HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

واقعۂ کوہ صفا

سیرة النبی

ترجمہ و تحقیق: محسن ممتاز

ــــــ ۱ ــــــ

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ:۱ لَمَّا نَزَلَتْ: ﴿وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ﴾۲، صَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الصَّفَا [عَلَا أَعْلَاهَا حَجَرًا  ] ۳، فَجَعَلَ يُنَادِي: «[يَا صَبَاحَاهْ  ]۴، [يَا فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، يَا صَفِيَّةُ بِنْتُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، ] ۵ يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، يَا بَنِي فِهْرٍ، يَا بَنِي عَدِيٍّ» - لِبُطُونِ قُرَيْشٍ - حَتَّى اجْتَمَعُوا فَجَعَلَ الرَّجُلُ إِذَا لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَخْرُجَ أَرْسَلَ رَسُولًا لِيَنْظُرَ مَا هُوَ، فَجَاءَ أَبُو لَهَبٍ وَقُرَيْشٌ، فَقَالَ: «أَرَأَيْتَكُمْ لَوْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا بِالوَادِي تُرِيدُ أَنْ تُغِيرَ عَلَيْكُمْ، أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟» قَالُوا: نَعَمْ، مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا، قَالَ: «فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ، [إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَمَثَلِ رَجُلٍ رَأَى الْعَدُوَّ، فَانْطَلَقَ يَرْبَأُ أَهْلَهُ، فَخَشِيَ أَنْ يَسْبِقُوهُ، فَجَعَلَ يَهْتِفُ، يَا صَبَاحَاهُ ] ۶ [يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ  ] ۷... [أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللّٰهِ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللّٰهِ شَيْئًا، يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللّٰهِ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا لاَ أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللّٰهِ شَيْئًا، يَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبِ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللّٰهِ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا لاَ أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللّٰهِ شَيْئًا، يَا صَفِيَّةُ عَمَّةُ رَسُولِ اللّٰهِ، وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللّٰهِ، اشْتَرِيَا أَنْفُسَكُمَا مِنَ اللّٰهِ، لَا أُغْنِي عَنْكُمَا مِنَ اللّٰهِ شَيْئًا، سَلَانِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتُمَا، غَيْرَ أَنَّ لَكُمْ رَحِمًا سَأَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا  ]»۸ فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ: تَبًّا لَكَ سَائِرَ اليَوْمِ، أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا؟

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ جب آیت: ’وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ‘ (اور اپنے قریبی خاندان والوں کو بھی اِس سے خبردار کر دو ) نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی کےسب سے اونچے حصے  پر چڑھ گئے اور کہا :یا صباحاہ۱؎! اے فاطمہ بنت محمد، اے صفیہ بنت عبدالمطلب  ، اے بنو عبدالمطلب  ، اے بنو فہر،  اے بنو عدی!  یہ آپ نے قریش کے خاندانوں کو پکارا۔ یہاں تک کہ سب جمع ہو گئے اور  اگر کوئی کسی وجہ سے نہ آ سکا تو  اُس نے اپنا کوئی نمایندہ بھیج دیا تاکہ معلوم ہو کہ کیا معاملہ ہوا ہے  ، حتیٰ کہ  ابولہب  اور قریش کے دوسرے لوگ بھی آ گئے۔ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :  تمھارا کیا خیال ہے، اگر میں یہ کہوں کہ وادی میں (پہاڑی کے پیچھے ) ایک لشکر ہے اور وہ تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری بات  کو سچ مانو گے؟ سب نے کہا: ہاں، ہم آپ کی تصدیق کریں گے، ہم نے ہمیشہ آپ کو سچا ہی پایا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر سنو، میں تمھیں اُس سخت عذاب سے خبردار کرتا ہوں جو بالکل سامنے ہے۔ میری اور تمھاری مثال اُس آدمی کی ہے، جس نے دشمن کو دیکھا تو وہ خاندان کو بچانے کے لیے چل پڑا اور اُسے خطرہ ہوا کہ دشمن اُس سے پہلے نہ پہنچ جائے تووہ بلند آواز سے پکارنے لگا:یا صباحاہ ! آپ نے فرمایا: اے  گروہ قریش... (اللہ کے پیغمبر کو مان کر)  اپنی جانوں کو آگ سے بچا لو، اس لیے کہ میں تمھیں اللہ کے مقابل میں کوئی نقصان یا کوئی نفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ (تم باز نہیں  آؤ  گے تو) اللہ کے ہاں میں تمھارے کسی کام نہیں آؤں گا۔ اے بنو عبد مناف ، اپنی جانوں کو آگ سے بچا لو، اِس لیے کہ میں تمھارے لیے  اللہ کے مقابل میں کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، نہ تمھارے لیے  اللہ کے ہاں  کچھ  کر ہی سکوں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب ، اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ۔ اللہ کی بارگاہ میں،میں تمھارے کچھ کام نہ  آ سکوں گا۔ اے صفیہ،  رسول اللہ کی پھوپھی اور اے فاطمہ رسول اللہ کی بیٹی،  اپنی جانوں کو آگ سے  بچاؤ۔ میرے مال سے جو چاہو لے لو ، مگر اللہ کے مقابل میں، میں تمھارے کسی کام نہ آسکوں گا ۔ میرا تم سے خون کا رشتہ ہے تو (دنیا میں ) صلۂ رحمی کرتا ہوں گا۔۲؎ اِس پر ابولہب  پکارا : تجھ پر سارا دن تباہی ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لیے اکٹھا کیا تھا۔۳؎

____________________

۱؎ یہ کسی حملہ آور کو دیکھ کر اُس سے بچنے کے لیے لوگوں کو بلانے کا طریقہ ہے ۔ اِس طرح کے حملے چونکہ بالعموم صبح کے وقت ہی ہوتے تھے، اِس لیے ’واصباحا‘  یا ’یا صباحا‘ کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے ، یعنی اے صبح کی غارت گری !

۲؎  اوپر جس حکم کا حوالہ دیا گیا ہے، اُس کے امتثال میں یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نہایت دردمندانہ خطاب ہے، جو آپ نے صفا پہاڑ کے اوپر کھڑے ہو کر فرمایا ۔ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پیغمبر نصح و خیر خواہی کے کس جذبے سے اپنے خاندان اور اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا مرحلۂ انذارعام، ہمارے نزدیک اِسی خطاب سے شروع ہوا ہے ۔

۳؎  ابولہب کا یہی رویہ ہے، جس کی بنا پر قرآن نے آپ کے مخالفین میں سے اِسی کو ’اَشقٰی‘ قرار دے کر قریش کے ایک زعیم کی حیثیت سے  اِس کی ہلاکت کی پیشین گوئی کی ہے ۔


متن کے حواشی

۱۔ اس روایت کا متن اصلا ً صحیح بخاری،رقم۴۷۷۰سے لیا گیا ہے۔ اس کے راوی ابن عباس رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس کے متابعات درج ذیل کتب میں دیکھے جا سکتے ہیں :

مسند احمد،رقم ۲۵۴۴، ۲۸۰۱۔صحیح بخاری، رقم ۴۷۷۰، ۴۸۰۱، ۴۹۷۲۔ صحیح مسلم، رقم ۳۵۵۔ سنن ترمذی، رقم ۳۳۶۳۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۱۰۷۵۳، ۱۱۳۶۲، ۱۱۶۵۰۔ شمائل ترمذی، رقم ۲۶۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم ۲۶۲۔ صحیح ابن حبان، رقم ۶۵۵۰۔ شرح معانی الآثار، طحاوی، رقم ۵۳۸۹، ۷۳۹۹۔ مسند بزار، رقم ۵۰۸۸۔ حدیث السراج، رقم ۲۱۷۷، ۲۱۷۸۔ الایمان، ابن مندہ، رقم ۹۵۰، ۹۵۱۔ اخبار مکہ، فاکہی، رقم ۱۳۲۰۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۷۷۲۵۔ دلائل النبوۃ، بیہقی ۲/۱۸۱ ، ۱۸۲۔

الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ یہی مضمون  سیدہ عائشہ،ابوہریرہ،قبیصہ بن مخارق الہلالی اور زہیر بن عمرو الہلالی رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کے شواہد اِن کتب میں دیکھ لیے جا سکتے ہیں :

مسند اسحاق بن راہویہ ، رقم ۷۵۳۔ مسند احمد، رقم  ۲۵۰۴۴، ۲۵۵۳۵۔ صحیح مسلم، رقم ۳۵۰۔ سنن ترمذی، رقم ۲۳۱۰ ، ۳۱۸۴۔ سنن نسائی، رقم ۳۶۴۸۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۶۴۴۲، ۱۱۳۱۲۔ صحیح ابن حبان، رقم ۶۵۴۸۔ الایمان، ابن مندہ، رقم ۹۴۵، ۹۴۶، ۹۴۷، ۹۴۸۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس کے شواہد  جن کتابوں میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں  :

مسند اسحاق بن راہویہ، رقم ۲۲۸۔ مسند احمد، رقم ۸۴۰۲، ۸۷۲۶، ۹۱۷۷، ۹۷۹۳، ۱۰۷۲۵۔ صحیح بخاری، رقم ۴۷۷۱۔ صحیح مسلم، رقم ۳۴۸، ۳۵۱۔ الادب المفرد، بخاری، رقم ۴۸۔  سنن ترمذی، رقم ۳۱۸۵۔ سنن نسائی، رقم ۳۶۴۴، ۳۶۴۶، ۳۶۴۷۔ سنن دارمی، رقم ۲۷۷۴۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۶۴۳۸، ۶۴۴۰، ۶۴۴۱، ۱۱۳۱۳۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم ۲۶۸، ۲۶۹، ۲۷۲، ۲۷۴۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۶۳۲۷۔ شرح معانی الآثار، طحاوی، رقم ۵۳۸۸، ۵۳۹۰۔ صحیح ابن حبان، رقم ۶۴۶، ۶۵۴۹۔ حدیث السراج، رقم ۲۱۷۳، ۲۱۷۴۔ الایمان، ابن مندہ، رقم ۹۳۸، ۹۳۹، ۹۴۰، ۹۴۱، ۹۴۵، ۹۴۶۔ دلائل النبوۃ، بیہقی، رقم ۴۸۲، ۴۸۳۔

قبیصہ بن مخارق الہلالی اور زہیر بن عمرو الہلالی رضی اللہ عنہما سے اس کے شواہد درج ذیل کتب میں منقول ہیں :

مسند ابن ابی شیبہ، رقم ۶۷۷۔ مسند احمد، رقم ۱۵۹۱۴۔ صحیح مسلم، رقم ۳۵۳۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم ۲۶۵۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۱۰۷۴۹۔ شرح معانی الآثار، طحاوی، رقم ۵۳۸۶۔ المعجم الکبیر، طبرانی ۵/۲۷۲، رقم ۵۳۰۵۔ الایمان، ابن مندہ، رقم ۹۵۴، ۹۵۵، ۹۵۶۔ معرفۃ الصحابہ، ابو نعیم، رقم ۳۰۶۷۔ دلائل النبوۃ، بیہقی ۲/ ۱۷۸۔

۲۔الشعراء ۲۶: ۲۱۴۔

۳۔ یہ اضافہ زہیر بن عمرو اور قبیصہ بن مخارق رضی اللہ عنہما کی روایت سے لیا گیا ہے ، جسے   مثال کے طور پر صحیح مسلم، رقم ۳۵۳ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

۴۔ یہ الفاظ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے بعض طرق ، مثلاً صحیح بخاری، رقم ۴۸۰۱ میں نقل ہوئے ہیں۔

۵۔  یہ اضافہ صحیح مسلم،رقم ۳۵۰ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں منقول ہے۔

۶۔ یہ الفاظ ہ زہیر بن عمرو اور قبیصہ بن مخارق  رضی اللہ عنہما کی روایت سے لیے گئے  ہیں ، جسے  مثلاً مسند احمد ، رقم  ۲۰۶۰۵ میں  دیکھا جا سکتا ہے۔

۷۔ یہ الفاظ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے بعض طرق، مثلاً صحیح مسلم، رقم ۳۵۱ سے لیے گئے ہیں۔

۸۔ یہ الفاظ  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں  نقل  ہوئے ہیں ، جنھیں مثال کے طور پر  سنن ترمذی، رقم ۳۱۸۵ میں دیکھ لیا جا سکتا ہے ۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B