HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

مذہب، انسانی فطرت اور تاریخ (۲)

ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

 

(معاصر سوالات کے تناظر میں ایک مکالمہ)


مذہب، انسانی فطرت اور تاریخ (۱)

مطیع سید:حضرت آدم اور حوا علیہما السلام کا جو قصہ ہے،ہمارے نقطۂ نظر سے تو وہ پوری انسانیت کے والدین تھے،انھی سے انسانی نسلیں چلیں۔عجیب بات یہ ہے کہ یہ قصہ کسی نہ کسی شکل میں ہر مذہبی روایت میں ہمیں ملنا  چاہیے، لیکن یہ صرف سامی ادیان کی روایت میں ملتاہے۔ آریائی مذاہب میں نہیں ملتا اور چینی اور جاپانی مذاہب میں بھی نہیں ملتا۔امریکا اور دیگر ممالک میں جو قدیم مذہبی روایات ہیں،ا ن میں بھی نہیں ملتا۔اس بات سے ان لوگوں کے موقف کو تقویت نہیں ملتی جو کہتے ہیں کہ یہ تمثیلی واقعہ ہے؟ اگر وہ ساری انسانیت کے والدین تھے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ صرف ایک ہی روایت میں ان کا بیان موجودہے اور دیگرکسی روایت میں اس کا تصور تک نہیں پایاجاتا ؟

 عمارناصر: یہ اصل میں ایسا سوال ہے جو ماضی کے بارے میں ہے۔اس میں آپ تاریخی طورپر قیاسات سے آگے نہیں جا سکتے۔  وحی پر مبنی صحائف کسی نہ کسی شکل میں سامی مذاہب میں ہی محفوظ ہیں۔ ممکن ہے، دوسری مذہبی روایتوں میں  بھی اس کا ذکر ہو، لیکن وہ اساطیر کے ہجوم میں گم ہو گیا ہو۔

مطیع سید: ڈاکٹر اسرار صاحب غالباً‌ قرآن کی اس آیت سے کہ ’اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰ٘ي اٰدَمَ‘، یہ استدلال کرتے ہیں کہ گویا کئی آدم تھے یاکئی نسلیں ہوں گی جس میں سے اللہ نے آدم کو چنا۔

 عمارناصر: حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کا جس طرح ابراہیمی روایت میں ذکر ہواہے، اس سے ایسے ہی لگتا ہے، جیسے وہ زرعی دور کے لوگ ہیں۔کھیتیاں ہیں،جانور ہیں،قربانی ہے، بعض جگہوں پر وہ آباد ہیں،لیکن انسان جیسی مخلوق جس کے متعلق سائنس ہمیں بتا رہی ہے، معلومات دے رہی ہے، وہ توبہت پرانی ہے۔ اس میں تطبیق کا ایک طریقہ بعض اہل علم کے ذہن میں یہ آتا ہے کہ صحائف میں جن حضرت آدم کی بات ہو رہی ہے، وہ شاید انسانوں کی کئی نسلوں میں سے سب سے آخری نسل کے جد امجد تھے۔

شیعی روایت میں تو ائمۂ اہل بیت سے یہ راے بھی منقول ہے کہ آدم علیہ السلام اول البشر نہیں تھے، بلکہ ان سے پہلے انسانوں کی کئی ہزار نسلیں زمین پر آباد رہی ہیں، جن میں سے ہر نسل کے الگ آدم، یعنی جد امجد تھے۔ البتہ انسانوں کی موجودہ نسل کے ابو الآبا وہ حضرت آدم علیہ السلام تھے جن کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے۔ سنی روایت میں عموماً‌ اس راے کو اہمیت نہیں دی گئی اور رازی اور آلوسی وغیرہ اس کی تردید کرتے ہیں، لیکن صوفیہ کا رجحان اس طرف دکھائی دیتا ہے۔ ابن عربی نے ’’فتوحات‘‘ میں اور شاہ ولی اللہ نے ’’تفہیمات‘‘ میں اس کا ذکر کیا ہے۔  ’’تاریخ فرشتہ‘‘ کے مصنف نے بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نسبت سے یہ قول نقل کیا ہے۔

ڈاکٹر شعیب ملک نے نظریۂ ارتقا اور تخلیق آدم کے اسلامی عقیدے کی جو تطبیق پیش کی ہے، وہ اس راے سے کافی مطابقت رکھتی ہے۔ ان کا قیاس یہ ہے کہ پہلے سے کئی نسلیں انسانوں جیسی موجود تھیں،لیکن اللہ نے حضرت آدم کو تخلیق کر کے ان سے ایک خاص نسل آگے چلائی۔ پھر اس نسل کی Interbreeding پہلے سے موجود انسانی نسلوں کےساتھ ہوئی اور آج جو انسان دنیا میں موجود ہیں، وہ سب حضرت آدم کی اولاد اور انسانوں کی باقی نسلوں کے اختلاط سے  پیدا ہوئے ہیں۔

مطیع سید: سائنسی نقطۂ نظر سے جو نینڈر تھل، ہوموایریکٹس اور ہوموسیپئن جیسی پچھلی نسلیں ہیں، بظاہر وہ انسانی شکل ہی کی تھیں۔ہراری کی کتاب ’’ہومو سیپئنز‘‘ میں تو ایک بچی کی تصویر بھی دی گئی ہے کہ یہ ہم سے پچھلی نسل کی ہے،لیکن دیکھنے میں وہ بالکل انسان ہی ہے۔

 عمارناصر: اس میں حتمی طورپر کچھ کہنا مشکل ہے کہ کیا معاملہ تھا۔ بہرحال سائنسی قیاسات تو اس وقت یہی ہیں۔

مطیع سید:مجھے غامدی صاحب کی یہ بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ اگر چہ انسانوں کی کئی نسلیں گزری ہیں، لیکن اللہ نے ایک آدم کو ان میں سے چنااور اصل فرق ’نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ‘ سے واقع ہوا۔ وہاں سے ایک ایسی نسل چل پڑی جو شعور رکھنے والی تھی، اور وحی کا مخاطب بننے کے قابل ہوئی۔

 عمارناصر: ممکن ہے، ایسا ہی ہوا ہو۔ اس کی نوعیت بھی ایک قیاس ہی کی ہے کہ کسی نوع کی ایک خاص نسل کا انتخاب کر کے اسے خالق کا شعور، اخلاقیات کا شعور،اور منظم معاشرے بنانے کا شعور دیا گیا۔ یہ سب قیاسات ہی ہیں۔

مطیع سید: کیا تجریدی آرٹ اور ادب،انسان کو وحی کی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، کیونکہ یہ انسان کو مادیت سے اوپر اٹھاتے ہیں ؟

 عمارناصر: دوپہلو ہیں: ایک تو یہ کہ تجریدی آرٹ او رادب کے پیچھے جو فلسفہ ہے،کیا وہ یہ ہے ؟وہ تو یہ نہیں ہے۔تجریدی آرٹ اور ادب تو اصل میں مابعد جدید فلسفے کی ایک طرح سے عکاسی ہے کہ زندگی میں کوئی معنویت ہی نہیں۔جب زندگی میں معنویت ہے ہی نہیں تو آرٹ اور ادب میں بھی اس کا انعکاس ہونا چاہیے۔ آرٹسٹ کی شخصیت میں جو ایک کیفیت ہے یا اس کو جو محسوس ہوتاہے،دوسروں کے لیے وہ کیساہے،کیاہے، یہ اہم نہیں ہے۔اس کے پیچھے تو فلسفہ یہ ہے۔اب جو دیکھنے والے ہیں،وہ اپنی کیفیت کے تحت یا اپنی کسی داخلی حالت کے تحت اس سے اتفاقی طورپر مذہب کی طرف متوجہ ہوجائیں تو بالکل، یہ ہوسکتاہے۔ انسان کس چیز سے کس طرف متوجہ ہوجائے، اس کا تو آپ کوئی ضابطہ نہیں بنا سکتے۔

مطیع سید:آخرت کا عقیدہ ہونے کے باوجود ہمارے ہاں اس کا نتیجہ عمل کی صورت میں کیوں نہیں نکلتا؟

عمار ناصر: اس لیے کہ وہ ماننے کی حد تک رہ جاتا ہے۔ انسان عجیب چیز ہے، وہ اپنے آپ کو Compartmentalize کر لیتا ہے۔ یہ چیز مان لینے کی ہے، ٹھیک ہے مان لی، لیکن وہ چیز جس کو انسان کی شخصیت میں اور کردار میں موثر ہونا چاہیے، وہ کچھ اور چیزوں کو بنا لیتا ہے۔ ایک ہے آخرت کو مان لینا کہ مرنے کے بعد ایسا ہوگا تو وہ تو سارے مسلمان مانتے ہیں،لیکن انسان کے احساسات میں یہ چیز شامل ہو جائے کہ میں جواب دہ ہوں،یہ ماننے کی چیز نہیں ہے، یہ استحضار کی چیز ہے۔ وہ ایک نفسی یا ایک نفسیاتی عمل ہے، وہ کم زور رہ جاتا ہے۔

مطیع سید: پانچ وقتہ نماز میں خدا کے حضور پیش ہونے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ یاددہانی کے لیے ضروری ہے کہ باربارخداکے حضور حاضری ہو۔جہاں اس کا یہ فائدہ ہے،وہاں نفسیاتی طورپر اس کا ایک اثر یہ بھی ممکن ہے کہ باربار کی مشق آپ کے احساس کو ختم کرسکتی ہے کہ میں خداکے حضور حاضر ہوں۔ یہ آپ کی عادت بن جاتی ہے۔

عمار ناصر: یہ پہلوبھی ہوسکتاہے لیکن اس میں فیصلہ کرنے والی چیز اللہ کاحکم ہے۔

مطیع سید: کیا اس کا عادت بن جانا کوئی منفی چیز ہے یا گناہ کا باعث ہے ؟

 عمارناصر:نہیں، گناہ تو یہ ہے کہ ہم اس کو چھوڑ دیں۔

مطیع سید: جب ایک روٹین بن گئی تو اس میں استحضار کا احساس کیسے پیداکریں ؟

 عمارناصر: اصل میں نماز کو معمولاً‌ پڑھنے سے ہمیں محسوس نہیں ہوتایا اس کی اہمیت محسوس نہیں ہوتی کہ ہمیں ا س سے کیا مل رہاہے۔خاص طور پر ہمارے صوفیہ جو کیفیت بتاتے ہیں اور ا س کو آئیڈیل بنا کر پیش کرتے ہیں، ا س سے ہمیں لگتاہے کہ ہم تو شاید نماز بے فائدہ ہی ادا کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ہم چونکہ عادی ہو چکے ہیں تو ہمیں محسوس نہیں ہوتا کہ ہمیں اس سے کیا حاصل ہو رہاہے۔ وہ بہت اہم چیزہے۔ وہ خاص کیفیت جس میں آپ کو بہت قرب محسوس ہو،وہ نہیں پیداہوتی،لیکن یہ احساس تو ہوتاہے نا کہ ہم اللہ کے حضور حاضر ہو رہے ہیں؟ دھیان آپ کا چاہے کہیں بھی ہو،لیکن یہ ادراک تو ہوتاہے کہ ہم اللہ کے گھر میں ہیں۔ کم سے کم آپ ظاہری آداب ملحوظ رکھ رہے ہوتےہیں۔تو یہ بھی استحضار ہی کی ایک حالت ہے کہ ہم خاص ادب ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ کی تعظیم بجا لاتے ہیں اور یہ اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ ہم اللہ کا حکم پوراکرکے آئے ہیں۔ تواسی کو عام حالات میں مطلوب کیوں نہ سمجھاجائے ؟  

مطیع سید: مجھے ایک واقعہ یاد آگیا۔میں ایک دفعہ سفرکررہاتھاتو گاڑی کے ڈرائیور نے راستے میں ایک جگہ گاڑی روکی اور کہا کہ جس جس نے نماز پڑھنی ہے،پڑھ لے۔ نماز ادا کرنے کے بعد اس نے ایک بات کہی جو مجھے بڑی اچھی لگی۔کہنے لگا کہ یہ جو ہم مصروفیت کو چھوڑ کر خداکے حضور حاضر ہوگئے ہیں،بس خداکو ہم سے یہی مطلوب ہے۔

 عمارناصر: یہ بالکل صحیح بات ہے۔ ہم نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خداکے لیے پانچ سات منٹ نکال لیے، یہی ہم سے مطلوب تھا۔

مطیع سید: بنی اسمٰعیل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد تک ڈھائی ہزار سال تک کسی نبی کا سراغ نہیں ملتااور بنی اسرائیل میں دیکھیں تو پے در پے پیغمبر آتے جارہے ہیں۔دونوں طرف انسان ہیں، اور خداکو انسانوں کی بھلائی مقصود بھی ہے۔اس سلسلے میں اللہ کی سنت کیاہے؟

 عمارناصر: سوال تو اس سے بھی بڑا ہے۔ بنی اسمٰعیل میں تو پھر ایک مرحلے پر نبی کو مبعوث کردیا گیا،اور ہندوؤں کی مقدس کتب میں بھی کچھ نہ کچھ تعلیمات مل جاتی ہیں، لیکن باقی دنیا، چین، روس، امریکا اوردیگر خطوں میں ہدایت کے لیے کیا انتظام کیا گیا؟

مطیع سید: جی میرا سوال یہی ہے۔

 عمارناصر: یہ تو اصل میں کلامی سوال ہے اور اس کاآخری جواب وہی بنتاہے کہ ’لَا يُسْـَٔلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْـَٔلُوْنَ‘، ’’وہ جو کچھ کرتا ہے، اُس کے لیے (کسی کے آگے) جواب دہ نہیں ہے اور یہ سب جواب دہ ہیں‘‘ (الانبیاء۲۱: ۲۳)۔ اللہ نے کائنات کب بنائی، کیسے بنائی،کس مخلوق کو کیسا اور کہاں پیداکیا، اس کا تعلق اللہ کے ارادے سے ہی ہے۔ اسی طرح دنیامیں ہدایت کا سلسلہ جاری کرناہے تو کس کے لیے کرناہے،کہاں کرنا ہے،کب کرناہے اور کس حد تک کرنا ہے،اس کا فیصلہ بھی اسی نے کیا ہے۔ اتنی بات قرآن نے اجمالاً‌ بتا دی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد جب انسان گم راہ ہوئے تو ہدایت کے لیے ہر قوم میں نبی بھیجے گئے۔ لیکن ہر قوم میں وہ تسلسل سے بھیجے گئے یا نہیں بھیجے گئے، اور کیوں نہیں بھیجے گئے، یہ ہمیں اللہ نے نہیں بتایا اور اس کی ضرورت نہیں سمجھی۔

مطیع سید: حضرت یوسف علیہ السلام نے ساری زندگی مصر میں ہی گزار دی،تو کیاا ن کی بعثت مصریوں کی طرف ہوئی تھی؟

 عمارناصر: ان معنوں میں تو مصریوں کی طرف مبعوث کیے جانے کا کوئی اشارہ قرآن میں نہیں ہے، جیسے عموماً‌ انبیا کو کسی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا ہے۔  حضرت یوسف نے مصریوں کو خود پر ایمان لانے اور اپنی اطاعت کی دعوت دی ہو، قرآن میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ البتہ جیل کے ساتھیوں کو توحید کی دعوت دینے کا ذکر ہوا ہے۔ اسی سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وہ موقع بہ موقع دوسرے لوگوں کو بھی توحید کی دعوت دیتے ہوں گے۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت مصریوں کی طرف نہیں تھی،اصلاً‌ بنی اسرائیل کی طرف تھی۔ مصریوں کو انھوں نے صرف توحید کا پیغام دیا اور بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ توحید کا پیغام تو جس کے پاس بھی ہو، اس نے سب کو ہی دیناہے۔ توحید کی دعوت آفاقی ہے۔

مطیع سید: یہ بحث بھی موجو دہے کہ عورت نبیہ ہوسکتی ہے یا نہیں؟کیا اس پر بھی علما میں اختلاف پایا جاتا ہے؟

 عمارناصر:جی، ابن حزم نے یہ کہا ہے کہ عورت بھی نبی ہو سکتی ہے۔

مطیع سید: وہ کس حوالےسے ایسا کہتے تھے ؟

 عمارناصر:قرآن میں مثالیں ملتی ہیں کہ سیدہ مریم علیہ السلام سے اللہ نے کلام کیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی طرف وحی کی۔ اس کو وہ نبوت سے تعبیر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بھی نبیہ تھیں، البتہ وہ تبلیغ پر مامور نہیں تھیں،یا ان پر ایمان لانے کا لوگوں کو مکلف نہیں کیا گیا تھا۔ گویا اصطلاح کا فرق ہے۔

مطیع سید:گویانبی کی تعریف کو وہ تھوڑاسا بدل لیتے ہیں۔

 عمارناصر: جی، ان کا مفہوم بائیبل کی اصطلاح کے قریب تر ہے۔ بائیبل میں بھی نبیہ کا لفظ بڑے وسیع مفہوم میں آیا ہے۔ قرآن اور حدیث کی اصطلاح میں نبی ایک مامور من اللہ ہستی ہوتی ہے، جس کی اطاعت اور اس پر ایمان لانا لازم ہے۔ اس کے علاوہ بنی اسرائیل میں کچھ لوگوں سے صرف مکالمہ کیا جاتا تھا،لیکن وہ تبلیغ پر مامور نہیں ہوتے تھے۔ حدیث میں ہے کہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ کے مکالمے کے لیے کئی لوگوں کو منتخب کیا جاتا تھا، لیکن وہ  نبی نہیں ہوتے تھے۔  یعنی ان پر ایمان لانے اور ان کی اطاعت کر نے کا لوگوں سے مطالبہ نہیں ہوتا تھا، لیکن انھیں اللہ سے مخاطبت کا شرف حاصل تھا۔تو بائیبل میں ایسی بعض خواتین کے لیے بھی نبیہ کی تعبیر آئی ہے۔ ابن حزم نے تقریباً‌ وہی اصطلاح لے لی ہے۔

مطیع سید: انسانی تمدن میں فطری طور پر ارتقا اور تغیر کا عمل جاری ہے۔ بہت سی چیزوں میں تو شریعت اس ارتقا میں زیادہ دخل نہیں دیتی، اپنے بہاؤ پر چلنے دیتی ہے، لیکن بعض چیزیں ایسی ہیں جن میں شریعت یا تو ارتقائی عمل کو تیزکر کے ایک خاص جگہ پر لے جاتی ہے یا مداخلت کر کے اسے ایک خاص جگہ پر روک دیتی ہے۔اس میں شریعت کا اصول کیا ہے؟

 عمارناصر: یہ اچھا سوال ہے او ر دل چسپ ہے۔اس کو دیکھنے کی دوسطحیں ہیں: ایک تو یہ ہے کہ شارع کا اصول کیاہے یا شارع کے اغراض کیاہیں،تو یہ علم الکلام کا مسئلہ بن جاتاہے۔ اس میں ساری قیل وقال کے بعد اشاعرہ نے ایک بات بہت وضاحت سے سمجھائی ہے کہ شارع کے کوئی اغراض نہیں ہیں یا ایسے کوئی اصول نہیں جو اس کے ارادے کو پابند بنا سکیں۔ اس کا ارادہ ہی اس کے فیصلوں کی بنیاد ہے۔دوسری سطح پھر وہ آجاتی ہے جس میں کسی حد تک انسانی تفہیم کام کرتی ہے،اور وہ یہ ہوتاہے کہ شارع نے جو کچھ کہا ہے یا کیا ہے، اس کے اندر کوئی منطق تلاش کرلی جائے، یعنی اگر اس نے یہ نہیں کیا اور یہ کیاہے  تو انسانی فہم کے لحاظ سے اس سے کیا اصول اخذ کیا جا سکتا ہے۔تو جو کوئی منطق سمجھ میں آجاتی ہے، وہ ہم بیان کر دیتے ہیں۔

اصولی طورپر تو یہی بات ہے کہ شارع کے تکوینی فیصلے ہوں یا تشریعی فیصلے ہوں، ان کو پہلے سے طے کرنے والا کوئی اصول نہیں جو شارع کو پابند بنائے کہ اس نے یہی کرنا ہے۔ ہاں، جب اس کے فیصلے ہمارے سامنے آئے توان میں ایک Internal logic جو انسانوں کے فہم میں آجاتی ہے، اس کو ہم شارع کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔شریعت کا معاملہ بھی ایسے ہی ہے۔ کئی چیزوں کو وہ موضوع ہی نہیں بناتی،کئی چیزوں کو اتنا موضوع بناتی ہے کہ آدمی حیران ہو جاتاہے کہ اتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو کیوں موضوع بحث بنالیا،کئی چیزوں کا سرسری طور پر ذکر کردیتی ہے کہ ٹھیک ہے، معاملہ چل رہاہے تو چلتا رہے۔

مطیع سید: یعنی ہم شارع کے احکام اور فیصلوں میں کوئی Patternدریافت کرسکتے ہیں؟

 عمارناصر: جی Patternدریافت کرسکتے ہیں۔ جو اس نے کہا یا کیا ہے، اس کو سامنے رکھ کر ہم کچھ حکمتیں تلاش کر لیتے ہیں۔مثلاً‌ شریعت موسوی میں کیا کیا گیا،اس کا موازنہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے کریں تو کچھ چیزوں کے بارے میں تو شارع نے ہمیں خود بتا دیا ہے، لیکن بیش تر امور سے متعلق نہیں بتایا کہ میں نے وہاں یہ چیزیں کیوں کہی تھیں اور یہاں یہ کیوں کہی ہیں۔ البتہ جب ہم موازنہ کرتے ہیں توہمیں کچھ فرق نظر آتے ہیں، کچھ Patternبھی ہم تلاش کرلیتے ہیں۔ کچھ حکمتیں بھی اخذ کر کے ان کو بیان کردیتے ہیں۔

مطیع سید: سنت اللہ بھی ایسی ہی چیزہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے کیاہے، اسی میں ہم کوئی Pattern تلاش کر لیتے ہیں ؟

 عمارناصر: کچھ چیزوں کو وہ خود سنت اللہ کہتا ہے۔ ان کی باربار مثالیں دیتاہے۔فلاں قوم کے ساتھ یہ معاملہ کیا،فلاں قوم کے ساتھ بھی یہ کیا تو یہ اللہ کی سنت ہے۔شارع خود اس کو اپنی سنت کے طور پر بیان کرتاہے۔کئی چیزوں میں ہم بھی فیصلوں کاتسلسل یا مماثلت دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی سنت اللہ ہے۔

مطیع سید:لیکن جب ہم ان چیزوں کے اطلاق پر جاتے ہیں اور تفصیل میں دیکھتے ہیں توبڑی الجھنیں سامنے آتی ہیں۔

 عمارناصر: جی، اسی لیے ایسے امور کو کسی تھیوری کے تحت لانا،کوئی کلیہ بنانا،یہ مشکل کام ہے۔

مطیع سید: ہمارے ہاں سنت اللہ کو اہم موضوع سمجھا گیا ہے اور اس پر کافی کام ہوا ہے، لیکن ہمارے قدیم مفسرین ایک آدھ جملہ لکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ان کی توجہ اس طرف کیوں نہیں گئی ؟

 عمارناصر: دیکھیں ہر دو رمیں علم کے اپنے مسئلے ہوتے ہیں اور لوگوں کا زاویۂ نظر انھی مسئلوں یا انھی سوالات سے بنتاہے۔یعنی متن کو پڑھنے کے لیے خالی ذہن لے کر کوئی بھی نہیں جاتا۔ لوگوں کے اپنے سوالات ہوتے ہیں،اپنے عہد کے سوالات ہوتے ہیں۔جو زاویے قابلِ توجہ بن چکے ہیں،ان سے ہی اپروچ کریں گے۔مثلاً‌ دیکھیں نظم قرآن کا تصور ہے، اس کی طرف آپ کو کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا۔تیسری چوتھی صدی میں جا کر کہیں ذکر ملتاہے کہ کچھ اہل علم کو خیال ہوا کہ سورتیں اگر ایسے رکھی گئی ہیں تو ان کے اندر ایک نظم ہونا چاہیے۔ اب دیکھیں تو یہ ایک باقاعدہ تفسیری منہج بن گیاہے۔تو علمی اور فکری سطح پر کسی پہلو کی طرف توجہ مبذول ہونا کہ یہ پہلو بھی موجود ہیں،اس میں ظاہر ہے کہ ایک ارتقا ہوتا ہے۔

مطیع سید: یعنی نئے نئے اذہان چیزوں کو نئے نئے زاویوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں ؟

 عمارناصر: جی،اور اپنا ایک علمی جواز بھی بیان کرتے ہیں۔مثلاً‌ قرآن میں سنن کا ذکر تو ہے۔ ان پر پہلے لوگوں نے بہت زیادہ توجہ نہیں دی،لیکن جہاں جہاں ذکر آتاہے، وہ وضاحت کر دیتے ہیں۔اسی طرح قرآن میں مضامین اور موضوعات کون کون سے ہیں اور کتنے ہیں، اس میں بھی آپ کو پہلے دور کا انداز نظر کچھ اور ملے گا، بعد کے ادوار میں رجحانات بدلتے ہوئے دکھائی دیں گے۔

مطیع سید:دین کی کسی تعبیر کا پورے تسلسل کے ساتھ پیچھے تک نہ جا سکنا، کیا اس کے باطل ہونے کی دلیل بن سکتی ہے؟

عمار ناصر:اس میں یہ دیکھنا چاہیے کہ تعبیر کس نوعیت کی ہےاور کس معاملے سے متعلق ہے۔ اگر تو دین کا اساسی اور بنیادی تصور ہے تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے اور بنیادی ماخذ سے ثابت ہونا چاہیے۔ اگر کسی فقہی حکم کی تعبیر ہے یا کوئی علمی مسئلہ ہے، کسی کلامی مسئلے کی کوئی تعبیر ہے تو اس کاپیچھے تک جانا ضروری نہیں۔ مجموعی طور پر نصوص سے ہم آہنگ ہونا کافی ہے۔

مطیع سید: جمہور کی راے یا طریقہ کس حد تک دلیل بن سکتاہے ؟

 عمارناصر:عام آدمی تو اپنے علم و فہم کی حد تک ہی مکلف ہے۔ وہ اصل میں تقلیداً ہی دین سیکھ رہا ہوتا ہے۔اس کے لیے، ظاہر ہے کہ کسی ایک آدمی کی راے میں اور زیادہ لوگوں کی راے میں فرق ہوگا، لیکن جو آدمی خود قرآن وسنت کے نصوص پر نظر رکھتاہے،اس کے لیے اس کا اپنا فہم، وہ صحیح ہو یا غلط، زیادہ اہمیت رکھتاہے۔

مطیع سید : وحدت الوجود کا تصور جو ہماری صوفی روایت میں آیا،عموماً اس پر مخالفین نقد کرتے ہیں کہ وہ بے عملی کا فلسفہ ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلناچاہیے تھا کہ وہ لوگ جو اس نظریے کے حامل تھے، وہ بے عمل ہوتے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کے حامل ہونے کے باوجود نیک اور متقی تھے۔کیا وجہ ہے،کیا ہم نہیں سمجھ پائے ان کے تصور کو،جو وہ ہمیں سمجھاناچاہ رہےتھے ؟

 عمارناصر:وحدت الوجود کی اصطلاح تو ایک ہے، لیکن اس کی تعبیر میں کافی کثرت ہے، بہت سی تعبیرات ہیں۔ان میں سے بعض تعبیرا ت تو بالکل تجسیم اور حلول کے مترادف ہیں،شریعت کا ابطال کرتی ہیں، اور کفر و اسلام کے فر ق کو مٹادیتی ہیں۔اسی کے نتیجے میں بے عملی پیداہوتی ہے۔لیکن بعض تعبیریں اس فر ق کو نہیں مٹاتیں، اگرچہ ان پر کچھ دوسرے پہلوؤں سے اعتراض کیا جا سکتا ہے۔ تو سب کو الگ الگ دیکھنا چاہیے۔

مطیع سید:حضرت شاہ ولی اللہ کا اس حوالے سے کیا موقف ہے ؟

 عمارناصر: انھوں نے تو فلسفیانہ پہلو سے تطبیق دینے کی کوشش کی ہے۔ ان سے پہلے شیخ احمد سرہندی نے وحدت الوجود پر تنقید کرکے وحد ت الشہود کا نقطۂ نظر پیش کیا تھا۔ہندوستان میں اس پر کافی بحث ومباحثہ ہو رہا تھا تو شاہ صاحب نے اپنے لحاظ سے ان نظریات میں تطبیق دینے کی کوشش کی کہ دونوں ٹھیک بات کہہ رہے ہیں،ان میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

مطیع سید: میں نے شیخ ابن عربی کے بارے میں کہیں پڑھا کہ وہ فرعون کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ مومن تھا اور خدا کی توحید میں ڈوبا ہوا تھا، جسے قرآن کہتاہے کہ ہم نے اسے پانی میں غرق کردیا۔

 عمارناصر: ان کے ہاں اس طرح کی تعبیرا ت موجود ہیں۔ وہ اپنے فلسفیانہ یا عرفانی نظریات پر قرآن کی آیتوں کو منطبق کرتے رہتے ہیں۔

مطیع سید: وہ آخر کس بنیادپر اس طرح کی تعبیرا ت کرتے ہیں ؟کس چیز سے متاثر ہیں؟

 عمارناصر: شیخ الاشراق اور شیخ اکبر وغیرہ کے متعلق میرا خیال یہ ہے کہ یہ بنیادی طور پر باطنی فلسفے کی روایت کے لوگ ہیں، علماے شرع نہیں ہیں۔ جب انھوں نے اپنے باطنی فلسفوں اور شرع میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی تو زندقہ کی نوعیت کی چیزیں وجود میں آئیں اور علماے شرع کو  ان کے متعلق فتوے دینے پڑے۔ ان کے مقابلے میں امام غزالی اور مجدد صاحب اور شاہ ولی اللہ، یہ حضرات اصلاً‌  شرع کے علما ہیں اور ثانوی طور پر تصوف و عرفان کی روایت سے متاثر ہوئے ہیں۔ ان کے ہاں قابل نقد چیزوں کی سنگینی بھی نسبتاً‌ کم ہے۔

مطیع سید: یہ جو علم کو اسلامیانے (Islamization of Knowledge)کی بحث ہے، ڈاکٹر فضل الرحمٰن اور اسی طرح پروفیسر ابراہیم موسیٰ صاحب تو کہتے ہیں کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے پہلے لوگ بھی اسی طرح روایت میں علوم سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں، ہم بھی اٹھائیں گے۔ محمد دین جوہر صاحب اس بات کے اس لیے مخالف ہیں کہ جدید علوم کی بنیاد جس ورلڈ ویو پر رکھی گئی ہے،وہ بالکل مختلف ہے، جب کہ ہمارا ورلڈ ویو بالکل مختلف ہے۔میں اس سلسلے میں آپ کی راے جاننا چاہتاہوں۔ آپ علم کو اسلامیانے کو کیسے دیکھتے ہیں ؟

 عمارناصر: اسلامائزیشن آف نالج جس قالب میں سامنے آئی ہے، اس کا کوئی اثر نہیں ہے۔وہ ایسے ہوئی ہے کہ کسی علم کے جو حاصلات ہیں یا نتائج ہیں،ان کےساتھ آپ اسلامی تصورات کو ملا دیتے ہیں،اور کہہ دیتے ہیں کہ یہ اسلامائزیشن آف نالج ہوگئی ہے،لیکن اس کا علم کی دنیا پر تو کوئی اثر نہیں ہے۔یہ توایک مصنوعی سا، بے فائدہ سا کام ہے۔ وہ نتائج علم کے جس اسٹرکچر سے پیداہوئے ہیں، وہ تو اپنی جگہ کام کررہاہے۔ آپ نے اس پروسس میں یا اس Production of Knowledgeمیں تو کچھ بھی حصہ نہیں ڈالا۔اسلامائزیشن آف نالج کی جو بہت ہی عامیانہ سطح ہے، وہ آپ کو سوشل میڈیا پر اس طرح کے خوش کن بیانات میں نظر آتی ہے جب قرآن کی آیت یا حدیث سے سائنسی دریافتوں کو جوڑ کر کہا جائے کہ سائنس بڑازور لگا کر کسی نتیجے تک پہنچتی ہے تو آگے کوئی حدیث کھڑی ہوتی ہے جو پہلے ہی وہ بات بتا چکی ہے۔

مطیع سید: یا یوں کہاجاتا ہے کہ قرآن نےہمیں چودہ سو سال پہلے ہی بتادیاتھا۔

 عمارناصر: جی، اور اب سائنس آ کر اسی کو دریافت کررہی ہے۔یہ خواہ مخواہ دوسرے کی چیز پر اپنالیبل لگاکر اپنے آپ کو خوش کرنے والی بات ہے۔

مطیع سید: تو کیا آپ اس کی ضرورت نہیں سمجھتے ؟ اگر ہے تو کس درجے میں ؟

 عمارناصر: دیکھیں اس ساری مشق کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔اس سارے عمل میں ہماری فکر کا جو بہت بڑا مسئلہ رہاہے، اور شاید اس وقت اس کا ادراک نہیں ہوا،لیکن اب ادراک کرناچاہیے کہ ہم سب یہ سمجھ رہے ہیں کہ مسئلہ اصل میں علم کا یا فکر کایاخاص تصورات کا ہے،کہ ان کو اگر ہم اسلامی قالب دے دیں تو ہمارے مسئلے حل ہوجائیں گے۔ کچھ اخلاقی تصورات،کچھ انتظامی ڈھانچےیا کچھ علمی چیزیں ہیں جن کے بارے میں یہ سوچا گیا کہ مغرب نے وہ چیزیں اگر استعمال کیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے، یعنی ہم اصل میں علم میں ذرا پیچھے رہ گئے ہیں، ورنہ یہ افکار ہمارے پاس ہو ں یا ہم ان کو اختیارکرلیں تو بات بن جائے گی۔ یہ اصل مسئلہ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی قوت ہمارے پاس نہیں ہے اور اس میدان میں آگے بڑھنے کی پوزیشن میں ہم نہیں ہیں اوراس طرف ہماری بہت زیادہ توجہ بھی نہیں ہے۔

اصل میں سیاسی قوت جب آپ کے پاس ہوتی ہےتو آپ کے اندر وہ اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ آپ اپنےافکار بنا سکتے ہیں،اپنے تجربات کرسکتے ہیں۔ کہاں سے کون سی چیز لے کر اس کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھال لیا جائے، یہ کام آپ اعتماد کے ساتھ اور اپنی ترجیحات کے لحاظ سے کرسکتے ہیں۔تجربے کرنے کے لیے اور اعتماد کے ساتھ ان کو اپنا بنانے کے لیے جو بنیاد چاہیے ہوتی ہے، وہ تو ہمارے پاس ہے نہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی اسٹرکچر تو یہی رہے،اور ہم صرف آئیڈیاز وہاں سے اگر مستعار لے لیں اور ان کو اختیار کرلیں تو ہمیں وہ نتائج حاصل ہوجائیں گے۔ یہ غلط تجزیہ ہے۔ اگرآج مغرب کی سیاسی طاقت ختم ہو جائے،اور چائنہ کو دنیا میں غالب حیثیت حاصل ہوجائے تو آپ دیکھیں گے، ہم ساری جمہوریت اور ہیومن رائٹس وغیرہ بھول جائیں گے۔جو وہاں ہورہاہے، جیسے انھوں نے اپنے معاشرے کی تنظیم کی ہے، وہ ہمیں اچھی لگنے لگے گی اور ہم سوچیں گے کہ آخروہ دنیا میں ایک بڑی طاقت بنے ہیں تو اسی لیے بنے ہیں کہ انھوں نے اپنے معاشرے کو ان اصولوں پر منظم کیا ہواہے۔وہاں جو ویلیوز ہیں،وہ ہمیں آئیڈیل لگنے لگیں گی۔

مطیع سید :جی بالکل درست توجہ دلائی آپ نے۔ ادب کو ہی دیکھ لیں، ہمارے پاس جو تراجم زیادہ تر ہو رہے ہیں،ناول، افسانہ، تنقید وغیرہ، وہ بھی وہیں سے ہیں۔چائنہ جو کہ دانش کا ایک قدیم مرکز رہاہے، اور ان کا بڑا وسیع ادب ہے، اس کے تراجم نہ ہونے کے برابر ہیں۔

 عمارناصر: جی، لیکن اگر چائنہ سپر پاور بن جاتاہے تو ہماری توجہ پھر ان کی تہذیب اور ان کی ثقافت کی طرف مڑجائے گی۔

مطیع سید:ہمارے ہاں بڑے اعلیٰ درجے کے ادیب، شاعر، نقاد ہوئے ہیں، جب کہ اس سطح کے علما ہمارے ہاں دکھائی نہیں دیتے، حالاں کہ یہاں دینی مدارس موجودہیں، وطن بھی اسلام کے لیے حاصل کیا گیا۔

 عمارناصر:آپ کے ذہن میں عالم کی کوئی خاص Definition ہے، اس کی روشنی میں آپ یہ دیکھ رہے ہیں؟

مطیع سید :اس وقت جیسے بڑے اہل علم میں غامدی صاحب ہیں، مفتی تقی عثمانی صاحب ہیں، یہ تو چند ایک لوگ ہیں، لیکن مفکرانہ سطح کے ادیب و نقاد اس نسبت سے کافی زیادہ ہیں۔ اگر ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی مثال لیں تو اردو ادب میں کئی ڈاکٹر فضل الرحمٰن دکھائی دیتے ہیں، لیکن علماء میں اس پایے کے لوگ بہت کم ہیں۔

 عمارناصر: اچھا، اگر آپ  غیر معمولی سطح کے حضرات کی بات کر رہے ہیں تو میرے خیال میں شاید وہ ادب اور تنقید میں اور دوسرے شعبوں میں بھی بہت زیادہ نہیں ہوں گے۔ آپ ایک اوسط سطح کی بات کریں تو مدارس سے روایتی علوم میں اچھا درک رکھنے والے لوگ تو کافی پیدا ہو رہے ہیں، اگرچہ فضلا کی مجموعی تعداد میں ان کا تناسب بہت کم ہے۔ لیکن جس طرح کے لوگوں کی آ پ بات کررہے ہیں، مثلاً‌ ڈاکٹر فضل الرحمٰن ہیں، مولانا مودودی ہیں یا غامدی صاحب ہیں،اس طرح کے لوگ تو اپنی انفرادی حیثیت میں تیار ہوتے ہیں اور یہ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ ایک نہج کا آدمی پیداہوتاہے، وہ اپنے حصے کا کام کرکے چلا جاتا ہے۔مودودی صاحب اپنی ذاتی محنت سے بنے اور اپنے حصے کاکام کرکے چلے گئے۔اب اس کا کوئی تسلسل نہیں ہے۔فضل الرحمٰن کے کام کا بھی اس سطح پر آگے تسلسل نہیں ہے۔غامدی صاحب بھی اپنی طرز کا کام کر رہے ہیں، لیکن اس کا تسلسل آگے کیسے چلے گا، یہ ابھی معلوم نہیں۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B