HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

آج کی یاد دہانی!!

معاذ بن نور

 باطن میں بغاوت لیے خارج میں امن کی تلاش!!

انسان کا سب سے بڑا تضاد یہ ہے کہ وہ جن تضادات کے ساتھ خود جینے کا عادی ہوتا ہے، انھی تضادات کو دوسروں میں دیکھ کر سیخ پا ہو جاتا اور اپنی حق تلفی کے خلاف لڑنے مرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔اگر ایسا ہو تو انسان جانتا ہے کہ یہ کوئی عدل و انصاف پر مبنی لڑائی نہیں، بلکہ اپنی برتری چاہنے والی جبلتوں پر مبنی انسان کی ذاتی لڑائی ہے۔

ذرا توجہ دلانے پر وہ اپنے اس تضاد کو جان سکتا ہے۔ ’بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰي نَفْسِهٖ بَصِيْرَةٌ‘،  ’’بلکہ انسان خود اپنے نفس پر گواہ ہے‘‘ (القیامہ ۷۵: ۱۴)۔ ’لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ‘، ’’تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو‘‘ (الصف ۶۱: ۲) ۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟ قرآن مجید بتاتا ہے کہ یہ شیطان کا نزغ ہے، جو وہ انسان کی انا اور جبلی خواہشوں کے دروازے سے داخل ہو کر پیدا کرتا اور پھر اسے حقوق کی جدوجہد وغیرہ جیسے خوش نما وعدوں سے ڈھانپ دیتا ہے: ’وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيْلِ‘، ’’اور شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے مزین کر دیے اور انھیں راستے سے روک دیا‘‘ (النمل ۲۷: ۲۴)۔

اس کے برعکس، اگر انسان اپنی جبلتوں کے اس وفور سے ذرا پرے ہٹ کر عقل و شعور سے کام لینے کے لیے تیار ہو جائے تو اس پر واضح ہو جاتا ہے کہ جس برائی کے خلاف میں صف آرا ہوں، بعینہٖ وہی برائی میری اپنی ذات کے اندر گہری جڑیں بنا چکی ہے۔ عقل و شعور کی یہ نظر انسان کو عاجزی اختیار کرنے اور معاملات کو انصاف کی نظر سے دیکھنے کے قابل بناتی ہے۔

درحقیقت ہمارے بے شمار خارجی مسائل کی ایک وجہ یہی ہے کہ ہمارا اپنا باطن ہماری تنقیدی نگاہ سے اکثر آزاد ہی رہتا ہے اور اپنے اندر بے شمار تضادات لیے مسائل کا ایک قبرستان بن جاتا ہے، جو لامحالہ ہمارے خارجی تعلقات کی خرابی کا باعث بنتا ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے تضادات کو دیکھنے والی تیز ترین نظر عطا فرمائے اور ایسا دل بخشے جس کا بنیادی مسئلہ ان تضادات کی درستی بن جائے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B