HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

السابقون الاولون من الانصار (۳)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]

حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ

قبیلہ اور نسب

حضرت اسعد بن زرارہ یثرب کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو نجار سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے دادا کا نام عدس بن عبید تھا۔ نجار بن ثعلبہ ان کے ساتویں اور بانی قبیلہ خزرج بن حارثہ دسویں جد تھے۔ ان کی والدہ فریعہ (سعاد: ابن سعد) بنت رافع حارث بن خزرج کی اولاد تھیں۔ حضرت سعد بن زرارہ،حضرت اسعد کے بھائی، حضرت زغیبہ بنت زرارہ ان کی بہن اور حضرت سلیط بن قیس بھانجے تھے۔ حضرت اسعد بن زرارہ اپنی کنیت ابوامامہ سے مشہور ہیں۔انھوں نے اپنی تین سالہ مختصر اسلامی زندگی میں بیعت ونصرت کےبڑے جلیل القدر اعمال سر انجام دیے،اسی لیے انھیں اسعد الخیر کا لقب عطا ہوا۔انھیں نقیب بنو نجار بھی کہا جاتا ہے۔

توحید سے رغبت اور اسلام کی طرف سبقت

حضرت اسعد بن زرارہ اور حضرت ابو الہیثم بن تیہان بعثت نبوی سے قبل اپنی فطرت سلیمہ کے اقتضا سے توحید کے قائل تھے۔ آں حضورصلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ شام کے سفر پرگئے۔ واپسی پر انھوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص پکار رہا ہے:ابو امامہ،مکہ میں ایک نبی آنے والا ہے،اس کی پیروی کرنا۔اس کی نشانی یہ ہو گی کہ تم ایک سفر پر جاؤ گے جہاں تمھارے ہم سفر وبا کا شکار ہو کر چل بسیں گے،صرف تم اور تمھارا ایک دوست جو طاعون کا شکارہو چکا ہو گا،بچ جاؤگے،ایسا ہی ہوا(الطبقات ابن سعد ج ۱، ذکر علامات النبوة في رسول اللّٰه

حضرت اسعد بن زرارہ انصار کے السابقون الاولون کے سرخیل تھے، وہ یثرب کے پہلے شخص تھے جنھوں نے اسلام قبول کیا۔ اوس وخزرج کی کشمکش عروج پر تھی جب وہ اور حضرت ذکوان بن عبد قیس اس سلسلے میں عتبہ بن ربیعہ سے ملنےمکہ گئے۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےبارے میں سنا تو آپ سے ملنے چلے آئے۔ آپ نے انھیں ایمان لانے کی دعوت دی اور قرآن مجیدسنایا تو دونوں فوراً مشرف بہ اسلام ہوگئے اور عتبہ سے ملے بغیر یثرب واپس چلے گئے۔یہ یثرب سے تعلق رکھنے والے پہلےاہل ایمان تھے۔حضرت اسعد نے اپنے دوست حضرت ابو الہیثم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی خبر دی اور اپنے اسلام کے بارے میں بتایا تو وہ بھی مسلمان ہوگئے۔اس طرح اپنی قوم میں حضرت اسعد بن زرارہ اور حضرت ابو الہیثم بن تیہان کوسب سے پہلے رسول اللہ صلى اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور انھوں ہی نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا (مستدرک حاکم، رقم۵۲۴۹)۔

دوسری روایت کے مطابق حضرت رافع بن مالک زرقی اورحضرت معاذ بن عفراء حضرت اسعد کے مسلمان ہونے سے پہلے یثرب سے عمرہ کرنے مکہ آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اسلام قبول کیا۔ ان کی بنائی ہوئی مسجد بنو زریق پہلی مسجد تھی جس میں قرآن سنایا گیا۔

۱۱/ نبوی کی بیعت

۱۱/ نبوی (جولائی ۶۲۰ء) کے موسم حج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسب سابق حج کے لیے آنے والے قبائل کو دعوت دین دینے کے لیے منیٰ تشریف لائے۔ آپ کی ملاقات یثرب کے قبیلہ بنوخزرج کے کچھ افراد سے ہوئی جو اپنے سر منڈا رہے تھے۔ آپ نے انھیں بٹھا کر قرآن مجید سنایا اور اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ اوس و خزرج قبائل بت پرست تھے، مگر انھوں نے اپنے ہم سایہ یہودیوں سے سن رکھا تھاکہ نبی آخر الزمان کاظہور ہونے والا ہے۔ کلام الہٰی سن کر وہ بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے کہ یہودی جن خاتم النبیین سے ہمیں ڈرایا کرتے ہیں،یقیناً یہی ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ہم سے پہلے اسلام قبول کر لیں۔وہ سب ایمان لے آئے اور امید ظاہر کی کہ اگر یثرب کی ساری قومیں ــــــ اوس اور خزرج ــــــ آپ کی دعوت قبول کر لیں تو ان کی باہمی دشمنیاں ختم ہوجائیں گی۔لہٰذا آپ سے زیادہ معزز کوئی نہ ہو گا۔ ان چھ خوش نصیبوں کے نام یہ ہیں : حضرت اسعد بن زرارہ، حضرت عوف بن عفراء،حضرت رافع بن مالک، حضرت قطبہ بن عامر، حضرت عقبہ بن عامراور حضرت جابر بن عبداﷲ بن رئاب۔ یثرب جا کر انھوں نے اپنے اہل خاندان اور رشتہ داروں کو بھی اسلام کی دعوت دی۔

ابن اثیر نے سات بیعت کنندگان کا شمار کیا ہے، جب کہ زہری اورعروہ بن زبیر نے ان السابقون الاولون من الانصار کی تعداد آٹھ بتائی ہے۔ ابن سعدنے چھ اصحاب والی روایت کو زیادہ قوی اور اجماع کا حامل قرار دیا ہے۔

بیعت عقبۂ اولیٰ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی دس سالہ زندگی شہر مکہ میں علانیہ تبلیغ کرنے کے ساتھ ہر سال حج کے موقع پر عکاظ،مجنہ اور ذوالمجاز کے میلوں میں یہ دعوت دیتے ہوئے گزارے:کون ہے جو مجھے پناہ دے کر میری نصرت کرے گاتاکہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچا سکوں،بدلے میں اس کو جنت ملے گی۔ آپ کو ایک فرد بھی ایسا نہ ملا جو آپ کی دعوت قبول کر کے آپ کی نصرت کرتا۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں:ہم نے آپ کو ٹھکانا دیااور آپ کی تصدیق کی۔

۱۲/ نبوی (جولائی ۶۲۱ء)کے حج میں عقبہ کے مقام پر خزرج کے جن دس اور اوس کے دو اصحاب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پربیعت کی، ان کے نام یہ ہیں: حضرت اسعد بن زرارہ،حضرت عوف بن عفراء، حضرت معاذ (معوذ : بلاذری، ابن جوزی،ذہبی) بن عفراء، حضرت رافع بن مالک، حضرت ذکوان بن عبد القیس، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت یزید بن ثعلبہ، حضرت عباس بن عبادہ، حضرت عقبہ بن عامر، حضرت قطبہ بن عامر،حضرت ابوالہیثم بن تیہان اور حضرت عویم بن ساعدہ۔ ۱۱؍ نبوی کی بیعت میں حصہ لینے والے چھ ا نصار میں سے پانچ اس بیعت میں بھی شامل تھے۔چونکہ ۱۲؍ نبوی کے حج میں عقبہ کے مقام پر ہونے والی یہ پہلی بیعت تھی، اس لیے ’بیعت عقبۂ اولیٰ‘ کہلاتی ہے۔

بیعت کے الفاظ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آؤ، اس بات پر میری بیعت کروکہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیراؤ گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے،اپنے ہاتھوں پاؤں کے درمیان (اعضاے صنفی)سے متعلق کوئی بہتان نہ تراشو گے اور معروف میں میری نافرمانی نہ کرو گے۔ تم میں سے جو عہد پورا کرے گا،اس کا اجر اللہ کےذمہ ہو گاا ور جس نے ان میں سے کوئی عہد شکنی کی اور اللہ نے اس کا پردہ رکھاتو اس کا فیصلہ اللہ کرے گا، چاہے سزا دے،چاہے معاف کر دے (بخاری، رقم۳۸۹۳۔مسلم، رقم ۴۴۸۱۔ احمد، رقم۲۲۷۵۴۔مسند شاشی، رقم ۱۱۵۰ )۔

عقبہ کی بیعت اولیٰ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوشش تھی کہ اسلام میں داخل ہونے وا لے ہر نئے مومن کا ایمان کامل ہو جائے،اخلاق حسنہ سے مزین ہو اور کبائر سے دور ہو جائے۔ اسے ’بیعت النساء‘ کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ جنگ فرض ہونے سے پہلےلی گئی اور اس کے الفاظ اس بیعت سے ملتےہیں جو بعد میں صلح حدیبیہ کے موقع پر اللہ کے حکم پر عورتوں سے لی گئی (الممتحنہ ۶۰: ۱۲)۔

مدینہ واپسی اورتبلیغ دین

اصحاب بیعت عقبۂ اولیٰ نے مدینہ لوٹ کر اسلام کی خوب نشر واشاعت کی۔ پھر حضرت معاذ بن عفراء اور حضرت رافع بن مالک یہ درخواست لے کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس پہنچے کہ قرآن پڑھانے کے لیے کسی کو ہمارے ساتھ بھیجیں۔ آپ نے حضرت مصعب بن عمیر کا انتخاب کیا اور انھیں حکم دیا کہ اسلام کی طرف لپکنے والے اہل یثرب کوقرآن سکھائیں،شرائع اسلام کی تعلیم دینے کے ساتھ ان میں دین کی سوجھ بوجھ (تفقہ) پیدا کر دیں۔ حضرت مصعب حضرت اسعد بن زرارہ کے مہمان ہوئے۔وہ انصار کے گھروں اور قبائل میں جاتے،ان کی کوششوں سے خزرج کا کوئی گھر ایسا نہ رہا جہاں رسول پاک کا ذکر نہ پہنچا ہو، انھیں قاری(قرآن پڑھنے والا) اورمقری (قرآن پڑھانے والا) کہا جانے لگا۔ ان کی دعوت کے نتیجے میں اوس کے سردار وں ــــــ اسید بن حضیر اور سعد بن معاذ ــــــ نے اسلام قبول کیا۔ حضرت مصعب، حضرت اسعد بن زرارہ کے گھر میں مقیم رہے، لیکن جب بنو نجار کی مخالفت بڑھ گئی تو وہ حضرت سعد بن معاذ کے ہاں منتقل ہو کر اسلام کی تبلیغ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ انصار کا کوئی گھر باقی نہ بچا جس میں چند مرد اور عورتیں مسلمان نہ ہوچکی ہوں(المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۷۲۳۸)۔ واقدی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت مصعب کو تعلیم القرآن اور حضرت اسعد کو امامت کی ذمہ داری تفویض فرمائی۔

 نماز جمعہ کی ابتدا

تاریخ اسلامی میں پہلا جمعہ کب پڑھا گیا؟ اس باب میں مختلف روایات ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کو قرآن سکھانے کے لیے حضرت مصعب بن عمیر کو بھیجاتو انھوں نے آپ سے جمعہ پڑھانے کی اجازت لی، حالاں کہ تب کوئی امیر نہ تھا(مصنف عبدالرزاق، رقم ۵۱۴۶)

زہری کی روایت ہے کہ مدینہ پہنچ کر حضرت مصعب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خط لکھ کر جمعہ پڑھانے کی اجازت مانگی۔آپ نے اجازت دیتے ہوئے حکم نامہ ارسال فرمایا: اس دن کو دیکھ لینا جب یہوداپنا سبت منانے کے لیے بلند آواز میں پکارتے ہیں۔ آفتاب ڈھلنےکے بعد دو رکعتیں پڑھا کر اللہ کا قرب حاصل کرو اور حاضرین کو خطبہ بھی دو۔چنانچہ حضرت مصعب بن عمیرنے حضرت سعد بن خیثمہ کے گھر میں بارہ اصحاب کو جمعہ کی نمازپڑھائی اور ان کے لیے ایک بکری بھی ذبح کی(الطبقات الکبریٰ، رقم ۳۵ )۔

ابن سیرین کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشر یف آوری سے قبل انصار نے باہم مشورہ کیا کہ یہودیوں کا ایک خاص دن ہے جس میں وہ ہر سات روز کے بعد اکٹھے ہوتے ہیں۔اسی طرح نصاریٰ کا بھی ایک سات روزہ مقررہ دن ہے۔چلو ہم بھی ایک یوم متعین کر لیتے ہیں جس میں جمع ہو کر اللہ کاذکر کریں،نماز پڑھیں اور اس کا شکر ادا کریں۔ انھوں نے طے کیا کہ ہفتے (سبت)کے دن یہودی زبور پڑھتے ہیں، اتوار نصاریٰ کا ہوا تو ہم یوم العروبہ مقرر کر لیتے ہیں۔ حضرت اسعد بن زرارہ نے اسے یوم الجمعہ کا نام دیا۔اس روز سب ان کے پاس جمع ہوئے اور انھوں نے جمعہ کی نماز پڑھائی۔ بعد ازاں سب نے مل کر بکری کا گوشت تناول کیا۔ اللہ کا حکم ’يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ٘ا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰي ذِكْرِ اللّٰهِ‘، ’’اے ایمان والو،جب جمعہ کےد ن کی نماز کے لیےپکارا جائےتو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو‘‘(الجمعہ ۶۲: ۹) بعد میں نازل ہوا(مصنف عبدالرزاق، رقم ۵۱۴۴)۔

 ابن حجر کہتے ہیں: ابن سیرین کی اس مرسل رو ایت سے لگتا ہے کہ صحابہ نے جمعہ کا دن اجتہاد سے چنا۔ یہ ماننے میں اس لیے تامل ہوتا ہے کہ جمعہ کا اجتما ع شریعت اسلامی کا اہم جزو ہے، شارع کے حکم (بیان)کے بغیر اس کا انعقاد نہیں ہو سکتا۔ اس کا جواب ابن حجر نے یہ دیا کہ یہ ماننے میں کوئی مانع نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے جمعہ کی فرضیت کا حکم مکہ میں مل گیا ہو،تاہم آپ کے لیے وہاں جمعہ ادا کرنا ممکن نہ تھا۔ اس طرح بیان و توفیق سے جمعہ کی رہنمائی حاصل ہو جاتی ہے(فتح الباری:شرح حدیث۸۷۶)،یعنی انصار کا جمعہ قائم کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تعمیل میں ہوا جو آپ نے حضرت مصعب بن عمیر کو ارسال فرمایا تھا۔

تعبدی امور میں اجتہاد نہیں کیا جا سکتا۔ عہد رسالت میں ایسا واقعہ ہوا تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا۔ حضرت براء بن معرور بیعت عقبۂ ثانیہ کے لیے مدینہ سے روانہ ہوئے تو راستے میں اپنےساتھیوں سے کہا: میں کعبہ کی طرف پشت نہیں کرنا چاہتا، میں اس کی طرف رخ کرکے نمازپڑھوں گا۔ساتھیوں نے کہا: ہمیں تو یہی اطلا ع ہے کہ ہمار ے نبی شام کی طرف رخ کر کے نماز ادا فرماتے ہیں۔ہم آپ کی مخالفت نہیں کرنا چاہتے،لیکن حضرت براء نہ مانے۔مکہ پہنچ کر آپ سے استفسار کیا تو آپ نے فرمایا:’قد کنت علی قبلة لو صبرت علیها‘ (تم ایک قبلے پر عمل پیرا تھے۔اس پر صبر کر لیا ہوتا)۔

ہجرت مدینہ کے بعد آپ تحویل قبلہ کے منتظر رہے۔بنی اسرائیل کی امامت کا دور اور بیت المقدس کی مرکزیت ختم ہو چکی تھی،لیکن آپ نے قبلہ کا رخ نہ بدلا، تاآنکہ اللہ کی طرف سے حکم (بیان)نہ آگیا۔دل چسپ بات یہ ہے کہ تحویل قبلہ کے حکم پر مشتمل آیات(البقرہ ۲: ۱۴۴- ۱۴۵ ) شعبان ۲ھ میں دورا ن نماز میں اس وقت نازل ہوئیں جب آپ حضرت براء بن معرور کے بیٹے حضرت بشر کے گھر دعوت تناول فرما کر ظہر کی نماز پڑھانےمسجد بنو سلمہ ( اب مسجد قبلتین )پہنچے۔

ابتداے جمعہ کی ترتیب

ان روایات کی روشنی میں ابتداے جمعہ کی ترتیب یہ بنتی ہے۔

زمانۂ جاہلیت میں ہفتے کے دنوں کے نام سنیچر سے جمعہ تک علی الترتیب یہ تھے:شبار،اول،اہون، جبار، دبار، مونس اور العروبہ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پونے چھ سو سال پہلے آپ کے آٹھویں جد کعب بن لؤی نےیوم العروبہ کو اجتماعی عبادت کے لیے مقرر کیا۔ وہ اس دن لوگوں کو جمع کر کے وعظ و نصیحت پر مشتمل خطبہ دیتے، ایک ر وایت کے مطابق انھوں نے اسے ’یوم الجمعہ‘ کا نام دیا۔پھر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔

حضرت مصعب بن عمیر اسلام کے پہلے معلم کی حیثیت سے مدینہ پہنچے تو انھوں نے آپ کے ارشاد اور آپ کی اجازت سے عقبۂ اولیٰ کے با رہ بیعت کنندگان کو حضرت سعد بن خیثمہ کے گھر میں جمعہ پڑھایا( السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۵۹۱۲)۔اس وقت مکہ میں کفار کےغلبہ کی وجہ سے جمعہ قائم کرنا ممکن نہ تھا، اس لیے آپ نے مدینہ میں اس کے قیام کا حکم دیا۔

پھر چالیس انصار نے حضرت اسعد بن زرارہ کی امامت میں بنو بیاضہ کی پتھریلی زمین ہزم النبیت میں خضمات نامی میدان میں نماز جمعہ ادا کی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲/ ربیع الاول ۱۳ نبوی (۲۴/ ستمبر۶۲۲ء)پیر کے دن مدینہ تشریف لائے۔ آپ نے چار دن(تمام مورخین) یا بارہ سے چودہ روز ( بخاری، رقم ۳۹۰۶ ) بنوعمرو بن عوف کے ہاں قبا میں قیام فرمایا۔ جمعہ کی صبح آپ وہاں سے نکلے،بنو سالم بن عوف کے ہاں پہنچے تو جمعہ کا وقت ہو گیا۔ یہاں آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا اورایک سو اصحاب کو جمعہ کی نماز پڑھائی۔ یہ آپ کا پہلا جمعہ اور مدینہ میں پہلا خطبہ تھا۔بخاری کی روایت پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاگر قبا میں بارہ چودہ روز قیام کیا ہوتا تو پہلا جمعہ بھی وہیں پڑھاتے جہاں آپ نے خود مسجد قبا تعمیر کرائی تھی۔

 عہد اسلامی کا پہلا جمعہ

صحیح متصل روایات کے مطابق حضرت اسعد بن زرارہ کو یہ سبقت حاصل ہے کہ انھوں نے نماز جمعہ کا آغاز کیا۔ بیعت عقبۂ ثانیہ کے بعد انھوں نے مدینہ میں اسلامی تاریخ کا پہلا جمعہ پڑھایا۔ انھوں نے ہی اس کا انتظام و انصرام کیا۔ مدینہ میں ان کے زیر کفالت بنو مالک بن نجار کے دو یتیموں  ــــــ حضر ت سہل اور حضر ت سہیل ــــــ کی ملکیت ایک کھجوریں سکھانے والاکھلیان یا دالان تھا۔انھوں نے اس میں جمعہ کا اجتماع منعقد کیا جس میں چالیس کے قریب صحابہ شامل ہوئے۔ دوسری روایات میں بنو بیاضہ کی سنگلاخ زمین ہزم النبیت میں خضمات نامی میدان یا باغ کا ذکر ہے۔ حضرت اسعد بن زرارہ نے مسلمانوں کے پہلے اجتماع کی خوشی میں ایک بکری بھی ذبح کرائی اور جمعہ میں شریک اہل ایمان کی دعوت کا انتظام کیا۔پھر حضر ت مصعب بن عمیر نے امامت کی ذمہ داری سنبھال لی اور اگلے سال جب وہ انصار کا ایک وفد لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے مکہ گئے، تب بھی حضرت اسعد بن زرارہ کو جمعہ پڑھانے کی سعادت نصیب ہوتی رہی۔

 اصحاب عقبہ میں شامل حضرت کعب بن مالک کی بینائی آخری عمر میں جاتی رہی تھی۔ان کے بیٹے حضرت عبدالرحمٰن انھیں نماز جمعہ کے لیے لے کر جاتے۔حضرت کعب جمعہ کی اذان سنتے ہی حضرت اسعد بن زرارہ کے لیے دعاے مغفرت کیا کرتے۔ بیٹے نےحیران ہو کر پوچھا کہ جمعہ کی اذان کے وقت آپ اسعد بن زرارہ کے لیے خاص طور پر بخشش ورحمت کی دُعا کیوں کرتے ہیں؟ انھوں نے کہا:اسعد ہی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری سے قبل نماز جمعہ کا آغاز کیا تھا(ابو داؤد، رقم۱۰۶۹۔ابن ماجہ، رقم ۱۰۸۲۔ مستدرک حاکم، رقم۱۰۳۹۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۵۶۰۵۔المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۵۵۲۵۔صحیح ابن حبان، رقم ۷۰۱۳۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۶۸۹۶۔صحیح ابن خزیمہ، رقم ۱۷۲۴)۔

 بیعت عقبۂ ثانیہ

۱۳/ نبوی ( جون ۶۲۲ ء ) حج کے موقع پرجمرۂ اولیٰ کی گھاٹی میں انصار نےاپنے بت پرست ساتھیوں سے چھپ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر جو بیعت کی، اسے ’بیعت عقبۂ ثانیہ‘ کہا جاتا ہے۔اس اجتماع میں پچھتر افراد مکہ آئے، اس سفر میں حضرت مصعب بن عمیر حضرت اسعد بن زرارہ کے ہم راہ تھے۔ راستے میں انصار نے باہم مشورہ کیا کہ ہم کب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کے پہاڑوں میں چکر کاٹتے، خوف زدہ رہنے دیں گے۔ ایام تشریق کی درمیانی رات، یعنی ۱۲ /ذی الحجہ کو وہ منیٰ کے جمرۂ عقبہ(جمرۂ اولیٰ) کی گھاٹی میں آپ کے پاس خفیہ طور پر جمع ہوئے۔ آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب بھی موجود تھے، اسلام قبول نہ کرنے کے باوجود آپ کے ساتھ ہم دردی رکھتے تھے۔ان اصحاب نے آپ کویثرب منتقل ہونے کی پیش کش کی تو جناب عباس نے کہا: اے اہل یثرب، تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے شہر میں آنے کی دعوت دے رہے ہو۔ سن لو کہ وہ اپنے خاندان میں انتہائی معزز اور محترم ہیں۔ جب بھی کبھی دشمنوں نے ان کے خلاف کوئی حرکت کی تو ہم سینہ سپر ہوکر میدان میں آگئے۔ اب وہ تمھارے پاس جانا چاہتے ہیں۔ سن لو، اگر مرتے دم تک ان کا ساتھ دے سکو تو بہتر، ورنہ ابھی سے معذرت کر لو(احمد، رقم ۱۸۷۹۸،۱۴۴۵۶۔ صحیح ابن حبان، رقم۷۰۱۲)۔

حضرت اسعد کا رد عمل

جناب عباس کا یہ کہنا حضرت اسعد بن زرارہ پر شاق گزرا۔انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا جواب دینے کی اجازت چاہی۔ آپ نے فرمایا :بولو، تم پر کوئی ملامت نہیں۔ حضرت اسعد گویا ہوئے کہ یا رسول اللہ، ہم نے اپنا دین چھوڑ کرآپ کی پیروی کر لی ہے،آپ کی دعوت پر رشتہ داروں اورپڑوسیوں سے قطع تعلق کر لیا ہے،اپنی سرداری چھوڑ کر آپ کی اطاعت قبول کر لی ہے۔ ہم نے آپ کے لائے ہوئے دین پر زبان سے ایمان لانے اور دل کی تصدیق کے بعدیہ قبولیت کی ہے۔ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں،اللہ کا ہاتھ ہمارے ہاتھوں پر ہوگا،ہماری جانیں آپ کی جان پر نچھاور ہوں گی، ہم آپ کی ویسے ہی حفاظت کریں گے، جیسے اپنی عورتوں اور بچوں کی کرتے ہیں۔ ہم نے اگرعہد شکنی کی تو یہ اللہ سے بے وفائی ہوگی۔ جناب عباس کی طرف متوجہ ہو کر حضرت اسعد بن زرارہ بولے:آپ ہماری طرف سے مطمئن نہیں اور ہم سے عہد لینا چاہتے ہیں۔ہم یہ عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علا وہ کسی سے نہ کریں گے۔ اللہ کے رسول، حکم فرمائیں، جو عہد اپنے لیے اور اپنے رب کے لیے کرنا چاہتےہیں۔حضرت براء بن معرور نے ان کی تائید کرتے ہوئے کہا: ہم سچی وفا داری نبھانا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی جانیں قربان کرنا چاہتے ہیں۔حضرت براء بن عازب نے کہا: ہم اس بات پر بیعت کرتے ہیں کہ جس سے آپ جنگ کریں گے، ہم اس سے جنگ کریں گے اور جس سے آپ صلح کریں گے، ہم اس سے صلح کریں گے۔

حضرت ابوامامہ اسعد بن زرارہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک تھام کرکہا:رکو، اے اہل یثرب، ہم اونٹوں کے کلیجے گھلاکر اس لیے آپ کے پاس آئے ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں،آج آپ کو یہاں سے نکال کر لے جانے سے تمام عربوں کو چھوڑنا پڑے گا، تلواریں تمھیں کاٹ ڈالیں گی، تم صبر کر پاؤ گے تولے جاؤ،تمھارا اجر اللہ کے ذمہ ہو گا اور اگر تم اپنے اندر کم زوری پاتے ہو تورہنے دو، ا للہ کے ہاں تم معذور مانے جاؤ گے۔ان کے ساتھی بولے: اسعد، بیٹھ جاؤ،واللہ، ہم اس بیعت سے کبھی پیچھے ہٹیں گے نہ روگردانی کریں گے (احمد، رقم۱۴۴۵۶۔المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۴۵۳۸۔ صحیح ابن حبان، رقم ۶۲۷۴۔ مستدرک حاکم، رقم ۴۲۵۱)۔

 بیعت الحرب

۱۲/ نبوی کاسال گزرنے کےبعد حالات میں تبدیلی آئی اور اسلامی ریاست کے آثار نظر آنے لگےتو نصرت دین اور اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد ضروری ہو گیا۔چنانچہ بیعت عقبۂ ثانیہ میں جہاد اور مملکت اسلامیہ کے دفاع کی شقیں شامل کی گئیں۔ اسی لیے اسے ’بیعت الحرب‘ کہتے ہیں۔ اس بیعت میں انصار کا کوئی دنیوی فائدہ نہ تھا،یہ خالصتاً اللہ پر ایمان کامل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں تھی۔ انھیں علم تھا کہ اس سے ان کے جان ومال کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔

آپ نےقرآن مجید کی آیات تلاوت فرمائیں،اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دی اور اسلام کی طرف رغبت دلائی۔ حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے سوال کیا:یا رسول اللہ،ہم کس امر پر آپ کی بیعت کریں؟ آپ نے فرمایا: مستعدی اورکسل مندی میں سمع و طاعت کی، تنگی اور کشادگی میں انفاق کی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی،اس بات کی کہ تم اللہ کی راہ میں اٹھ کھڑے ہو گے،اللہ کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈرو گے، میری نصرت کرو گے، جب میں تمھارے پاس آؤں گا تو میرا دفاع کرو گے، ان معاملات میں جن میں اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا دفاع کرتے ہو، بدلے میں تمھیں جنت ملے گی (احمد، رقم ۱۴۶۵۳۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۷۷۳۵۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۸۲۵۸ )۔

صحابہ ایک ایک دو دو کرکے آپ کے پاس آئے۔ بنو عبد الاشہل کہتے ہیں:عقبۂ ثانیہ میں حضرت ابو الہیثم بن تیہان نے سب سے پہلے بیعت کی۔بنو نجار کا دعویٰ ہے: حضرت اسعد بن زرارہ نے پہلے بیعت کی۔ بنو سلمہ حضرت کعب بن مالک کو اور حضرت کعب بن مالک حضرت براء بن معرور کو پہلے بیعت کرنےوالا بتاتے ہیں۔ حضرت براء بن معرور نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھام کر بیعت کی اورکہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے۔ ہم یقیناً آپ کا اسی طرح دفاع کریں گے، جس طرح ہر شے میں اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہم، اللہ کی قسم، جنگ کے بیٹے ہیں اور ہتھیار ہمارا کھلونا ہے (صحیح ابن حبان، رقم ۶۲۷۴)۔

نقیبوں کا انتخاب

بیعت مکمل ہوچکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بارہ سربراہ منتخب کر لیے جائیں، جو اپنی اپنی قوم کے نقیب ہوں اور اس بیعت کی دفعات کی تنفیذکے لیے اپنی قوم کی طرف سے وہی ذمہ دار اور مکلف ہوں۔ نو خزرج اور تین اوس سے نقیب منتخب کر لیے گئے۔ان کے نام یہ ہیں :حضرت اسعد بن زرارہ، حضرت براء بن معرور، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن حرام، حضرت سعد بن عبادہ، حضرت منذر بن عمرو، حضرت رافع بن مالک، حضرت سعد بن ربیع، حضرت عبد اللہ بن رواحہ، حضرت عبادہ بن صامت،حضرت اسید بن حضیر، حضرت سعد بن خیثمہ اور حضرت رفاعہ بن عبد المنذر (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۸۲۵۶)۔ بلاذری،ابن عبد البر، ابن اثیر اور ابن ابی شیبہ نے حضرت رفاعہ کے بجاے حضرت ابو الہیثم بن تیہان کو نقیب شمار کیا ہے۔

نقبا کا انتخاب ہوچکا توسردار اور ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک اور عہد لیا۔ آپ نے فرمایا :

’’آپ لوگ اپنی قوم کے جملہ معاملات کے کفیل ہیں۔ جیسے حواری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جانب سے کفیل ہوئے تھے اور میں اپنی قوم، یعنی مسلمانوں کا کفیل ہوں۔ ان سب نے کہا : جی ہاں۔ ‘‘

نقیب النقبا

حضرت اسعد بن زرارہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قبیلے بنو نجار کا نقیب مقرر فرمایاتھا،وہ نقیبوں میں سب سے کم عمر تھے۔تا ہم روایات میں حضرت جابر بن عبداللہ کو ان سے بھی کم سن بتایا جاتا ہے۔آپ نے انصار کو رخصت کرتے وقت حضرت اسعد بن زرارہ کوتمام نقیبوں کا نگران،نقیب النقبامقرر فرمایا۔

بیعت ہونے کے بعدصحابہ بکھر گئے تو حضرت سلیط بن عمرو اور حضرت ابو داؤد مازنی (حضرت مالک بن دخشم: بلاذری) پہنچے،انھوں نے حضرت اسعد بن زرارہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔

بت شکنی

مدینہ پہنچ کر حضرت اسعد بن زرارہ، حضرت عمارہ بن حزم اور حضرت عوف بن عفراء نے اپنے قبیلے بنومالک بن نجار کے بت پاش پاش کر دیے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کامدینہ میں قیام

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری پر انصار مدینہ نےبیعت عقبہ میں کیے گئے عہد خوب نبھائے۔ آپ نے قبا میں بنوعمرو بن عوف کے ہاں دو ہفتے قیام کیا، جمعہ کے دن وہاں سے نکلے، مسجد بنو سالم میں جمعہ پڑھایا اور مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔بنو سالم، بنو بیاضہ،بنو ساعدہ، بنو حارث، بنو عدی بن نجارکے انصار نے باری باری آپ کو اپنے ہاں ٹھیرنے کی پیش کش کی، لیکن آپ نے فرمایا : میری اونٹنی کو چھوڑ دو، اسے جہاں حکم ہوگا، رک جائے گی۔قصواء بنو مالک بن نجار میں حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر کے پاس جہاں اب مسجد نبوی ہے جاکربیٹھ گئی۔ آپ نے فرمایا:یہی میری منزل ہے، چنانچہ آپ نے ان کے گھر چھ ماہ قیام فرمایا۔ حضرت اسعد بن زرارہ نے یہ سوچ کر کہ میں کسی اور ذریعے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرلوں، اونٹنی کی باگ پکڑ لی اور اسے اپنے گھر لے کر گئے۔چنانچہ اونٹنی کی خدمت کی توفیق انھیں مل گئی۔ حضرت اسعد بن زرارہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق تھے۔ اپنے قبیلے کے سردار ہونے کے ساتھ مخیر لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ حضرت اسعد بن زرارہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خوب صورت پلنگ تحفے میں دیا، جس کے پائے ساگوان کے بنے ہوئے تھے (زاد المعاد، ابن قیم، ج ۱: فصل فی ذکر سلاحہ واثاثہ)۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم قبا کے قیام کے دوران میں ر وزانہ حضرت اسعد بن زرارہ کے ہاں تشریف لاتے اور نماز کی امامت فرماتے۔

مہاجرین کی میزبانی

حضرت طلحہ بن عبید اللہ اور حضرت حمزہ بن عبدالمطلب نے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد حضرت اسعد بن زرارہ کے ہاں قیام کیا۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت طلحہ حضرت خبیب بن اساف اورحضرت حمزہ حضرت کلثوم بن الہدم کے مہمان ہوئے۔

مسجد نبوی کی تعمیر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ نےاپنے زیر کفالت دو یتیم بھتیجوں (ذہبی) حضرت سہل بن عمرو اور حضرت سہیل بن عمرو کے کھجوریں خشک کرنے والے باڑے یا کھلیان میں مسجد بنائی تھی۔ اس میں بیت المقدس کی طرف رخ کر کے پانچوں نمازیں اور جمعہ پڑھایا جاتاتھا۔ ابن ہشام، طبری اور ابن کثیر کہتے ہیں:حضرت سہل اور حضرت سہیل حضرت معاذ بن عفراء کی کفالت میں تھے، جب کہ امام بخاری نے انھیں حضرت اسعد بن زرارہ کے زیر کفالت بتایا ہے (بخاری، رقم۳۹۰۶)۔ آپ کی آمد کے ساتھ مسلمانوں کی تعداد بھی بڑھ گئی تو ایک باقاعدہ مسجد کی ضرورت پیدا ہوئی۔چنانچہ آپ نے اسی احاطے میں مسجد نبوی تعمیر کرنےکا فیصلہ کیا اور زمین کی قیمت دریافت فرمائی۔ حضرت سہل اورحضرت سہیل نے کہا: ہم اللہ سے اس کی قیمت چاہتے ہیں، لیکن آ پ نے بلا قیمت جگہ لینی منظور نہ فرمائی۔آپ کے حکم پر حضرت ابو بکر نے زمین کی قیمت دس دینار ادا کی۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت اسعد بن زرارہ نے یتیموں کو زمین کے عوض بنو بیاضہ میں اپنا باغ دے دیا۔ احاطے میں موجود کھجور کے درخت اور غرقد(شجر یہود)کی جھاڑیاں کاٹ دی گئیں اور جاہلی قبروں کو اکھاڑ دیا گیا۔مسجد کی تعمیر کچی اینٹوں سے ہوئی(مصنف عبدالرزاق۵۱۴۹)۔

وفات

حضرت اسعد بن زرارہ کا انتقا ل ہجرت کے نو ماہ بعد شوال یکم ہجری(۶۲۳ء) میں ہوا۔ابھی مسجد نبوی کی تعمیر جاری تھی کہ ان کے گلے میں ایسا زخم ہو گیا جیسے جانوروں میں گل گھوٹو ہوتاہے(ذبحة:لسان العرب)۔ دوسری روایت کے مطابق ان کا چہرہ سرخ ہو گیا(شوکة:لسان العرب)۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا : مجھے ابو امامہ کے بارے میں ملامت نہ کرنا۔آپ نے ان کے حلق پر گرم لوہے سے داغ لگوایا (کندھےپر: طبرانی)اور فرمایا:میں چاہتا ہوں کہ میرے دل میں اسعد کی طرف سے کوئی رنج نہ رہے۔دوسری روایت کے مطابق آپ نے ان کےسر پر داغوں کے دو خط کھینچے۔حضرت ابو امامہ اسعد تھوڑی ہی دیر زندہ رہے،پھر ان کا انتقال ہو گیا۔آپ نے فرمایا: اللہ یہود کو تبا ہ کرے، یہودی اور عرب کے منافقین کہتے ہیں : پیغمبر تھے تو اپنے صحابی کو اچھا کیوں نہ کر دیا، علاج کیاتو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ میں اپنی اور کسی دوسرے کی جان پر قدرت نہیں رکھتا (ترمذی، رقم ۲۰۵۰۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم۱۹۵۵۱۔ مستدرک حاکم، رقم ۴۸۵۹۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۸۱۹۱۔ احمد، رقم ۱۷۲۳۸۔ صحیح ابن حبان، رقم ۶۰۸۰۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۴۰۷۹۔ مصنف عبدالرزاق، رقم ۱۹۵۱۵)۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کے مرض الموت میں عیادت کرنے کے لیےتشریف لائےتو فرمایا: میں تمھیں یہودیوں سے محبت رکھنے سے منع کرتا تھا۔ابن ابی نے کہا:اسعد بن زرارہ یہود کو برا سمجھتے تھے تو ان کو کیا فائدہ ہوا، یعنی وہ بهی فوت ہو گئے (ابوداؤد، رقم ۳۰۹۴۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم۳۹۰۔ احمد، رقم ۲۱۷۵۸)۔

داغنے پر اعتراض

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:میری امت کے ستر ہزار افراد بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے، یہ وہ ہوں گے جو شگون نہیں لیتے تھے، دغواتے نہیں تھے، منتر نہیں کراتے تھے اور اپنے رب پر توکل کرتے تھے (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۲۴۰۸۸۔ شرح معانی الآثار، طحاوی، رقم ۷۱۴۱)۔بارہا ایسا ہواکہ آپ سےکسی بیمار کو دغوانے کے بارے میں استفسار کیا گیاتو آپ نے سکوت فرمایا، دو بار سکوت کرنے کے بعد تیسری دفعہ ارشاد فرمایا: چاہےدغوا لو، چاہے سینک لو(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۴۰۸۴۔شرح معانی الآثار، رقم۷۱۳۹)۔ایک روایت میں آپ نے دغوانے سے صریحاً منع فرمایا (شرح معانی الآثار، رقم۷۱۴۳)۔

طحاوی کہتے ہیں: آپ نے دغوا نے سے جو منع فرمایا ہے، اس کا اطلاق اس داغنے پر ہو تا ہے جو بیماری آنے سے پہلے اس اعتقاد کے ساتھ کیا جاتا تھا کہ اس سے وبا ٹل جائے گی، یہ شرک ہے(شرح معانی الآثار،طحاوی، رقم ۷۱۵۳)۔ خود آپ نے حضرت سعد بن معاذکو بیمار ہونے کے بعد دو بارداغا (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۴۰۷۳۔ شرح معانی الآثار، رقم۷۱۴۹)۔ اس وقت یہ طریقۂ علاج رائج تھا۔آپ نے حضرت ابی بن کعب کو داغنے کے لیے طبیب بھیجا (السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۹۵۴۹۔ شرح معانی الآثار، رقم۷۱۴۴)۔ حضرت انس اور حضرت عبداللہ بن عمر کو لقوہ ہوا تو انھوں نے بھی دغوایا(السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۹۵۵۶۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۲۴۰۷۷)۔

 تدفین

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسعد بن زرا رہ کے غسل کے وقت موجود تھے،آپ نے انھیں تین چادروں کا کفن دیا۔ آپ نے مدینہ میں پہلی نماز جنازہ انھی کی پڑھائی، جنازے کے آگے آگے چلے اور تدفین میں شامل ہوئے۔ایک روایت کے مطابق وہ جنت البقیع میں دفن کیے جانے والے پہلے مسلمان تھے(مستدرک حاکم، رقم۴۸۵۷)۔طبری کہتے ہیں:حضرت کلثوم بن الہدم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے کچھ دنوں بعد حضرت اسعد سے پہلے وفات پا ئی۔ مہاجرین میں سے حضرت عثمان بن مظعون انتقال کرنے والے پہلے صحابی تھے۔

قابل فخر جانشین

اسعد بن زرارہ بنو نجار کے نقیب تھے، ان کی وفات پر اس خاندان کے چند ارکان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ہمارا نقیب فوت ہو گیا ہے، ان کی جگہ پر کسی کو نقیب تجویز فرمائیں،آپ نے ارشاد فرمایا: تم میرے ماموں (ننھیالی) ہو، اس لیے میں خود تمھارا نقیب ہوں(مستدرک حاکم، رقم ۴۸۵۷)۔ آپ نہیں چاہتے تھے کہ ان میں سے کسی کو ترجیح دیں۔ آپ کے نقیب بننے سے بنو نجار کو وہ شرف حاصل ہو گیا جس پر وہ ہمیشہ فخر کرتے تھے۔

 اولاد

حضرت اسعد بن زرارہ کی اہلیہ حضرت عمیرہ بنت سہل بھی بنو نجار سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ مسلمان ہوئیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی۔حضرت اسعد بن زرارہ کی نرینہ اولاد نہ تھی، فریعہ، حبیبہ اور کبشہ،ان کی تین بیٹیاں ہوئیں۔وفات کے وقت انھوں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی نگہداشت کرنے کی درخواست کی۔وہ آپ کے کنبے میں شامل ہو گئیں، آپ کی ازواج کے حجروں میں گھومتی پھرتیں۔ آپ نے ہمیشہ ان کا خیال رکھا۔ آپ کے پاس موتی جڑی سونے کی بالیاں،رعاث آئیں تو ان کو پہنا دیں (السنن الکبریٰ،بیہقی، رقم۷۵۶۰۔المعجم الکبیر، طبرانی، رقم۲۰۹۶۱۔ مستدرک حاکم، رقم۴۸۶۰)۔ان تینوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر کے اسلام قبول کیا۔

حضرت فارعہ یا فریعہ حضرت اسعد بن زرارہ کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔شادی کی عمر کو پہنچیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو نجار کے حضرت نبیط بن جابر کا رشتہ قبول کر کے ان سے نکاح فرما دیا۔ان کا بیٹا ہوا تو آپ کے پاس لے کر آئیں اور نام رکھنے کی درخواست کی۔آپ نے عبدالملک نام رکھا اور برکت کی دعا فرمائی۔ دوسری بیٹی حضرت حبیبہ کا بیاہ اوس کی شاخ بنو عمرو بن عوف کے حضرت سہل بن حنیف سے ہوا۔ حضرت کبشہ حضرت اسعد کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ان کی شادی بنو عمرو بن عوف کے عبداللہ بن ابو حبیبہ سے ہوئی۔

مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، جمل من انساب الاشراف (بلاذری)، تاریخ الامم و الملوک (طبری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، تاریخ الاسلام(ذہبی)،سیر اعلام النبلاء (ذہبی)، البدایۃ والنہایۃ (ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)۔


[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B