HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : عرفان شہزاد

شورائیت اور ملوکیت

[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

نظم اجتماعی انسان کی سماجی ضرورت ہے۔ سماجی تعامل کے حدود و قوانین اور تنازعات کے فیصلے کے لیے متفقہ اتھارٹی کا قیام ناگزیر ہے، جس کے فیصلوں کے آگے خواہی نہ خواہی سرتسلیم خم کر دیا جائے۔ یہ نہ ہو تو دوسری صورت انارکی ہے، جسے معقولیت گوارا نہیں کر سکتی۔ نظم اجتماعی کے قیام کا تقاضا کچھ انسانوں کا اختیار دوسرے انسانوں پر قائم کرنے کا سبب ہے، اس لیے ضروری ہے کہ یہ  اختیار ان کی مرضی اور انتخاب سے ان پر قائم کیا جائے ۔ شورائیت یا جمہوریت کی اصل حقیقت یہی ہے۔ اسی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے پسند کیا ہے۔ قرآ ن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰي بَيْنَهُمْ.(الشوریٰ ۴۲: ۳۸)
’’اور اُن کا نظام اُن کے باہمی مشورے پر مبنی ہے۔‘‘

شورائیت سے ماورا یا بے پروا ہو کر اقتدار کو کسی فرد، خاندان یاجماعت میں محدود کرنا صاحبان اقتدار کا تجاوز ہے۔ اس سے نہ صرف عوام کا حق انتخاب غصب ہوتا ہے، بلکہ دیگر باصلاحیت لوگوں کو اقتدار میں آکر اپنے جوہر دکھانے کے مواقع بھی مسدود ہو جاتے اور اقتدار کے حریفوں کے درمیان تصادم پیدا ہوجاتا ہے۔ بادشاہتو ں کے دور میں طالع آزماؤں کے درمیان کشا کش کی ساری تاریخ  اسی کا نتیجہ ہے۔  حکمرانوں کے عزل و نصب کے کسی متفقہ دستور کے بغیر صدیوں تک یہی ہوتا رہا، یہاں تک کہ دستوری حکومتوں کا دور آیا اور انتخابات کی راہ سے حصول اقتدار کے مسئلے کا سیاسی حل عمل میں آگیا۔

شورائیت کی اس اہمیت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اسے شرعی حکم کا درجہ نہیں دیا۔چنانچہ اس کی خلاف ورزی کسی شرعی حد کی پامالی نہیں کہلائے گی۔حالات کا تقاضا ہو تو شرعی احکام میں بھی رخصت دے دی جاتی ہے، شورائیت کا معاملہ تو شرعی بھی نہیں، حکمت عملی سے متعلق ہے، چنانچہ اگر حالات کے تقاضے سے حکومت کی کوئی دوسری صورت اختیار کر لی جائے تو اس پر کفر و ضلالت کا فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا، اور نہ جان و مال کی قربانیاں دے کر مثالی صورت قائم کرنے کی کوشش کوئی دینی جواز رکھتی ہے۔  خود بنی اسرائیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے ملوکیت ہی کو اختیار کیا تھا، کیونکہ ان کے حالات کا تقاضا یہی تھا۔ بنی اسرائیل کے درمیان قبائلی رقابت انھیں کسی متفقہ قیادت پر مجتمع نہیں ہونے دے  سکتی تھی، انھیں تو طالوت کے انتخاب پر اعتراض تھا، جسے اللہ نے خود ان کے لیے منتخب کیا تھا۔ اللہ کو ان کی اجتماعیت مقصود تھی، جو  شورائیت کی صورت میں حاصل نہیں ہو سکتی تھی،  چنانچہ انبیا کی موجودگی میں ان کےہاں موروثی بادشاہت جاری رہی۔

گویا،  انتخاب اگر شورائیت اور ملوکیت میں ہو تو شورائیت کو منتخب  کرنا ہی علم و عقل کا فیصلہ ہونا چاہیے، لیکن انتخاب اگر ملوکیت اور انارکی میں ہو تو ملوکیت کا انتخاب ناگزیر ہے۔ جمہوریت کے جدید دور میں بھی ہنگامی حالات کے دوران میں جمہوری اقدارمعطل کر کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔

حکومت منتخب ہو یا غیر منتخب، اگر  ظلم اور ناانصافی سے کام لے تو اس کی مذمت اور اصلاح فقط زبانی طور پر ہی کی جا سکتی ہے۔ انفرادی جہاد کا یہی میدان ہے۔ یہاں کلمۂ حق کہنا افضل جہاد ہے۔ اس میں جان بھی چلی جائے تو افضل شہادت کہلاتی ہے۔ اس سے زیادہ کسی اقدام کا کوئی حکم نہیں دیا گیا،بلکہ دین کی رو سے کسی غیرعادل حکومت کے خلاف بغاوت کرنا یا اسے بزور بازو تبدیل کرنے کی کوشش کرنا ممنوع ہے،کیونکہ اس سےنظم اجتماعی مختل ہو سکتا ہے، جو انارکی اور  فساد فی الارض پر منتج ہوگا۔  البتہ حکومت کے غیر اخلاقی احکام میں اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ پر امن احتجاج کا حق یہیں تک ہے۔

حکومت کا ظلم فساد فی الارض کی نوعیت اختیار کرلے تو اس صورت میں ہجرت کر جانے کا حکم ہے۔ یہ چارہ بھی میسر نہ ہو تو  ہابیل کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئےاپنی جان دے کر بھی دوسرے کی جان نہ لینے کو زیادہ بہتر عمل قرار دیا گیا ہے۔ اس بارے میں رسول اللہ کے ارشادات نقل ہوئے ہیں:

قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: «إنها ستكون فتن، ألا ثم تكون فتنة، القاعد فيها خير من الماشي فيها، والماشي فيها خير من الساعي إليها، ألا فإذا نزلت أو وقعت، فمن كان له إبل فليلحق بإبله، ومن كانت له غنم فليلحق بغنمه، ومن كانت له أرض فليلحق بأرضه»، قال: فقال رجل: يارسول اللّٰه، أرأيت من لم يكن له إبل ولا غنم ولا أرض؟ قال: «يعمد إلى سيفه فيدق على حده بحجر، ثم لينج إن استطاع النجاء، اللهم هل بلغت، اللهم هل بلغت، اللهم هل بلغت»، قال: فقال رجل: يا رسول اللّٰه، أرأيت إن أكرهت حتى ينطلق بي إلى أحد الصفين أو إحدى الفئتين، فضربني رجل بسيفه أو يجيء سهم فيقتلني، قال: «يبوء بإثمه وإثمك ويكون من أصحاب النار». (مسلم، رقم ۷۲۵۰)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب فتنے برپا ہوں گے، سن لو! پھر (اور) فتنے برپا ہوں گے، ان (کےدوران) میں بیٹھا رہنے و الا چلنے والے سے بہتر ہوگا، اور ان میں چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ یاد رکھو! جب وہ نازل ہوں یا واقع ہوں تو جس کے (پاس) اونٹ ہوں وہ اپنے اونٹوں کے پاس چلا جائے، جس کے پاس بکریاں ہوں وہ بکریوں کے پاس چلاجائے اور جس کی زمین  ہو، وہ اپنی  زمین میں چلا جائے۔ (حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو ایک شخص نے عرض کی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اس کے بارے میں کیا خیال ہے جس کے پاس یہ اونٹ ہوں، نہ بکریاں، نہ زمین؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ اپنی تلوار لے، اس کی دھار کو پتھر سے کوٹے (کند کر دے) اورپھر اگر بچ سکےتو بچ نکلے!‘‘ پھر آپ نے فرمایا: اے اللہ، کیا میں نے (حق) پہنچا دیا، اے اللہ، کیا میں نے (حق) پہنچا دیا، اے اللہ،  کیا میں نے پہنچا دیا۔ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اگر مجھے مجبور کردیا جائے اور لے جا کر ایک صف میں یا ایک فریق کے ساتھ کھڑا کردیا جائے اور کوئی آدمی مجھے اپنی تلوار کا نشانہ بنا دے یا کوئی تیر آئے اور مجھے مار ڈالے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر تم نے وار نہ کیا ہوا) تو وہ اپنے اور تمھارے گناہ سمیٹ لے جائے گا اور اہل جہنم میں سے ہوجائے گا۔‘‘

مسلمانوں کی حکومت اگر ظالم نہیں، اپنے دینی فرائض سے غافل نہیں یا کسی بڑے انحراف یا کھلم کھلا کفر پر مصر نہیں تو کسی فرد یا جتھے کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے تئیں نظم اجتماعی کی کسی بہتری یا اسے کسی مثالی صورت میں بحال کرنے کے لیے ہتھیار اٹھا لے اور نظم اجتماعی کومختل کرنے کی کوشش کرے، اگرچہ اسے اکثریت کی حمایت بھی حاصل ہو، اس لیے کہ یہ کوئی دینی فریضہ یا خدا کا مطالبہ نہیں ہے، جس کے لیے لوگوں کی جان کو خطرے میں ڈالا جائے، بلکہ  یہ فساد فی الارض کے جرم عظیم کا ارتکاب ہے، خواہ  یہ کتنی ہی نیک نیتی سے کیا جائے۔

کسی مصلح کو اپنے اصلاحی اقدام کے لیے اگر اکثریت کی حمایت بھی حاصل نہیں تو اسے خدائی فوج دار بننے کا خبط سرے سے پالنا ہی نہیں چاہیے۔ حکومت کی اصلاح یا کسی مثالی صورت میں اس کی بحالی کے لیے تعلیم  اور ابلاغ کےپر امن طریقوں سے  راے عامہ ہموار کرنےکے سوا کسی کارروائی کی کوئی گنجایش دین میں نہیں ہے۔

ارباب حکومت سے مثالی رویے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اختیار ات کے ساتھ تجاوزات کا ہونا غیرمتوقع نہیں ہوتا۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ کوئی دوسرا شخص یا سیاسی گروہ اختیارات کے تجاوزات سےمبرا رہے گا یا اس کے جان نشین لازماً ایسے نیک لوگ ہوں گے جو کوئی تجاوز نہیں کریں گے۔ اس خوش گمانی کی جب  کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی تو حکومت کی تبدیلی کے لیے براہ  سازش یا بزور بازواسے تبدیل کرنے کا کوئی عقلی جواز بھی دستیاب نہیں رہتا۔

مسلمانوں سے مطلوب سیاسی رویے کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات درج ذیل ہیں:

عن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم، قال: «من رأى من أميره شيئًا يكرهه فليصبر عليه، فإنه من فارق الجماعة شبرًا فمات إلا مات ميتة جاهلية». (بخاری، رقم ۷۰۵۴)
’’رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے امیر کی کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھی تو اسے چاہیے کہ صبر کرے، اس لیے کہ جس نے جماعت سے ایک بالشت بھر جدائی اختیار کی اور اسی حال میں مرا تو وہ جاہلیت کی سی موت مرے گا۔“
عن جنادة بن أبي أمية، قال: دخلنا على عبادة بن الصامت وهو مريض، فقلنا: حدثنا أصلحك اللّٰه، بحديث ينفع اللّٰه به، سمعته من رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، فقال: دعانا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، فبايعناه، فكان فيما أخذ علينا: أن بايعنا على السمع والطاعة في منشطنا ومكرهنا، وعسرنا ويسرنا، وأثرة علينا، وأن لا ننازع الأمر أهله، قال: «إلا أن تروا كفرًا بواحًا عندكم من اللّٰه فيه برهان». (مسلم، رقم ۴۴۷۱)
’’حضرت جنادہ بن ابو امیہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، جب کہ وہ حالت مرض میں تھے۔ چنانچہ ہم نے ان سے کہا کہ ہمیں ایسی حدیث بیان کیجیے جس کے ذریعے سے اللہ ہمیں نفع دے اور آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو تو انھوں نے کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا تو ہم نے آپ سے بیعت کی اور آپ نے ہم سے جن چیزوں پر بیعت لی وہ یہ تھیں کہ  ہم خوشی اور ناخوشی میں اور مشکل اور آسانی میں اور خود پر ترجیح دیے جانے کی صورت میں بھی اطاعت کریں گے، اور یہ کہ  ہم اقتدار کے معاملے میں اس کی اہلیت رکھنے والوں سے تنازع نہیں کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: البتہ، اگر تم کھلم کھلا کفر دیکھو، جس کے خلاف  تمھارے پاس واضح دلیل موجود ہو (تو اس صورت میں معصیت کے کاموں میں حکمرانوں کی اطاعت نہیں کی جائے گی)۔‘‘

تاہم، اس بنا پر ہتھیار اٹھانے کی اجازت  یا حکم نہیں دیا گیا۔

ایک روایت سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ برائی کو ہاتھ سے روکنےکا حکم دیا گیا ہے، اس لیےحکومت کی کسی برائی یا فسق کو روکنے کےلیے ہاتھ اور ہتھیار اٹھائے جا سکتے ہیں۔ روایت یہ ہے:

فقال ابو سعيد: سمعت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، يقول: «من رأى منكم منكرًا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان». (مسلم، رقم  ۱۱۷)
’’حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے جوشخص منکر (ناقابل قبول کام) دیکھے تو اسے چاہیے کہ اسے اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے اوراگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے اسے برا کہے، اگر اس کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے اسے برا سمجھے،اور یہ سب سے کم زور ایمان ہے۔“

اس ارشاد میں برائی کو روکنے یا بدلنے کی ہدایت انسان کی استطاعت سے مشروط ہے، یعنی انسان کے دائرۂ اختیار کے اندر منکر یابرائی کو روکنے کی ہدایت اور اس سے اغماض برتنے پر ایمان کی کمی کا الزام دیا گیا ہے۔ اپنے دائرۂ اختیار سے باہر کسی کام کاانسان کو مکلف نہیں ٹھیرایا گیا۔ ہر شخص یا جتھا اگر اصلاحی ایجنڈا لے کر حکومتیں تبدیل کرنے نکل کھڑا ہو تو یہ خانہ جنگی اور فساد کا سبب بنے گا۔

اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  اپنے بعد سیاسی تبدیلی کی کوشش میں فتنے پیدا کرنے والوں سے خبردار کرتے ہوئےمسلمانوں کو تاکید کی تھی کہ وہ کسی جتھے کا حصہ بن کر ہتھیار نہ اٹھائیں۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B