دین داری ہمارے سماج میں اپنے مختلف تصورات اور رنگ رکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کون سا تصور اور رنگ درست ہے اور کون سا رنگ ناقص یا غلط ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں سریت کا غلبہ ہے ۔ برصغیر کے کم و بیش تمام مذاہب میں اس کے لیے ریاضت کی ایک روایت قائم ہے۔ اگرچہ ریاضتوں کے اس نظام کی نظریاتی اور عملی تفصیلات باہم دگر کافی مختلف ہیں، لیکن ان کا مقصود کچھ باطنی اہداف کا حصول ہے۔ مسلمانوں کی ریاضتیں اپنی انفرادی ہیئت اور اسلامی تشخص رکھتی ہیں۔ مسلمان عوام کی نگاہ میں دین داری کا منتہا انھی ریاضتوں سے گزر کر عالم بالا سے ربط پیدا کر لینا ہے۔ برصغیر میں جن مسلمان بزرگوں کو عوام میں شہرت اور مقبولیت ملی، ان کے بارے میں بھی یہی تصور ہے کہ وہ مقبول بارگاہ ایزدی ہیں، مستجاب الدعوات ہیں اور امور غیب تک انھیں دسترس حاصل ہےاور وفات کے بعد بھی ان کے مقابر فیوض و برکات کا مرکز ہیں اور اپنے زائرین کی مدد و استعانت کرتے ہیں۔اس تصور کے تحت دین دو درجوں میں منقسم ہے: ایک درجہ دین کے اوامرو نواہی کا ہے، جس کے مخاطب عام و خواص تمام مسلمان ہیں۔ اس کےلیے ’شریعت‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ ایک درجہ ایمان و عمل کے اس نظام کا ہے جس کا تعلق صرف خواص کے ساتھ ہے۔ اس کے لیے ’طریقت‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ اس تصور کے تحت شریعت معمول کی دین داری ہے۔ طریقت اعلیٰ درجے کی دین داری ہے۔ اس کے تحت عوام میں بھی دین داری کا ایک تصور پیدا ہوا ہے۔ وہ اپنے آپ کو اس قابل اور لائق تو نہیں سمجھتے کہ وہ طریقت کی ریاضتوں سے گزر کر اعلیٰ مناصب ومراتب پا سکیں، لیکن وہ یہ ضرور طے کر لیتے ہیں کہ اس راہ پر چلنے والوں کی دریافتوں اور حاصلات سے مستفید ہوں۔ ان کے ہاں جس طرح کی دین داری اور جس طرح کے دینی اعمال پائے جاتے ہیں، اس میں بزرگوں کے حضور اور مزارات پر حاضری، کچھ آیات یا کلمات کا ورد ،ثواب کے حصول کے لیے قرآن کی ناظرہ تلاوت، دم درود اور تعویذوں سے اشتغال وغیرہ۔ شریعت کی پابندی بالعموم رسمی ہوتی ہے۔ معیشت اور معاشرت سے متعلق دین کے احکام کم ہی اہمیت حاصل کر پاتے ہیں۔ان کے ہاں تصور زندگی یہ بنتا ہے کہ تدبیر سے زیادہ تاثیرات موثر ہیں اور آخرت کی نجات کا انحصار شفاعت پر ہے۔
مسلمان معاشرے میں دین داری کی مذکورہ صورت سب سے زیادہ نظر آتی ہے۔ اس کے بعد کچھ لوگ دین کے احکام کی پابندی کو اپنا معمول بناتے ہیں۔ان کےہاں اس تصور کا غلبہ ہوتا ہے کہ دین اللہ کے احکام کا مجموعہ ہے۔ جس میں اللہ نے کچھ کاموں کو کرنے سے روکا ہے اور کچھ کاموں کو انجام دینے کا حکم دیا ہے۔ جن کاموں کے کرنے سے منع کیا گیا ہے، ان کا مرتکب روز قیامت سزا پائے گا۔ جن کاموں کو کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ان کی تعمیل پر اللہ کی طرف سےوہاں اجر عطا ہوگا۔ خدا سے ان کے تعلق کی نوعیت آقا اور غلام کے تعلق کی ہے۔ اس تصور کے تحت جو دین داری وجود میں آتی ہے، وہ پابندیِ احکام کی دین داری ہے۔ اس تصور کے تحت جو کتابیں لکھی گئی ہیں، ان میں زیادہ زور صحت ایمان اور صحت عمل پر ہوتا ہے۔ اور یہ جذبہ اکثر دین میں سختی کا رنگ پیدا کر دیتا ہے۔ احکام کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات بھی طے کر دی جاتی ہیں اور ان فقہی موشگافیوں کو شریعت کے ہم پلہ بنا دیا جاتا ہے۔ اس رنگ میں ایک اور رنگ بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔ عقائد کی صحت کے باب میں بھی ایسے نکات پیدا کر دیے جاتے ہیں کہ ذرا سا انحراف بھی شرک قرار دے دیا جائے۔ اعمال میں بھی بہت سے عمل بدعت ٹھیرا دیے جاتے ہیں۔
بعض تحریکوں نے دین داری کی ایک اور صورت متعارف کرائی ہے۔ غلبۂ دین کی جدوجہد کا نعرہ بلند کیا گیا۔ اسے زندگی اور دین کے مقصد کے طور پر شعور کا حصہ بنایا گیا، جس کے تحت نماز روزے سے زیادہ دینی وقعت رکھنے والا کام اعلاے کلمۃ اللہ کی جد وجہد ہے۔ اس کے لیے جلسے، جلوس، میٹنگز اور ملاقاتیں سب سے بڑا دینی عمل بن جاتا ہے۔ اس کے رد عمل میں انقلاب کے بجاے دعوت کا نعرہ بھی بلند ہوا۔ اس نعرے کے متاثرین کے ہاں بھی دعوتی سرگرمیوں کو وہی حیثیت حاصل ہو گئی جو انقلابیوں کے ہاں انقلابی سرگرمیوں کو حاصل تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ دین جس سب سے بڑی حقیقت کا علم بردار ہے، وہ یہ ہے کہ اس کائنات کا خالق ہی اس کا واحد مالک ہے اور وہی اس لائق ہے کہ اسے الٰہ مانا جائے ۔ اس نے انسانوں کو ایک منصوبے کے تحت پیدا کیا ہے۔ یہ دنیا دارالامتحان ہےاور ایک دارالجزا ہے، جو اس دارالامتحان کے خاتمے کے بعد برپا ہو گا۔ دین داری یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں ربانی بننے کی سعی و جہد کریں اور آخرت میں اس جنت کو حاصل کر لیں جو مالک ارض و سما کے مقبول بندوں کا مستقر ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــ