بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وَمِنْ اٰيٰتِهِ الَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَهُنَّ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ ٣٧
(لوگو، جو زمین و آسمان کا خالق ہے)، یہ رات اور دن اور سورج اور چاند بھی اُسی کی نشانیوں میں سے ہیں۔[44] تم نہ سورج کو سجدہ کرو[45] اور نہ چاند کو، بلکہ اُس اللہ کو سجدہ کرو جس نے اِنھیں بنایا ہے،[46] اگر تم اُسی کی بندگی کرنے والے ہو۔[47]۳۷
فَاِنِ اسْتَكْبَرُوْا فَالَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ يُسَبِّحُوْنَ لَهٗ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا يَسْـَٔمُوْنَ ٣٨
پھر اگر یہ تکبر کریں تو پروا نہیں، جو فرشتے تیرے پروردگار کی بارگاہ میں ہیں، وہ شب و روز اُسی کی تسبیح کر رہے ہیں اور (اُن کے ذوق و شوق کا یہ حال ہے کہ) کبھی اکتاتے نہیں ہیں۔[48] ۳۸
وَمِنْ اٰيٰتِهٖ٘ اَنَّكَ تَرَي الْاَرْضَ خَاشِعَةً فَاِذَا٘ اَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ اِنَّ الَّذِيْ٘ اَحْيَاهَا لَمُحْيِ الْمَوْتٰي اِنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ٣٩
اور اُسی کی نشانیوں میں سے ہے کہ تم زمین کو دیکھتے ہو کہ بالکل بے جان پڑی ہے۔ پھر جب ہم (اپنی عنایت سے) اُس پر پانی برسا دیتے ہیں تو وہ (زندہ ہو کر) لہلہاتی اور ابھرتی ہے۔[49] جس نے اُس کو زندہ کیا، یقیناً وہی مردوں کو بھی زندگی بخشنے والا ہے۔ اِس میں کچھ شک نہیں کہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔۳۹
اِنَّ الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْ٘ اٰيٰتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا اَفَمَنْ يُّلْقٰي فِي النَّارِ خَيْرٌ اَمْ مَّنْ يَّاْتِيْ٘ اٰمِنًا يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْﶈ اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ٤٠
ہماری اِن نشانیوں کے بارے میں جو لوگ کج روی اختیار کر رہے ہیں،[50] وہ ہم سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔[51] سو (فیصلہ کر لیں کہ) آیا وہ شخص بہتر ہے جو آگ میں جھونکا جائے گا یا وہ جو قیامت کے دن آئے گا اور اُسے کسی بات کا کھٹکا نہ ہو گا۔ (لوگو)، تم جو چاہو، سو کرو۔ اِس میں کچھ شک نہیں کہ جو تم کر رہے ہو، خدا اُسے دیکھ رہا ہے۔[52] ۴۰
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَآءَهُمْ وَاِنَّهٗ لَكِتٰبٌ عَزِيْزٌ٤١ لَّا يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْۣ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهٖ تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ٤٢
جن لوگوں نے خدا کی اِس یاددہانی کا انکار کر دیا ہے، جب کہ وہ اُن کے پاس آگئی ہے،[53] اُنھوں نے اپنی شامت بلا لی ہے۔[54] حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک بلند پایہ کتاب ہے۔ اِس میں نہ باطل اِس کے آگے سے داخل ہو سکتا ہے اور نہ اِس کے پیچھے سے۔[55] یہ نہایت اہتمام کے ساتھ اُس ہستی کی طرف سے اتاری گئی ہے جو سراسر حکمت ہے، ستودہ صفات ہے۔[56] ۴۱- ۴۲
مَا يُقَالُ لَكَ اِلَّا مَا قَدْ قِيْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ وَّذُوْ عِقَابٍ اَلِيْمٍ ٤٣
(تم مطمئن رہو، اے پیغمبر)، تمھیں (اِن لوگوں کی طرف سے) وہی باتیں کہی جا رہی ہیں جو تم سے پہلے رسولوں کو کہی جا چکی ہیں۔ (اِس وقت اِنھیں ڈھیل دی گئی ہے، لیکن یہ بے خوف نہ ہوں)۔ واقعہ یہ ہے کہ تیرا پروردگار مغفرت والا اور اِس کے ساتھ بڑی دردناک سزا دینے والا بھی ہے۔۴۳
وَلَوْ جَعَلْنٰهُ قُرْاٰنًا اَعْجَمِيًّا لَّقَالُوْا لَوْلَا فُصِّلَتْ اٰيٰتُهٗ ءَاَۙعْجَمِيٌّ وَّعَرَبِيٌّ قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًي وَّشِفَآءٌ وَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ فِيْ٘ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ وَّهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًي اُولٰٓئِكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَّكَانٍۣ بَعِيْدٍ٤٤
(کہتے ہیں کہ یہ یاددہانی پہلی کتابوں کی زبان میں کیوں نہیں اتاری گئی)؟ [57]ہم اگر اِس قرآن کو عجمی قرآن بنا کر اتارتے تو اُس وقت یہ اعتراض اٹھاتے کہ اِس کی آیتیں(خود ہماری زبان میں) کھول کر بیان کیوں نہیں کی گئیں؟ کیا تعجب کی بات ہے کہ کلام عجمی اور مخاطب عربی! اِن سے کہو، ایمان والوں کے لیے تو یہ ہدایت ہے اور (دل کی بیماریوں کی) شفا ہے۔ رہے وہ لوگ جو ایمان نہیں لا رہے تو اُن کے کانوں میں، البتہ یہ گرانی ہے اور اُن کے اوپر یہ ایک حجاب بن گیا ہے۔[58] یہی ہیں جو (قیامت کے دن) اب کسی دور کی جگہ سے پکارے جائیں گے۔[59] ۴۴
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِيْهِ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَاِنَّهُمْ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيْبٍ ٤٥ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ اَسَآءَ فَعَلَيْهَا وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِ ٤٦
اور (کہتے ہیں کہ موسیٰ کی کتاب کے بعد اِس نئی کتاب کی ضرورت کیوں پیش آئی)؟ یقیناً ہم نے موسیٰ کو بھی کتاب عطا فرمائی تھی، مگر اُس میں اختلاف پیدا کر دیا گیا[60] اور تیرے پروردگار کی طرف سے اگر ایک بات پہلے طے نہ ہو چکی ہوتی[61] تو (خدا کی کتاب کے ساتھ اِس ظلم کی پاداش میں) اِن حاملین کتاب کے درمیان فیصلہ کر دیا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تو اب اُس کی طرف سے ایسے شک میں پڑے ہوئے ہیں جو الجھن میں ڈال دینے والا ہے۔(اِس سے نجات کے لیے یہ خدا کی اِس یاددہانی سے فائدہ اٹھائیں تو اِنھی کا بھلا ہے، اِس لیے یاد رکھیں کہ) جو نیک عمل کرے گا تو اپنے ہی لیے کرے گا اور جو برائی کرے گا تو اُس کا وبال اُسی پر ہو گا اور تیرا پروردگار اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں ہے۔[62] ۴۵- ۴۶
اِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ وَمَا تَخْرُجُ مِنْ ثَمَرٰتٍ مِّنْ اَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰي وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِهٖ وَيَوْمَ يُنَادِيْهِمْ اَيْنَ شُرَكَآءِيْ قَالُوْ٘ا اٰذَنّٰكَ مَامِنَّا مِنْ شَهِيْدٍ ٤٧ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَدْعُوْنَ مِنْ قَبْلُ وَظَنُّوْا مَا لَهُمْ مِّنْ مَّحِيْصٍ ٤٨
اور (کہتے ہیں کہ یہ جس قیامت سے ڈرا رہے ہو، یہ کب نمودار ہو گی؟ اِن سے کہو)،قیامت کا علم تو اللہ ہی سے متعلق ہے۔ اور (صرف قیامت ہی نہیں)، یہ اُسی کا علم ہے کہ جس کے بغیر نہ میوے اپنے غلاف سے باہر نکلتے ہیں اور نہ کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے اور نہ جنتی ہے۔ (یہ اپنے شریکوں کے بل پر اُس سے بے پروا ہو رہے ہیں تو) یاد رکھیں، جس دن وہ اِن کو پکارے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں، (اُنھیں بلاؤ کہ تمھیں چھڑا لیں) تو کہیں گے کہ ہم نے تجھ سے عرض کر دیا کہ آج ہم میں سے کوئی بھی اُن کی گواہی دینے والا نہیں ہے۔[63] اُس وقت وہ سب اِن سے ہوا ہو جائیں گے جنھیں یہ اِس سے پہلے پکارتے رہے اور یہ سمجھ لیں گے[64] کہ اب اِن کے لیے کوئی مفر نہیں ہے۔ ۴۷ -۴۸
لَا يَسْـَٔمُ الْاِنْسَانُ مِنْ دُعَآءِ الْخَيْرِ وَاِنْ مَّسَّهُ الشَّرُّ فَيَـُٔوْسٌ قَنُوْطٌ ٤٩ وَلَئِنْ اَذَقْنٰهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِنْۣ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُ لَيَقُوْلَنَّ هٰذَا لِيْ وَمَا٘ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَآئِمَةً وَّلَئِنْ رُّجِعْتُ اِلٰي رَبِّيْ٘ اِنَّ لِيْ عِنْدَهٗ لَلْحُسْنٰي فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَلَنُذِيْقَنَّهُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِيْظٍ ٥٠
انسان(کا معاملہ بھی عجیب ہے، وہ مصیبتوں کو آتے دیکھ کر) بھلائی کی دعا سے نہیں تھکتا، لیکن اگر اُس پر مصیبت آجائے (اور وہ دیکھے کہ دعائیں نتیجہ خیز نہیں ہو رہی ہیں)تو مایوس اور دل شکستہ ہو جاتا ہے۔ اور اگر اُس مصیبت کے بعد جو اُس کو پہنچی تھی، ہم اُس کو اپنی رحمت کی لذت چکھاتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو میرا حق ہی ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ قیامت برپا ہو گی، لیکن (بالفرض ہوئی اور) میں اپنے رب کی طرف لوٹا دیا گیا تو کچھ شک نہیں کہ میرے لیے اُس کے ہاں بھی اچھا ہی ہے۔ (یہ اِن کے خواب ہیں جن کے بل پر یہ پیغمبر کا مذاق اڑا رہے ہیں)۔ سو اِن منکروں کو ہم ضرور اِن کے اعمال سے آگاہ کریں گے اور اِن کو لازماًایک سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔[65] ۴۹- ۵۰
وَاِذَا٘ اَنْعَمْنَا عَلَي الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰبِجَانِبِهٖ وَاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَآءٍ عَرِيْضٍ٥١
انسان(کا معاملہ یہی ہے کہ اُس) پر جب ہم عنایت فرماتے ہیں تو وہ (غرور و استکبار سے)منہ موڑتا اور پہلو بدل لیتا ہے[66] اور جب اُس کو تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی لمبی دعائیں کرنے والا بن جاتا ہے۔[67] ۵۱
قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ثُمَّ كَفَرْتُمْ بِهٖ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ هُوَ فِيْ شِقَاقٍۣ بَعِيْدٍ٥٢
اِن سے کہو، ذرا غور تو کرو کہ اگر واقعی یہ قرآن خدا کی طرف سے ہوا اور اِس پر بھی تم اِس کا انکار کرتے رہے تو اُس سے زیادہ گم راہ کون ہو گا جو بہت دور کی مخالفت میں جا پڑا؟[68] ۵۲
سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْ٘ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰي يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ اَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ٥٣ اَلَا٘ اِنَّهُمْ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْ لِّقَآءِ رَبِّهِمْ اَلَا٘ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيْطٌ٥٤
(تم مطمئن رہو، اے پیغمبر، اور یہ بھی متنبہ ہو جائیں)،اِنھیں ہم عنقریب اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور خود اِن کے اندر بھی،[69] یہاں تک کہ اِن پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن بالکل حق ہے۔ اور (تمھاری تسلی کے لیے)کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تمھارا پروردگار ہر چیز کا گواہ ہے؟[70] سنو، یہ لوگ اپنے رب کے حضور پیشی کی طرف ہی سے شک میں ہیں۔[71] سنو، وہ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔[72] ۵۳- ۵۴
[44]۔ یعنی نہ خدا ہیں، نہ کسی پہلو سے خدائی میں شریک ہیں، بلکہ خدا کی قدرت و حکمت اور رحمت و ربوبیت کی نشانیوں میں سے ہیں ــــــ یہ اب اُسی مضمون کو دوبارہ لیا ہے جو آیات ۹- ۱۲میں بیان ہوا ہے۔ بیچ میں جو مطالب آئے ہیں، وہ تنبیہ و تذکیر یا تسکین و تسلی کی نوعیت کے تھے، اِس وجہ سے کوئی بعد پیدا نہیں ہوا۔
[45]۔ یہ عبادت کی تعبیر ہے، اِس لیے کہ یہ اُس کے سب سے زیادہ نمایاں مظاہرمیں سے ہے۔
[46]۔ اصل میں ’خَلَقَهُنَّ‘ کا لفظ آیا ہے۔ اِس میں ضمیر جمع اُن سب چیزوں کی طرف لوٹتی ہے جو پیچھے مذکور ہیں۔
[47]۔ یعنی خدا کی بندگی کا دعویٰ کرتے ہو تو یہ بندگی اِس طرح ہونی چاہیے کہ جو علامات اُس کی بندگی کے لیے خاص ہیں، اُن میں بھی کسی کو شریک نہ بنایا جائے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری چیزوں کی جو بندگی کرتے تھے تو اُس کے متعلق اُن کا دعویٰ یہ تھا کہ یہ صرف اِس لیے وہ کرتے ہیں کہ یہ چیزیں خدا کی قربت کا ذریعہ ہیں۔ گویا اُن کی بندگی، اُن کے زعم میں، خدا ہی کی بندگی تھی۔ اِس ٹکڑے میں اُن کے اِسی زعم کی تردید ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۷/ ۱۰۸)
[48]۔ مطلب یہ ہے کہ اِن سے کہیں اعلیٰ و اشرف مخلوقات خدا کی بندگی کے لیے موجود ہیں، یہاں تک کہ وہ فرشتے بھی جنھیں یہ معبود بنائے بیٹھے ہیں تو خدا کو اِن کی کیا پروا ہو سکتی ہے۔ اِس لیے اِن کو اِن کے حال پر چھوڑو اور تم بھی اِن کی کوئی پروا نہ کرو۔
[49]۔ یعنی سبزے اور نباتات سے ابھرتی ،اپجتی اور بالکل تروتازہ ہو کر لہلہانے لگتی ہے۔
[50]۔ یعنی یہ نشانیاں تو کسی اور طرف رہنمائی کر رہی ہیں اور اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث وہ کوئی اور راہ اختیار کر رہے اور لوگوں کو بھی اُسی کی طرف موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
[51]۔ اِس ابہام میں جو غضب ناکی مضمر ہے، وہ محتاج وضاحت نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ چھپے ہوئے نہیں ہیں تو لازماً گرفت میں آئیں گے اور ایک دن اپنے کرتوتوں کا مزہ چکھیں گے۔
[52]۔ یہاں بھی وہی اسلوب ہے جو اوپر اختیار فرمایا ہے۔
[53]۔ یعنی جب کہ اُس کے مضامین، اُس کی معجزبیانی اور اُس کے دلائل کی قوت، ہر چیز اُن کے سامنے آچکی ہے۔
[54]۔ یہ خبر ہے جو اصل میں حذف کر دی ہے اور اِس حذف میں بڑی بلاغت ہے۔ گویا مدعا یہ ہے کہ اِن کی بدانجامی کو ظاہر کرنے کے لیے اِن کے جرم کی سنگینی ہی کافی ہے، اُسے الفاظ میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
[55]۔ قرآن کے بارے میں جو دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ایک بلند پایہ کتاب ہے، یہ اُس کی دلیل بیان کی ہے کہ یہ لفظ اورمعنی، دونوں کے اعتبار سے بالکل محفوظ اور اپنی دلالت میں بالکل قطعی ہے، اِس میں جن و انس کے کسی شیطان کی در اندازی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کے بعض پہلوؤں کی مزید وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ ایک یہ کہ قرآن اپنے آگے اور پیچھے، دونوں طرف سے بالکل محفوظ ہے۔ اِس کو اتارنے والا اللہ تعالیٰ ہے، اِس کو لانے والے جبریل امین ہیں، اِس کے حامل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اِس کو نقل و قبول کرنے والے اِس خلق کے پاکیزہ ترین اخیار و صالحین ہیں۔ گویا ابتدا سے لے کر انتہا تک ’ایں خانہ ہمہ آفتاب است‘۔ اِس میں کہیں بھی شیطان کی دراندازی کے لیے کوئی روزن نہیں ہے، نہ اِس کے آغاز کی طرف سے، نہ اِس کی انتہا کی طرف سے۔
دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا، جیسا کہ ’وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ‘کے الفاظ سے واضح ہے، خود اہتمام فرمایا اور یہ قرآن مجید کا وہ امتیاز ہے جو اِس سے پہلے نازل ہونے والے صحیفوں کو حاصل نہیں ہوا۔ تورات و انجیل وغیرہ کی حفاظت کی ذمہ داری اُن کے حاملین پر ڈالی گئی تھی جو اُس کا حق ادا نہ کر سکے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ صحیفے بالکل محرف ہو کے رہ گئے اور اِن کے اندر حق و باطل کا امتیاز ناممکن ہو گیا، لیکن قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا اور اُس کو قیامت تک کے لیے ہر قسم کی آمیزش سے بالکل محفوظ کر دیا۔
اِس حفاظت کے کئی پہلو ہیں:
ایک یہ کہ قرآن کے زمانۂ نزول میں اللہ تعالیٰ نے اِس امر کا خاص اہتمام فرمایا کہ قرآن کی وحی میں شیاطین کوئی مداخلت نہ کر سکیں۔ یوں تو اِس نظام کائنات میں یہ مستقل اہتمام ہے کہ شیاطین ملاء اعلیٰ کی باتیں نہ سن سکیں، لیکن سورۂ جن کی تفسیر میں ہم واضح کریں گے کہ نزول قرآن کے زمانے میں یہ اہتمام خاص طور پر تھا کہ شیاطین وحی الٰہی میں کوئی مداخلت نہ کر پائیں تاکہ اُن کو قرآن میں اُس کے آگے سے (مِنْ م بَيْنِ يَدَيْهِ) کچھ گھسانے کا موقع نہ مل سکے۔
دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اِس کام کے لیے اپنے جس فرشتہ کو منتخب کیا، اُس کی صفت قرآن میں ’ذِيْ قُوَّةٍ‘ مطاع، قوی، امین اور ’عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِيْنٌ‘ وارد ہوئی ہے، یعنی وہ فرشتہ ایسا زور آور ہے کہ ارواح خبیثہ اُس کو مغلوب نہیں کر سکتیں؛ وہ تمام فرشتوں کا سردار ہے؛ وہ کوئی چیز بھول نہیں سکتا؛ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو امانت اُس کے حوالے کی جاتی ہے، وہ اُس کو بالکل ٹھیک ٹھیک ادا کرتا ہے، مجال نہیں ہے کہ اُس میں زیرزبر کا بھی فرق واقع ہو سکے؛ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت مقرب ہے جو اِس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے تمام مخلوقات سے برتر ہے ــــــ ظاہر ہے کہ یہ اہتمام بھی اِسی لیے فرمایا گیا کہ قرآن میں اُس کے منبع کی طرف سے کسی باطل کے گھسنے کا امکان باقی نہ رہے۔
تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اِس امانت کو اٹھانے کے لیے جس بشر کو منتخب فرمایا، اول تو وہ ہر پہلو سے خود خیرالخلائق تھا، ثانیاً قرآن کو یاد رکھنے اور اُس کی حفاظت و ترتیب کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے تنہا اُس کے اوپر نہیں ڈالی، بلکہ یہ ذمہ داری اپنے اوپر لی۔ چنانچہ سورۂ قیامہ میں فرمایا ہے: ’لَاتُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ، اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَهٗ، فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ، ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ‘ *(اور تم اِس قرآن کو حاصل کرنے کے لیے اپنی زبان کو تیز نہ چلاؤ، ہمارے اوپر ہے اِس کے جمع کرنے اور اِس کے سنانے کی ذمہ داری تو جب ہم اِس کو سنا چکیں تواُس سنانے کی پیروی کرو، پھر ہمارے ذمے ہے اِس کی وضاحت)۔ روایات سے ثابت ہے کہ جتنا قرآن نازل ہو چکا ہوتا، اُس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مقرب صحابہ یاد بھی رکھتے اور ہر رمضان میں حضرت جبریل کے ساتھ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اِس کا مذاکرہ بھی فرماتے رہتے تاکہ کسی سہو و نسیان کا اندیشہ نہ رہے اور یہ مذاکرہ اُس ترتیب کے مطابق ہوتا جس ترتیب پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کومرتب کرنا پسند فرمایا۔ یہ بھی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارک کے آخری رمضان میں یہ مذاکرہ دو مرتبہ فرمایا۔ پھر اِسی ترتیب اور اِسی قراء ت کے مطابق پورا قرآن ضبط تحریر میں لایا گیا اور بعد میں خلفاے راشدین نے اِسی کی نقلیں مملکت کے دوسرے شہروں میں بھجوائیں۔** یہ اہتمام پچھلےصحیفوں میں سے کسی کو بھی حاصل نہ ہو سکا۔ یہاں تک کہ تورات کے متعلق تو یہ علم بھی کسی کو نہیں ہے کہ اُس کے مختلف صحیفے کس زمانے میں اور کن لوگوں کے ہاتھوں مرتب ہوئے۔
چوتھا یہ کہ قرآن اپنی فصاحت الفاظ اور بلاغت معنی کے اعتبار سے معجزہ ہے۔ جس کے سبب سے کسی غیر کا کلام اُس کے ساتھ پیوند نہیں ہوسکتا۔ یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کلام بھی، باوجودیکہ آپ اِس قرآن کے لانے والے اور افصح العرب والعجم ہیں، اِس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اِس وجہ سے اِس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کسی غیر کاکلام اِس کے ساتھ مخلوط ہو سکے۔ چنانچہ جن مدعیوں نے قرآن کا جواب پیش کرنے کی جسارت کی، اُن کی مزخرفات کے نمونے ادب اور تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ آپ اُن کو قرآن کے مقابل میں رکھ کر موازنہ کر لیجیے، دونوں میں گہر اور پشیز کا فرق نظر آئے گا ــــــ اِس طرح گویا پیچھے سے بھی (وَمِنْ خَلْفِهٖ) قرآن میں دراندازی کی راہ مسدود کر دی گئی۔
پانچواں یہ کہ قرآن کی حفاظت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی زبان کی حفاظت کا بھی قیامت تک کے لیے وعدہ فرمالیا۔ دوسرے آسمانی صحیفوں میں تو اُن کی اصل زبانیں مٹ جانے کے سبب سے، بے شمار تحریفیں ترجموں کی راہ سے داخل ہو گئیں جن کا سراغ اب ناممکن ہے، لیکن قرآن کی اصل زبان محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گی۔ اِس وجہ سے ترجموں اور تفسیروں کی راہ سے اِس میں کسی باطل کے گھسنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اگر اِس میں کسی باطل کو گھسانے کی کوشش کی جائے گی تو اہل علم اصل پر پرکھ کر اُس کو چھانٹ کر الگ کر سکتے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۷/ ۱۱۱)
[56]۔ چنانچہ یہ محض اُس کاجود و کرم ہے کہ اُس نے یہ حکیمانہ کلام اتارا اور اپنی خلق کو اِس عظیم نعمت سے نوازا ہے۔
[57]۔ یہ اعتراض غالباً یہود کا القا کیا ہوا ہے کہ اِس سے پہلے اگر تمام الہامی کتابیں ہماری زبان میں اتری ہیں تو یہ نئی کتاب عربی زبان میں کیوں نازل کی گئی ہے؟ اِس طر ح کے اعتراضات، ظاہر ہے کہ وہ بنی اسمٰعیل کو قرآن جیسی نعمت سے محروم کرنے کے لیے ایجاد کرتے تھے، لیکن قریش کے نادان لیڈر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کے جوش میں اِنھی کو آگے نقل کرنا شروع کر دیتے تھے۔
[58]۔ یعنی چونکہ تاریکی کے خوگر ہیں، اِس لیے یہ آسمانی روشنی نمودار ہوئی ہے تو اِن کی آنکھیں ایسی خیرہ ہوگئی ہیں کہ اِن کی رہنمائی کے بجاے یہ اِن کے لیے اندھے پن کا ذریعہ بن گئی ہے۔
[59]۔ یہ وہی پکار ہے جس کا ذکرسورۂ طٰہٰ (۲۰) کی آیت ۱۰۸ میں ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اِس وقت تو خدا کا پیغمبر اِن کے درمیان کھڑے ہو کر اِن کو بہت قریب سے پکار رہا ہے اور یہ سن کر نہیں دے رہے، مگر وہ دن بھی قریب آنے والا ہے، جب قیامت کا داعی بہت دور سے پکارے گا اور یہ اُس کے پیچھے بھاگ رہے ہوں گے۔
[60]۔ اللہ تعالیٰ کی کتابوں کے نزول کا مقصد ہی قرآن نے یہ بتایا ہے کہ وہ دین و شریعت سے متعلق لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کر دیں۔ چنانچہ مدعا یہ ہے کہ جب تورات میں اُس کے حاملین کی اُس کی حفاظت سے بے پروائی اور اُس کے کچھ حصے چھپانے اور کچھ ظاہر کرنے کے نتیجے میں ایسے اختلافات پیدا ہو گئے کہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرنے کے بجاے وہ خود اختلافات کا ذریعہ بن گئی تو ضروری تھا کہ حق و باطل میں امتیاز اور لوگوں پر اتمام حجت کے لیے ایک نئی کتاب نازل کی جائے۔
[61]۔ یعنی یہ بات کہ اِنھیں ابھی مہلت دینی ہے۔
[62]۔ اصل الفاظ ہیں:’وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِ‘۔ اِن میں مبالغہ پر جو نفی آئی ہے، وہ مبالغہ فی النفی کے لیے ہے۔ یہ عربی زبان کا معروف اسلوب ہے اور ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
[63]۔ یعنی اپنے جن معبودوں پر ہم کو ناز تھا ، اُن کی حقیقت واضح ہو گئی۔ اب کوئی بھی اِس اعتراف کے لیے تیار نہیں ہے کہ تیرے ساتھ کسی شرک کا تصور کیا جا سکتا ہے۔
[64]۔ اصل میں لفظ ’ظَنّ‘ استعمال ہوا ہے، لیکن یہ یہاں یقین کے معنی میں ہے اور اِس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ نادیدہ حقیقتوں کے بارے میں جو یقین انسان کو حاصل ہوتا ہے، اُس کے لیے یہی لفظ موزوں ہے۔
[65]۔ اِس سے پہلے جو بات نقل ہوئی ہے، وہ ایسی احمقانہ تھی کہ بات کو روک کر اُس پر یہ نہایت سخت الفاظ میں تنبیہ فرمائی ہے۔ نیز اوپر سے بات لفظ ’اِنْسَان‘کے ساتھ کی جا رہی تھی، لیکن اِس سے مراد چونکہ وہی منکرین ہیں جن کا ذکر پیچھے سے چلا آرہا ہے، اِس لیے یہاں اُسے کھول دیا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ جس پست ہمتی اور ناشکرے پن اور اِس کے ساتھ انسان کے جس طنطنے کا ذکر ہوا ہے، وہ اِنھی منکرین کے باطن کی تصویر ہے جو پیغمبر کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
[66]۔ اصل الفاظ ہیں: ’وَنَاٰبِجَانِبِهٖ‘۔اِن سے وہی مضمون ادا کیا گیاہے جو قرآن نے دوسرے مقامات میں ’تَوَلّٰي بِرُكْنِهٖ‘یا ’ثَانِيَ عِطْفِهٖ‘وغیرہ محاورات سے ادا کیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...یہ غرور و استکبار سے اعراض کرنے اور منہ پھیرنے کی تعبیر ہے۔ ’جانب‘ کے معنی پہلو کے ہیں۔ آدمی جب کسی سے غرور کے ساتھ منہ موڑتا ہے تو مونڈھے جھٹک کر اپنا پہلو بدلتا اور وہاں سے چل دیتا ہے۔ اِسی حالت کو یہاں ’نَاٰبِجَانِبِهٖ‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۷/ ۱۲۷)
[67]۔ اوپر جس کردار کی تفصیل فرمائی ہے، یہ مخاطبین کو تنبیہ و تہدید کے بعد آخر میں اُس کا خلاصہ کر دیا ہے۔
[68]۔ یہ قرآن پر پوری سنجیدگی اور اہمیت کے ساتھ غور کرنے اور اُس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کی دعوت ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... اِس دعوت کی بنیاد یہ ہے کہ قرآن اپنی تکذیب کرنے والوں کو جس انجام سے خبردار کر رہا ہے اور جن دلائل کے ساتھ آگاہ کر رہا ہے، وہ ایسی چیز نہیں ہے کہ سہل انگاری سے نظر انداز کر دی جائے یا ہنسی مسخری میں اڑا دی جائے،بلکہ بڑے ہی قوی دلائل کی شہادت کے ساتھ یہ بڑے ہی ہول ناک انجام کی خبر ہے۔ اِس وجہ سے جو لوگ ڈھٹائی سے اِس کو جھٹلا رہے ہیں، وہ کم از کم اِس کے دعوے کی صحت کے امکان کے پہلو کو نظرانداز نہ کریں۔ اگر وہ اِس کی صحت کا امکان محسوس کرتے ہیں (اور کوئی ہٹ دھرم سے ہٹ دھرم بھی اِس کے امکان سے انکار نہیں کر سکتا) تو دانش مندی کا تقاضا اور عاقبت بینی کا مطالبہ یہی ہے کہ وہ اِس قرآن پر سو بار غور کریں اور جو فیصلہ بھی کریں، اُس کے نتائج پر دور تک سوچ کر کریں۔ اگر وہ اِس کو اختیار کریں گے تو کوئی چیز کھوئیں گے نہیں، بلکہ پائیں گے اور سب کچھ پائیں گے اور اگر محض ضد اور مخاصمت کے جنون میں مبتلا ہو کر اِس کا انکار کر دیں گے تو یہ مخاصمت اُن کو اتنی دور لے جا کر پھینکے گی، جہاں سے پھر لوٹنے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہے گا ـــــ مطلب یہ ہے کہ اِس معاملے پر اِس کی حقیقی اہمیت سامنے رکھ کے غور کرو۔ اگر ضد، انانیت، حسد اور مخاصمت کو اِس میں دخیل ہونے دیا گیا تو یہ کشمکش نہایت تباہ کن انجام پر منتہی ہو گی۔‘‘(تدبرقرآن۷/ ۱۲۸)
[69]۔ یعنی مکہ کے اطراف میں بھی اور خود مکہ میں، قریش کے اندر بھی، جہاں سے اچھے لوگ نکل کر پیغمبر کے ساتھی بن جائیں گے اور غلبۂ حق اور ہزیمت باطل کے ایسے شواہد سامنے آئیں گے کہ قرآن کی حقانیت اِن میں سے ہر شخص پر واضح ہو جائے گی۔
[70]۔ یعنی غلبۂ حق کی جو بشارت تمھیں دی جا رہی ہے ، اُس کے ظہور کے ایک ایک مرحلے سے واقف ہے۔ اِس وجہ سے مطمئن رہو، اُس کی ہر بات پوری ہو کے رہے گی۔
[71]۔ یہ اُن کی اصل علت فساد سے پردہ اٹھایا ہے کہ اِنھیں آخرت کا یقین نہیں ہے، لہٰذا اِسی چیز نے اِن کے اندر وہ عاقبت نا اندیشی اور ہٹ دھرمی پیدا کر دی ہے جس کا مشاہدہ کر رہے ہو۔
[72]۔ چنانچہ نہ کوئی چیزاُس کے حیطۂ اقتدار سے باہر ہے اور نہ کوئی اُس کے ارادوں میں مزاحم ہو سکتا اور اُس کے قبضۂ قدرت سے باہر نکل سکتا ہے۔ وہ جو کچھ چاہے گا اور جب چاہے گا، کر ڈالے گا۔
ـــــــــــــــــــــــــ
* ۷۵: ۱۶- ۱۹۔
** یہ اگر کیا گیا تو محض اہتمام اشاعت کے لیے کیا گیا، جس طرح کہ مسلمانوں کی حکومتیں اب بھی کرتی رہتی ہیں۔ اِس سے کسی کو غلط فہمی نہ ہو کہ اِس طرح قرآن کا کوئی سرکاری نسخہ مرتب کرایا گیاتھا۔ قرآن جس طرح اب منتقل کیا جاتا ہے، اُسے ابتدا ہی سے لکھنے والے اِسی طرح لکھ کر اور یاد کرنے والے اِسی طرح یاد کرکے اگلی نسلوں کو منتقل کرتے رہے ہیں۔ وہ کبھی کسی سرکاری نسخے کا محتاج نہیں ہوا۔