HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

کھیتی

معاذ بن نور

کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ ایک بچہ ہر چیز فوراً چاہتا ہے، جب کہ ایک بالغ صبر سے کام لیتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ کچھ وقت لگتا ہے؟ زندگی فوری تسکین کا نام نہیں ہے۔ جیسے ایک ذہین اور محنتی کسان آج بیج بوتا ہے اور صبر سے کل کے اچھے پھل کی توقع کرتا ہے، ہمیں بھی آج محنت کرنی ہے تاکہ کل بہتر نتائج حاصل کرسکیں۔ یہی زندگی کا وظیفہ ہے، جو دنیا اور آخرت میں کامیابی کا باعث بنتا ہے۔ جیسے جیسے ہم بالغ ہوتے ہیں، ہم اس قانون قدرت کو دریافت کر لیتے ہیں کہ آج کی قربانیوں کا صلہ کل ملتا ہے، اور یہی پایدار کامیابی کی راہ ہے۔ قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے:

’’اے ایمان والو، اللہ سے ڈرو۔ اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے۔‘‘ (الحشر  ۵۹: ۱۸)

آپ بھی اپنے آپ سے پوچھیں کہ میں نے اپنے خالق، اپنے آپ، اپنے والدین، بیوی، بچوں اور بہن بھائیوں کے ساتھ اچھے تعلق کے لیے آج کیا قربان کیا ہے؟ کیا آپ ان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بیج کی طرح سمجھتے ہیں؟ آپ ان سے فوراً صلے کی توقع کرتے ہیں یا آپ ان کے ساتھ تعلق کو صبر کے ساتھ ایک کامیاب کسان کی طرح پروان چڑھاتے ہیں؟

دوسری بات یہ ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ایک اچھے کسان کا ارادہ، عمل اور متوقع نتیجہ حقائق کی روشنی میں باہم مربوط ہوتے ہیں، جس کی بنیاد پر وہ اپنی محنت پر ایک حد تک اعتماد رکھتا ہے۔ بالکل اسی طرح ہمارے رشتوں سے متعلق معاملات میں ہمارے ذہنوں میں پیدا ہونے والے ارادوں، عمل اور متوقع نتائج کا حقائق کی بنیاد پر مربوط ہونا اور ان کے بارآور ہونے پر ہمارا ایک حدتک اعتماد ہونا تعلقات کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے۔

جب ارادے، عمل اور متوقع نتائج محض جبلی خواہشات نہیں، بلکہ سچائی کے مطابق ہوں تو وہ باہم مربوط ہوکر ایک سیدھی راہ تشکیل دیتے ہیں۔ ہم اپنی زندگیوں میں اس ہم آہنگی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں قلب و ذہن کا ارتکاز حاصل ہوتا ہے، نتائج درست ہوتے ہیں اور اپنی محنت کے درست ہونے پر ہمارا اعتماد مزید بڑھتا ہے۔ اس سیدھی راہ کی موجودگی میں جب شیطان خواہشات اور جذبات کو بھڑکاتا ہے تو ایک مومن فوراً ان انحرافات کو پہچان کر ان کو درست کرتا ہے، جس سے اس کے عمل میں اعتماد بحال ہوتا ہے۔ سچائی سے انسان کے ارادوں، افعال اور متوقع نتائج کا یہ تعلق نہ ہو تو انسان کے لیے اپنی محنت پر یہ بنیادی اعتماد حاصل کرنا بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔

 شیطان انسان کی جبلتوں اور جذبات کو انگیخت کر کے مسلسل کوشش میں رہتا ہے کہ انسان کے ارادے، افعال اور متوقع نتائج باہم متناقض ہوں اور سچائی سے ہٹ جائیں، جب کہ اللہ چاہتا ہے کہ یہ سچائی اور انصاف کے مطابق ہوں۔ اسی لیے اللہ نے ہمیں سننے، دیکھنے کی صلاحیت اور عقل دی تاکہ ہم صحیح اور غلط میں تمیز کر سکیں اور اپنے ارادوں کو نیک اور سچا بنا کر درست افعال سے اور درست افعال کو حقیقت پسندی پر مبنی متوقع نتائج سے جوڑ سکیں:

  ’’اور اس نے تمھیں سننے، دیکھنے اور (سمجھنے کے لیے) عقل دی (مگر تم اپنے ہواے نفس کی پیروی کرنے لگے)؛ تم کم شکر گزار ہو۔‘‘ (السجدہ ۳۲: ۹)

یہی وجہ ہے کہ ہم اکثر اس وقت رشتوں اور تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے اپنی محنت پر اعتماد کھو بیٹھتے ہیں جب ہم اچھی نیت اور محنت کے ساتھ بوائی کا کام کیے بغیر ہی شیطان کی اکساہٹ پر (کہ تو نے اب بہت کرلیا) کٹائی کی توقع کر لیتے ہیں۔ چنانچہ سچائی کی راہ کو چھوڑ کر صرف جذبات اور خواہشات کی پیروی کرنے لگتے ہیں۔

تیسری بات یہ ذہن نشین رہے کہ تعلقات میں اختلافات آتے ہیں، جیسے ایک اچھا کسان فصل کو لاحق خطرات سے عقل کو بھرپور استعمال میں لاتے ہوے صبر و استقامت اور توکل علی اللہ کے ساتھ نبرد آزماہوتا ہے، لیکن ہم ایک ذہین کسان کی طرح رشتوں اور تعلقات میں پیدا ہونے والے مسائل پر غور کرنے کے بجاے شیطان کے بہکاوے میں آ کر اپنے جذبات کو قابو میں نہیں رکھتے، پھٹ پڑتے اور اناؤں کی جکڑبندیوں کے غلام بن کر انمول رشتوں اور تعلقات کو کھو بیٹھتے ہیں۔

 شیطان کے اس پھندے سے بچنے کے لیے آپ ہمیشہ یہ سوال اپنے آپ سے کرتے رہیں کہ کیا آپ کٹھن سے کٹھن ترین حالات میں بھی دوسروں کی تنقید کو عاجزی سے سن رہے ہیں؟ یہ مانتے ہوئے کہ بدترین انسان کی بات میں بھی میرے لیے حقیقت اور بہتری کا کوئی پہلو ہو سکتا ہے۔ چنانچہ جب ہم اس بنیاد پر تنقید کو رد کر دیتے ہیں کہ اس شخص سے مجھے کسی خیر کی توقع نہیں تو یہ تکبر ہے، ہم شیطان کے نزغ میں مبتلا ہو کر غرور اور فریب میں پڑ جاتے ہیں اور تعلقات میں بہتری کا دروازہ اپنے ہی ہاتھوں سے بند کر دیتے ہیں۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمیں بغض کے بجاے دھیان سے اور تکبر کے بجاے عاجزی سے بات کو سننا چاہیے:

 ’’جو لوگ بات سنتے ہیں اور اس میں سے بہترین بات کو اختیار کرتے ہیں۔‘‘ (الزمر۳۹: ۱۸)

زندگی کے ہر پہلو میں، خاص طور پر ہمارے رشتوں اور تعلقات میں ہمیں چاہیے کہ ہم خدمت، حقیقت پسندی، خود اعتمادی، صبر اور عاجزی کا جذبہ اختیار کریں۔ ہمیشہ خود پر نگاہ رکھیں کہ کیا آپ ان لافانی اصولوں کی بنیاد پر تعلقات میں بہتری کے بیج بوتے ہیں یا انا اور جلدبازی کے ہاتھوں رشتوں اور تعلقات میں بہتری کو جڑ سے اکھاڑ دیتے ہیں؟

اللہ ہمیں ایسے دل عطا فرمائے جو سنیں، ایسے دماغ دے جو غور کریں اور ایسی روحیں دے جو عاجزی کو اپنائیں۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B