[ستمبر ۲۰۲۴ء کو آسٹریلیا ’’المورد‘‘ نے مجھے اور ڈاکٹر شہزاد سلیم کو آسٹریلیا مدعو کیا تاکہ ہم وہاں کے لوگوں کے ساتھ بیٹھیں اور ان کو اور ان کے بچوں کو جدید دور میں جن مسائل کا سامنا ہے، ان میں ان کی رہنمائی کریں اور ان کے سوالوں کا تشفی بخش جواب دیں۔ عام طور پر ہم دونوں کے سیشن اکٹھے ہوتے تھے اور کچھ سیشن الگ الگ ہوتے تھے۔شہزاد مردوں اور بچوں کے ساتھ ہوتے تھے اور ان کے سوالوں کے جواب دیتے تھے اور نوجوان بچوں کو پیش آنے والے مسائل کا حل بتاتے تھے، جب کہ میں قرآن وسنت کی روشنی میں خواتین کے ذاتی مسائل کے بارے میں سوالوں کے جواب دیتی تھی۔]
افسوس ہے کہ جتنا ہم آج کل جدید دور کے تقاضوں کے تحت سائنسی اور جدید تعلیمات کے بارے میں حساس ہیں ،اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ادھار اٹھا کر باہر کی نام ور یونیورسٹیوں میں بھیجتے ہیں تاکہ ہمارے بچے کسی سے پیچھے نہ رہ جائیں اتنا ہی ہم اپنی مذہبی تعلیمات سے بے خبر ہیں ۔ ان کے سوالوں سے پتا چلتا ہے کہ انھیں تو اسلام کی الف ب کا بھی پتا نہیں ۔ان کا اسلام کے بارے میں علم صرف سنی سنائی کہانیوں پر مبنی ہے، اس لیے مذہب کے بارے میں confuse ہیں اور ان کے تصورات واضح نہیں ہیں۔ ایک دن ملبورن میں ہونے والی ایک نشست میں ایک پڑھی لکھی خاتون نے مجھ سے سوال کیا کہ ہمیں کیک نہیں کھانا چاہیے، کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کبھی کیک نہیں کھایا تھا۔ میں اس خاتون کی یہ بات سن کر حیران و پریشان رہ گئی۔ میں نے بلا تاخیر پوچھا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کبھی جہاز میں سفر نہیں کیا تھا تو پھر آپ جہاز میں سفر کیوں کرتی ہیں؟ میرا یہ سوال سن کر وہ خاتون سٹپٹا گئی اور کہنے لگی کہ آپ میرا مذاق اڑا لیں۔ میں نے اس کو یہ سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ کے نبی ہمیں اللہ تعالیٰ کا دین سمجھانے آتے ہیں کہ ہم کس طرح اللہ کے فرماں بردار بن سکتے ہیں اور ہم کس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور کن کاموں سے ہمیں گناہ ملتا ہے اور کن کاموں کے کرنے سے ہم دوزخ میں جاسکتے ہیں۔کیک بنانے میں جو اجزا استعمال ہوتے ہیں، اس میں میدہ، انڈے ،چینی ،مکھن اور بیکنگ پاؤڈر ہیں اور ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی چیز حرام نہیں ہے۔
دنیا کے کاموں کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل دی ہے اور ان کو ہم بہت بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔ دنیا میں جب انسان آیا تو اس وقت وہ اپنی زندگی کے آغازمیں غاروں میں رہتا تھا اور جانوروں کا شکار کرکے وہ اپنا پیٹ بھرتا تھا۔پھر آہستہ آہستہ اپنی عقل کا استعمال کرکے ترقی کی منازل طے کرتے کرتے انسان یہاں تک آپہنچا ہے کہ اب لیبارٹریوں میں بچے پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ چاند اور ستاروں پر اپنی کمند ڈال رہا ہے۔ مہینوں پہلے شمسی اور قمری کیلنڈر بنا رہا ہے۔ بارشوں اور آندھی طوفان کے آنے کی پیش گوئی کر رہا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ آج سے چودہ سو سال پہلے ممکن نہیں تھا اور اگر ہم اس طرح سوچنے لگیں گے کہ جو کام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا، جس طرح ہوتا تھا، ہم بھی ویسے ہی وہ کام کریں گے اور جو کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھا، وہ ہم نہیں کریں گے تو ہم اپنے لیے بہت سی مشکلات کھڑی کر لیں گے۔ دنیا کی ترقی سےکبھی استفادہ نہیں کر پائیں گے۔یہ ایئر کنڈیشنر،یہ ٹی وی، گاڑی،جہاز اور واشنگ مشین اور دوسری بے تحاشا چیزیں جو ہمیں سا ئنس کی ترقی سے ملی ہیں، ہم استفادہ نہیں کر پائیں گے اور پھر ہمیں دوبارہ غاروں کی دنیا میں واپس چلے جانا چاہیے۔دین کے معاملات میں ہماری عقل ٹھوکر کھا سکتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کی رہبری کی ضرورت پڑتی ہے، جس کو بتانے کے لیے اللہ تعالیٰ کے نبی آتے رہے اورآخر میں اللہ تعالیٰ نے نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے دین مکمل کردیا اور قرآن مجید کی شکل میں قیامت تک کے لیے ہماری ہدایت کا سرچشمہ مکمل کردیا، جو قیامت تک ہدایت کے لیے کافی ہے، جب کہ دنیا میں ترقی کے لیے ہماری عقل ہماری بہترین رہنمائی کرتی ہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی جگہ سے گزر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ کچھ لوگ درخت کی پیوند کاری کررہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ اگر تم یہ پیوند کاری نہ کرو گے توکیا ہوگا؟لوگ خاموش رہے اور پیوند کاری نہ کی،چنانچہ وہ فصل اچھی نہ ہوئی۔ وہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ہم نے آپ کے کہنے پر پیوند کاری نہیں کی تھی تو ہماری فصل اچھی نہیں ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو میں تمھیں دین سکھانے آیا ہوں، مجھ سے دین سیکھا کرو۔دنیا کے معاملات میں تم مجھ سے بہتر جانتے ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنما أنا بشر، إذا أمرتکم بشيء من دینکم فخذوا به وإذا أمرتکم بشيء من رأیي فإنما أنا بشر... فإني إنما ظننت ظنًا فلا تؤاخذوني بالظن ولکن إذا حدثتکم عن اللّٰه شیئًا فخذوا به فإني لن أکذب علی اللّٰه... أنتم أعلم بأمر دنیاکم. (مسلم،رقم ۶۱۲۶ - ۶۱۲۸)
”میں بھی ایک انسان ہی ہوں، جب میں تمھارے دین کے متعلق تمھیں کوئی حکم دوں تو اُسے لے لو اور جب میں اپنی راے سے کچھ کہوں تو میری حیثیت بھی اِس سے زیادہ کچھ نہیں کہ میں ایک انسان ہوں...میں نے اندازے سے ایک بات کہی تھی۔ اِس لیے تم اِس طرح کی باتوں پر مجھے جواب دہ نہ ٹھیراؤ جو گمان اور راے پر مبنی ہوں۔ ہاں، جب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھیں کچھ کہوں تو اُسے لے لو، اِس لیے کہ میں اللہ پر کبھی جھوٹ نہ باندھوں گا... تم اپنے دنیوی معاملات کو بہتر جانتے ہو۔“
اگر ہم دین کو دیکھیں تو اس میں بنیادی طور پر دو ہی چیزیں ہوتی ہیں: ۱۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق۔ ۲۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں کےحقوق۔ان تمام حقوق کا ذکر سورۂ بنی اسرائیل میں اس طرح ہے:
لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا. وَقَضٰي رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْ٘ا اِلَّا٘ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَا٘ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَا٘ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا. وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا. رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِيْ نُفُوْسِكُمْ اِنْ تَكُوْنُوْا صٰلِحِيْنَ فَاِنَّهٗ كَانَ لِلْاَوَّابِيْنَ غَفُوْرًا. وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰي حَقَّهٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا. اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْ٘ا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا. وَاِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّيْسُوْرًا. وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰي عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا. اِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَيَقْدِرُ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِيْرًاۣ بَصِيْرًا. وَلَا تَقْتُلُوْ٘ا اَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَاِيَّاكُمْ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا. وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰ٘ي اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَسَآءَ سَبِيْلًا. وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا يُسْرِفْ فِّي الْقَتْلِ اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا. وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ حَتّٰي يَبْلُغَ اَشُدَّهٗ وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـُٔوْلًا. وَاَوْفُوا الْكَيْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيْمِ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا. وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـُٔوْلًا. وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا. كُلُّ ذٰلِكَ كَانَ سَيِّئُهٗ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوْهًا. ذٰلِكَ مِمَّا٘ اَوْحٰ٘ي اِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتُلْقٰي فِيْ جَهَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا.(۱۷: ۲۲- ۳۹)
’’(سنو)، تم اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بناؤ کہ (روز قیامت) ملامت زدہ اور بے یارومددگار بیٹھے رہ جاؤ۔تمھارے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ تنہا اُسی کی عبادت کرو اور ماں باپ کے ساتھ نہایت اچھا سلوک کرو۔ اُن میں سے کوئی ایک یا دونوں اگر تمھارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو نہ اُن کو اف کہو اور نہ اُن کو جھڑک کر جواب دو، تم اُن سے ادب کے ساتھ بات کرو اور اُن کے لیے نرمی سے عاجزی کے بازو جھکائے رکھو اور دعا کرتے رہو کہ پروردگار، اُن پر رحم فرما، جس طرح اُنھوں نے (رحمت و شفقت کے ساتھ) مجھے بچپن میں پالا تھا۔ (لوگو)، تمھارے دلوں میں جو کچھ ہے، اُسے تمھارا پروردگار خوب جانتا ہے۔ اگر تم سعادت مند رہو گے تو پلٹ کر آنے والوں کے لیے وہ بڑا درگذر فرمانے والا ہے۔ تم قرابت دار کو اُس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی، اور مال کو بے جا نہ اڑاؤ۔ اِس لیے کہ مال کو بے جا اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہوتے ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔ اور اگر اِن (ضرورت مندوں) سے اعراض کرنا پڑے، اِس لیے کہ ابھی تم اپنے پروردگار کی رحمت کے انتظار میں ہو، جس کی تمھیں امید ہے، تو اِن سے نرمی کی بات کہو۔ اپنا ہاتھ نہ گردن سے باندھے رکھو اور نہ اُس کو بالکل کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ رہو۔ بے شک، تمھارا پروردگار ہی جس کے لیے چاہتا ہے، رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے، تنگ کر دیتا ہے۔ وہ اپنے بندوں سے یقیناً با خبر ہے، وہ اُنھیں دیکھ رہا ہے۔ تم لوگ اپنی اولاد کو مفلسی کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم اُنھیں بھی روزی دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ اُن کا قتل یقیناً بہت بڑا جرم ہے۔ اور زنا کے قریب نہ جاؤ، اِس لیے کہ وہ کھلی بے حیائی اور بہت بری راہ ہے۔ خدا نے جس جان کی حرمت قائم کر دی ہے، اُسے ناحق قتل نہ کرو اور (یاد رکھو کہ) جو مظلومانہ قتل کیا جائے، اُس کے ولی کو ہم نے اختیار دے دیا ہے۔ سووہ قتل میں حد سے تجاوز نہ کرے، اِس لیے کہ اُس کی مدد کی گئی ہے۔ تم یتیم کے مال کے قریب نہ پھٹکو۔ ہاں، مگر اچھے طریقے سے، یہاں تک کہ وہ اپنی پختگی کو پہنچ جائے۔ اور عہد کو پورا کرو،اِس لیے کہ عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ تم پیمانے سے دو تو پورا بھر کر دو اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو۔یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی یہی اچھا طریقہ ہے۔ تم اُس چیز کے پیچھے نہ پڑو جسے تم جانتے نہیں ہو، اِس لیے کہ کان، آنکھ اور دل، اِن سب کی پرسش ہونی ہے۔ اور زمین میں اکڑ کر نہ چلو، اِس لیے کہ نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔ اِن سب باتوں کی برائی تمھارے پروردگار کے نزدیک سخت نا پسندیدہ ہے۔ یہ اُنھی حکمت کی باتوں میں سے ہیں جو تمھارے پروردگار نے تمھاری طرف وحی کی ہیں۔ (اِنھیں مضبوطی سے پکڑو) اور (ایک مرتبہ پھر سن لو کہ) اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بناؤ کہ راندہ اور ملامت زدہ ہو کر جہنم میں ڈال دیے جاؤ۔‘‘
ان حقوق کے تعین کے بارے چونکہ ہم مغالطے میں پڑ سکتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو واضح کردیا اور دنیا کےمعاملات کو انسان کی عقل پر چھوڑ دیا۔عمارت بنانے کے لیے کیا کچھ چاہیے؟ فیکٹری کے لیے کون کون سی مشینیں چاہییں؟سردی میں کیا پہننا ہے اور گرمی ہو تو کیا پہننا چاہیےوغیرہ۔ ان سب چیزوں کو طے کرنے کے لیے ہماری عقل اور ہمارا تجربہ ہماری رہنمائی کرتے ہیں اور دنیاوی معاملات کو حل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو کسی نہ کسی صلاحیت سے نوازا ہے۔ کچھ لوگ بہترین ڈاکٹر بن سکتے ہیں اور کچھ لوگ بہترین انجینئر بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور کچھ بہترین استاد بن سکتے ہیں۔ ان معاملات کے لیے وحی کی رہنمائی کی ضرورت نہیں ہے، بس عقل اور تجربہ ہی کافی ہے۔
اسی گفتگو کے ضمن میں اس بات کو بھی زیر بحث لانا چاہتی ہوں کہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم شدید سردی میں وضو کرکے جرابیں پہن لیں اور پھر باقی نمازوں میں ہم ان جرابوں پر مسح کرسکتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں کے کچھ اہل فکر کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو چمڑے کی جرابیں پہنتے تھے، جب کہ ہمارے پاس پہننے کے لیے یا تو سوتی جرابیں ہوتی ہیں یا پھر نائیلون کی۔لہٰذا ان جرابوں پر مسح نہیں ہوسکتا۔یہ دلیل بالکل بودی دلیل ہے۔اس کا عقل سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر اس زمانے میں کاٹن اور نائلون کی جرابیں ہوتیں تو یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جرابیں پہنتے۔ اسلام ہمیں سائنس کی نئی دریافتوں اور ایجادات کو استعمال سے ہرگز نہیں روکتا، بلکہ ان کے استعمالات کی ترغیب دیتا ہے۔ اگر آج جدید دور میں کوئی نبی ہوتا تو یقیناً وہ اس دور کی ترقی سے ضرور استفادہ کرتا۔دین کے بارے میں یہ رویہ خود کو مشکلات میں ڈالنے کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ہمارے لیے دین کو بہت آسان اور سہل بنایا ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جتنی مشکل راہ کا انتخاب کریں گے، اتنا ہم دین سے قریب ہوں گے۔
ایک موقع پر ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو (اپنے لیے دین میں مشکلات کا راستہ اختیار کرکے دین سے کشتی لڑے گا تو دین اسے پچھاڑدے گا۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب دین میں کسی چیز پر عمل کرنے کے دو راستے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ آسان راستے کو اختیار کرتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اس لیے کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے آسانیاں ہوں۔اسی میں خیر و برکت ہو اور وہ ان مشکلات سے نکلیں جس میں بنی اسرائیل پڑے ہوئے تھے۔ قرآن مجید میں ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھارے لیے آسانیاں پیدا کرنا چاہتا ہے مشکلات نہیں(البقرہ۲: ۱۸۵)۔ ہمارے لیے بھلائی اسی میں ہے کہ جن معاملات میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی واضح ہدایات موجود ہیں اس میں ہم خود اجتہاد کرنے کی کوشش نہ کریں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ