اصل مسئلہ آخرت کی نجات ہے ،یہ بات ہر وقت امین احسن کے پیش نظر ہوتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ وہ دنیا سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرتے تھے۔ ۶ ؍ اگست ۱۹۷۰ء کو لاہور سے جناب محمود احمد لودھی کے نام خط میں امین احسن لکھتے ہیں :
’’میر ی صحت ادھر برابر خرا ب رہی اس وجہ سے تقریباً دو ہفتے سے لکھنے کا کا م بالکل بند ہے۔ درس کا کا م کچھ ہو رہا ہے۔
آپ حضرات سے امید یں تو بہت کچھ تھیں لیکن شکا یت الحمد للہ کو ئی نہیں ہے ۔آپ اپنے حا لا ت سے مجھ سے زیادہ واقف ہیں ۔میں یہ گما ن نہیں کر سکتا کہ آپ حا لا ت کے مسا عد ہونے کے باوجود میر ی امیدوں کا ساتھ نہ دے سکے ۔ اب تو میں نے یہ طے کر لیا ہے کہ جو کچھ اپنے سے بن سکے وہ کرو اور مستقبل کا معا ملہ اللہ پر چھوڑ و۔ اللہ تعا لیٰ کو منظور ہو گا تو کا م جا ری رہے گا نہ منظور ہو گا تو بند ہو جائے گا ۔
میر ی صحت ادھر برا بر خرا ب رہی اور اب بظا ہر یہ تقا ضائے عمر ہے ۔میرے سا منے اب اصل مسئلہ کاموں کی تکمیل کا نہیں بلکہ آخرت کی نجا ت کا ہے۔ چا ہتا ہوں کہ مر تے دم تک کچھ خدمت انجام پا تی رہے۔ درس بھی کسی بڑی توقع کے سا تھ نہیں بلکہ محض ادائے فر ض کے لیے دے رہا ہوں اور چا ہتا ہو ں کہ یہ کسی نہ کسی شکل میں آخر دم تک جا ری رہے۔ ‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۳۴-۳۵)
نفاست امین احسن کی شخصیت کالازمی حصہ تھا۔یہ خوبی ان کے لباس ہی میں نہیں ، بلکہ ماحول میں بھی نمایاں ہوتی تھی۔ ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں :
’’مولانا اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ بڑے پر کشش ، وجیہ و شکیل ، جامہ زیب ، بارعب اور نفاست پسند شخص تھے۔ انھیں صفائی بہت پسند تھی ۔ کبھی ان کے جسم پر میلے کچیلے کپڑے نہیں دیکھے گئے ۔ لباس سفید پہنتے تھے جس پر کہیں داغ دھبہ نہیں ہوتا تھا۔ لباس ہی کی طرح ان کا کمرا بھی چمکتا اور جگمگاتا رہتا تھا۔ ان کی پڑھنے لکھنے کی میز بہت مرتب اور صاف ہوتی ۔ ان کی ہر ہر چیز سے حسن ، نفاست اور سلیقہ مندی ظاہر ہوتی تھی اور کہیں سے بدذوقی اور بے ڈھنگے پن کا پتا نہیں چلتا تھا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء،ص ۱۴)
ڈاکٹرزاہدمنیر عامر صاحب نے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہو ئے لکھا:
’’ہم لاؤنج سے گزرکر جس کمرے میں آئے وہ غالباً مولانا ہی کا بیڈ روم تھا ۔ سلیقے اور نفاست سے رکھی ہوئی اشیاء ، صاف ستھرا ماحول اور اس میں اجلے اجلے مولانا امین احسن صاحب کا سراپا، قریب روایتی بزرگوں کی طرح پان کے اسباب دھرے ہوئے ، وہ نقشہ اب بھی آنکھوں کے سامنے ہے ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۶۸)
امین احسن کو جب کسی شخص پر غصہ آتا تو وہ سخت الفاظ اور اسلوب میں اس کا اظہار کرتے۔اور اگر انھیں احساس ہوتا کہ اس میں ان سے زیادتی ہوگئی ہے تو یہ جلال جمال میں تبدیل ہوجاتاتھا۔
ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں :
’’جب کسی پر غصہ آتا اور بہت برہم ہو جاتے تو بعض اوقات کچھ سخت سست اور ناگفتنی بھی کہہ جاتے لیکن جلد ہی ان کا غصہ فرو ہو جاتا۔ کسی سے کینہ کدورت نہ رکھتے ۔ ‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۱۵)
غامدی صاحب امین احسن کی ناراضی کی کیفیت بیان کرتے ہیں :
’’وہ اتنے سچے، اتنے بے لاگ اور اتنے دو ٹوک تھے کہ مصلحت اندیشی کے پیمانے سے اسے خطرناک سمجھا جائے گا۔ جو کچھ کہنا چاہتے، بغیر کسی تردد کے کہہ دیتے۔ اپنے رفقا میں فکر و عمل کا کوئی تضاد کسی حال میں برداشت نہ کرتے۔ ان کی محبت بے پناہ تھی، مگر اخلاص کی گہرائی سے جس طرح یہ محبت چشمہ بن کر پھوٹتی تھی، اسی طرح رنج بھی ابل پڑتا تھا، تاہم دیکھنے والے دیکھتے کہ اس میں کسی بغض، کسی کینے اور کسی دشمنی کا کوئی شائبہ نہ ہوتا۔ گویا وہی معاملہ تھا کہ:
قہر بھی اس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفیق‘‘
(ماہنامہ اشراق، جنوری / فروری ۱۹۹۸ء، ص ۲۷)
جماعت اسلامی کے قیام کے کچھ عرصہ بعد مولانا محمد منظو ر نعمانی اورمولانا ابوالحسن علی ندوی کوامیر جماعت کی شخصیت سے کچھ شکایتیں پیدا ہو گئیں ۔ان کے نزدیک جماعت کے مقاصد کے لحاظ سے امیر جماعت کو نہایت عبادت گزار اورمتقی ہونا چاہیے تاکہ اس کی ذات سے سلف صالحین کی یاد تازہ ہو جائے ،مگرمولانا مودودی ان کے معیار تقویٰ پر پورے نہیں اترتے تھے۔اس لیے وہ جماعت سے الگ ہو گئے ۔اس معاملے میں انھوں نے امین احسن کو بھی اعتماد میں لیا تھا، مگر وہ ان کی توقع کے برخلاف جماعت ہی میں رہے ۔امین احسن نے انھیں کہا کہ آپ حضرات تقویٰ اور عزیمت کے جس مقام پر ہیں ،آپ کا امیر جماعت کی شخصیت پر اطمینان نہ ہونا سمجھ میں آتا ہے، لیکن میں تو مولانا مودودی سے بھی گیا گزرا ہوں ، میں اس چیز کو جماعت سے علیحدگی کی بنیاد نہیں بنا سکتا ۔ یہ واقعہ امین احسن کے عجز و انکساری کا غماز ہے ۔
جسٹس (ر) محمد افضل چیمہ لکھتے ہیں :
’’فیلڈ مارشل ایوب خان اور مس فاطمہ جناح کے مابین صدارتی انتخاب کے دوران جماعت اسلامی نے حضرت مولانا مودودی کی منظوری سے فیلڈ مارشل کے مقابلہ میں مس فاطمہ جناح کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ اس میں چوہدری محمد علی سابق وزیر اعظم بھی ان کے ہم خیال تھے۔ اس کے برعکس مولانا اصلاحی عورت کی سربراہی کی شرعی ممانعت کے قائل تھے ۔ چوہدری محمد علی نے اپنے متعدد بیانات اور تقاریر میں فیلڈ مارشل پر سخت تنقید کرتے ہوئے مس فاطمہ جناح کی حمایت میں دلائل دیے ، جس سے مولانا اصلاحی کو شدید اختلاف تھا ۔ چنانچہ انھوں نے چوہدری محمد علی کے خلاف سخت تنقیدی بیان دیا جس سے چوہدری صاحب کی تنقیص و تحقیر کا پہلو نمایاں تھا۔ معلوم ہوتا ہے بعد میں حضرت مولانا کو چوہدری صاحب کے جذبات مجروح ہونے کا خیال آیا۔ چنانچہ وہ بہ نفس نفیس چوہدری صاحب کی خدمت میں تشریف لے گئے ، ان سے معذرت بھی کی اور ان کی خدمت میں ’’ تدبر قرآن‘‘ کی پہلی جلد بھی پیش کی۔ اس ملاقات میں احقر کو بھی معیت کا شرف حاصل تھا۔ چوہدری صاحب مرحوم مجھ سے بھی ناراض تھے مگر بکمال شفقت صفائی قلب کا اظہار فرمایا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۸۳)
تفریح ہر انسان کی ضرورت ہے اور ہر انسان کسی نہ کسی ذریعے سے اور کوئی نہ کوئی تفریح حاصل کرتا بھی ہے۔امین احسن کی تفریح کے بارے میں غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’... علم و عمل کے جس مرتبے پر وہ فائز تھے، وہاں کھیل تماشے کا کیا گزر؟ لیکن ملک سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ پاکستان اوربھارت اگر کبھی میدان میں اترتے تو بار بار پوچھتے اور اس وقت تک مطمئن نہ ہوتے، جب تک پاکستان کی فتح کا یقین نہ ہو جاتا۔ غالب، اقبال اور شبلی کے بڑے مداح تھے۔ ان کے اشعار اکثر پڑھتے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ص ۲۸)
لاہور سے ۷/ مئی ۱۹۶۶ء کو جناب محمود احمد لودھی کے نام امین احسن ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’بچو ں کی وجہ سے مصروفیتوں میں بھی کچھ اضا فہ ہوا ہے۔ سعید کی واپسی دسمبر سے پہلے متوقع نہیں ہے۔ آموں کا ذکر کر کے آپ نے سینے پر ایک تیر ما ر ا لیکن اب میں آموں سے دور ہو چکا۔ اب یہ نعمت میرے نصیب میں کہاں !‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۴۱)
لاہور سے ۶/ جون ۱۹۶۶ء کو محمود احمد لودھی صاحب کو خط میں امین احسن مرطوب علاقے کے ساتھ اپنی مناسبت کا ذکر کچھ اس طرح کرتے ہیں :
’’ڈھا کہ دیکھنے کی خواہش تو کبھی کبھی دل میں پیدا ہو تی ہے۔ میں طبعی طور پر اس طر ح کے علا قوں سے بڑی منا سبت رکھتا ہوں جو مر طوب ہیں لیکن اب ہو س سیر و تما شا کا دور ختم ہو چکا ہے۔ اب تو ہر وقت بس فکر یہ ہے کہ چا لیس سا ل کی کا وش سے جو ذخیرہ جمع ہوا ہے اس کا کوئی حامل پیدا ہو کہ یہ ضا ئع ہونے سے بچ جائے اور اس طرز پر فکر کا سلسلہ قائم رہے اب ہما ر ا کیا اعتبار!‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۲۰)
امین احسن تقلید سے بے زارتھے اور دلیل کی بنیاد پر آرا قائم کرتے تھے ،اسی طرح وہ اپنی تحریروں کامخاطب بھی عقل سے کام لینے والوں ہی کو بناتے تھے۔ ۱۶/ستمبر ۱۹۶۴ء کولاہور سے امین احسن سردار محمد اجمل خان لغاری کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’عنایت نا مہ مو صول ہوا ۔ میر ی خواہش ہے کہ آپ میر ی کتا ب پر جو رائے بھی قائم کریں اپنی صو اب دید پر قا ئم کریں ۔ ( کتا ب سے اشارہ تفسیر تدبر قرآن کی طرف ہے جو اس وقت ماہنامہ میثا ق میں شا ئع ہو رہی تھی۔ مدیر) اس سے مجھے اطمینا ن ہو گا ۔ اگردو سر وں کی رائے کی روشنی میں آپ جیسے صا حب علم و فہم نے کوئی رائے بنائی تو اس سے مجھے کو ئی خو شی نہیں ہو گی۔ آپ ان لوگو ں کو زیا دہ اہمیت نہ دیں جن کا طر ز فکر تقلیدی ہے۔ ایسے لو گو ں کی رایوں کا مجھے مطلق انتظار نہیں ہے۔ مجھے صرف ان لو گوں سے بحث ہے جو اپنی عقل سے کام لیتے ہیں ۔ میں نے یہ چیز انہی لو گوں کے لئے لکھی ہے اور میں جو کچھ بھی لکھتا ہو ں ایسے ہی لوگوں کے لئے لکھتا ہوں ۔‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۷)
امین احسن اپنے علمی کاموں میں اس قدر مستغرق رہتے کہ امور دنیا سے آپ سے آپ دور ہوجاتے تھے ۔ صحافی اور کالم نگار جناب ارشاد احمد حقانی نے اس ضمن میں لکھا:
’’... جیسا کہ علم و ادب کی دنیا کے ا کا برین کے سا تھ با لعموم ہو تا ہے ،مو لا نا اصلا حی اپنے میدان میں تو شہسوار تھے اور یکتا ولا جواب تھے، لیکن امورِ دنیا کے سا تھ معا ملے میں ان کا انہماک نہ ہونے کے برابر تھا۔ انھیں کبھی اچھرہ سے شہر جا نا ہو تا تو لا زمی تھا کہ کو ئی کا رکن ان کے سا تھ جائے ، تا نگہ کرائے اور انہیں بٹھا کر واپس آئے ۔ مو لا نا اصلا حی ما شا ء اللہ بہت خوش شکل، خوش ذوق ، خوش اطوار اور خوش کلا م تھے اور ان کی مجلس میں بیٹھنا اور ان کے منہ سے جھڑتے ہوئے الفا ظ کے پھو ل چننا اور دیکھنا ایک بہت بڑی سعا دت کی با ت ہوتی تھی۔‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ص ۳۷)
خط کتابت کے معاملے میں اپنی ایک کم زوری کاذکر کرتے ہوئے لاہور سے ۲۱/اکتوبر ۱۹۶۵ء کو جناب محمود احمد لودھی کے نام ایک خط ہی میں امین احسن لکھتے ہیں :
’’میرے معاملے میں آپ کو یہ قربانی ہمیشہ کرنی پڑے گی کہ آپ کو میری طرف سے جواب پائے بغیر خط لکھتے رہنا پڑے گا۔ میری یہ کم زوری ایک دیرینہ کم زوری ہے کہ میں عزیزوں اور دوستوں سے خط کا ہمیشہ متوقع رہا ہوں اور خود خط لکھنے میں پرلے درجے کا کاہل ہوں ۔‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۹۱)
بعض مذہبی شخصیات اپنے لیے ایسی چیزیں بھی ناجائز قرار دے دیتے ہیں جن کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ امین احسن اس معاملے میں بڑی متوازن جگہ پرکھڑے تھے۔ ۱۶ / ستمبر ۱۹۶۴ء کولاہور سے وہ سردار محمد اجمل خان لغاری کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’رائلٹی کے متعلق اب تک کوئی گفتگو نہیں ہو ئی ہے ۔ ویسے میں نے اس سے پہلے اپنی بعض کتا بو ں کی رائلٹی و صول کی ہے اور وہ کتا بیں دینی و اسلا می ہیں ۔ میر ے خیا ل میں اس کے عدم جوازتو درکنار اس کی کراہت کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے۔ مجھے کسی ایسے قا بل ذکر آدمی کا علم نہیں ہے جس نے اس کو خلاف ِشر ع قرار دیا ہو ۔ یوں میر ی خواہش یہ ہے کہ اگر میرے پاس وسائل و ذرائع مو جو د ہو تے تو میں اس کو خود اپنے اہتما م میں چھپواتا اور خریداروں کو معمولی منافع پر دیتا۔ …میں اس بات کے لئے تیا ر ہوں کہ کوئی صا حب روپیہ دے دیں اور وہ منافع میں شریک ہو جائیں ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۷)
بعض لوگ امین احسن کی کتابوں کا ترجمہ ان کی اجازت کے بغیر ہی شائع کر دیتے تھے، مگر امین احسن اس چیز کا صحیح طریقے سے نوٹس نہیں لیتے تھے،اوراس ظلم کو برداشت کر لیتے تھے۔ لاہور سے ۸/ اپریل ۱۹۷۹ء کو ڈاکٹر عبد اللطیف خان کے نام وہ ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’آپ مو لا نا عبد الحسیب صا حب کو لکھ دیں کہ مو لا نا فرا ہیؒ کی عر بی تصنیفا ت کا تعلق تمام تر دائرۂ حمید یہ سے ہے۔ ان کے متعلق کو ئی فیصلہ کر نے کے مجا ز مولانا بدرالدین صاحب ہیں ۔ رہیں میر ی تا لیفا ت تو دعوت ِدین کے عر بی تر جمہ کی اجا زت میں نے کرامت صاحب کو نہیں دی ہے اگر وہ ترجمہ کرا رہے ہیں تو وہ بطور خود کرا رہے ہیں ۔ میں اپنی کتا بو ں کے معاملے میں شروع ہی سے ایک مظلو م مصنف ہو ں اور اپنی اس مظلو میت پر را ضی ہوں ۔ مولانا عبدالحسیب صاحب کو سلا م لکھ دیجئے اور اپنے ہاں ہم دونوں کی طرف سے سب کو دعاوسلام پہنچائیے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۳۹-۴۰)
امین احسن کے تجزیے اور محاکمے کا اسلوب بڑا سخت، قطعی اور مدلل ہوتا تھا۔’’جائزہ کمیٹی ‘‘ پر الزامات کے جواب میں مولانا مودودی کو جو خط انھوں نے لکھا ہے ، اسے شام کے سفیر نے پڑھا تو اس پر اپنے قلم سے لکھ دیا: ’’مولانا ، آپ نے خط نہیں لکھا ،قاضی کافیصلہ لکھا ہے ۔‘‘جماعت اسلامی پر مولانا منظوراحمد نعمانی کی فرد قرارداد جرم کے جواب میں ، مولانا مودودی کے نظریۂ حکمت عملی کے تجزیے اور عائلی کمیشن کی رپورٹ پر تبصرے میں ان کا یہی انداز تھا (ماہنامہ اشراق، جنوری / فروری ۱۹۹۸ء، ص ۲۳)۔
امین احسن حد سے متجاوز مذہبی عقیدت سے بہت بے زار تھے۔ مدرس قرآن قاضی محمد کفایت اللہ ان کے اس وصف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’... جب میں مو لا نا جعفر شا ہ مر حو م کے توجہ دلا نے پر آپ کے ہاں پہنچا تو علیک سلیک کے بعد آپ نے میر ی آمد کا سبب پو چھا ، میں نے تعزیت اور زیا رت کو اپنی آمد کا سبب بتایا ۔ آپ نے فر مایا : تعزیت کے لیے آنے میں آپ نے بڑی تا خیر کر دی۔ تا ہم دعا ہے کہ اللہ تعا لیٰ آپ کی اس آمد کو قبو ل کر ے ۔ البتہ آپ کا میرے ہا ں زیا رت کے لیے آنا کسی طر ح بھی صحیح نہیں ، کیونکہ نہ تو میں کو ئی مزار ہو ں ، نہ ہی کسی صا حب مزار سے میرا کچھ تعلق ہے ، اور نہ ہی میں اس حوالے سے مجاز بیعت ہوں کہ جس کی لو گ آکر زیا رت کیا کر یں ۔ لہٰذا اس کے علا وہ آپ کی آمد کا کو ئی سبب ہے تو وہ بتا ئیں ورنہ منا سب یہی ہے کہ آپ نہ اپنا وقت ضا ئع کریں اور نہ میرا۔‘‘(ماہنامہ اشراق،جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ص ۵۲)
امین احسن کی تحریر ادبی خوبیوں کی حامل ہوتی تھی۔ان خوبیوں کاذکرکرتے ہوئے ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں :
’’مولانا امین احسن صاحب کی رگ وپے میں علامہ شبلی رحمۃ اللہ علیہ کی صہبائے علم و ادب رقص کر رہی تھی۔ اور وہ ان کے طرز تحریر کو اردو انشاء پردازی کا اعلیٰ ترین نمونہ سمجھتے تھے۔ ان کی تحریروں کی رعنائی ، دل کشی اور دلاآویزی کا یہی سبب ہے۔ لیکن اب ان کی پختگی اور مشاقی سے ان کا اپنا الگ اور جداگانہ رنگ و آہنگ بھی ہو گیا تھا، جس میں سادگی کے باوجود پرکاری ہوتی تھی ۔ طبقۂ علما میں ایسی صاف، شستہ ، سلیس ، شگفتہ اور رواں اردو لکھنے والے کم ملیں گے ۔ ان کو عربی لکھنے پر بھی قدرت تھی ۔ ’’ الضیاء‘‘ (لکھنؤ) میں ان کے بعض عربی مضامین شائع ہوئے ۔
مولانا کی قلمی زندگی کا آغاز صحافت سے ہوا تھااور تصنیفی زندگی کی بسم اللہ کلمہ لا الٰہ الا اللہ کی تشریح سے ہوئی ۔ پہلے ’’حقیقت شرک‘‘ لکھی ۔ پھر ’’حقیقت توحید۔ ‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۱۱-۱۲)
صحافی اور کالم نگار جناب ارشاد احمد حقانی نے لکھا:
’’... مو لا نا اصلا حی کو تحر یر اور تقریر پر ایسی بے پنا ہ قدرت تھی کہ با ید وشا ید ۔مو لا نا مودودی سمیت جماعت میں خطابت کے میدا ن میں کوئی ان کا حریف نہ تھا ۔ مو لا نا کا ذہن انتہا ئی شارپ تھا اور بعض اوقا ت ان کی یہ غیر معمو لی براقی ِ ذہن ان کی تحریر اور تقریر میں بھی نما یا ں ہو کر سامنے آ جا تی تھی۔ مفسرِ قرآن تو ہمارے ہا ں بہت ہو ئے ہیں ، لیکن عر بیِ مبین پر جس قدر قدرت مو لا نا اصلا حی کو حا صل تھی بہت کم لو گ اس میں ان کے مدِ مقا بل ہو نے کا دعویٰ کرسکتے ہیں ۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ص ۳۶)
صحافی اور کالم نگار عطاء الرحمٰن لکھتے ہیں :
’’...مولانا مودودی کی اسلامی فکر میں حد درجہ جامعیت ہے ۔ ان کی انشا میں سلاست اور روانی پائی جاتی ہے۔ ان کا انداز تحریر زیادہ سائنٹیفک ہے ۔ مولانااصلاحی کا امتیاز گہرائی اور گیرائی ہے۔ انھیں قرآنی علوم میں ایک خاص تخصص حاصل ہے ۔ ان کی انشا بہت زوردار ہے ۔مولانا مودودی کی فصاحت کے مقابلے میں اس میں آپ کو زیادہ بلاغت نظر آئے گی۔ مولانا مودودی کھلے میدانوں کے شہسوار ہیں ۔ مولانا اصلاحی باقاعدہ کوہ کنی کر کے عملی پیاس بجھاتے ہیں ۔ وہ اسلام کے احیائی مفکر تھے۔ یہ آیات قرآنی پر تدبر کرنے والے محقق تھے۔ دونوں میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ تقلید و جمود کے اس دور میں اپنی اپنی جگہ اجتہادی صلاحیتیں رکھتے تھے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ص ۴۶)
امین احسن بہرحال ایک انسان تھے ۔تحریر میں ان سے غلطیاں بھی سرزد ہوتی تھیں ۔ان غلطیوں کی وجہ بتاتے ہوئے لاہور سے ۱۶/فروری ۱۹۶۷ء کو محمود احمد لودھی صاحب کے نام ایک خط میں وہ لکھتے ہیں :
’’ آپ نے با لکل صحیح گرفت کی ۔خدا جا نے استہزااڑانا ، کس طر ح قلم سے نکل گیا ۔ معلو م ہوتا ہے ’استہزا‘ اور ’اڑانے‘ میں کچھ فصل تھا اس وجہ سے قلم نے نا گواری محسوس نہیں کی۔میں لکھتے وقت دما غ کو معنی پر مرکوز کر کے الفا ظ کے معا ملے کو یکسر قلم پر چھوڑدیتا ہوں ۔ ادیبوں کی طر ح الفاظ پر دھیا ن نہیں دیتا ۔ اس سے بعض مر تبہ عجیب عجیب، بچوں کی سی غلطیاں کر جا تا ہوں ۔ آپ لوگ ان چیزوں پر نگا ہ رکھیں ۔ میں ادیب تو مشہور ہو نا نہیں چا ہتا لیکن بے ادب کہلا نا بھی پسند نہیں کر تا ۔ اس وجہ سے میر ی تحر یروں کی اصلا ح کر نے کا آپ لوگوں کو نہ صرف حق ہے بلکہ اسے میر ی خا طر فر ض بھی سمجھئے۔‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۱۱)
اس میں شبہ نہیں کہ ہمارے ہاں لوگ دوسروں پر تنقید کرنے میں بہت جلد باز واقع ہوئے ہیں ۔وہ دوسرے کی تحریر یا نقطۂ نظر کو سمجھنے میں مناسب وقت صرف نہیں کرتے اور فوراًتنقیدی قلم اٹھا لیتے ہیں ۔ لاہور رحمان آبادسے ۲۸ ؍ مئی ۱۹۷۹ء کو ملک عبدالرشید عراقی کے نام امین احسن لکھتے ہیں :
’’اس کتا ب سے متعلق مجھے کسی کی تقر یظ یا تنقید کا انتظار نہیں ہے ۔ جن لو گو ں کی رائے پر مجھے اطمینا ن ہے ان کی رائیں مجھے مو صو ل ہوچکی ہیں اور وہ کا فی ہیں ۔ مجھے جو کچھ لکھنا تھا میں نے لکھ دیا اب لو گ جو چاہیں خامہ فرسا ئی کر تے رہیں ۔ بہتر تو یہ تھا کہ لو گ اس کتا ب کو سمجھنے کی کو شش کر تے لیکن اس کو رذوقی کے دور میں سمجھنے سے زیا دہ لکھنے کا شوق ہے ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۱۶)
دانا لوگ یہ تو سمجھاتے ہیں کہ کم بولنا چاہیے۔قلت کلام سے کام لینا چاہیے، مگر اس جانب بہت کم لوگوں کی توجہ جاتی ہے کہ کم لکھنا بھی چاہیے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض لوگوں کی سینکڑوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور وہ بڑے فخر کے ساتھ ان کا ذکر بھی کرتے ہیں ۔تفسیرقرآن اور گنتی کی چند کتب کے مصنف امین احسن شیخ سلطان احمد صاحب کو ان کے ایک خط کے جواب میں لکھتے ہیں :
’’اس معاملے میں آپ حضرات کا زیادہ حساس ہونا میری سمجھ میں نہیں آیا۔ اگر یہ چیز آدمی کے لیے فتنہ ہے تو ہم گناہ گار تو اس فتنہ میں اس طرح مبتلا ہیں کہ اس سے نجات کی کوئی شکل باقی ہی نہیں رہی ہے ۔ چاہیں یا نہ چاہیں لیکن چھپنے چھپانے سے اپنے کو بچانا ناممکن ہے ۔ میرے نزدیک تو بولنا اور لکھنا دونوں یکساں ہے ۔ جس طرح بے ضرورت بولناگناہ ہے اسی طرح بے ضرورت لکھنا اور چھاپنا بھی گناہ ہے ۔ اور اسی اصول پر جس طرح ضرورت پر نہ بولنا گناہ ہے اسی طرح ضرورت پر نہ لکھنا بھی گناہ ہے ۔ میرے نزدیک یہ نقطۂ نظر زیادہ صحیح ہے۔ اور آپ حضرات کی شدت احتیاط میں صوفیانہ تقشف کی جھلک ہے جو بجائے خود ایک فتنہ ہے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۳۷)
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ