[جناب جاوید احمد غامدی کی گفتگو سے اخذ و استفادہ پر مبنی زیر طبع کتاب ’’روزہ اور تربیت نفس‘‘ سے انتخاب]
سوال: ماہ رمضان میں عوام کو سہولتوں کی فراہمی کےلیے مسلمان حکمرانوں کی ذمہ داری کیا ہے؟
جواب: سہولتوں کے لیے وہی کام کرنے چاہییں جو آدمی اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔ لوگوں کے لیے مہنگائی مسئلہ بن رہی ہے اور حکمران ان کی مدد کر سکتے ہیں تو ضرور کرنی چاہیے۔ اگر وہ لوگوں کے لیے کچھ چیزیں سستی کرا سکتے ہیں تو انھیں یہ اپنی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرنی چاہیے۔ جس طرح ہم مغربی ملکوں میں دیکھتے ہیں، اسی طرح عام لوگوں کو بھی یہ روایت قائم کرنی چاہیے کہ وہ اپنے کاروبار میں اس اخلاقیات کا خیال رکھیں گے کہ ایک تہوار آ گیا ہے، اس میں لوگ زیادہ خرچ کرتے ہیں تو ان کے لیے سہولت پیدا کی جائے۔ روزہ رکھنے میں اوقات سے متعلق بھی عام طور پر مسلمان حکومتیں ایسی تبدیلیاں کر دیتی ہیں جس میں لوگوں کے لیے سہولت پیدا ہو جاتی ہے، اس لیے یہ سہولت ضرور پیدا کرنی چاہیے۔
عبادات کے بارے میں ایک مسلمان حکمران یا مسلمانوں کی حکومت جو سہولتیں بھی لوگوں کے لیے بہم پہنچا سکتی ہے، اس میں کوئی مانع نہیں ہے۔ معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ سہولتیں بہم پہنچائے۔ سہولت یہ نہیں ہے کہ مثال کے طور پر ہمارے ہاں لوگوں کے ٹیکس کے روپے سے لوگوں کو حج کرانا شروع کر دیا جاتا ہے؛ سہولت پہنچانا بالکل الگ چیز ہے، مثلاً ایک آدمی حج کرنا چاہتا ہے، اس نے اپنے لیے اسباب فراہم کر لیے ہیں، اب آپ اسے بہتر سے بہتر طریقے سے کیسے وہاں پہنچائیں گے، اس میں کیا رعایتیں دے سکتے ہیں، ان کا لحاظ کرنا چاہیے۔ چنانچہ سہولت فراہم کرنا تو حکمرانوں کا کام ہے۔ دینی و دنیوی، ہر معاملے میں حکومت اسی لیے قائم کی جاتی ہے کہ امن فراہم کرے اور لوگوں کے لیے سہولتیں پیدا کرے۔[1]
______
سوال: کیا آنکھ، کان اور ناک میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب: کھانے پینے کی جگہ ہمارا منہ ہے۔ لہٰذا کسی چیز کو بھی اس کے ذریعے سے ہمارے اندر نہیں جانا چاہیے۔ روزے کی حالت میں دوسری چیز جنسی روابط ہیں۔ بس یہی روزہ ہے۔ اس کے علاوہ آنکھوں، کانوں میں دوا ڈالی ہے، کسی مرض میں انجیکشن لگوایا ہے، اس سے روزے کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ روزے کو اسی وقت کوئی نقصان پہنچتا ہے جب کچھ کھایا پیا یا ازدواجی تعلق قائم کیا ہو۔
یہ کہنا کہ اگر دوائی کا حلق میں ذائقہ محسوس ہو تو یہ درست نہیں ہے، یہ محض منطق ہے۔ یہ عبادت ہے اور عبادت میں جو اللہ تعالیٰ نے پابندی لگا دی ہے، بس اسی تک محدود رہیے۔ اس میں اس طرح کے تکشفات میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ دین کے مزاج کے خلاف ہے۔ ایک سادہ بات کہی گئی ہے اور سادہ بات پر رہتے ہوئے روزہ رکھیے۔ [2]
______
سوال: کیا روزے کی وجہ سے دفتری کام ٹھیک سے انجام نہ دینا گناہ ہے؟
جواب:اس کے دو پہلو ہیں:
ایک پہلو کا تعلق فرد سے ہے۔ اگر کوئی شخص ملازمت کرتا ہے تو اسے اس کا حق ادا کرنا چاہیے۔ اگر وہ روزے سے ہے تو اسے زیادہ مشقت اٹھا کر لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا چاہیے۔ جب اس نے معاہدہ کیا ہوا ہے کہ اسے دفتری اوقات میں حاضر ہونا ہے، لوگوں کی خدمت کرنی ہے یا اس کے اوپر ذمہ داریاں ہیں تو اسے ان کو بدرجۂ اتم پورا کرنا چاہیے۔ رمضان تو اسی تربیت اور تلقین کے لیے آیا ہے کہ اسے اپنے عہد وفا کرنے ہیں اور اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں۔ تقویٰ اسی چیز کو کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے کسی فرد کے لیے تو کسی رخصت کا سوال ہی نہیں۔
دوسرے پہلو کا تعلق معاشرے سے ہے۔ اگر مسلمانوں کا معاشرہ ہے اور ان کے معاشرے میں اگر ریاست کا نظم لوگوں کے لیے سہولت بہم پہنچاتا ہے؛ اوقات کم کر دیے جاتے ہیں یا ان میں کوئی تبدیلی کر دی جاتی ہے یا ذمہ داریوں کو ہلکا کر دیا جاتا ہےتو یہ عین مطلوب ہے اور اسے ضرور کرنا چاہیے تاکہ لوگ عبادت کر سکیں، یعنی عبادت کی سہولت بہم پہنچانا ذمہ دار اداروں کا کام بھی ہے اور مسلمان معاشرے میں قائم ہونے والی حکومت کا کام بھی ہے، لیکن اگر کسی جگہ یہ سہولت نہیں دی جارہی ، آپ ذمہ داری میں اسی طرح شریک ہیں، جس طرح دوسرے شریک ہیں، آپ کسی غیر ملک میں ہیں، ایسی جگہ پر ہیں جہاں حکومت یا ادارے اس طرح کی رعایت نہیں دیتے تو پھر آپ کو بہرحال زائد مشقت اٹھا کر اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔
اللہ کے ہاں یہ چیز عذر نہیں بنے گی کہ آپ اس موقع پر لوگوں کے سامنے یہ کہہ کر سرخرو ہو جائیں کہ میرا روزہ تھا، اس وجہ سے میں نے کسی کا کام نہیں کیا یا میں نے یہ ذمہ داری نہیں اٹھائی یا میں اٹھ کر گھر چلا گیا یا میں اپنے دفتر ہی میں لیٹا رہا۔ یہ آپ کو حق نہیں ہے کہ ایسا کریں۔[3]
______
سوال: کیا مشکل حالات میں روزہ نہ رکھنے کی رخصت شرعی حکم ہے؟
جواب: یہ رخصت تو خود اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کہا کہ سفر میں تمھیں روزہ ہی رکھنا چاہیے یا بیماری میں اپنے آپ کو بے شک، موت کے حوالے کر دو، مگر تمھیں روزہ ہی رکھنا چاہیے یا بیماری اور روزے کی مشقت اٹھاؤ۔ یہ اجازت اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک موقع پر فرمایا کہ:
لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصِّيَامُ فِى السَّفَرِ. (ابوداؤد، رقم۲۴۰۹)
’’سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں ہے۔‘‘
یعنی کوئی آدمی اگر سفر میں روزہ رکھتا ہے تو یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت سے فائدہ اٹھانے کے لیے ترغیب دی ہے ۔ ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ سفر کی مشقت کی وجہ سے روزہ بھی رکھے ہوئے ہے اور اس طرح کی صورت حال سے بھی دوچار ہے جو اس کے لیے موزوں نہیں تھی تو یہ نصیحت فرمائی کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے (ابوداؤد، رقم۲۴۰۹) ۔ اللہ نے اگر کوئی رخصت دی ہے تو اسے اللہ کا صدقہ سمجھنا چاہیے۔ ایک موقع پر سیدنا عمر کے سوال کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ توجہ دلائی کہ اللہ کی رخصتوں کو حقیر سمجھنا درست نہیں ہے۔ اللہ اپنے بندوں کے حالات سے واقف ہے۔ یہ رخصت غیر محتاط مشقت میں دی جاتی ہے۔ عام حالات میں، ظاہر ہے کہ آپ کوئی عبادت کریں گے، پڑھیں گے، کاروبار کریں گے، ہر جگہ مشقت ہوتی ہے، لیکن یہ وہ مشقت ہے جو انسان اٹھانے کا عادی ہوتا ہے؛ مشقت جب اس درجے میں داخل ہوتی ہے کہ جس کا تحمل مشکل ہوتا ہے تو وہاں غیر محتاط مشقت کے معاملے میں اللہ نے عبادات میں رخصت دی ہے اور اس کو بیان فرمایا ہے کہ اللہ اپنی عبادات کے معاملے میں تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے اور وہ یہ نہیں چاہتا کہ تم پر سختی کرے(البقرہ۲: ۱۸۵)۔
اللہ تعالیٰ تمھارے ساتھ سہولت کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔چنانچہ یہ اللہ کی دی ہوئی رخصت ہے۔ یہ رخصت ان معاملات میں دی گئی ہے جن میں غیرمحتاط مشقت پیدا ہو جاتی ہے، اور یہ غیر محتاط مشقت کہاں پیدا ہوئی اور کہاں نہیں ہوئی، اس کا فیصلہ ہر انسان نے کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر میں سفر میں روزہ چھوڑوں گا تو میں ہی فیصلہ کروں گا کہ سفر کی نوعیت ایسی ہے کہ مجھے روزہ چھوڑ دینا چاہیے، اللہ نے تو رخصت دے دی۔ بیماری میں بھی یہی معاملہ ہے، یعنی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کو معمولی سا سر درد ہو رہا ہو، لیکن وہ خیال کرے کہ اگر میں چائے چھوڑ دوں تو مجھے سر درد ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
اس طرح کی بہت سی چیزیں ہیں جن کے بارے میں ایک شخص فیصلہ کرتا ہے کہ کیا فی الواقع میرے ساتھ وہ معاملہ ہو گیا ہے کہ جس میں میں مرض کی اس کیفیت میں روزہ نہیں رکھ سکتا۔ اس فیصلے میں بعض اوقات غلطی بھی ہو جاتی ہے، لیکن جو اصول ہے، وہ تو اللہ تعالیٰ نے بیان کر دیا، رخصت خود دے دی، اس کی وجہ خود بیان فرما دی، اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصویب کر دی اور ان رخصتوں کو اپنا صدقہ قرار دیا، اس لیے ان کے بارے میں یہ رویہ درست نہیں ہے کہ انھیں ترک کر کے خود کو مشقت میں ڈالا جائے۔[4]
______
سوال: کیا سحری کھائے بغیر روزہ رکھا جا سکتا ہے؟
جواب: سحری کھائے بغیر روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ سحری کھانا ضروری نہیں ہے، مگر سحری کھانے میں بڑی برکت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے:
تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً. (بخاری، رقم ۱۹۲۳)
’’سحری کیا کرو، اس لیے کہ سحری کرنے میں بڑی برکت ہے۔‘‘
اسی سے رمضان کا حسن آپ کے شب و روز میں پیدا ہوتا ہے۔ آپ ایک خاص وقت میں اٹھتے ہیں اور یہ وقت بھی بہت غیرمعمولی ہے۔ یہ وقت اصل میں تہجد کا وقت ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ بھی آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے صدا آتی ہے کہ میرا کون سا بندہ ہے جو اس وقت اٹھے اور میری عبادت کرے اور میرے سامنے بندگی کے آداب بجا لائے، میں اس وقت اس کو دینے کے لیے آیا ہوں، لہٰذا یہ بہت غیرمعمولی وقت ہے۔ رمضان میں بھی لوگ اسے سو کر گزار دیں تو پھر رمضان کا مقصد کیا ہے۔
چنانچہ سحری کے لیے اہتمام کے ساتھ اٹھنا چاہیے اور سحری کرنی چاہیے، تاہم اگر کوئی شخص سحری نہیں کررہا تو روزہ ہو جائے گا۔ روزے کا مطلب یہ ہے کہ آپ فجر سے لے کر رات کے شروع ہونے تک، یعنی غروب آفتاب تک کچھ کھائیں پئیں گے نہیں اور بیوی کے ساتھ کوئی جنسی تعلق قائم نہیں کریں گے۔[5]
______
سوال: کیا چھوٹے بچوں کو روزہ رکھوانا ٹھیک ہے؟
جواب: بچوں کو تعلیم دینے کے لیے کہ وہ روزے کی اہمیت کو سمجھیں، انھیں عادی بنانے اور شوق دلانے کے لیے روزہ رکھوانے میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ یہ بالکل درست ہے کہ اگر بچے کی صحت اور حالت وغیرہ دیکھ کر یا اچھے ڈاکٹر یا طبیب سے بھی مشورہ کر لیا جائے کہ کس عمر میں روزہ رکھوانا چاہیے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ طبی لحاظ سے جو موزوں عمر ہو کہ جس میں بچے کو کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو، آپ اسےروزہ رکھوا سکتے ہیں۔ یہ سب چیزیں فرض ہونے سے پہلے اس لیے کی جاتی ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو اپنی معنوی میراث منتقل کرنا چاہتے ہیں؛ اپنا دین، اپنی روایات اور اپنی تہذیب سکھانا چاہتے ہیں۔
لہٰذا بچوں کے لیے تو ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ پہلے تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں۔ یہ تعلیم و تربیت کا روزہ ہے، فرض روزہ نہیں ہے۔[6]
______
سوال: گھر والوں یا معاشرے کے دباؤ میں رکھے گئے روزے کی حیثیت کیا ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ کے ہاں تو عبادات اسی وقت قابل قبول ہیں جب ان کے پیچھے تقویٰ ہوتا ہے۔ قربانی پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ. (الحج۲۲: ۳۷)
’’اللہ کو نہ اِن کا گوشت پہنچتا ہے نہ اِن کا خون، بلکہ اُس کو صرف تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘
یعنی آپ کے اندر تقویٰ ، نیت، ارادہ تھا اور آپ نے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے عبادت کی ہے تو اللہ کے ہاں اسی کا اجر ہے۔ گھر والوں یا معاشرے کے دباؤ میں جو لوگ روزہ رکھتے ہیں، آپ کہہ سکتے ہیں کہ کسی نہ کسی حد تک ان میں اس کے لیے رجحان پیدا ہو گا۔ دعوت کے لحاظ سے آپ نے کسی آدمی کو کہا کہ ذرا روزہ رکھ کر تو دیکھو۔ کوئی آدمی روزے سے ڈرا ہوا تھا کہ جب میں کھاؤں پیوں گا نہیں تو پتا نہیں کیا ہو جائے گا، تو آپ نے اسے مشق کے لیے روزہ رکھنے کے لیے کہہ دیا تو یہ آپ کے حوالے سے تو ایک معقول بات ہو سکتی ہے، مگر اجر اسی عمل کا ملے گا جو اللہ کے لیے کیا جائے گا۔[7]
______
سوال: اعتکاف کیا ہے اور اس کے آداب کیا ہیں؟
جواب: اعتکاف کوئی الگ عبادت نہیں ہے، یہ روزے ہی کا منتہاے کمال ہے۔ قرآن مجید میں روزے کے احکام ہی کی ذیل میں اعتکاف کا ذکر ہوا ہے۔ روزے میں کچھ جائز چیزوں ، یعنی کھانے پینے اور بیوی کے ساتھ جنسی تعلق پر پابندیاں عائد ہوتی ہیں ، اعتکاف میں قانونی پہلو سے مزید دو پابندیاں عائد ہوتی ہیں: ایک یہ کہ رات کو بھی بیوی سے قربت نہیں کریں گے اور دوسرے یہ کہ مسجد میں رہیں گے۔ اعتکاف یہ ہے کہ آپ گھر سے اس کی نیت سےنکلیں، یہ فیصلہ کریں کہ کچھ وقت مسجد میں گزاریں گے اور اس سے باہر نہیں نکلیں گے، سواے کسی ناگزیر ضرورت کے اور مسجد میں رہ کر آپ روزہ رکھیں گے۔ روزہ رکھنا فرض عبادت ہے، مگر اعتکاف ایک نفل عبادت ہے۔
روزے کو اس کے منتہاے کمال پر اختیار کرنا نفل اور تطوع ہے۔ قرآن مجید کی آیت ’وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ فِي الْمَسٰجِدِ ‘ (جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو)میں لفظ ’اعتکاف‘ پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ مسجد میں گوشہ نشین ہوکر بیٹھ گئے تو گوشہ نشینی برائے گوشہ نشینی تو نہیں ہو سکتی، اس کے کچھ باطنی، فکری اور ظاہری مقاصد ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ اپنے آپ پر غور کریں، اپنے دین کی حقیقت کو سمجھیں اور اپنے پروردگار کے ساتھ اپنے تعلق پر غور کریں۔ یہ غور و فکر عبادت ہے۔ اب اس کا ایک ظاہری پہلو یہ ہے کہ آپ کو یہ موقع ملا ہے کہ آپ اس عرصے کے دوران میں زیادہ سے زیادہ نفل عبادت کر سکیں اور اللہ کی کتاب قرآن مجید کو سمجھ کر اور غوروفکر کےساتھ پڑھیں۔
اگر آپ دین کے فہم کے لیے کچھ چیزیں مزید پڑھنا چاہتے ہیں تو وہ پڑھ لیں۔ جو معروف اورمتعین عبادات ہیں، ان میں بنیادی چیزیں زیادہ اشتغال اور انہماک کے ساتھ مصروف رہنا اور اللہ کی کتاب اور اس کے دین کے فہم میں اضافہ کرنا ہونی چاہییں۔
وہ چیزیں جو اعتکاف کی حالت میں اس کی روح کے خلاف ہیں، مثلاً کاروباری گفتگو، مجلسیں لگانا، میلے یا تقریب کی صورت پیدا کر دینا، جیساکہ ہمارے ہاں ایک اجتماعی اعتکاف کا تصور پیدا ہو گیا ہے، ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس میں اصل مقصود یہ ہے کہ آپ مسجد میں بیٹھے ہوئے الگ ہوں اور مسجد کو اپنا مسکن بنا کر کچھ وقت گزاریں۔ آپ چند گھنٹوں کے لیے ، دن بھر کے لیے یا تین دن کے لیے بیٹھیں، یہ آپ پر منحصر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس دن کے لیے بیٹھا کرتے تھے تو گویا یہ آپ کا اسوۂ حسنہ ہے، جسے لازم نہیں کیا گیا۔ یہ لازم نہیں کہ آپ دس دن کے لیے ہی بیٹھیں گے تو آپ کا اعتکاف ہو گا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح تہجد اہتمام کے ساتھ پڑھتے تھے، اسی طرح آپ اعتکاف بھی بہت التزام کے ساتھ کرتے تھے، یعنی ہمیشہ کرتے تھے، بلکہ ایک سال جب آپ کسی سفر یا اس طرح کی صورت حال کی وجہ سے اعتکاف نہیں کر سکے تو پھر اگلے سال آپ نے بیس دن اعتکاف کیا(ابوداؤد، رقم ۲۴۶۳)۔
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اعتکاف دس دن کا ہے، ورنہ آپ کو جتنا موقع ملے، اتنا اعتکاف کر سکتے ہیں۔[8]
______
سوال: شبِ قدر کو متعین نہ کرنے میں کیا حکمت ہے؟
جواب: جب کوئی چیز متعین کر دی جاتی ہے تو ساری توجہ اسی پر مرتکز ہو جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو متعین نہیں کیا۔ اس میں ذرا سا غور کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ بندے میں عبادت کا شوق اور اس کی تلاش کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے۔ اسے متعین نہ کرنے کی وجہ سے آپ آخری عشرے کی دس کی دس راتوں میں اور طاق راتوں میں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو گا اور اس کی عبادت کا ایک داعیہ پیدا ہو گا، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ہوا۔ ان دونوں چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے ملا دیا ہے، یعنی اطلاع بھی دے دی ہےاور اس اطلاع کو متعین بھی نہیں کیا ، جس کے نتیجے میں لوگوں کے اندر پورے رمضان میں عبادات کے داعیات پیدا ہو جائیں گےتاکہ زیادہ سے زیادہ ان کے لیے مغفرت اور رحمت کے مواقع ہوں۔
اس طریقے سے آپ ایک ہی رات میں سارا اہتمام خاص کر دیتے ہیں، اس لیے کہ ہم تعین سے نہیں جانتے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ پورے رمضان میں ہو اور ہو سکتا ہے کہ آخری عشرے میں ہو؛ آخری عشرے میں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ یہ لازماً اس میں آئی تھی، بلکہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ زیادہ امکان یہ ہے کہ اس میں ہو۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد آ گیا ہے کہ غالباً آخری عشرہ تھا تو اسی پر ارتکاز ہو گیا۔ ا س میں بھی یہ متعین نہیں کیا گیا کہ کون سی رات تھی؛ شاید طاق راتوں میں سے تھی۔ اس طریقے سے پانچ سات راتیں ایسی آ جاتی ہیں جن میں آپ عبادت بھی کرتے ہیں، اللہ کی طرف رجوع بھی کرتے ہیں اور مغفرت بھی چاہتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو متعین نہ کرنے میں یہ بڑی حکمت ہے۔
اس رات کو اگر متعین کر دیا جاتا تو اس سےمزید بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے کہ یہاں پاکستان میں کب آئے گی اور عرب میں کب آئے گی، اس وجہ سے اس کو متعین ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔ یہ بالکل فطرت پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ آپ کو اس کی اطلاع دے دی گئی ہے ، لہٰذا ایک بندۂ مومن ہونے کی حیثیت سے آپ کا رد عمل کیا ہونا چاہیے؟ اس کا ظہور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ردعمل سے ہو گیا۔
اب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے اسوہ کو سامنے رکھ کر عبادت بھی کرتے ہیں، اسے تلاش بھی کرتے ہیں اور یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے زیادہ سے زیادہ قریب بھی ہوں۔[9]
______
سوال: صدقۂ فطر کیا ہے اور کیا اسے عید سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے؟
جواب: صدقۂ فطر اسی طرح لازم ہے، جس طرح روزے رکھنا لازم ہے۔ یہ مال کی زکوٰۃ ہے جو آپ دیتے ہیں، اس وجہ سے ہمارے ہاں جو قدیم اصطلاح ہے، وہ ’زکوٰۃ الفطر‘ ہے، گویا یہ روزے کی زکوٰۃ ہے۔ سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ روزے کے اندر کوتاہیاں بھی ہو جاتی ہیں، اس میں نشیب و فراز آجاتے ہیں، طبیعت و کیفیات میں فرق ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے گویا اس کے لیے ایک زکوٰۃ مقرر کر دی ہے۔
اس کو ’صدقۂ فطر‘ کہا جاتا ہے اور یہ لازم ہے۔ عام حالات میں ہم جو زکوٰۃ دیتے ہیں، اس کا تعلق آمدنی یا مال یا پیداوار سے ہے، صدقۂ فطر کا تعلق افراد سے ہے، یعنی یہ تو بچہ بھی ہو گا تو اس پر عائد ہو جائے گا۔ عید کے تہوار پر یہ آپ کے لیے پاکیزگی اور دوسروں کے لیے مدد کا ذریعہ ہے۔ یہ عید کی نماز سے پہلے ادا کرنا چاہیے۔[10]
______
سوال: ماہ رمضان کے روزوں کے بعد عید الفطر کا مقصد کیا ہے؟
جواب: اس کے نام ’عید الفطر‘ ہی سے اس کا مقصد واضح ہے، یعنی بندے کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ وہ اس کی اطاعت کا مظاہر ہ کرے اور اطاعت کا مظاہرہ اس درجے میں جا کر کرے کہ جب ساری جبلتیں زور کر رہی ہوں، اس وقت بھی وہ اللہ کے حکم پر اپنے منہ اور جبلتوں پر تالا لگا کر رکھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس عبادت کو قبول فرمایا، یہ پایۂ تکمیل کو پہنچ گئی اور مہینا پورا ہو گیا تو اب ایک تہوار مقرر کر دیا گیا تاکہ بندے اللہ کا شکر ادا کریں۔ چنانچہ قرآن مجید نے خود یہ بیان کر دیا ہے کہ یہ تہوار کیوں مقرر کیا گیا ہے:
لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا هَدٰىكُمْ. (الحج۲۲: ۳۷)
’’ تاکہ اللہ نے جو ہدایت تمھیں بخشی ہے، اُس پر تم اللہ کی بڑائی بیان کرو۔‘‘
یعنی قرآن جیسی کتاب دے دی، روزوں جیسی عبادت لازم کر دی اور اس سے گزرنے کی توفیق دی تو یہ ساری چیزیں شکرگزاری کا تقاضا کرتی ہیں کہ اللہ کی کبریائی بیان کی جائے اور اس کی تکبیر بلند کی جائے۔[11]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] ۔ https://ghamidi.com/videos/what-is-the-responsibility-of-a-muslim-ruler-in-order-to-facilitate-the-people-in-the-month-of-ramadan-6332
[2] ۔ https://ghamidi.com/videos/instilling-medication-into-eyes-ears-or-nose-and-fasting-3020
[3]-https://ghamidi.com/videos/is-it-deemed-sinful-for-someone-who-is-fasting-to-not-fulfill-his-duties-adequately-1915
[4]-https://ghamidi.com/videos/is-it-a-shariah-ruling-to-not-fast-in-difficult-situations-6325
[5]-https://ghamidi.com/videos/can-a-fast-be-observed-without-eating-at-sehri-3021
[6]-https://ghamidi.com/videos/is-it-okay-to-let-young-children-fast-6331
[7]-https://ghamidi.com/videos/what-is-the-status-of-fasts-kept-due-to-pressure-from-others-1919
[8]-https://ghamidi.com/videos/what-is-itikaaf-what-are-its-etiquettes-3000
[9]-https://ghamidi.com/videos/the-wisdom-behind-not-revealing-the-precise-date-of-night-of-destiny-lailatul-qadr-1962
[10]-https://ghamidi.com/videos/is-it-mandatory-to-pay-fitrana-before-eid-ul-fitr-2425
[11]-https://ghamidi.com/videos/ramadhan-spring-season-of-performing-good-deeds-3046