸۴۰۔ مسند ابو یعلیٰ، رقم ۸۶۷)۔کیونکہ انھوں نے پہلے وار کیا اور زیادہ گہری چوٹ لگائی۔ تمام قاتلوں کے غنیمت میں شریک ہونے کا حکم غزوۂ بدر کے سات سال بعد جنگ حنین میں ارشاد ہوا (فتح الباری: شرح حدیث، رقم ۳۰۴۰۔ابن حبان، رقم ۴۸۴۰)۔
دوسری روایت:ابو جہل گھوڑے پرسوار تھا اور اسے مشرکوں نے حصار میں لے رکھا تھا، حضرت معاذ بن عمرو نے موقع پا کراس کی ٹانگ پر وار کیا اور اس کی پنڈلی کاٹ دی۔ابو جہل کے بیٹے عکرمہ نے ان کے کندھے پر جوابی وار کیا، جس سے ان کا کندھا کٹ کر پہلو سے لٹکنے لگا۔ انھوں نے اسے اتار پھینکا(السیرۃ النبویۃ، ابن ہشام ۲/ ۲۶۷)۔ ابن عبدالبر نےاس عمل کو حضرت معاذ بن عفرا کی طرف منسوب کیا ہے(الاستیعاب ۱۴۰۹)۔ ابن حجرکا رجحان بھی یہی ہے(الاصابہ، رقم ۸۰۵۴)،تاہم ابن سعد نے اس واقعہ کاذکر ہی نہیں کیا۔ اتنے میں حضرت معوذ بن عفراآ پہنچے،انھوں نے بھی ابو جہل پر کاری ضربیں لگائیں، پھروہ لڑتے لڑتے آگےنکل گئے اور شہید ہوگئے (اسد الغابہ ۴/ ۳۸۱)۔ دوران جنگ میں حضرت عوف نے بھی شہاد ت پائی۔
تیسری روایت: بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون دیکھے گا، ابو جہل کس حالت میں ہے؟ حضرت عبداللہ بن مسعود نے تعمیل فرمان کی۔انھوں نے دیکھا کہ حضرت عفرا کے دو نوں بیٹوں نے ا سے گھائل کر دیا ہے، حتیٰ کہ وہ ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ انھوں نے اس کی ڈاڑھی پکڑ کر کہا: یہ تو ہے،ابوجہل،گم راہ سردار؟ ابوجہل بولا: کیا تمھارے قتل کیے ہو ئے لوگوں میں کوئی مجھ سے بلند رتبہ بھی ہے؟ (بخاری، رقم ۳۹۶۳۔ مسلم، رقم ۶۴۸۵۔ احمد، رقم ۱۳۴۷۷۔السنن الکبریٰ،بیہقی، رقم ۱۸۱۶۵)۔ ابن حجر کہتے ہیں:حضرت عفرا کے دو نوں بیٹوں سے مرادحضرت معاذ اور حضرت معوذ ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ابوجہل کی تلوار ہی سےاس کا سر قلم کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کر د ی۔
چوتھی روایت:حضرت عوف بن عفرا اور حضرت معاذ بن عفرا،دونوں بھائیوں نے ابوجہل پر وارکر کے اسے زخمی کیا، لیکن گرنے سے پہلے وہ ان دونوں کی طرف مڑا اورجوابی وار کر کے انھیں شہید کر دیا (کتاب المغازی، واقدی۱/ ۱۴۹۔ المنتظم، ابن جوزی ۶۶۷)۔ابن سیرین نے اس روایت کی تائید کی۔
پانچویں روایت:حضرت معاذ بن عمرو، حضرت معوذ بن عفرااورحضرت عوف بن عفرا نے تلواروں کے وار کر کے ابو جہل کو ادھ موا کیا اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس کا کام تمام کیا (طبقات ابن سعد،رقم ۱۶۳۔ بحار الانوار، مجلسی۱۹/ ۳۶۳)
چھٹی روایت:غزوۂ بدر کے دن حضرت عوف بن عفرا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: بندے کی کون سی بات اس کے رب کو خوش کرتی ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ بات کہ اس کا ہاتھ جنگ میں مصروف ہو اور زرہ کے بغیر بے خوف لڑ رہا ہو، یعنی اگر جنگ کے میدان میں ہے تو پھر بے خوف ہونا چاہیے۔ اس پر حضرت عوف بن عفرا نے اپنی زرہ اتارپھینکی،تلوار پکڑی اور آگے بڑھ کر لڑنا شروع کر دیا، یہاں تک کہ شہید ہو گئے (السنن الکبریٰ،بیہقی، رقم ۱۷۹۷۷۔السیرۃ النبویۃ،ابن ہشام۲/ ۲۰۳)۔
حضرت عوف کےچاروں سوتیلےبھائیوں حضرت خالد بن بکیر،حضرت عاقل بن بکیر،حضرت عامر بن بکیر اورحضرت ایاس بن بکیر نے بنوعدی کے حلفا کی حیثیت سے جنگ بدر میں شرکت کی اور حضرت عاقل نے شہادت کا اعزاز حاصل کیا۔
بلاذری کہتے ہیں:حضرت معاذ بن عفرااور حضرت معوذ بن عفرا نے غزوۂ بدر میں شہادت پائی، جب کہ حضرت عوف بن عفرا زندہ رہے اور عہد معاویہ میں وفات پائی۔اپنے بیٹوں کی شہادت کے بعد حضرت عفرا بنت عبید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: یارسول اللہ، یہ میرا سب سےگز را ہوا بیٹا ہے۔ آپ نے فرمایا: ایسا نہیں،عفراکی باقی نسل عوف ہی سے چلے گی۔ اس کے برعکس واقدی نے بتایاہے: حضرت عوف بن عفرا اور حضرت معوذ بن عفرا جنگ بدر میں شہید ہوئے، انھیں ابو جہل نے قتل کیا۔ حضرت معاذ بن عفرا زندہ رہے اور زمانۂ فتنہ میں و فات پائی (الانساب۱/ ۲۸۱)۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عفرا کے بیٹوں کی جاے شہادت پرآئےاور فرمایا: اللہ ان دونوں پر رحم فرمائے، انھوں نے اس امت کے فرعون کو قتل کرنے میں حصہ لیا۔
مطالعۂ مزید:کتاب المغازی (واقدی)، السیرۃ النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، انساب الاشراف ) بلاذری)، تاریخ الامم و الملوک(طبری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ (ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، Wikipedia۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ