HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : شاہد رضا

غیر مسلم: چند جدید تفہیمات

[جناب جاوید احمد غامدی کی گفتگو سے اخذ و استفادہ پر مبنی زیر طبع کتاب ’’اسلام اور دیگر مذاہب‘‘ سے انتخاب]

اسلام: ایک چیلنج

سوال: کیا اسلام دنیا کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے؟

جواب: اس دنیا میں آپ کے پاس دو ہی چیزیں ہیں: ایک یہ کہ آپ اپنے حواس کے ذریعے سے مادے کا مشاہدہ کرتے ہیں، مادے میں حیات پیدا ہوتی دیکھتے ہیں، حیات میں شعور پیدا ہوتے دیکھتے ہیں، چنانچہ آپ اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اس سے آپ کے سائنسی علوم وجود میں آتے ہیں، لیکن انسان مادے یا حیات میں شعور کو سمجھنے تک محدود نہیں رہتا۔ وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ اس کائنات کی حقیقت کیا ہے؟ مادہ ہے، یہ تو ایک واقعہ ہے، آیا کہاں سے ہے؟ مادے میں شعور پیدا ہوتا ہے، یہ ایک واقعہ ہے، لیکن یہ شعور پیدا کیسے ہوتا ہے اور اس سے پہلے حیات کیسے پیدا ہوتی ہے۔ یہ بڑے بنیادی سوالات ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ ان سوالات سے صرف نظر کرکے سائنس کا سفر شروع کیا گیا ہے، یعنی پہلے یہ مان لیا گیا ہے کہ یہ سوالات اس وقت ہمارا موضو ع نہیں ہیں۔

چنانچہ پچھلی دو تین صدیوں میں انسان نے اپنی پوری توجہ اس دنیا پر مرکوز کر لی ہے۔ اگر آپ دیکھیں کہ ’سیکولر ازم‘ کی اصطلاح کیسے وجود میں آئی تھی۔ اب تو اس میں بہت سے دوسرے مفاہیم پیدا کر لیے گئے ہیں، لیکن یہ وجود میں یہیں سے آئی تھی کہ تھوڑی دیر کے لیے مذہب، مذہبیات، مابعد الطبیعات کو ایک طرف رکھ کر اپنی دنیا کو تو کچھ بہتر کر لیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو عقل دی ہے، اس کی روشنی میں اس کے معاملات کو سمجھ لیں۔ لہٰذا یہ چیز انسان کی توجہات کا مرکز بن گئی، یعنی انسان توجہات کا مرکز بن گیا؛ انسان کی بہبود، انسان کی بہتری، انسان کہاں رہتا ہے، اس کو کیا ماحول میسر ہے، اس میں اس کو کیا سہولتیں میسر ہیں، یہ سہولتیں کیا بڑھائی جا سکتی ہیں، انسان کو اللہ نے جو صلاحیتیں دی ہیں کیا ان میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ساری توجہات کا مرکز یہی چیز بن گئی۔  اس کے غیرمعمولی نتائج نکلے ہیں۔ 

آج ہم جس دنیا میں رہتے ہیں، اگر اس دنیا کو دو تین سو سال پہلے کا کوئی آدمی آ کر دیکھے تو یہ واقعہ ہے کہ وہ اس دنیا میں آ کر باور نہ کرے گا،یعنی اس کے لیے یہ بالکل اجنبی دنیا تھی۔ یہ وہی چیز ہے جس کو  علامہ اقبال نے اس طرح بیان کیا تھا کہ:

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں

محو حیرت ہوں  کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

لیکن کیا جو بنیادی سوالات تھے، ان میں سے کوئی سوال زیر بحث آ سکا ہے؟ کیا اس کے بارے میں کوئی ایک بات بھی کہنا ممکن ہو سکا ہے؟ کیا اس پر ایک قدم بھی آگے بڑھایا جا سکا ہے؟ نہیں۔یعنی یہ بات کہ مادہ کہاں سے آیا؟ یہ بات کہ مادے میں حیات کہاں سے پیدا ہوتی ہے؟ یہ بات کہ شعور کہاں سے آ جاتا ہے؟ اس میں بڑی دل چسپ چیز یہ ہے کہ چلیے، مادہ تو وجود میں آ چکا ، حیات ہمارے سامنے پیدا ہوتی ہے اور حیات میں شعور بھی ہمارے سامنے پیدا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے اور جانوروں کے بچے ہیں۔ زندگی وجود پذیر ہوتی ہے۔ ہم اس کو دیکھتے ہیں، بلکہ جب انسانی یا حیوانی زندگی کا مشاہدہ کیا جاتا ہے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی پیدایش کا پورا عمل ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے، یعنی یہی خوراک کھائی جاتی ہے اور یہی چیزیں ہمارے اندر جاتی ہیں۔ وہ فیکٹری جس میں یہ سب تیار ہو رہا ہے، وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ہم جب چاہیں، اس کو اٹھا کر میز پر رکھ لیں اور اس کا پوسٹ مارٹم کر ڈالیں۔

اس سب کے باوجود ہم جس جگہ پہلے دن کھڑے تھے ، اسی جگہ آج بھی کھڑے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت بڑے بڑے سوالات ہیں۔ اب ان سوالات میں ایک سفر ہے جو انسان کر رہا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ ان کو فی الحال ایک طرف رکھ دیا جائے۔ ان سے صرف نظر کیا جائے اور پھر بعض اوقات اپنے دل کی تسلی کے لیے کہہ لیتا ہے کہ ہم نے بہت مشکلات حل کر لی ہیں، بہت تحقیقات کر لی ہیں اور دنیا کے بڑے راز کھول لیے ہیں، ہم ایک دن یہ راز بھی کھول لیں گے اور یہ سب واضح ہو جائے گا۔ وہ یہ سب کچھ ایک طرف رکھ کر اطمینان سے سفر کر رہا ہے۔  اس سفر میں جو بڑے بنیادی سوالات ہیں، جس طرح کہ یہ تینوں سوالات سامنے رکھے گئے، اس کے بعد جب وہ باہر کی دنیا میں دیکھتا ہے تو زمان کیا ہے، مکان کیا ہے، ٹائم کی حقیقت کیا ہے، سپیس کی حقیقت کیا ہے، وہاں پربھی سواے بے بسی کے اور عجز کے اعتراف کے کوئی چیز سامنے نہیں ہوتی۔ اس میں انسانوں نے اپنے تخیل سے جو دنیائیں بنائی تھیں، وہ بھی ایک ایک کر کے ختم ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ 

اس صورت حال میں قرآن ان تمام چیزوں کے بارے میں ایک حتمی بیان دے رہا ہے کہ:

 ان سب کا منبع کہاں ہے؟

 ان کی ابتدا کہاں سے ہوئی ہے؟

 ان کی ابتدا کرنے والا کون ہے؟

وہ کیا ہستی ہے اور اس کی صفات کیا ہیں؟

  اس سب کے ساتھ قرآن مجید کے نزول پر پندرہ صدیوں کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس کے ایک حرف کے بارے میں بھی کہنا ممکن نہیں ہو سکا کہ زمانے کی گردشوں نے یا زمانے کے امتداد نے اس کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ وہ اپنی جگہ پر کھڑا ہے۔ اس لیے جب سائنس کا علم ترقی کے اس مقام پر کھڑا ہو گیا ہے اور اس کے مقابل میں سائنس کے ماورا کیا علم ہے، کائنات سے ماورا کیا علم ہے، طبیعیات سے ماورا کیا علم ہے، ظاہر ہے کہ اس علم کے بارے میں تخیلات کی دنیا ختم ہو چکی ، جو افلاطون (Plato)سے لے کر ہینری برگساں (Henri Bergson) تک فلسفیوں نے آباد کی تھی۔ اگر کوئی کھڑا ہے تو وہ قرآن کھڑا ہے؛ جب وہ کھڑا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیلنج کے ساتھ کھڑا ہے، یعنی وہ چیلنج دے رہا ہے کہ کیا دنیا میں کبھی کسی انسان کی کتاب کو یہ زندگی مل سکی ہے؟ کبھی ایسا ہو سکا ہے کہ کسی انسان کی کتاب اس طرح کے تضاد سے بالکل پاک ہو جائے؟ کبھی یہ ہو سکا ہے کہ وہ وقت کی قید سے ماورا ہو جائے اور اس میں کوئی ادنیٰ درجے کی چیز بھی دریافت کرنی ممکن نہ ہو؟ یہ ممکن ہے کہ انسان گفتگو کرے اور اپنے زمانے کے علم سے متاثر نہ ہو جائے؟ یہ ساری چیزیں، ظاہر ہے کہ سوال پیدا کرتی ہیں۔ چنانچہ یہ سوال ہے ، جس کے ساتھ قرآن مجید یہ چیلنج دے رہا ہے کہ:

اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا. (النساء۴ :۸۲) 
’’پھر کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں وہ بہت کچھ اختلاف پاتے ۔‘‘

یعنی اگر یہ کتاب کسی انسان کی کتاب ہوتی تو اس میں تضادات پاتے ۔ تم اس کے پیغمبر کی زندگی پر نظر ڈالتے تو شاعروں اور ادیبوں کی طرح وہ بھی اسی طرح سے سعی و خطا (trial and error) سے گزرتا ہوا نظر آتا۔ پھر یہ چیلنج دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اس شان کی کتاب، اس طرح دنیا کے تمام تصورات سے ماورا کتاب، اس طرح انسان کی سعی و کاوش سے ماورا کتاب، کتاب کیا ایک سورہ بھی ایسی ہے تو پیش کرو:

وَاِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖﵣ وَادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ. (البقرہ۲ :۲۳) 
’’اور جو کچھ ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے، اُس کے بارے میں اگرتمھیں شبہ ہے تو (جاؤ اور) اِس کے مانند ایک سورہ ہی بنا لاؤ اور (اِس کے لیے)  خدا کے سوا تمھارے جو زعما ہیں، اُنھیں بھی بلا لو، اگرتم (اپنے اِس گمان میں) سچے ہو۔‘‘

 اس چیلنج کے ساتھ قرآن مجید موجود ہے۔ اس لیے اصل چیلنج یہی ہے، جس کی طرف انسان توجہ نہیں کرتا، ورنہ یہ حقیقت ہے کہ جس طرح سائنس کے اکتشافات نےہمیں ایک نئی دنیا سے روشناس کرایا ہے، اس دنیا سے ماورا دنیا سے قرآن جس اعتماد اور اذعان سے اور جس طرح سے اور جس وضاحت سے متعارف کراتا ہے، وہ بجاے خود دنیا کے لیے ایک چیلنج ہے۔ چاہیں تو اس کے سامنے سر تسلیم خم کر کے اس پیغمبر کی بات کو مان لیں جو آسمان و زمین کی ساری حقیقتوں کے بارے میں خدا کی خبر دینے آیا تھا اور چاہیں تو اس سے صرف نظر کر کے رہیں، لیکن اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کی تردید کرنا اور اس سے گریز کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔[1]

______


غیر مسلم کا عرب میں عبادت گاہ بنانا

سوال: کیا غیرمسلم جزیرہ نماے عرب میں عبادت گاہ بنا سکتے ہیں؟

جواب:غیرمسلم جزیرہ نماے عرب میں کسی قسم کی عبادت گاہ نہیں بنا سکتے۔ گذشتہ دنوں جب دبئی میں یہ اعلان کیا گیا کہ وہاں پر ایک مندر بنانے کی اجازت دے دی جائے گی تو علما کا فوری موقف یہ تھا کہ یہ جزیرہ نماے عرب میں تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔ اسی وجہ سے جزیرہ نماے عرب میں ہر بت اور استھان توڑ دیا گیا، لیکن جیسے ہی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس سے باہر نکلے تو انھوں نے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔ بامیان اور مصر کے مجسمے بھی اسی طرح قائم رہے۔ تمام یادگاریں بھی اسی طرح قائم رہیں، بلکہ بہت مشہور واقعہ ہے کہ مصر میں کسی سپاہی نے سیدنا مسیح علیہ السلام کے مجسمے کی ناک توڑ دی۔ اس کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے اس قدر ردعمل ہوا کہ اس کو پکڑنے کی کوشش کی گئی؛ جب وہ پکڑا نہیں جا سکا تو سپہ سالار نے مسیحیوں سے کہا کہ آپ میری ناک توڑ سکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے پہلے فلسطین اور پھر جزیرہ نماے عرب کو اپنے لیے خاص کر لیا۔ ان دونوں ملکوں کے لیے قانون اور ضابطے بالکل مختلف ہیں۔ فلسطین کا معاملہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ختم ہو گیا اور یہود کے بارے میں اعلان کر دیا گیا کہ اب ’جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْ٘ا اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَةِ‘،[2] یعنی یہود کو بتا دیا گیا کہ مسیح کے ماننے والوں کا تم پر غلبہ رہے گا اور ظاہر ہے کہ فلسطین ان سے چھن گیا، لیکن جزیرہ نماے عرب ’لایجتمع دینان في جزیرة العرب ‘ [3]کے اصول کے مطابق توحید کا مرکز رہے گا۔ جزیرہ نماے عرب کے معاملے میں یہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ اسے قائم رکھیں اور اس کی حفاظت کریں، اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک فیصلہ ہے اور اس فیصلے کے، ظاہر ہے کہ ہم مسلمان ہی علم بردار ہیں۔ [4]

______


کرسمس کی تقریبات میں شریک ہونا

سوال: کیا کرسمس کی تقریبات میں شریک ہونا درست ہے؟

جواب: اصول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں ممنوع قرار دی ہیں، انھیں واضح کر دیا ہے۔ چنانچہ سورۂ اعراف میں یہ بتا دیا ہے کہ :

قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ. (۷ :۳۳)
’’ کہہ دو، میرے پروردگار نے تو صرف فواحش کو حرام کیا ہے، خواہ وہ کھلے ہوں یا چھپے اور حق تلفی اور ناحق زیادتی کو حرام کیا ہے اور اِس کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیراؤ، جس کے لیے اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اِس کو کہ تم اللہ پر افترا کرکے کوئی ایسی بات کہو جسے تم نہیں جانتے۔‘‘

جب اللہ کی کتاب کی طرف رجوع کیا جائے گا  تو دیکھا جائے گا کہ کہاں معاملات اطلاقی  بیان ہوئے ہیں اور کہاں اصولی بیان ہوئے ہیں۔ جناب جاوید احمد صاحب غامدی کی کتاب ’’میزان‘‘ کا مطالعہ کریں تو ان کا یہ طریق کار واضح ہوتا ہے کہ  سب سے  پہلے  وہ قرآن مجید کے اندر سے اس آیت یا آیات کا انتخاب کرتے ہیں جن میں بطور اصول کسی چیز کو بیان کیا گیا ہے یا اس میں قانون کو اصلاً بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد قرآن سے  واضح کرتے ہیں کہ باقی قرآن کی فقہ بیان ہو رہی ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے بھی یہ طریق کار ہو گا  کہ جب کسی معاملے کو دیکھا جائے گا تو سب سے پہلے خدا کی حرمتوں کو سمجھا جائے گا، اس لیے کہ مجھے وہ کام یا کرنا ہے یا رکنا ہے۔

چنانچہ  قرآن مجید میں یہ بتا دیا گیا ہے کہ پروردگار نے ہمارے لیے پانچ چیزوں کو ممنوع قرار دیا ہے۔ اب اگر کسی تہوار یا فنون لطیفہ میں ان میں سے کوئی چیز پائی جاتی ہے، اس سے مجھے بچنا ہے۔ اس بنیادی اصول (principle) کو سامنے رکھ کر کرسمس،  دیوالی اور ہولی کو بھی دیکھا جائے گا۔ یہ دیکھا جائے گا کہ اس میں کسی شرک کا ارتکاب تو نہیں  ہو گا ۔ ظاہر ہے کہ وہ سب سے بڑا گناہ ہے، اس لیے  اس سے ہر حال میں  اجتناب ہو  گا۔ پھر اس کے بعد کیا اس سے کسی کی حق تلفی ، کسی کی جان، مال اور آبرو کے خلاف زیادتی نہیں ہو گی، مثلاً دنیا میں ایسے بہت سے تہوار ہیں جن میں یہ کام بھی ہوتے ہیں۔ پھر یہ کہ میرے لیے فواحش کو ممنوع قرار دیا گیا ہے، یعنی وہ چیزیں جو بدکرداری، بداخلاقی  اور ان کے متعلقات کی طرف لے جانے والی ہیں۔  لہٰذا یہ دیکھا جائے گا کہ  کہیں  ان میں سے کوئی  چیز تو کسی تہوار میں نہیں پیدا ہو رہی؟ چنانچہ ایسے تہوار ہیں جن میں یہ چیزیں بھی موجود ہیں۔

لہٰذا ان تمام چیزوں کو دیکھنے کے بعد اس میں اتنی ہی شرکت کی جائے گی جہاں ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب نہ کرنا پڑے۔ یہ بالکل ویسی ہی بات ہے کہ خدا کی زمین پر تمام طیبات ہمارے لیے حلال ہیں، خواہ وہ طیبات مسلمان کے دسترخوان پر ہوں یا غیرمسلمان کے دسترخوان پر ۔ خبائث ہمارے لیے حرام ہیں۔ سؤر مسلمان پکا کر رکھ دے گا تو  اسے بھی نہیں کھایا جا سکتا اور وہ کسی دوسرے کی میز پر ہوگا تو اسے بھی نہیں کھایا جا سکتا۔

چنانچہ قرآن مجید نے وہ اصول بتا دیے ہیں جنھیں سامنے رکھ کر  اس کا مطالعہ بھی کریں، اللہ کے  پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت اور اسوہ کو بھی دیکھیں اور جہاں کوئی نیا مسئلہ پیش آئے تو اس پر اس کا اجتہادی اطلاق بھی کریں۔[5]

______


کرسمس کی مبارک باد دینا

سوال:     کیا عیسائیوں کو کرسمس کی مبارک باد دی جا سکتی ہے اور کیا یہ ان کے شرک میں شامل ہونا ہے؟

جواب: سیدنا مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا ماننا  ان کا نقطۂ نظر اور عقیدہ ہے۔ یہ تہوار تو سیدنا مسیح علیہ السلام کی پیدایش کا منایا جا رہا ہے، لہٰذا ہم اپنے لحاظ سے اس پر مبارک باد دے سکتے ہیں ۔ خدا کا ایک جلیل القدر پیغمبر زمین پر آیا، جس پر اللہ تعالیٰ  نےاپنی ایک کتاب نازل کی، جس کے بارے میں ایک ایسا فیصلہ کیا کہ جو دنیا کی تاریخ کا ایک غیرمعمولی فیصلہ ہے کہ اس کے منکرین پر اس کے ماننے والے قیامت تک غلبہ پائے رکھیں گے تو وہ کوئی معمولی شخصیت نہیں ہے، اس وجہ سے ہم اپنے لحاظ سے اس پر مبارک باد دیں گے۔

مثال کے طور پر ہمارے ہاں لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم پیدایش مناتے ہیں، اگر آپ مسلمانوں کے عقائد کا مطالعہ کریں تو اس میں بے شمار عقائد  ایسے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات سے وابستہ کر لیے گئے ہیں۔  ہو سکتا ہے کہ ہم ان پر تنقید کریں، یعنی ایسا نہیں ہو سکتا کہ  ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدایش کی خوشی میں الگ ہو کر کھڑے ہو جائیں ۔

چنانچہ جب آپ  لوگوں کو مبارک دیتے ہیں یا ان کی تقریب میں شریک ہوتے ہیں تو آپ ایک عمومی تاثر کے تحت اس میں شامل ہوتے ہیں۔ البتہ متعین طور پر اس میں کوئی شرک کی بات ہو رہی ہو تو ہم اس میں شرکت کرنے سے معذرت کر لیں گے۔[6]

یہ بالکل ایسے ہی ہے، جیسے ہمارے ہاں عام طور پر میلاد النبی منایا جاتا ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدایش کا دن ہی ہے جسے لوگ ’میلاد النبی‘ کہتے ہیں، بلکہ اب تو اسے لوگوں نے ’عید میلاد النبی‘ کہنا شروع کر دیا ہے۔ چنانچہ اس میں کرسمس کی طرح روشنیاں کی جاتی ہیں، گھروں کے باہر پہاڑیاں بنائی جاتی ہیں، گلیوں کو سجایا جاتا ہے۔ یہ لوگ خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔  اس کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا ۔ ہر چیز کو آپ بدعت قرار نہیں دے سکتے۔

لہٰذا ہر تقریب، خواہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ہو، سیدنا مسیح علیہ السلام کے حوالے سے ہو یا موسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے ہو، اس میں اگر کوئی شرک کا معاملہ نہیں ہے یا اس میں کوئی عبادت کا پہلو شامل نہیں کر دیا جاتا، کیونکہ عبادت کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے پاس نص ہو، لہٰذا اس کو آپ ناجائز نہیں کہہ سکتے۔[7]

______


غیر مسلموں کو سلام کرنا

سوال: کیا غیرمسلموں کو سلام کرنا جائز ہے؟

جواب:سلام ضرور کرنا چاہیے۔ سلام کرنا اصل میں سلامتی کی دعا ہے۔ یہ دعا ہر شخص کو دینی چاہیے۔ آدم و حوا  علیہما السلام کے سب بیٹوں کو دینی چاہیے، بلکہ اس نظریے کے ساتھ مذہبی لحاظ سے بھی دینی چاہیے کہ پروردگار تم کو توفیق دے کہ تم اللہ کی دعوت کو قبول کرو اور آخرت میں بھی سلامتی پاؤ۔  لہٰذا یہ تو دعا ہے اور دعا دینے میں کیا مانع ہے۔

یہ کہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے تو یہ بات درست نہیں ہے۔  روایت میں ’وعلیکم‘ کے حوالے سے بعض لوگوں نے کہا ہے  کہ اہل کتاب ’السلام علیکم‘ کہنے کے بجاے لفظ یا بات کو بگاڑ کر ’السام علیکم‘ کہتے تھے، جس کے معنی ظاہر ہے کہ موت کے ہیں(بخاری، رقم۶۹۲۶)۔  یہ بجاے سلامتی کی دعا کے برعکس ہوجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس پر رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، تم ’وعلیکم‘ کہہ دیا کرو، یعنی یہ ایسے ہی ہے، جیسے ایک آدمی آپ کو گالی دے دیتا ہے تو آپ کہتے ہیں کہ یہ تمھیں ہی پڑے۔ چنانچہ یہ اسی طرح کا اسلوب ہے، اس کا ’السلام علیکم‘ سے کوئی تعلق نہیں۔[8]

______


غیر مسلم اور آخرت

سوال:      کیا غیرمسلم آخرت میں اجر وثواب حاصل کریں گے؟

جواب:قرآن مجید نے اصول بیان کر دیا ہے کہ اصل میں ہر چیز کی ایک قدر وقیمت ہے، یعنی آپ جب بھی کوئی اچھا یا برا کام کرتے ہیں تو اس کی ایک قدر وقیمت ہے۔ وہ اپنی قدر وقیمت کے لحاظ سے قیامت کی میزان میں اپنا وزن رکھے گا۔ ہر چیز کا ایک وزن ہے۔ بعض اوقات آپ ایک ایسا کام کرڈالتے ہیں جو آپ کے باقی تمام معاملات کو بھی ختم کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص نیکی اور خیر کے کام کرتا ہے، لوگوں کی مدد کرتا ہے اور عام طور پر کسی برائی کا ارتکاب نہیں کرتا، اس پر یہ بات بالکل واضح ہے کہ اللہ موجود ہے اور اس نے اپنے پیغمبر بھیجے ہیں اور ان پیغمبروں میں آخری پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، لیکن وہ کہتا ہے کہ میں اس کو نہیں مانتا۔ نہ ماننے کی وجہ سرکشی، تعصب اور ایک حقیقت کو جاننے کے باوجود اپنے مفادات کے پیش نظر نہ ماننا ہے۔ اس طرح کا کوئی سبب ہے جو نہ ماننے کا باعث بن رہا ہے۔ یہ اتنا بڑا جرم ہے جو باقی تمام نیکیوں کو ختم کرکے رکھ دے گا۔ چنانچہ اصل میں اس کو قدر وقیمت کے لحاظ سے سمجھنا چاہیے۔

ایک آدمی مسلمان نہیں ہے۔ اس پر یہ بات بھی واضح نہیں ہوئی، اس تک دعوت بھی نہیں پہنچی، اس کو پوری طرح تنبہ ہی نہیں ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی کو مجھے کس طرح دیکھنا ہے۔ اِس کے بارے میں اس کے ذہن میں وہ سوالات پیدا ہی نہیں ہوئے، اس لیے کہ اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ہم وہ پیغام اس تک نہیں پہنچا سکے۔ صورت حال یہ نہیں ہے کہ وہ سرکشی یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے انکار کر رہا ہے، بلکہ اس پر ابھی بات واضح نہیں ہوئی ہے۔ وہ نیکی و خیر کے کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اجر سے محروم کیوں کریں گے؛ ضرور اجر دیں گے، اس لیے کہ انسان کو حق کا سچا تلاش کرنے والا ہونا چاہیے۔ اس نے کوئی سرکشی اختیار نہیں کی، اس نے جان بوجھ کر کسی نبوت کا انکار نہیں کیا یا اللہ کے خلاف بغاوت نہیں کی، بلکہ بات اس پر واضح نہیں ہوئی۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ہاں قدر وقیمت آپ کے رویے کی ہے۔

اس کے بالکل برخلاف، ایک مسلمان اللہ اور اس کے پیغمبر کو مانتا ہے، لیکن ان کی تعلیمات کو کسی درجے میں بھی قابل اعتنا سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے، وہ سرکشی کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے۔ اللہ کو مانتا ہے، مگر اس کی ہدایت کے مقابلے میں بغاوت پر اترا ہوا ہے۔ لہٰذا محض مان لینا کافی نہیں ہو جائے گا۔ چنانچہ قرآن مجید نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ جس تک ایمان کی دعوت پہنچ جاتی ہے یا پیغمبر کا پیغام پہنچ جاتا ہے تو اس کے بعد اس پر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پھر فیصلہ کرے کہ کیا وہ اس کو صحیح سمجھتا ہے یا غلط سمجھتا ہے۔[9]

______


ہندوؤں کا پرشاد یا شیرینی کھانا

سوال: کیا ہندوؤں کے تہوار پر پرشاد یا شیرینی کھانا جائز ہے؟

جواب:اس میں بھی وہی بنیادی اصول ہو گا کہ اگر تو کسی بت کے حضور میں کوئی چیز پیش کی گئی یا نذر کی گئی ہے تو پھر ہم کھانے سے اجتناب کریں گے۔ یہ بات بھی اصولی طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن مجید نے ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام کا ذبیحہ اور کسی تھان یا خانقاہ یا مزار پر پیش کی گئی چیز ہم نہیں کھا سکتے، اس لیے کہ اس میں کوئی چیز دوسرے کی نذر کی جاتی ہے۔ نماز، روزے اور اعتکاف کا اہتمام صرف اللہ ہی کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ نذر صرف اللہ ہی کے لیے ہو سکتی ہے اور قسم بھی اللہ ہی کی کھائی جا سکتی ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بتا دیا ہے کہ اگر آپ یہ نہیں کریں گے تو آپ شرک کا ارتکاب کریں گے۔

چنانچہ اس طرح کا کوئی کھانا ہو گا تو اس سے شایستگی کے ساتھ معذرت کر دی جائے گی، لیکن اگر خوشی یا دعوت کا کھانا ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔[10]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[1] -https://ghamidi.com/videos/is-religion-the-biggest-challenge-for-this-world-5923

[2]۔ آل عمران۳: ۵۵۔ ’’ تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت کے دن تک اِن منکروں پر غالب رکھوں گا۔‘‘

[3]۔موطا امام مالک، رقم۱۵۸۴۔ ’’ جزیرہ نماے عرب میں دو دین جمع نہیں ہو سکتے۔‘‘

[4]https://ghamidi.com/videos/are-non-muslims-permitted-to-construct-places-of-worship-in-arabian-peninsula-2754

[5]-https://ghamidi.com/videos/is-it-permissible-to-attend-christmas-celebrations-3297

[6]-https://ghamidi.com/videos/greeting-christians-on-christmas-2773

[7]-https://ghamidi.com/videos/is-it-permissible-to-wish-someone-on-christmas-4452

[8]-https://ghamidi.com/videos/greeting-non-muslims-2779

[9]-https://ghamidi.com/videos/will-nonmuslims-get-reward-sawab-1181

[10]-https://ghamidi.com/videos/is-it-permissible-to-eat-food-at-nonmuslim-festivals-2070

B