[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
تفسیر ’’مفتاح القرآن‘‘ مؤلفہ علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی بیسویں صدی میں انجام دیاگیاایک عظیم قرآنی کارنامہ ہے۔یہ مقالہ اسی تفسیر کے معروضی تعارف پرمشتمل ہے۔ تفسیرکا مادہ ’ف س ر‘ ہے[1]جس کا مطلب ہے: معنی و مفہوم کی وضاحت کرنا۔اصطلاحاً قرآن کریم کے معانی ومطالب کی توضیح وتشریح کو تفسیر یاعلم تفسیرکہتے ہیں۔اصول تفسیرمیں اصول فقہ،اصول کلام اورعلوم عربیہ سب سے مددملتی ہے۔[2]
بیسویں صدی کی اردو تفاسیرمیں سے ہرایک تفسیرکی اپنی خصوصیات وامتیازات ہیں، مگر تفسیر ’’مفتاح القرآن‘‘، جس کا یہاں مطالعہ پیش نظرہے، ان تمام تفاسیر پر یک گونہ فوقیت رکھتی ہے۔اس کے اندربعض وہ خصوصیات ہیں جواسے پورے تفسیری ذخیرہ میں ممتاز کرتی ہیں۔
تفسیر ’’مفتاح القرآن‘‘ کے مؤلف علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی (۱۹۲۳ء- ۲۰۰۵ء) قرآ ن وحدیث،فقہ اور علوم عربیت میں مطلق امامت کے درجہ پر فائزتھے۔انھوں نے ساری عمرمختلف بڑے عربی مدارس میں بخاری سمیت حدیث کی اہم کتابوں کا درس دیا۔انھوں نے بخاری اورمسنداحمدبن حنبل کی شرحیں بھی لکھی ہیں۔ بخاری کی عربی شرح ’’تحفۃ القاری‘‘ ہے۔ساری زندگی قرآن پرغوروفکراورمطالعہ وتحقیق میں گزاری اوراس دور بلاخیز میں شہرت ونام وری کے ہرپہلوسے کٹ کراورزخارف دنیاسے منہ موڑکرگوشہ نشینی کی زندگی گزاری۔تفسیر ’’مفتاح القرآن‘‘ ان کی ساری عمرکے مطالعہ وتدبرکا نچوڑہے۔[3] اگلی سطورمیں ہم تفسیر ’’مفتاح القرآن‘‘ پر روشنی ڈالتے ہیں۔مقالہ میں کوشش کی جائے گی کہ یہ مطالعہ جامع ہو اور قاری کے سامنے اس تفسیرکی ایک مکمل تصویرآجائے۔
تفسیر ’’مفتاح القرآن‘‘ کی تصنیف کا آغاز علامہ میرٹھی نے ۲/شعبان ۱۳۸۴ھ میں کیاتھا اور ۲۵/ جمادی الثانی ۱۴۰۵ھ میں تقریباً ۲۱سال کی مدت میں یہ تفسیرمکمل ہوئی۔مصنف کی زندگی میں اس کے صرف چندہی اجزا شائع ہوسکے تھے۔سورۂ فاتحہ سے سورۂ انعام تک الگ لگ اجزا میں اوردرمیان تفسیرسے سورۂ نورالگ شائع ہوئی تھی، جس میں واقعۂ افک کی تحقیق ہے۔اب ’’فاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز‘‘ کی جانب سے اس کی اشاعت بتدریج عمل میں آرہی ہے، چنانچہ ان سطورکے لکھے جانے تک اِس تفسیرکی چار جلدیں منظرعام پر آچکی ہیں، یعنی سورۂ فاتحہ سے سورۂ شوریٰ تک تقریباً پچیس پارے شائع ہوگئے اورپانچویں جلدبھی جلدہی منظرعام پر آرہی ہے، جس میں سورۂ ناس تک کی تفسیر، یعنی مکمل قرآن کی تشریح وتوضیح شامل ہے۔اہل علم اس تفسیرکی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔چنانچہ پروفیسرڈاکٹرسیدشاہدعلی استاد جامعہ شعبۂ اسلامک اسٹڈیزجامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنی کتاب ’’بیسویں صدی میں اردوتفسیروں کا مطالعہ‘‘ صفحہ ۱۱۱ پراس تفسیرکی بڑی تعریف وتوصیف کی ہے۔
راقم کی نظرمیں اس تفسیرکے امتیازی اورنمایاں پہلودرج ذیل ہیں:
یہ اس تفسیرکا وہ علمی پہلوہے جس میں یہ تفسیرتمام قدیم وجدیدعربی وارد و تفاسیر پر فوقیت رکھتی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مفسرگرامی علوم قرآن کے ساتھ ہی علوم حدیث کے بھی امام تھے۔اورعلم الحدیث پر ان کو اتنا عبور حاصل تھا کہ انھوں نے صحیحین پر بھی نقدکیاہے۔مسلم پر توانھوں نے تنقیدی کام شروع ہی کیاتھا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سے بلاواآگیا،مگربخاری پر انھوں نے عربی میں اپنی شرح بخاری موسوم بہ ’’تحفۃ القاری بشرح صحیح البخاری‘‘ میں تفصیل سے اوراردومیں اختصارکے ساتھ اپنے تنقیدی مطالعہ کو تین جلدوں میں شائع کردیا ہے۔ [4]
اصل میں تفسیری روایات کا بیش ترحصہ بے سروپاباتوں پر مشتمل ہے،اس میں مرفوع احادیث کاحصہ بہت کم ہے، یہاں تک کہ صحیح بخاری میں تفسیرقرآن کے باب میں جو احادیث وآثارجمع کیے ہیں،ان میں امام بخاری نے تقریباً مکمل طورپر علی بن ابی طلحہ،نافع اور دوسرے راویوں کے تفسیری اقوال پر اعتماد کر لیا ہے۔ امام احمدکا مشہورقول ہے کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن کی کوئی اصل نہیں : ’ثلاثة لا أصل لها: المغازي والملاحم والتفسیر‘۔ ابن تیمیہ نے امام احمدکے قول کی توجیہ یہ کی ہے ’أي لا إسناد لها‘،اوراس کے بعد لکھا ہے ’لأن الغالب علیها المراسیل‘ کہ تفسیری روایات کا بیش ترحصہ مرسلات پر مشتمل ہے۔[5] لیکن بہت ساری تفسیری روایات جو حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں اور یہاں تک کہ بخاری ومسلم میں بھی، جن کو مفسرین بالعموم نقل کرتے آرہے ہیں، ان میں سے بھی اکثروبیش ترغلط سلط روایتیں ہیں، جیساکہ علامہ نے تفصیل سے اپنی تفسیرکے مختلف متعلقہ مقامات پر ہرایک روایت کاتفصیلی مطالعہ کرکے ثابت ومحقق کردیاہے۔
یہاں ایک دومثالوں سے بات واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سربعض مفسرین نے بخاری کی ایک روایت سے دھوکا کھا کر کذب کا الزام منڈھ دیاہے، حالاں کہ وہ روایت مرفوع متصل نہیں، حضرت ابوہریرہ کی موقوف روایت ہے جوان کو کعب احبار سے معلوم ہوئی تھی۔ اس بارے میں مفسرگرامی نے لکھاہے: ’’ اہل کتاب کی متعدداناپ شناپ باتیں کتب حدیث و تفسیر میں احادیث نبویہ کے طورپر جگہ پاگئیں۔ازاں جملہ یہ حدیث ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عمرمیں تین بارجھوٹ بولاتھا۔ایک بار اُس وقت جب بتوں کوتوڑنے کے لیے اپنی بیماری کا بہانہ کر دیا تھا، دوسری باراس وقت جب کہہ دیاتھاکہ ان بتوں کو بڑے بت نے توڑاہے۔تیسری باراس وقت جب اپنی بیوی سارہ کو بادشاہ مصرکے ڈرسے اپنی بہن بتایاتھا، مگریہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ نہیں ہے۔ ابوہریرہ نے کعب احبار یا کسی اور نو مسلم یہودی سے سنی تھی اور اس کا حوالہ دیے بغیر اس کا ذکر کر دیا تھا، اور سادگی کی بنا پر اس نومسلم یہودی کی بیان کی ہوئی اس کہانی کو عقل ونقل کی میزان میں نہ تولاتھاکہ اس کا جھوٹ ہونا ان پر واضح ہوجاتا۔ صحیح بخاری کی ’’ کتاب الانبیاء‘‘ میں اس حدیث کی جواسنادمذکورہے، وہ واضح طورپر بتارہی ہے کہ یہ حدیث مرفوع، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ نہیں ہے۔امام بخاری فرماتے ہیں: ’حدثنا سعید بن تلید الرعینی أخبرني ابن وهب أخبرني جریر بن حازم عن أیوب عن محمد عن أبي هریرة قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم لم یکذب إبراهیم إلا ثلاثًا ح وحدثنا محمد بن محبوب ثنا حماد بن زید عن أیوب عن محمد عن أبي هریرة قال لم یکذب إبراھیم إلا ثلاث کذبات الخ ‘، ’’یعنی حضرت ابوہریرہ سے یہ بات محمدبن سیرین نے اور ان سے ایوب سختیانی نے سنی تھی،اورایوب سے دوشخصوں جریربن حازم اورحمادبن زیدنے اور ائمۂ رجال نے تصریحات کی ہیں کہ جریربن حازم ضعیف الحفظ تھے،جریرکی بیان کردہ اُنھی حدیثوں پر اعتماد کیا جاتا ہے جو جریر نے اعمش سے سنی تھیں۔ جریرکی اسنادمیں ہے کہ ابوہریرہ نے کہا: ’’فرمایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے‘‘ لیکن حماد بن زیدنے جو جریرسے بدرجہاقوی تراورثبت وثقہ محدث تھے، اس کی اسناد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرنہیں کیا، بلکہ اسے خودابوہریرہ کے قول کے طورپر بیان کیاہے‘‘۔
الحاصل، جریرنے اسے حدیث مرفوع کے طورپر بیان کیاہے، اورحمادبن زیدنے حدیث موقوف اور قول ابوہریرہ کے طورپر۔پس اسے مرفوع، یعنی حدیث نبوی بتادیناجریربن حازم کا وہم ہے۔یہ مرفوع حدیث نہیں ہے، بلکہ حضرت ابوہریرہ کی بیان کی ہوئی بات ہے جو انھوں نے کعب احباریاکسی اورشخص سے سن کرنقل کردی تھی اور اس نے تلبیس یہ کی کہ بائیبل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام وسارہ کی جو عمر مذکور ہے، اس کا ذکر نہیں کیا ورنہ ابوہریرہ سمجھ لیتے کہ یہ محض جھوٹ ہے۔(بائیبل کے بیان کے مطابق شاہ مصرکے ڈرسے سارہ کو اپنی بہن بتانے کے وقت حضرت ابراہیم کی عمر۷۵ سال سے متجاوز اورسارہ کی عمر۶۵ سے زیادہ ہوچکی تھی۔ [6]
واضح رہے کہ کذبات ثلاثہ کی اس حدیث کو امام رازی سمیت متعددقدیم وجدیداہل علم نے بھی درایت کی بنیاد پر مسترد کیا ہے،مگربخاری پرست لوگ ان پر شدیدنقدکرتے ہیں۔البتہ اس قصہ کو سندکی بنیادپر علامہ میرٹھی ہی نے پہلی بارردکیاہے۔[7]
دوسری مثال مصنف کی تحقیقی بحث آیۂ تطہیرتفسیرسورۂ احزاب [8]نیزآیۂ مباہلہ کی تفسیرسورۂ آل عمران جلد اول صفحہ ۶۷۰ تا ۶۷۳)جوپورے تفسیری ذخیرہ میں نایاب تحقیق ہے،ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
مفسر گرامی الفاظ قرآنی کی مختصرتحقیق کرتے جاتے ہیں۔ اور بہت سی جگہوں پر انھوں نے قرآنی نظائر اور استعمالات کو بھی جمع کردیاہے۔مثال کے طور پر ملاحظہ ہو: حروف مقطعات کی بحث [9] اسی طرح صبرکی تفسیر جہاں کرتے ہیں تواس کے متعدد نظائرجمع کردیتے ہیں۔(مثال کے طورپرملاحظہ ہو: مفتاح القرآن ۱/ ۳۲۱ - ۳۲۵) اورنمونہ کے طورپر درج ذیل مثال ملاحظہ ہو:
’’ ’ننجیک‘ اس آیت میں ’نجوة‘ سے ماخوذ ہے جو اونچی جگہ کے معنی میں ہے۔ لسان العرب میں ہے ’’قوله تعالیٰ ’’فالیوم ننجیک ببدنك ‘‘ای نجعلک فوق نجوة من الارض فنظهرک اونلقیک علیها لتعرف لانه قال ببدنک ولم یقل بروحک، قال الزجاج معناہ نلقیک عریانا لتکون لمن خلفک عبرة ‘‘ پس ’ببدنک‘ کا مطلب یہ ہے کہ ہم تجھے ننگا دھڑنگا اونچی جگہ ڈال دیں گے۔اوربعض اہل علم نے اس کا مطلب یہ بتایاہے کہ یہ موت وہلاکت سے کنایہ ہے کیونکہ زندہ شخص پانی سے تیرکراورہاتھ پاؤں مارکرباہرنکلتاہے اورمردہ شخص کا بدن پانی پر تیرتارہتاہے پانی کی موجیں اس کے بے حس وحرکت بدن کو اِدھراُدھربھی منتقل کردیتی ہیں ‘‘(لسا ن العر ب،مادہ نجا) [10]
’وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗ٘ اِلَّا هُوَ‘ (یونس۱۰: ۱۰۷ )میں ’مس‘ کی تشریح میں لکھاہے:
واضح رہے کہ ’مس‘ کے معنی ہیں کسی چیز کو چھونا، یعنی کسی شخص یاکسی چیز یاکسی حالت کا کسی کو بلاواسطہ لگ جانا اور اس سے متصل ہوجانا، اسی لیے مردوعورت کے جماع کو بھی ’مس‘ کہاجاتاہے،سورۂ بقرہ آیت ۲۳۶ اورسورۂ احزاب آیت ۴۷ میں یہ لفظ اسی معنی میں آیاہے۔ جہاں بیوی کو جماع سے پہلے طلاق دینے کا ذکر ہے۔ آسیب زدگی و دیوانگی کوبھی ’مس‘ کہا جاتا ہے۔ سورۂ بقرہ میں ہے: ’الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ‘ (۲: ۲۷۵ )۔
آیات قرآنیہ کا تتبع کرنے سے ثابت ہواکہ فعل ’مس‘ کی اسناد انسان، شیطان، حسنہ، نار، عذاب، شر، ’ضراء‘، ’ضُر‘، ’بأساء‘ کی طرف ہوئی ہے۔ اوردوآیتوں میں اس کی اسناد اللہ تعالیٰ نے خاص اپنی ذات کی طرف فرمائی ہے۔ ارشادہے کہ ’وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ‘ (الاعراف۷: ۷۳ )، ’اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ‘ (آل عمران۳: ۱۲۰)، ’ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ‘ (القمر۵۴: ۴۸) ’لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّا٘ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَةً‘ (البقرہ۲: ۸۰)، ’لَيَمَسَّنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيْمٌ‘ (یٰسین۳۶: ۱۸)، ’اِنِّيْ٘ اَخَافُ اَنْ يَّمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ‘ (مریم۱۹: ۴۵)، ’وَاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَآءٍ عَرِيْضٍ‘ (حٰم السجدہ ۴۱: ۵۱ ) ’وَاِذَا٘ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۣ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُمْ‘ (یونس۱۰: ۲۱)، ’وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا‘ (یونس۱۰: ۱۲ )، ’مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ‘ (البقرہ ۲: ۲۱۴) اور وہ دونوں آیتیں جن میں فعل ’مس‘ کی اسنادحق تعالیٰ ٰ کی طرف ہے،یہ ہیں: ’وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗ٘ اِلَّا هُوَ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ‘ (الانعام۶: ۱۷)، ’وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗ٘ اِلَّا هُوَ وَاِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِهٖ‘ (یونس۱۰: ۱۰۷)۔
ان دونوں آیتوں میں خطاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔اِ سناد سے واضح ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ہرحال میں بلاواسطہ تعلق ہے۔مضرت کی حالت میں بھی اورمنفعت کی حالت میں بھی۔ اس تعلق کی عظمت کاہم صرف احساس ہی کرسکتے ہیں، مگراس کی شرح وتوضیح سے ہم قطعاً عاجز ہیں۔ البتہ تقریباًللفہم ایک مثال بیان کرتا ہوں۔بسااوقات بتقاضاے محبت ایک محب صادق اپنے ہاتھوں سے اپنے محبوب کی آرایش وزیبایش کرتاہے۔اس کے سرو رخ پر عطر لگا دیتا ہے، اُسے دل پسند و فاخر لباس پہنا دیتا ہے۔ اللہ کا اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو خیرکے ساتھ چھونا اسی قبیل سے سمجھ لیجیے۔اورکبھی محب اپنے محبوب کو چھیڑکرلطف اٹھاتاہے۔ اس کے جسم میں ہلکی سی چٹکی لے کریاگدگدی کرکے اُسے ایک لذیذسی تکلیف پہنچاتا ہے، حالاں کہ واقعی تکلیف پہنچانااسے حاشیہ ٔ خیال میں بھی نہیں ہوتا۔اللہ تعالیٰ کا اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو ’ضُر‘ کے ساتھ چھونا کچھ اسی انداز کا ہوگا۔بہرکیف اللہ تعالیٰ کا آپ سے بلاواسطہ تعلق تھا، خواہ آپ کو کسی ’ضُر‘ سے سابقہ پڑتا یا کوئی خیر آپ پر نثار ہوتی، فرق یہ تھاکہ آپ کو ’ضُر‘ پہنچانا مقصود حق نہ تھا اور خیر سے نوازنا مقصود و مراد تھا۔ بس اس مقام پر اس سے زائدلکھنے کی نہ صلاحیت ہے نہ طاقت۔ ’اللهم صل علی رسولک وحبیبک وبارک وسلم‘۔[11]
مفسرصحیح احادیث سے استفادہ اور استدلال ناگزیر سمجھتے ہیں۔مثلاً ’سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ‘ (آل عمران۳: ۱۸۰) کی تفسیرمیں حضرت ابوہریرہ سے مروی حدیث نقل کی ہے: ’من آتاہ اللّٰه مالًا فلم یؤد زکاته مثل له شجاعًا أقرع له زبیبتان یطوقه یوم القیامة یأخذ بلهزمتیه یعني شدقیه یقول أنا مالک أنا کنزک (أخرجه البخاري في صحیحه عن عبد الرحمٰن بن عبد اللّٰه بک دینار عن أبیه عن صالح عن أبي هریرة وأخرجه)‘ ابن حبان، اور امام احمد و نسائی نے بھی اسی مضمون کی حدیث مرفوع روایت کی ہے۔[12]
یعنی جو شخص دنیامیں زکوٰۃ ادا نہ کرے توقیامت کے دن ایک گنجا زہریلا سانپ اس کی گردن میں ڈال دیاجائے گا۔ وہ دونوں جبڑوں سے اسے تھام کرکہے گا: میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں، مگراحادیث کی صحت وسقم کے سلسلہ میں وہ سلف کی رایوں پر کلی اعتمادنہ کرکے خود ہر حدیث و روایت کی تحقیق ضروری خیال کرتے ہیں اور اس کا انھوں نے پوری تفسیرمیں زبردست التزام کیاہے۔
اسرائیلیات سے یہ تفسیربالکل خالی ہے۔اورصحابہ وتابعین کے تفسیری اقوال میں بھی وہ صرف انھی کو قبول کرتے ہیں جو نقل صحیح کے علاوہ قرآن کے نظم اوراس کے سیاق وسباق میں فٹ بیٹھتے ہیں، ورنہ ان کو بھی قطعی طور پر مسترد کر دیتے ہیں، کیونکہ ان کے ہاں اس اصل پر عمل ہے کہ ’الحجة فیما روی الصحابی لا فیما رأی‘ (صحابی کی روایت حدیث حجت ہے، مگراس کی راے کی اتباع کرناضروری نہیں )۔
’’ضعیف وموضوع روایات جن سے کتب تفاسیربھری ہوئی ہیں، کی نشان دہی کرکے مضبوط دلیل کے ساتھ ان کا رد کرتے ہیں۔جیسے سورۂ بقرہ میں قصۂ آدم کے تحت لکھتے ہیں: ’’یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ٰ کا ارشاد ’يٰ٘اٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ‘(البقرہ۲: ۳۵) صراحتاً یہ بتارہاہے کہ جنت میں سکونت پذیرہونے سے پہلے ہی حضرت آدم کی بیوی حوا پیدا کردی گئی تھیں،لہٰذا وہ روایات غلط ہیں جن میں یہ مذکورہے کہ آدم کا جنت میں تنہاجی نہیں لگتاتھااوروہ بے چین سے رہتے تھے تب ان کی تانیس وتالیف کے لیے حواکو جنت میں ہی پیداکیاگیا۔یہ اسرائیلی کہانیاں ہیں،اس بارے میں کوئی صحیح حدیث مروی نہیں ‘‘۔[13]
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ امام راغب اصفہانی نے لکھاہے: ’الفسر إظهار المعنی المعقول ومنه قیل لما ینبئی عنه البول تفسرة، وسمي بها قارورة الماء والتفسیر قد یقال فیما یختص بمفردات الألفاظ وغریبها‘ (المفردات ۳۸۰) ۔
[2]۔ ’’کشف الظنون‘‘ میں علم تفسیرکی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ تفسیروہ علم ہے جس میں بشری طاقت کی حدتک عربی زبان کے قواعدکے مطابق نظم قرآن کے معنی سے بحث کی جائے اورعلم تفسیرکے موقوف علیہ علوم یہ ہیں: ۱۔ علوم عربیہ۔ ۲۔ اصول کلام۔ ۳۔ اصول فقہ۔ ۴۔ خلافیات اوران کے علاوہ بعض دوسرے علوم۔ ملاحظہ ہو:تاریخ افکاروعلوم اسلامی راغب الطباخ، ترجمہ: افتخار احمد بلخی ۱/ ۲۲۵، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، جنوری ۲۰۰۲ء۔
[3]۔ علامہ میرٹھی کے تفصیلی تعارف کے لیے دیکھیں: محمدغطریف شہباز ندوی،وہ بندۂ مولاصفات، شائع کردہ فاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز، نئی دہلی۔
[4]۔ شیخین، یعنی امام بخاری ومسلم، دونوں کی جلالت قدرکے پورے اعتراف کے باوجودمصنف کی تحقیق یہ ہے کہ ان دونوں کتابوں میں بھی ضعیف اور کم زور روایتیں بھی جگہ پاگئی ہیں۔اپنی اس تحقیق کو انھوں نے جا بجا تفسیر ’’مفتاح القرآن‘‘ میں بھی بیان کیاہے اور بخاری کا مطالعہ کے نام سے تین اجزا میں اختصارکے ساتھ اپناحاصل مطالعہ پیش کیاہے۔پہلے حصہ میں وہ حدیثیں ذکرکی ہیں جو ان کی تحقیق میں روایت ودرایت کے اعتبارسے درست نہیں۔دوسرے حصہ میں وہ حدیثیں زیربحث آئی ہیں جوفی نفسہٖ صحیح ہیں، مگران کے بعض اجزا صحیح وثابت نہیں اورتیسرے جز میں امام بخاری کی بعض فقہی وتفسیری رائیں اور اجتہادات زیر نقد لائے گئے ہیں۔اس سیریز کے تینوں حصے شائع ہوگئے ہیں۔ پہلا اور دوسرا حصہ ’’فاؤنڈیشن فار اسلامک اسٹڈیز‘‘ جامعہ نگرنئی دہلی سے شائع ہواہے اور تیسرا پاکستان میں مکتبہ قاسم العلوم لاہور سے شائع ہواہے۔
[5]۔ ملاحظہ ہو:مقدمہ فی اصول التفسیر لابن تیمیہ ، صفحہ ۷۰ ۔
[6]۔ جیساکہ مفسرموصوف نے تفسیرمفتاح القرآن،سورۂ صافات چوتھی جلدمیں صراحت کی ہے۔
[7]۔ ا س روایت کی پوری تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو: راقم کا مقالہ ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حدیث کذبات ثلاثہ کی تحقیق‘‘، ماہنامہ اشراق لاہور، نومبر ۲۰۲۴ء ۔
[8]۔ ا س روایت کی پوری تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو: راقم کا مقالہ ’’قرآن میں ’اہل البیت‘ سے کیا مراد ہے؟‘‘، ماہنامہ اشراق لاہور، جنوری/ فروری ۲۰۲۴ء ۔
[9]۔ حروف مقطعات کے بارے میں اس مقالہ میں بھی تھوڑی سی تفصیل دی گئی ہے، مگرمکمل بحث ملاحظہ ہو: تفسیر مفتاح القرآن، ۱/ ۳۸- ۴۳، طبع ثانی، فاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز، نئی دہلی۔
[10]۔ علامہ میرٹھی ، مفتاح القرآن ۳ /۷۲، طبع اول، مارچ ۲۰۲۴ء، فاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز، نئی دہلی۔
[11]۔ نفس مصدر، ۳ / ۸۲-۸۳، تفسیر سورۂ یونس، مارچ ۲۰۲۴ء۔
[12]۔ ملاحظہ ہو: تفسیر مفتاح القرآن، سورۂ آل عمران، ۱ /۷۷۴،طبع ثانی، فاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز، نئی دہلی، مارچ ۲۰۲۳ء۔
[13]۔ تفسیرمفتاح القرآن، ۱ /۱۱۴، طبع ثانی، فاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز، نئی دہلی، مارچ ۲۰۲۳ء۔
ڈاکٹر سید شاہد علی،اردو تفسیروں کامطالعہ بیسویں صدی میں ۱۱۰،کتابی دنیا دہلی، ۲۰۰۱ء۔