HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

عالمی دعوت

اسلام اِس کائنات کے پروردگار کی دعوت ہے۔ یہ دعوت پوری انسانیت کے لیے ہے اور سب سے پہلے انسان کے ابو الآبا آدم علیہ السلام کے ذریعے سے خود اُن کو اور اُن کی اولاد کو دی گئی تھی۔ قرآن نے بتایا ہے کہ اِس کے بعد اختلافات پیدا ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نےہر قوم میں اپنے رسول بھیجے اور اُن کے ذریعے سے یہ دعوت اُن کی قوموں تک پہنچائی، یہاں تک کہ حجت پوری ہوگئی اور سنت الٰہی کے مطابق جزا و سزا کا فیصلہ اُن قوموں کے لیے پورے انصاف کے ساتھ اِسی دنیا میں صادر کر دیا گیا۔ فرمایا ہے:

وَلِكُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلٌ، فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ. (یونس ۱۰: ۴۷)
’’ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب اُن کا رسول آجاتا ہے تو اُن کے درمیان فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔‘‘

یہ پہلا مرحلہ تھا۔ اِس کے بعد دوسرا مرحلہ شروع ہوا، جس میں اللہ تعالیٰ نے اِس دعوت کو بغیر کسی انقطاع کے نسلاً بعد نسلٍ دنیا کی سب قوموں تک پہنچانے کےلیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور اُن کی اولاد کو منتخب فرمایا۔ چنانچہ ابراہیم علیہ السلام کو ہدایت کی گئی کہ اِس مقصد کے لیے وہ اپنے ایک بیٹے اسمٰعیل کو جزیرہ نماے عرب اور دوسرے بیٹے اسحٰق کو کنعان میں، جسے اب فلسطین کہا جاتا ہے، آباد کریں۔ اِس کے ساتھ ہی فیصلہ کر دیا گیا کہ یہ دونوں علاقے اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے خاص کر لیے ہیں، لہٰذا اب یہ ارض مقدسہ ہیں اور اِن میں اسلام کے ماننے والوں کے سوا دوسرے لوگ کبھی مستقل طور پر آباد نہیں ہو سکیں گے۔ اولاد ابراہیم کا یہی انتخاب ہے، جس کے بارے میں فرمایا ہے:

اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰ٘ي اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰهِيْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ. (آل عمران ۳: ۳۳)
’’اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ نے آدم اور نوح کو، اور ابراہیم اور عمران کے خاندان کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر (اُن کی رہنمائی کے لیے) منتخب فرمایا۔‘‘

اِس انتخاب کے بعد کم و بیش پانچ سو سال کے عرصے میں اسمٰعیل اور اسحٰق، دونوں کی اولاد نے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ بڑی مسلمان قوموں کی صورت اختیار کر لی تو اللہ تعالیٰ نے بتدریج نبوت بھی اُنھی کے ساتھ خاص کر دی اور اُن کو حکم دیا کہ اللہ کے پیغمبر جس حق کی شہادت تم پر دیں گے، وہی شہادت تم دنیا کی باقی سب قوموں پر دیتے رہو گے۔ عالمی سطح پر اسلام کی دعوت کے لیے اب ہر قوم کی طرف الگ الگ پیغمبر بھیجنے کے بجاے یہی اہتمام ہے، جو کائنات کے پروردگار کی طرف سے کیا گیا ہے۔ اِن میں سے پہلی قوم ــــــ  بنی اسمٰعیل ــــــ  کا تعلق قبائلی تمدن سے تھا، اِس لیے وہاں جب شریعت دی گئی تو وہ بھی شخصی معاملات تک محدود رہی، مگر بنی اسحٰق کا معاملہ یہ نہیں تھا۔ وہ مصر کے شہری تمدن میں اور ایک بڑی ریاست کے تحت پلے بڑھے تھے، اور بعد میں بھی انجیر اور زیتون کی سرزمین میں یروشلم جیسے شہر اور اُس کے نواح میں آباد ہوئے تھے، لہٰذا اُنھیں تورات عطا ہوئی، جس میں اللہ تعالیٰ نے نظم اجتماعی کے بارے میں شریعت کے احکام بیان فرمائے، جس کے نتیجے میں اسلام کی تصویر ہر لحاظ سے مکمل ہو گئی۔

دنیا کی قوموں پر شہادت حق کی یہ ذمہ داری بنی اسحٰق نے کم و بیش پندرہ سو سال تک ہراول کی حیثیت سے اور نبیوں کی قیادت میں اٹھائے رکھی، مگر آخر میں جب اُنھوں نے یحییٰ علیہ السلام جیسے پیغمبر کو قتل کر ڈالا اور اُن کے بعد سیدنا مسیح کو بھی قتل کر دینے کے درپے ہوئے تو اِس عظیم ذمہ داری سے معزول کر دیے گئے اور اللہ تعالیٰ نے فیصلہ سنا دیا کہ جو حیثیت اِس سے پہلے اُنھیں حاصل تھی، وہ اب بنی اسمٰعیل کو حاصل ہو گی۔ چنانچہ چھٹی صدی عیسوی میں اِسی مقصد سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی، جس کے نتیجے میں اسلام کی عالمی دعوت کا تیسرا اور آخری مرحلہ شروع ہوا۔ یہی مرحلہ اِس وقت جاری ہے۔ اِس کے لیے جو اسکیم اللہ تعالیٰ نے اختیار فرمائی، وہ یہ ہے:

اولاً، قرآن نازل کیا گیا۔ اِس سے پہلے جو کتابیں بنی اسحٰق کو دی گئی تھیں، اُن میں سے تورات زیادہ تر قانون اور انجیل حکمت کا بیان تھی۔ زبور سے متعلق بھی ہر صاحب علم جانتا ہے کہ وہ خداوند عالم کی تمجید کا مزمور ہے۔ لیکن قرآن کا معاملہ سب سے الگ ہے۔ وہ نہ صرف یہ کہ قانون و حکمت کا جامع ہے، بلکہ اِس کے ساتھ ایک صحیفۂ انذار و بشارت بھی ہے۔ چنانچہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ہدایت کی گئی کہ وہ اِسی کے ذریعے سے اپنے مخاطبین کو انذار کریں اور باقی دنیا کو بھی بتا دیا گیا کہ وہ ’لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا[1]

ہے، لہٰذا کتاب ہدایت بھی ہے اور پیغمبر بھی۔ اُس کے بعد اب کسی پیغمبر کے بھیجنے کی ضرورت باقی نہیں رہی:

وَاُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۣ بَلَغَ.(الانعام ۶: ۱۹)
’’اور میری طرف یہ قرآن اِس لیے وحی کیا گیا ہے کہ اِس کے ذریعے سے میں تمھیں خبردار کروں اور اُن کو بھی جنھیں یہ پہنچے۔‘‘

ثانیاً، صرف قرآن ہی نہیں، بنی اسمٰعیل کو بھی اللہ تعالیٰ نے نبیوں کا قائم مقام ٹھیرا دیا۔ چنانچہ فرمایا کہ خدا کے آخری پیغمبر اور دنیا کی دوسری قوموں کے درمیان وہ ایک ’اُمَّةً وَسَطًا[2] ہیں، لہٰذا اُن پر جو شہادت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، وہی شہادت اب دنیا کے سب لوگوں پر وہ دیں گے اور خدا کی ہدایت بے کم و کاست اور پوری قطعیت کے ساتھ اُن تک پہنچاتے رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت کا دن آجائے اور لوگ خدا کے حضور میں جواب دہی کے لیے بلا لیے جائیں:

وَجَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ، هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ، مِلَّةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ، هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَﵿ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ هٰذَا، لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَي النَّاسِ.(الحج ۲۲: ۷۸)
’’اللہ کی راہ میں جدوجہد کرو، جیسا کہ جدوجہد کا حق ہے۔ اُس نے تمھیں چن لیا ہے اور (جو) شریعت (تمھیں عطا فرمائی ہے، اُس) میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔ تمھارے باپ ــــــ ابراہیم ــــــ کی ملت تمھارے لیے پسند فرمائی ہے۔ اُسی نے تمھارا نام مسلم رکھا تھا، اِس سے پہلے اور اِس قرآن میں بھی (تمھارا نام مسلم ہے)۔ اِس لیے چن لیا ہے کہ رسول تم پر (اِس دین کی) شہادت دے اور دنیا کے سب لوگوں پر تم (اِس کی) شہادت دینے والے بنو۔‘‘

اسلام کی دعوت کے لیے یہ خدا کی اسکیم ہے۔ اِس کے بعد بھی جو لوگ ختم نبوت پر اظہار تعجب کرتے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کو کسی خاص قوم یا علاقے یا دور تک محدود سمجھتے ہیں، اُن کے بارے میں اِس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے:

چوں ندیدند حقیقت رہ افسانہ زدند

ـــــــــــــــــــــــــ

[1] ۔ الفرقان ۲۵: ۱۔

[2] ۔ البقرہ ۲: ۱۴۳۔

B