اپنے الہٰ کے حضور میں اپنی کمائی پیش کرنا ہمیشہ سے پرستش کا جز رہا ہے۔ہابیل اور قابیل کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں انسان نے اس کا آغاز خود خدا کی بارگاہ میں اپنا مال پیش کر کے کیا تھا، جسے قبولیت کی صورت میں آگ آ کر جلا دیتی تھی۔انسان کی فطرت کے اندر موجود اس داعیے کی اللہ تعالیٰ نے تصویب فرمائی اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی صورت میں اسے شریعت کے مستقل احکام میں شامل کر دیا۔ اس کی عملی شکل یہ بنادی ہے کہ کسی معبد پر چڑھاوے کے بجاے یہ مال دین کے کاموں اور ضرورت مندوں پر خرچ کیا جائے۔
توحید کے ماننے والے جس طرح رکوع وسجود اور دعا ومناجات کو الٰہ واحد اللہ تعالیٰ سے خاص رکھتے ہیں، اسی طرح ان کا اپنی کمائی میں سےکچھ اللہ کے حضور پیش کرنے کا یہ عمل بھی صرف اللہ کی رضا کے لیے ہوتا ہے۔ وہ اس احساس کو کبھی فراموش نہیں ہونے دیتے کہ وہ جو کچھ دے رہے ہیں، اس کے دیے میں سے دے رہے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو کبھی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے کہ ان کی کمائی میں سائل اور محروم کا حق ہے (الذاریات ۵۱: ۱۹)۔ وہ جن کو دیتے ہیں، ان کو اپنے تبصروں سے اور احسان جتا کر دکھی نہیں کرتے۔ وہ کھلے میں انفاق کریں یا چھپا کر ان کا مقصود اپنے تقوے اور سخاوت کا اشتہار دینا نہیں ہوتا۔ مال و متاع سب کے لیے زندگی کے سفر کی ناگزیر ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی حفاظت اور اس کی بڑھوتری کا جذبہ ہر شخص کے ہاں پایا جاتا ہے، لیکن بندۂ مومن اس جذبےکو اس طرح حد میں رکھتا ہے کہ کبھی انفاق فی سبیل اللہ میں رکاوٹ نہ بنے۔
اللہ کےبندے اس بات سے بھی آ گاہ ہوتے ہیں کہ شیطان کن کن راستوں سے حملہ آور ہوتا ہے۔ وہ تنگ دستی کا خوف دلاتا ہے۔ مستقبل اور حال کی ضرورتوں کو ہوّا بنا کر دکھاتا ہے کہ یہ اپنا مال روک لے اور انفاق کی نیکی سے محروم ہو جائے۔ اگر یہ وار خالی جائے تو فضول خرچی کی طرف راغب کرتا ہےکہ دولت اللے تللے خرچ ہو جائے۔ جو کام باوقار طریقے سے سو روپے میں ہو سکتا ہے، اس پر سینکڑوں خرچ ہو جائیں۔ اس کے لیے وہ شان و شوکت اور رعب و دبدبہ کی جبلت کو ہوا دیتا ہے۔ضرورت سے کہیں زیادہ لباس الماریوں کی زینت بن جاتے ہیں اور ضرورت سے کہیں زیادہ انواع واقسام کے کھانوں سے دسترخوان سجتے ہیں۔ گھروں کی زینت میں بھی حسن ذوق سے زیادہ دولت مندی کا اظہار مقصود بن جاتا ہے۔ اس طرح شیطان یہ چاہتا ہے کہ یہ شخص اللہ کی راہ میں اپنی کمائی خرچ کرنے کی نیکی سے تہی دامن رہے۔شیطان انسانوں کو اس فلسفے کا قائل کر دیتا ہے کہ تمھاری یہ دولت تمھاری محنت اور لیاقت کا حاصل ہے۔ محروم لوگوں کی محرومی کا باعث ان کی اپنی نالائقی ہے۔ اس فلسفے کا قائل شخص سنگ دل ہوتا ہے اور اسے کسی ضرورت مند کی محتاجی متاثر نہیں کرتی۔ چنانچہ وہ کسی کی مدد پر آمادہ نہیں ہوتا۔کسی شخص کو انفاق سے روکنے میں شیطان اگر کامیاب نہ ہو سکے تو اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس نیکی کو آخرت میں بے نتیجہ بنانے کے لیے یا تو ریا سے آلودہ کر دے یا بد زبانی کی گرد سے میلا کردے۔ بندۂ مومن شیطان کے ان سارے حملوں سے اپنی حفاظت کا بندو بست کرتاہے اور اللہ کی رضا کے حصول کا جذبہ ہی اس کے انفاق فی سبیل اللہ کا اول و آخر محرک ہوتا ہے۔ ان کے لیے مالک ارض و سماوات کی نوید یہ ہے:
وَمَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَتَثْبِيْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۣ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَيْنِﵐ فَاِنْ لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّﵧ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ.(البقرہ ۲: ۲۶۵)
’’اللہ کی خوش نودی چاہنے کے لیے اور اپنے آپ کو حق پرقائم رکھنے کی غرض سےاپنا مال خرچ کرنے والوں کی مثال اُس باغ کی ہے جو بلند اور ہموار زمین پر واقع ہو۔ اُس پر زور کی بارش ہو جائے تو اپنا پھل دونا لائے اور زور کی بارش نہ ہو تو پھوار بھی کافی ہو جائے۔ (یہ مثال سامنے رکھو) اور (مطمئن رہو کہ) جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُسے دیکھ رہا ہے۔‘‘
ـــــــــــــــــــــــــ