HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

حیات امین احسن (۱۹)

عربی بول چال پر دسترس

امین احسن عرب ممالک میں نہ جانے کے باوجود بہت اچھی عربی بول بھی لیا کرتے تھے۔ غامدی صاحب اس ضمن میں لکھتے ہیں:

’’دینی مدارس کے طلبہ بالعموم عربی بولنے پر قدرت نہیں رکھتے، لیکن وہ جب امام فراہی سے استفادے کے لیے ان کے پاس مقیم تھے، تو بے تکلف عربی بولتے تھے۔ مشہور عالم موسیٰ جار اللہ ہندوستان آئے تو امام فراہی سے ملنے مدرستہ الاصلاح بھی گئے۔ امین احسن ہی ان کے میزبان تھے۔ عربی زبان میں گفتگو اور تقریر پر ان کی قدرت دیکھ کر ایک دن انھوں نے پوچھا: عرب میں کتنے سال گزار کر آئے ہو؟ امین احسن نے جواب دیا: ’ما مست قدمي ھاتین قط بلاد العرب‘ (میرے ان دونوں پاؤں نے کبھی سرزمین عرب کو نہیں چھوا)۔ موسیٰ جار اللہ بڑی دیر تک اپنی حیرت کا اظہار کرتے رہے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری / فروری ۱۹۹۸ء،ص ۱۵)

اسی واقعہ کے حوالے سے مولانا وحیدالدین خاں لکھتے ہیں:

’’کسی روسی آدمی کو پہلی بار میں نے پچاس سال قبل دیکھا تھا۔ اس وقت میں ایک عربی مدرسہ (الاصلاح، اعظم گڑھ) میں پڑھ رہا تھا۔ ایک روز میں نے دیکھا کہ صدر مدرس مولانا امین احسن اصلاحی اپنے کمرے کی طرف چلے تو ان کے ساتھ نئے حلیے کا آدمی تھا۔
 صاف رنگ، بھاری جسم، سر پر غیر ہندوستانی وضع کی ٹوپی۔ میری ان سے ملاقات تو نہ ہو سکی۔ البتہ مولانا امین احسن اصلاحی کے ساتھ انھیں کئی بار مدرسہ کے احاطہ میں چلتے پھرتے دیکھا۔ اتنا یاد ہے کہ مولانا اصلاحی سے ان کی گفتگو عربی زبان میں ہوتی تھی۔ اس وقت مدرسہ کی آبادی میں وہ سب سے پرشکوہ شخصیت والے نظر آئے۔ یہ علامہ موسیٰ جار اللہ روسی تھے … علامہ موسیٰ جار اللہ ۱۹۳۸ کے وسط میں روس سے پناہ گزین کے طور پر ہندوستان آئے تھے۔ مولانا امین احسن اصلاحی کا ان کے بارہ میں مضمون ’’الاصلاح ‘‘کے شمارہ جون ۱۹۳۸ میں چھپا تھا۔
اس مضمون میں بتایا گیا تھا کہ علامہ موسیٰ جار اللہ عربی، فارسی، ترکی،روسی اور فرنچ زبانیں بخوبی جانتے ہیں۔ علوم مشرقیہ کی مختلف شاخوں میں اچھی دست گاہ رکھتے ہیں۔ عالم اسلام کی اس زمانہ کی تمام سیاسی اور مذہبی سرگرمیوں کو قریب سے جانتے ہیں۔ وہ دو دن مدرستہ الاصلاح (سرائے میر، اعظم گڑھ) میں مقیم رہے۔
مولانا امین احسن اصلاحی کے مضمون کا ایک اقتباس یہ ہے: ’’علامہ موسیٰ جار اللہ نے مجھ سے سوال کیا کہ ہندوستان میں علوم عربیہ کی تعلیم جس نہج پر ہو رہی ہے، تمھارے خیال میں اس کا آخری انجام کیا ہونے والا ہے۔ میں نے کہا کہ عربی تعلیم،مدارس عربیہ اور ساتھ ہی مذہب کی تباہی۔ مجھے خیال تھا کہ علامہ اس کی تردید کریں گے، لیکن انھوں نے اس کی حرف حرف تائید کی۔‘‘ (سفرنامہ، غیر ملکی اسفار ۲/ ۱۴۵- ۱۴۶)

انگریزی زبان میں استعداد

امین احسن ایک دینی مدرسے میں پڑھے، اس کے باوجود ان کی انگریزی زبان میں استعداد اتنی اچھی تھی کہ اس زبان میں اعلیٰ علوم کی کتابیں نہ صرف یہ کہ بغیر کسی دقت کے پڑھتے، بلکہ ان کے مشکل مطالب دوسروں کو سمجھا نے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے (ماہنامہ اشراق، جنوری ۱۹۹۸ء، ص  ۱۵)۔

سادگی

امین احسن کو اللہ تعالیٰ نے خوب صورت سراپا دیا تھا۔وہ خوش ذوق اورخوش لباس بھی تھے، لیکن اٹھنے بیٹھنے، رہنے سہنے اور کھانے پینے میں بہت سادہ تھے۔عبد الرزاق صاحب اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں:

’’۱۲/ اکتوبر ۱۹۹۷:مولانا نے جب ساتھیوں کو دیکھا تو بڑی مشکل سے فقط … آ…پ…!!! ہی کہہ سکے۔ کسی نے ملازم سے پوچھا کہ مولانا کھانے پینے میں ضد تو نہیں کرتے۔ ملازم نے جواب دیا جب بھی مولانا سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ کیا کھائیں گے تو وہ بس یہی جواب دیتے ہیں ’’جو مل جائے‘‘۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۹۰)

۱۹۹۰ء میں حکومت پاکستان نے شادی بیاہ کی تقریب میں ون ڈش کا قانون بنایاتو امین احسن نے اسے بہت پسند کیا۔۱۵/ دسمبر ۱۹۹۰ء کو اپنی ہفتہ وار نشست میں اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا:

’’ آپ لوگ اگر سماجی اور سیاسی اصلاحات میں کچھ حصہ لینا چاہتے ہیں تو میری رائے یہ ہے کہ آپ لوگ اس معاملے میں نوازشریف نے شادی بیاہ پر جو ون ڈش کا کہا ہے اس میں اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ یہ اہم بات ہے۔ میں تو چائے کی دو پیالی بھی چھوڑنے کے لیے تیار ہوں۔میں تو پان بھی چھوڑ دوں گا۔ میں نے گھر میں تو اعلان کر دیا ہے کہ میں ایک سالن استعمال کروں۔ روٹی اور چاول میں فرق کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک ہی چیز ہے۔گزارہ ہوجائے گا۔ چائے دو پیالی سے زیادہ پینا تو بالکل فضول بات ہے۔ آپ لوگ چونکہ زیادہ پیتے ہیں میں تو پیتا ہی کم ہوں۔ پان جو ہے اس کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔یہ بوفے کی جو دعوتیں ہیں نا شیطانی نظام ہے۔اگر آپ نے اس کو جلد از جلد نہ مٹا دیا تو پھر آپ کے اوپر جو آفت آئے گی اس کا کوئی علاج نہیں۔ جلد سے جلد خاتمہ کریں۔‘‘

معلوم ہوتا ہے کہ امین احسن نے اس مسئلے کو بے حد سنجیدگی سے لیا تھا۔۵ ؍ جنوری ۱۹۹۱ء کی ہفتہ وار نشست میں اس پر کلام کیا:

’’ آپ لوگوں کو اس کام میں حصہ لینا چاہیے۔ ضرور حصہ لینا چاہیے، حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اور گھر میں بیٹھ کر نہیں بلکہ پبلک میں ہونا چاہیے۔ اپنے رسالوں میں بھی کیجیے، تقریروں میں بھی کیجیے۔ لوگوں کی مجالس میں اس کا ذکر بھی پھیلائیے۔ ضروری ہے۔ ہمارے ہاں تو سب لوگ راضی ہیں۔ (بیٹے ) سعید کا مسئلہ ہے سعید جو ہے دن میں تو کھانا نہیں کھاتے وہ تو رات میں کھاتے ہیں دن کا کھانا۔ شام کو وہ اپنے کسی دوست کے ہاں دعوت میں ہوتے ہیں۔ اب میں نے ان کی بیگم صاحبہ سے کہا ہے کہ ذرا اپنے میاں کو باندھو۔ ان سے کہو کھانا گھر پر کھایا کرے۔ لیکن وہ بیچاری ابھی نئی نئی ہے۔ معلوم نہیں کتنا رعب جما سکے۔ لیکن غالباً وہ بھی کچھ متفق ہے۔ یعنی اس معاملے میں کچھ معلوم ہوا کہ وہ بھی اس چیز سے ہمدردی رکھتی ہے۔ اس معاملے میں امید ہے کہ کامیابی ہوجائے گی۔ تحریک بنائیے اس کو، کالموں میں لکھئے، تقریر بھی کیجیے۔‘‘

غیرت ووقار

غیر ت ووقار ایسا شخصی وصف ہے جسے سخت حالات میں برقرار رکھنا مشکل ہوجاتاہے،مگر امین احسن ہر طرح کے حالات میں بھی کوئی سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہ ہوتے تھے۔اس ضمن میں ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں:

’’ان میں حد درجہ غیرت، خودداری، استغنا اور بے نیازی تھی۔ کبھی کسی کا احسان مندہونا گوارانہیں کرتے تھے۔ وہ جس پایہ اور رتبہ کے شخص تھے، چاہتے تو ہر بڑا عہدہ اور اعزاز ان کو مل سکتا تھا، لیکن ان کے نزدیک ان چیزوں کی کوئی اہمیت ہی نہ تھی۔ ان کا قیام رحمٰن پورہ میں تھا جس کی حیثیت ایک گاؤں جیسی تھی۔ صدر ضیاء الحق مرحوم نے بہت چاہا کہ ان کے لیے لاہور یا جس بڑے شہر میں وہ پسند کریں ایک اچھا مکان تعمیر کرا دیں،مگر وہ اس کے لیے کسی طرح آمادہ نہیں ہوئے۔ وہ عام لوگوں سے بڑی تواضع اور انکسار سے پیش آتے تھے۔ لیکن امراء اور ذی جاہ و حشمت اشخاص سے کبھی جھک کر نہیں ملے۔ طبیعت شاہانہ پائی تھی۔ ہمیشہ اچھی اور قیمتی چیزیں استعمال کرتے تھے۔ کوئی ادنیٰ اور معمولی چیز ان کی نگاہ میں جچتی ہی نہیں تھی۔ ہمیشہ سیکنڈ اور فرسٹ کلاس میں سفر کرتے۔ تانگے پر اکیلے سوار ہوتے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۱۴)

انانیت،فخر وناز اورفراہی

عام طور پر لوگ انا اور تکبر میں فرق نہیں کرتے۔اناکی بنیاد میں کوئی مثبت بات ہوتی ہے اور تکبر کی بنیاد میں کوئی منفی بات۔اسی خوبی کے حوالے سے ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی،امین احسن کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’... انانیت ابتدا سے اصلاحی صاحب کے خمیر کا حصہ تھی۔ لیکن فراہی کی بارگاہ میں وہ باادب آتے تھے۔ وقت کے ساتھ ان کے رویے میں تبدیلی آ تی گئی۔ فراہی کے متعلق ان کی زیادہ باتیں تدبر کے حوالہ سے ہوتیں جس پر فخر و نازکرنے میں وہ ایک حد تک حق بجانب تھے۔ ایک ملاقات میں یہ بلیغ اور معنی خیز فقرہ کہا:
’’مولانا فراہی ایک سر مخفی تھے، میں نے انھیں آشکارا کیا‘‘۔‘‘ (ذکرفراہی ۵۸۱)

سیاست اور علم

امین احسن فطری طور پر ایک علمی شخصیت تھے۔اگرچہ انھیں سیاست دان بنانے کی کوشش کی گئی، مگر ان کا فطری مزاج ہی غالب رہا۔ صحافی اور کالم نگار جناب مجیب الرحمٰن شامی نے لکھا:

’’مو لا نا اصلا حی جما عت ِاسلا می کے با نیوں میں سے تھے۔ پا کستا ن بننے کے بعد مو لا نا مودودی کے سا تھ مل کر انھوں نے اسلا می ریا ست کے قیا م کا مطا لبہ کیااور اس کے خدوخا ل واضح کیے۔ جما عت میں انھیں مو لا نا مودودی کے بعد سب سے نما یا ں مقام حا صل رہا۔ ان کی غیر مو جودگی میں اما رت کے فرائض انھی نے ادا کیے، لیکن وہ ایک سیا ست دان نہ بن پا ئے۔ ان کی علمی شخصیت اس وقت بھی ان کی سیا سی مصروفیا ت پر حا وی رہی۔ وہ آدمی ہی کتا ب وقلم کے تھے۔ مو چی دروازے سے استفادہ تو انھوں نے کیا، مگر اس کا ’’مو چی ‘‘ بن کر رہ جانے سے انکا رکر دیا۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری / فروری ۱۹۹۸ء، ص  ۳۰)

اجتماعیت سے تعلق

علمی لوگ بالعموم خلوت پسند ہوتے ہیں،مگر امین احسن نے جو علم حاصل کیا تھا،وہ انھیں اجتماعی معاملات سے بے تعلق ہونے سے روکتا تھا۔چنانچہ وہ اجتماعی امورپر گہری نگاہ رکھتے تھے اورقوم کی رہنمائی کا فریضہ پوری طرح ادا کرتے تھے۔ یکم دسمبر ۱۹۴۹ء کو نیو سنٹرل جیل ملتا ن سے حکیم محمد شریف مسلم کے نام ایک خط میں انھوں نے لکھا:

’’آدمی کے لیے یہ با ت تو جا ئز نہیں ہے کہ اپنے آپ کو کسی عہد ہ کے لیے پیش کر ے لیکن یہ بات بھی جائز نہیں ہے کہ کسی ایسے عہدہ پر کسی نا اہل کو قا بض ہو جا نے دے جس کا تعلق قوم اور ملک کے مفا دِ عا م سے ہو۔ اجتما عی معا ملا ت میں اسلا م نے بے تعلقی کے رویہ کو پسند نہیں کیا ہے بلکہ ہر شخص پر یہ ذمہ داری عا ئد کی ہے کہ وہ جما عت کو صحیح مشورے برا بر دیتا رہے اور اس کی کسی غلطی پر خامو ش نہ رہے۔پس اگر ایک شخص ایما ن داری کے سا تھ یہ محسوس کر تا ہے کہ ایک عہد ہ کے لئے کسی نا اہل کا انتخا ب ہو رہا ہے تو وہ بڑھ کر کسی اہل کے انتخا ب کا مشورہ دے اور جس حد تک اس کے امکا ن میں ہو لو گو ں کو اس غلطی سے با ز رکھنے کی کوشش کرے۔ اگر ا س کے بعد بھی لو گ نہ ما نیں تو اس پر کو ئی الزا م نہیں ہے۔ وہ اپنے فر ض سے سبکدوش ہوگیا۔
تنقید کے متعلق صحیح رویہ یہ ہے کہ اگر فسا د جما عتی ہو تو تنقید بھی بصیغۂ عموم ہو نی چا ہیے۔ آنحضرت ﷺ کا طر یقہ بھی یہی تھا کہ آپ بر ائیو ں پر تنقید کر تے تھے، اشخا ص کو زیر بحث نہیں لا تے تھے، البتہ اگر فساد شخصی ہو تو اس صورت میں نام لے کر تنقید میں کو ئی حرج نہیں ہے ‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۴۱)

ملی درد

امین احسن اپنے سینے میں امت مسلمہ کا غیر معمولی درد رکھتے تھے۔جب امریکا کا عراق پرحملہ ہوا توانھیں ہارٹ اٹیک ہوگیا تھا، گویا مسلمانوں پر حملہ ان کے دل پرحملہ بن گیا۔محمود احمد لودھی کے نام ایک خط میں ان کی شخصیت کے اس وصف کا اظہار ہوتا ہے۔ امین احسن لکھتے ہیں:

’’آپ کا خط عین حالت انتظار میں ملا۔ اب کے آپ نے اپنی خیریت سے آگاہ کرنے میں بڑی دیر لگائی۔ تشویش رہی۔ میں اس اثناء میں کچھ بیمار رہا۔ اب گو اچھا ہوں۔ لیکن عرب کے حادثے ( مراد مصر اسرائیل جنگ ہے۔ مدیر) نے کمر توڑ دی۔ کسی کام میں جی نہیں لگتا۔ تفسیر کی تسوید کا کام بھی بے دلی اور افسردگی کی وجہ سے بند ہے۔ روز ارادہ کرتا ہوں لیکن آمادگی نہیں پیدا ہوتی …  خیریت سے برابر آگاہ رکھیں اور اپنے امکان کے حد تک اپنی قوم کے کردار کو بلند کرنے کی کوشش کریں۔ ہم لوگوں کا وقت تو پورا ہو چکا ہے۔آپ لوگوں پر بڑی بھاری ذمہ داریاں ہیں۔ میں تو اب صرف اس امید پر جی رہا ہوں کہ شاید اس حادثے سے عرب بیدار ہوں اور اپنی ذلت کا انتقام لیں ورنہ اب جینے میں کیا مزہ ہے۔
مجھ پر اس حادثے کا جو اثر پڑا ہے اس کو قلم تعبیر کرنے سے قاصر ہے۔ کاش میں اس کو دیکھنے سے پہلے نسیاً منسیا ہو چکا ہوتا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص  ۹۳)

قومی معاملات میں امین احسن بہت حساس اور رقیق القلب واقع ہوئے تھے۔اخبارات میں قتل وغارت گری کی خبریں پڑھتے تو ان کی نیند اچاٹ ہوجاتی تھی۔

اپنی قوم کی فکراور روایتی سطحی طریقوں سے گریز

۴/ نومبر ۱۹۸۹ء کو اپنی ہفتہ وار نشست میں گفتگو کرتے ہوئے امین احسن نے اپنے مشن کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا:

’’ میرا جو دینی شعو رہے،میں چاہتا ہوں کہ یہ بہت سے لوگوں کے اندر پیدا کروں۔ اس کے لیے میں اپنا جہاد جاری رکھے ہوئے ہوں۔ اس کے لیے کوئی پروپیگنڈا نہیں کرتا۔ کوئی اشتہار نہیں دیتا۔ کوئی اعلان نہیں کرتا۔ کیسٹ فروشی نہیں کرتا۔ امریکہ و یورپ کا سفر نہیں کرتا۔ اس لیے کہ میرے اوپر جن لوگوں کی ذمہ داری ہے وہ اپنے معاشرے کی ہے۔مجھے اپنے زمانے کے نوجوانوں کو سمجھانا ہے تا کہ ان کاایمان واثق ہو اپنے دین کے اوپر۔ امریکہ کے لوگوں کی ذمہ داری میرے اوپر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے متعلق مجھ سے کچھ نہیں پوچھے گاکہ تم وہاں جا کے کیسٹ فروشی کیوں نہیں کرتے رہے۔ مجھ سے تو جو کچھ خدا پوچھے گا وہ یہ ہے کہ تم نے اپنے ماحول میں کیا کام کیا۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ میں اپنے ماحول کو بیدار کرنے کے لیے، قرآن کا صحیح فکر دینے کے لیے، حدیث کا صحیح شعور دینے کے لیے میں رات دن کام میں لگا ہوا ہوں۔ یہی تو ذریعے ہیں آپ کے دین کے۔ اشتہار بازی میں نہیں کرتا کہ اس سے کیا ہوا۔ آپ لوگ اسی کے عادی ہیں کہ میں ان لوگوں کو دوچار بینر پکڑا دوں کہ نکلوجاؤ۔ یہ فضول حرکتیں کرنے سے کیا فائدہ۔‘‘

 طلبہ کی تعلیم کے بارے میں فکر

امین احسن قوم کے نوجوانوں کو خاص اہمیت دیتے تھے۔ان کی تعلیم کے بارے میں بہت فکر مند رہتے تھے۔ایک موقع پر نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

’’عزیز طلبہ تک اگر ہمارا کوئی مشورہ پہنچ سکے تو ہم انہیں نہایت محبت کے ساتھ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی ساری توجہ تعلیم پر مرکوز کریں۔ ان کا لمحہ لمحہ نہایت قیمتی ہے۔ جب تک کوئی ایسی بات ذمہ داروں کی طرف سے نہ ہو جس کی زد برا ہ راست طلبہ کے ایمان واخلاق پر پڑتی ہو( جس کا اندیشہ بہت کم ہے )اس وقت تک وہ بلاوجہ اپنے آپ کو انتشار میں مبتلا نہ کریں۔ طالب علمی کے دور میں ان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سیاست سے صرف علمی و نظری حد تک تعلق رکھیں، اپنے ماحول سے باہر کے سیاسی ہنگاموں سے عملا ً کوئی تعلق نہ رکھیں۔ ان ہنگاموں میں دلچسپی کے لیے ان کے پاس آئندہ بڑی فرصت ہو گی۔ طالب علمی کے دور میں وہ اپنے آپ کو اس قابل بنائیں کہ اپنے ملک و قوم کی کوئی خدمت کرسکیں۔ یہ کام بڑی پتہ ماری، بڑی ریاضت اور کامل یکسوئی کا ہے۔ جو طلبہ طالب علمی کے زمانے میں ہی لیڈری کا دھندا اختیار کرلیتے ہیں وہ مولانا محمد علی جوہر مرحوم کے بقول پکنے سے پہلے ہی سڑ جاتے ہیں۔ ہماری قوم کو ایسے سڑے ہوئے لیڈروں کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ قابل اور پختہ کا روپختہ کردار لیڈروں کی ضرورت ہے۔
سیاسی پارٹیوں سے ہم نے پہلے بھی گزارش کی ہے اور آج پھر گزارش کرتے ہیں کہ خدارا! وہ طلبہ کو اپنے سیاسی اغراض کا آلۂ کار نہ بنائیں۔ اس سے صرف طلبہ ہی کا مستقبل برباد نہیں ہوتا، بلکہ پوری قوم کا مستقبل تاریک ہوتا ہے۔ تعلیمی پالیسی اور تعلیمی نظام میں جو تبدیلیاں یا اصلاح کسی پارٹی کو مطلوب ہو اس کے لیے وہ جدوجہد کے مناسب طریقے اختیار کرے، لیکن ہر سیاسی پارٹی کا اللہ اور قوم سے یہ مضبوط عہد ہونا چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں میں کسی پہلو سے بھی طلبہ کو ملوث نہیں کرے گی اور نہ تعلیمی منتظمین کے بالمقابل طلبہ کی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی کرے گی۔ اس دوران میں اپوزیشن پارٹیوں کا رویہ طلبہ کے معاملے میں ہم نے نہایت غیر ذمہ دار انہ نا عاقبت اندیشانہ دیکھا ہے۔ تعلیمی ذمہ داروں کے مقابل میں غیر ذمہ دار سیاسی طالع آزما جب طلبہ کے ساتھ اظہار ہمدردی کی نمائش کرتے ہیں تو یہ چیز ایسی ہی معلوم ہوتی ہے جس طرح حقیقی ماں کی تادیبی تنبیہات کے مقابل میں کسی بچے کی سوتیلی ماں نمائشی شفقت کا اظہار کرے۔ اس طرح کی باتیں حالات کو خراب کرتی اور بچوں کے مزاج کو بگاڑتی ہیں۔ طلبہ کو سیاسی اغراض کے لیے اکسانا بچوں کے اغوا سے کم جرم نہیں ہے۔ طلبہ کو عملی سیاست سے الگ ہی رکھنے میں مصلحت ہے، بالخصوص جبکہ قوم کے سامنے موت و زیست کا کوئی مسئلہ بھی درپیش نہ ہو۔
اسی طرح طلبہ کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ استاد اور شاگرد کا رشتہ اجیر اور مستاجر کا رشتہ نہیں بلکہ باپ اور بیٹے یا مرشد ومستر شد کا رشتہ ہے۔ ہماری مشرقی اور اسلامی روایات تو اس رشتہ کے احترام میں بڑی ہی سخت رہی ہیں۔ ہمارے ہاں تو جس نے کسی کو کوئی بات بتادی یا سکھا دی زندگی بھر کے لیے اس کے حقوق قائم ہوجاتے تھے اور ان حقوق کا ہمیشہ احترم کیا جاتا تھا، عام اس سے کہ جو بات سکھائی گئی ہے وہ دین و اخلاق کی کوئی بات ہے یا معاش و معیشت کی،اور سکھانے والا کوئی ہندو، پارسی، عیسائی ہے یا مسلمان! یہاں تک کہ اگر کوئی شخص کسی کو کشتی کا کوئی پیچ یا بنوٹ کا کوئی ہاتھ بھی بتا دیتا تھا تو سیکھنے والا زندگی بھر اس کو گرو اور استاد مان کر اس کا احسان اٹھائے پھرتا تھا۔ ہم نے جس ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں اس کی روایات یہی تھیں اور ہم خود اس کے شاہد ہیں۔ مجھے کسی زمانے میں ایک ماسٹر صاحب نے ہندی کی کچھ حرف شناسی کرائی تھی، ان کی سکھائی ہوئی ہندی تو میرے ذہن و دماغ سے اب بالکل حرف غلط کی طرح نکل گئی لیکن خود استاد کی تعلیم و محبت اب بھی میرے دل میں جاگزیں ہے اور وہ کبھی نہیں نکلے گی حالانکہ یہ ایک واقعہ ہے کہ وہ ماسٹر صاحب ایک نہایت پختہ زنار ہندو تھے اور مجھے ان کی اس پختہ زناری کا علم تھا۔ اسی طرح مدرستہ الاصلاح کے دور میں مجھے بنوٹ کے ایک استاد نے بنوٹ کے کچھ ہاتھ بتانے کی زحمت اٹھائی تھی۔اس قسم کے فنون سے مجھے کچھ واجبی واجبی ہی سی مناسبت رہی ہے، لیکن ان کے سارے شاگردان کی عزت ایک استاد ہی کی طرح کرتے تھے حالانکہ و ہ ایک ناخواندہ آدمی تھے اور ہم اپنے آپ کو عالم فاضل سمجھتے تھے۔ میرے جس استاد نے مجھے مکتب میں اردو کا قاعدہ پڑھایا تھا وہ بعد میں گردشِ روزگار کے ہاتھوں یکہ ہانکنے پر مجبور ہوئے۔اس زمانے میں ہمارے قدیم وطن میں تانگے کی جگہ یکوں کا رواج تھا۔ لیکن اس کے اس پیشہ کے باوجود میں جب کبھی ان کو دیکھتا تو میرا سر فوراً ان کی تعظیم کے لیے جھک جاتا۔
تعلیم کے ذمہ داروں سے ہماری گزارش یہ ہے کہ آپ طلبہ کو جو کچھ بنانا چاہتے ہیں پہلے وہی کچھ خود بنیے۔ طلبہ سے اگر درویشی مطلوب ہے اور ہمارے نزدیک یہ مطلوب ہونی چاہیے، تو آپ بھی دوسری تمام ترغیبات سے بالا تر ہو کر علم و فن اور تحقیق و جستجو کے زاویہ میں معتکف ہونے کی خو پیدا کیجیے۔ اگر آپ طلبہ سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کو استاد، گرو، باپ اور مرشد مانیں،بلاشبہ آپ کو یہ چاہنے کا حق ہے تو آپ کو بھی اپنے اندر باپ کی شفقت اور مرشد کی تڑپ پیدا کرنی پڑے گی۔ یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے کہ طلبہ پر جو عکس بھی نمایاں ہوتا ہے وہ درحقیقت ان کے استادوں اور تعلیمی رہنماؤں ہی کا ہوتا ہے۔ ماہنامہ میثاق لاہور، دسمبر۱۹۶۳ء۔‘‘ (مقالات اصلاحی ۲/ ۲۶۷-۲۷۲)                 

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B