بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَآءَ فَزَيَّنُوْا لَهُمْ مَّا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِيْ٘ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنَّهُمْ كَانُوْا خٰسِرِيْنَ ٢٥
(یہ اِس انجام کو اِس لیے پہنچے کہ اِن کے گناہوں کی پاداش میں) ہم نے اِن پر برے ساتھی مسلط کر دیے[31] تو اِن کے آگے اور پیچھے کی ہر چیز اُنھوں نے اِن کو خوش نما بنا کر دکھائی اور بالآخر وہی بات اِن پر بھی پوری ہو کے رہی[32] جو اِن سے پہلے گزرے ہوئے جنوں اور انسانوں کے گروہوں پر پوری ہوئی۔ یقیناً یہ خسارے میں رہنے والے تھے۔۲۵
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِهٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ ٢٦ فَلَنُذِيْقَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَذَابًا شَدِيْدًا وَّلَنَجْزِيَنَّهُمْ اَسْوَاَ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ٢٧ ذٰلِكَ جَزَآءُ اَعْدَآءِ اللّٰهِ النَّارُﵐ لَهُمْ فِيْهَا دَارُ الْخُلْدِ جَزَآءًۣ بِمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْحَدُوْنَ ٢٨
یہ منکرین کہتے ہیں کہ اِس قرآن کو نہ سنو اور اِس کے بیچ میں غل مچا دیا کرو تاکہ تم غالب رہو۔[33] سو ہم اِن منکروں کو ضرور سخت عذاب چکھائیں گے اور جو کچھ یہ کرتے رہے، ضرور اُس کا اِن کو بدترین صلہ دیں گے۔[34] یہ اللہ کے دشمنوں کا بدلہ ہے۔ (جانتے ہو کیا ہے)؟یہ آگ ہے۔[35] اِن کے لیے اِن کے اِس جرم کی سزا میں کہ یہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے تھے، اِسی میں ہمیشہ کا ٹھکانا ہو گا۔۲۶- ۲۸
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا رَبَّنَا٘ اَرِنَا الَّذَيْنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِيَكُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِيْنَ ٢٩
وہاں یہ منکرین کہیں گے کہ اے ہمارے رب، ہمیں وہ جن اور انسان ذرا دکھا دے جنھوں نے ہمیں گم راہ کیا تھا کہ ہم اُن کو اپنے پیروں تلے روندیں تاکہ وہ ذلیل و خوار ہوں۔۲۹
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓئِكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ٣٠ نَحْنُ اَوْلِيٰٓؤُكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِﵐ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْ٘ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ ٣١ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ ٣٢
اِس کے برخلاف جن لوگوں نے اقرار کیا کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر (تمام مخالفتوں سے بے پروا ہو کر) اُس پر ثابت قدم رہے، (اُن کی تسلی کے لیے قیامت کے دن، اِس سے پہلے کہ فیصلہ ہو)، اُن پر یقیناً فرشتے نازل ہوں گے اور کہیں گے کہ اب نہ کوئی اندیشہ کرو، نہ غم اور اُس جنت کی خوش خبری قبول کرو، جس کا وعدہ تم سے کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی رہے[36] اور آخرت کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں۔ (ہم جس جنت کی خوش خبری تمھیں دے رہے ہیں)، اُس میں تمھارے لیے ہر وہ چیز موجود ہے جسے تمھارا دل چاہے گا اور اُس میں ہر وہ چیز حاضر ہے جو تم طلب کرو گے ــــــ اُس کی طرف سے سامان ضیافت[37] کے طور پر، جو بڑا ہی بخشنے والا ہے، جس کی شفقت ابدی ہے۔۳۰- ۳۲
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا٘ اِلَي اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ ٣٣ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ ٣٤ وَمَا يُلَقّٰىهَا٘ اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَمَا يُلَقّٰىهَا٘ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ ٣٥ وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ٣٦
(تم اِن کو اللہ کی طرف بلا رہے ہو، اے پیغمبر)، اور اُس سے اچھی بات کس کی ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں فرماں برداروں میں ہوں! [38] حقیقت یہ ہے کہ بھلائی اور برائی، دونوں یکساں نہیں ہیں۔ (اِس میں شبہ نہیں کہ تمھارے یہ منکرین اب برائی کے درپے[39] ہیں، لیکن) تم برائی کے جواب میں وہ کرو جو اُس سے بہتر ہے[40] تو دیکھو گے کہ وہی جس کے اور تمھارے درمیان عداوت ہے، وہ گویا ایک سرگرم دوست بن گیا ہے۔[41] اور (یاد رکھو کہ) یہ دانش اُنھی کو ملتی ہے جو ثابت قدم رہنے والے ہوں اور یہ حکمت اُنھی کو عطا کی جاتی ہے جن کے بڑے نصیب ہیں۔[42] اور اگر شیطان کی طرف سے (کسی موقع پر) تمھارے دل میں کوئی اکساہٹ پیدا ہو جائے[43] تو اللہ کی پناہ ڈھونڈو۔ بے شک، وہی سننے والا ، جاننے والا ہے۔۳۳- ۳۶
[31]۔ یہ اُس قانون کے مطابق ہوتا ہے جو ہدایت و ضلالت کے باب میں مقرر ہے۔ چنانچہ یہ ساتھی جنوں میں سے بھی ہوتے ہیں اور انسانوں میں سے بھی۔ سورۂ زخرف (۴۳) کی آیت ۳۶ میں اِس کی وضاحت ہے۔
[32]۔ یعنی یہ بات کہ رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اُن کے مکذبین اِسی دنیا میں عذاب سے دوچار ہوں گے۔
[33]۔ یعنی تمھاری بات اونچی رہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ سنا رہے ہیں، وہ اِس شورو شغب میں بالکل دب جائے۔
[34]۔ مطلب یہ ہے کہ جس جرم کا ارتکاب یہ لوگوں کو قرآن کی دعوت سے روک کر کر رہے ہیں، ابھی اُس کی شناعت کا اِنھیں احساس نہیں ہے۔ لہٰذا جو فصل یہ اپنے لیے بو رہے ہیں، جب اُس کا حاصل سامنے آئے گا، تب اِنھیں معلوم ہو گا کہ وہ کس بدترین صورت میں سامنے آیا ہے۔
[35]۔ اصل میں ’النَّار‘ کا لفظ ہے۔ یہ خبر ہے جس کا مبتدا حذف کر دیا ہے۔
[36]۔ یعنی اُسی طرح جیسے شیاطین اُن لوگوں کے ساتھی رہے جنھوں نے اپنی باگ اُن کے ہاتھ میں پکڑا دی۔ اِس سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اگر شیطانوں کو یہ مہلت دے رکھی ہے کہ وہ انسانوں کو گم راہ کریں تو فرشتوں کو بھی یہ اذن دیا ہے کہ وہ اہل ایمان کو نیکی کی راہ سجھائیں اور اِس راہ میں جو مشکلیں پیش آتی ہیں، اُن میں اُن کی مدد کریں۔ یہ فیصلہ انسانوں کو کرنا ہے کہ وہ اِن میں سے کس کو اپنا ساتھی بناتے ہیں۔
[37]۔ اصل میں لفظ ’نُزُل‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ مہمان کی ابتدائی ضیافت کے لیے آتا ہے۔ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اہل جنت کو آگے کیا ملنے والا ہے اور جس جنت کی تفصیلات قرآن میں بیان ہوئی ہیں، اُس کا استحقاق پیدا کر لینے اور اُس میں داخل ہو جانے کے بعد وہ آگے کن مقامات و مراتب تک پہنچیں گے اور کن دنیاؤں میں داخل کیے جائیں گے۔
[38]۔ یہ نہایت لطیف اسلوب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین کو آپ کی دعوت اور آپ کی شخصیت کی طرف متوجہ کیا ہے کہ دیکھو یہ خدا کی توحید پر ایمان اور اُس کی بندگی کی دعوت ہے اور جو دینے کے لیے کھڑا ہوا ہے، وہ خود بھی عمل صالح کا پیکر اور اپنے پروردگار کا فرماں بردار ایک بندۂ مومن ہے۔ مگر تم پر افسوس، تم اِس کے باوجود سن کر نہیں دے رہے ہو!
[39]۔ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ قریش کے اشرار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کے جنون میں اِس حد تک بڑھ گئے تھے کہ آپ قرآن سنانے کے لیے کھڑے ہوتے تو لوگوں کو اکساتے تھے کہ غل مچا دو تاکہ اِس شخص کی آواز اُس میں ایسی دب جائے کہ کوئی اُسے سن نہ سکے۔ اِس کے جواب میں کیا رویہ اختیار کیا جائے؟ آگے اُس کی وضاحت ہے۔
[40]۔ یعنی صبر اور عفو و درگذر، اِس لیے کہ دعوت و اصلاح کے نقطۂ نظر سے یہی رویہ بہتر ہے۔ چنانچہ خدا کی طرف سے فیصلۂ عذاب اور اتمام حجت سے پہلے ہر داعی حق کو اِسی کی ہدایت کی گئی ہے۔
[41]۔ یہ انسان کی عام فطرت کو پیش نظر رکھ کر فرمایا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...جن کی فطرت مسخ نہیں ہو چکی ہوتی ہے، وہ جب دیکھتے ہیں کہ ایک شخص لوگوں کی بہی خواہی و ہم دردی میں اتنا بے چین ہے کہ اُن کی تمام گستاخیوں اور بدتمیزیوں کے باوجود اپنے کریمانہ رویے میں کوئی فرق آنے نہیں دیتا، بلکہ لوگوں کی اینٹوں اور پتھروں کا جواب دعاؤں سے دیتا ہے تو اُن کے دلوں میں اگر اُس کے خلاف کسی غلط فہمی کے باعث عداوت بھی ہو تو اُس کے طرز عمل سے متاثر ہو کر اُن کی یہ عداوت محبت سے بدل جا تی ہے اور وہ اُس کے جاں نثار ساتھیوں میں سے بن جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں سب سے زیادہ موثر عامل کی حیثیت آپ کے اِسی کردار کو حاصل رہی ہے۔ آپ کے دشمنوں میں سے جن کے اندر شرافت کا جوہر موجود تھا، وہ سب آپ کے اِسی کردار سے متاثر ہو کر آپ کے وفادار اور اسلام کے جاں نثار بنے۔ صرف وہی اشقیااِس چیز سے متاثر نہیں ہوئے جن کی فطرت بالکل مسخ ہوچکی تھی۔‘‘(تدبرقرآن ۷/ ۱۰۳)
[42]۔ آیت میں ’وَمَا يُلَقّٰىهَا‘ کے جو الفاظ آئے ہیں، اُن کی ضمیر کا مرجع وہی حکمت و موعظت ہے جس کی پیچھے ہدایت کی گئی ہے۔عربی زبان میں اِس طرح ضمیر لانے کا طریقہ معروف ہے۔ اِس کی متعدد مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ اِس میں جو تعلیم مذکور ہے، اُس کا خلاصہ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے چند نکات میں بیان فرمایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اِس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں:
ایک یہ کہ اوپر جو بات فرمائی گئی ہے، وہ ایک عظیم حکمت ہے۔
دوسری یہ کہ اِس حکمت کے حامل صرف وہ لوگ ہو سکتے ہیں جن کے اندر صبر کا جوہر ہو۔ جن کے اندر یہ جوہر نہ ہو، وہ اِس کے اہل نہیں ہیں۔ اِس وجہ سے اِس کے طالبوں کواپنے اندر صبر کی صفت راسخ کرنی چاہیے۔
تیسری یہ کہ یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے، بلکہ ایک لازوال خزانہ ہے۔ اِس وجہ سے ہر ہمت ور کو اِس کے حاصل کرنے کے لیے بازی کھیلنی چاہیے۔ بڑے ہی خوش بخت و بلند اقبال ہیں وہ لوگ جو اِس بازی میں کامیاب ہو جائیں۔‘‘(تدبرقرآن۷/ ۱۰۳)
[43]۔ یعنی کوئی ایسا جذبہ ابھار دے جو اِس حکمت کے منافی ہو۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ