HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

مذہب، انسانی فطرت اور تاریخ (۱)

ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن


(معاصر سوالات کے تناظر میں ایک مکالمہ)


مطیع سید: انسان کی داخلی استعداد جس سے انسان حق و باطل اور خیر وشر کو پہچانتاہے، اس کی تشکیل کس اصول پر ہوتی ہے؟

عمارناصر: اس کو بالکل اس کی تہ میں جاکر سمجھنا یا اس کاتجزیہ کرنا تو بڑامشکل کام ہے۔ البتہ قرآن مجید اور احادیث سے جو مختلف اشارات ملتے ہیں،ان سے صوفیہ کچھ چیزیں اخذ کرتے ہیں، اور شاہ ولی اللہ صاحب نے اس پر بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حق کو جاننے کی استعداد سب میں یکساں نہیں ہوتی۔سب انسان فطری طورپر یکساں استعداد لے کر پیدانہیں ہوتے۔شاہ صاحب اس کے پانچ چھ مراتب بیان کرتےہیں۔ جیسے نفسیات میں لوگوں کی Personality Typesبیان کی جاتی ہیں تو وہ اس پہلوسے انسانوں کی مختلف Types بتاتے ہیں۔

کچھ تو وہ ہیں جو حیوانیت کے درجےسے ہی اوپر نہیں اٹھتے، یعنی ان کا زندگی کو دیکھنے کا انداز جبلی ضرورتوں تک محدود ہوتاہے۔ زندگی کا کوئی اعلیٰ ترمقصد بھی ہوتاہے،یہ ان کی استعداد سے اوپر کی چیز ہوتی ہے۔کچھ وہ ہوتے ہیں جن میں کچھ نہ کچھ استعداد تو ہوتی ہے، لیکن غفلت بہت برے طریقے سے طاری ہوتی ہے۔ان کے لیے متنبہ ہونا، اس طرف متوجہ ہونا کہ کچھ چیزیں ہمیں کسی اعلیٰ حقیقت کی یاددہانی کرا رہی ہیں،یہ مشکل ہوتاہے۔کچھ اور لوگ ہیں جو ہوتے تو ذہین ہیں، لیکن ان پر بھی کچھ عوارض،جیسے دنیا کی محبت،دنیا کی سیادت کی محبت، کچھ تعصبات،یہ اتنے غالب ہوتے ہیں کہ وہ ایک رکاوٹ بن جاتے ہیں۔کچھ وہ ہوتے ہیں کہ جن کو تھوڑی تگ و دو کرنی پڑتی ہے،تھوڑا سا کوئی اشارہ مل جائے تو وہ غورکرتے ہیں،اور پھر آخر سمجھ لیتے ہیں۔ کچھ وہ ہوتے ہیں کہ روغن کو آگ دکھائے جانے کی طرح ہدایت کے منتظر ہوتے ہیں، جیسے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں۔

تو یہ کہاجا سکتاہے کہ قبول ہدایت کی استعداد کے اعتبار سے اور عوارض کس طرح کے لاحق ہیں، اس لحاظ سے مختلف Typesہوتی ہیں، لیکن بالکل سائنسی انداز میں یا کلینکل طریقے سے تجزیہ کرکے بتانا کہ اس آدمی کے باطن میں یہ عمل ہو رہاہے، یہ مشکل کام ہے۔صوفیہ کہتے ہیں کہ ہم معرفت کی نگاہ سے دیکھ لیتے ہیں۔ واللہ اعلم۔

مطیع سید: یہ جو آپ انسانوں کی مختلف سطحیں بیان فرمارہے ہیں،تو کیا ایک سطح سے دوسری سطح تک بھی آدمی  اٹھ سکتاہے؟

 عمارناصر: اگر تو انسان پیداہی ایسے ہوتے ہیں تو پھر شاید نہیں اٹھ سکتا۔

مطیع سید: اس کو اس سطح پر لانے میں ماحول وغیرہ کا کیا کردار ہے ؟

 عمارناصر:وہ تو ایک اضافی پہلو ہے۔ سب پر ان کی استعدادکے لحاظ سے ماحول بھی اثر انداز ہوتاہے۔

مطیع سید: قرآن نے جو اشارہ کیا ہے: ’فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا‘تو کیایہ اس کی ابتدائی اسٹیج بتادی گئی ہےکہ اس درجے پر تو ہر انسان کو رکھ دیا گیا ہے کہ وہ فجور اور تقویٰ کی چیزوں میں فرق کر سکے ؟

 عمارناصر: غلط اور صحیح کے شعور کے متعلق تو میرے خیال میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک بنیادی سطح پر ہر شخص میں ہوتاہے، یعنی اخلاقی خیر و شر کا احساس انسانوں میں مشترک ہوتاہے۔ قرآن کے بیانا ت پر غور کریں تو وہ بھی یہی حقیقت بیا ن کرتاہے کہ انسانوں کو ایک شعور یہ ودیعت ہواہےاور جو قومیں بھی اس شعور کو محفوظ رکھنے اور اس کی نشوونما کا انتظام کرتی ہیں، ان کا انداز زندگی مختلف ہو تاہے،لیکن کیا ہر ہر انسان کے بارے میں ہم کہہ سکتےہیں کہ خیر کے ساتھ وابستہ ہونے اور شر سے گریز کا داعیہ سب میں کیفیت کے اعتبار سے یکساں ہوتا ہے؟

مطیع سید: تجربہ اور مشاہدہ یہ بتاتاہے کہ آدمی اگر شریر مزاج کا ہے،بداخلاق ہےیا سازشی فطرت کا مالک ہےتو وہ ساری زندگی ایسے ہی رہتاہے۔وہ کسی مذہبی جماعت کے ساتھ جڑ جائے، ظاہری طور پر ایک ٹھیٹھ مذہبی انسان بھی بن جائے،وہاں بھی ویساہی رہتاہے۔ایسے لگتاہے کہ مذہب انسان کی فطرت کے آگے کم زور پڑ جاتا ہے۔کیا مذہب کچھ نہیں کر سکتا؟ آدمی اگر پیداہی ایک بری فطرت کے ساتھ ہوا ہوتو وہ آخر کتنااچھابن سکتا ہے؟

 عمارناصر: اصل میں مذہب کو اس طرح دیکھنا کہ یہ کوئی خودکار قسم کی قوت ہے جو کچھ خاص  نتائج لازماً‌ پیداکرنے کا دعویٰ رکھتی ہے،یہ کافی محل نظر بات ہے۔جو کچھ کرناہے، وہ انسان نے کرناہے یا انسان کی کو شش نے کرناہے اور اس میں فطری استعداد کے تفاوت کا بہت دخل ہے۔

مطیع سید:پھر یہ جو کہاجاتاہے کہ مذہب کا بنیادی وظیفہ یہ ہے کہ وہ انسان کی اخلاقی کانٹ چھانٹ اور درستی اور تربیت کے لیے آتاہے، اس کا کیا مطلب ہے؟

 عمارناصر: یعنی یہ اس کا ہدف ہے۔ اس کا بنیادی مقصد ہے کہ انسان کو اس کی رہنمائی دی جائے اور اس کی مدد کی جائے۔

مطیع سید: کیاتعلیم انسان کی فطرت میں تغیر پیدا کرسکتی ہے؟

 عمارناصر:انسان کی فطرت میں خیر و شر کے دونوں پہلو موجود ہیں۔پوٹینشل تو وہاں موجودہے۔ تعلیم سے خیر کا پہلو غالب آجائے تو اس کو بدلنا تو نہیں کہتے۔ فطرت کے اندر جو پوٹینشل موجود ہے، اسی کو رُخ دینے کی بات ہے۔

مطیع سید: اس میں پھر مذہب کا کیا کردار ہے ؟

 عمارناصر : مذہب کاکام تو انسا ن کی رہنمائی کرناہے۔اب وہ رہنمائی جب انسانوں سے متعلق ہوگی تو ان میں کتنی تبدیلی لا پائے گی یانہیں لا پائے گی، یہ ایک الگ بات ہے۔ اس میں کئی اور عوامل شامل ہوں گے،اس سے پتا چلے گا کہ یہ رہنمائی عملاً تبدیلی لاپارہی ہے یا نہیں لارہی۔ فرد کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگااور کسی معاشرے میں بھی ایسے ہی ہوگا۔ جیسے انبیاکی تعلیم وتبلیغ میں اور ان کی سرگرمی اور محنت میں تو کوئی فرق نہیں ہوتا،لیکن دوسرے عوامل ہیں جو معاون بن گئے تو لوگوں میں ان کی تعلیم نے قبولیت حاصل کر لی۔کچھ جگہوں پر معاون اسباب نہیں ملے تو نبی کواکیلے ہی دنیا سے جانا پڑا۔

مطیع سید: جو آدمی ایک اچھی فطرت لے کر آیا ہے،کیا وہ بغیر مذہب کے بھی اچھاہے اور جو بری فطرت لے کر پیداہو اہے، مذہبی ہو کر بھی وہ ویسا ہی رہتاہے؟

 عمارناصر: نہیں، یہاں دو چیزیں گڈمڈ ہو گئیں۔ایک بات یہ ہے کہ مذہب آکر انسان کی نیچر کو بدل دیتا ہے،  یعنی اگر میں اپنی نیچر میں خدا نخواستہ بد نہاد ہوں او رمذہب آئے گا اور میری نیچر کو ہی بدل دے گا،یہ تو مذہب نہیں کہتا۔ مذہب یہ کہتا ہے کہ میں ا گر خیر و شر میں کسی غلطی کا شکار ہوں تو ایک تو وہ میری اصلاح کرےگا۔ دوسرے یہ کہ مذہب ایک پیغام دے گا،اور اس کو جب ہم معاشرے میں پھیلائیں گے تو جن جن لوگوں میں بھی استعداد ہے اور جو غفلت کی وجہ سے او رتذکیر نہ ہونے کی وجہ سے غلطی میں پڑے ہو ئے ہیں، ان کو سدھارنے میں مذہب ایک قوت کے طورپر کام کرےگا۔

مطیع سید: لیکن ایک آدمی ہے جو فطرتاً شریف ہے، ایک آدمی ہے جو بدطینت ہے۔ مذہب کی تعلیم ان دونوں کے لیے ایک جیسی تو موثر نہیں ہوگی۔

 عمارناصر:  درست ہے۔ فطرت کے اندر جو رجحانات موجود ہیں، ان میں سے کوئی خاص رجحان  افراد پر غالب ہوسکتا ہے اور بعض پر اتنا غالب ہوتا ہے کہ اس کی گرفت سے باہر نکلنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ حدیث میں اس کی تعبیر ’جُبل علیه‘ کے الفاظ سے کی گئی ہے۔یعنی فلاں شخص کی طبیعت اور مزاج میں کوئی وصف جیسے گوندھ دیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ اگر تمھیں بتایا جائے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیاہے تو وہ مان لو،لیکن ایک آدمی کا جو مزاج بنایاگیاہے،اگر کہا جائے کہ وہ اس سے ہٹ گیا ہے،یہ نہ مانو۔ یہ ایسی چیزہے جو نہیں بدلتی۔

مطیع سید: اس کا مطلب پھر یہ ہے کہ آدمی کی استعداد کے لحاظ سے اس کاحساب لیا جائے گا؟ اگر کسی کو خدا نے تیز مزاج کا بنایا تھاتو اس کا حساب کتاب بھی قیامت کے دن اسی کے مطابق ہوگا ؟

 عمارناصر: جی، یہ وہ جانتاہے کہ کس کو کس طرح کا بنایا تھا،اور اس کی آزمایش کیسی ہوئی تھی، اور اس میں اس نے کس طرح کا طرز عمل اپنایا تھا،اور اب اس کا مواخذہ کیسے بنتاہے۔یہ خدا ہی جانتاہے۔

مطیع سید: کیا بندگی کا جذبہ انسان کی فطرت میں موجود ہے ؟

عمارناصر: ایک ماورائی حقیقت کے ساتھ جڑنے کی لپک تو انسان کے اندر موجود ہے۔ یہ انسان کو سکھانے سمجھانے کے لیے کسی خاص کد وکاوش کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی لیے مذہب ہمیشہ سے انسانی شعور کا حصہ رہا ہے۔ اگر کوئی ماورائی حقیقت ہے تو اس کے ساتھ ایک نوع کے تعلق کا احساس،یہ انسان کے لیے فطری چیزہے۔

مطیع سید: اگر بندگی کے رجحانات انسان کی فطرت میں ہیں تو آج اتنے بڑے پیمانے پر انسان الحاد کی طرف جارہاہے،یہ کیسے ممکن ہے؟

 عمارناصر: فطرت پر آپ کا ماحول اور تربیت تو اثر انداز ہوتے ہیں۔فطرت کا مطلب ہے کہ ایک بات آپ کے سامنے آئے جس کا بنیادی شعور آپ کے اندر موجود ہے، اور اس شعور کو زائل کرنے والے اثرات ماحول میں نہ ہوں،کوئی موانع نہ ہوں تو آپ اس کو قبول کرلیتے ہیں۔آپ کی طبیعت کا اس کی طرف میلان ہو جاتا ہے،لیکن اگراس کے مخالف کچھ رجحانات بھی ماحول میں ہوں یا جس کو ہم موانع کہتے ہیں،وہ موجود ہوں تو ظاہر ہے، ان کابھی انسان پر اتناہی اثر ہوتاہے۔

مطیع سید: گویا وہ انسان کے اندر فطرت کی آواز کو دبا دیتے ہیں،زیادہ موثر ہوجاتے ہیں ؟

 عمارناصر: جی زیادہ موثر ہوجاتے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ماحول سے متاثرہونابھی انسان کی استعداد کا حصہ ہے۔

مطیع سید: غامدی صاحب الحاد پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تو کوئی ایشو ہی نہیں ہے۔ دنیا کا اصل چیلنج اسلام ہے۔ اسلام کو کوئی چیلنج نہیں ہے، کیونکہ الحاد کسی قسم کے استدلا ل پر نہیں کھڑا۔ مجھے ان کی بات سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔ان کی اپنی علمی سطح پر تو ایسے ہی ہوگا،لیکن عام سطح پر تو الحاد کے پاس بڑے استدلالات ہیں اور متاثر کن بھی ہیں۔

 عمارناصر: جی ایسا ہی ہے اور یہ دیکھنا اہم ہے کہ آپ کس سطح پر بات کررہے ہیں۔ایک سطح پر اگرآپ الحاد کا تجزیہ کریں،اس کی بنیادیں کیاہیں،اس کا استدلال کیا ہے،اس کی تنقید کریں تو یہ بات ٹھیک ہے کہ وہ کسی مضبوط بنیاد پر کھڑا نہیں ہے۔لیکن آپ اس سطح پر دیکھیں جس میں انسان کو تاریخ میں رہتے ہوئے،معاشرے میں رہتے ہوئے چیزیں اپیل کرتی ہیں،متاثر کرتی ہیں تو ظاہر ہے، اس کے نفسیاتی اثرات ہیں۔اس سطح پر تو ظاہر ہے کہ الحاد موثر ہے۔

مطیع سید: سوال یہ ہے کہ شرک کا کیااستدلال ہے ؟وہ بھی تو کسی استدلال پر نہیں کھڑا تھا، لیکن قرآن اس کی تردید سے بھراپڑاہے۔ اس کے استدلال پر جیسا بھی وہ ہے، ضرب لگاتاہے۔

 عمارناصر: یہ آپ کا معارضہ صحیح ہے۔شرک کا بھی تو کوئی استدلال نہیں ہے۔ ایک دور میں تو وہی ساری دنیا کا مسلمہ مذہب تھا۔ تو اس وقت یہ سمجھانے کے لیے کہ اصل حقیقت توحید ہے،اس پر بہت زور لگانا پڑتا تھا۔ اس لحاظ سے کوئی بعید تو نہیں کہ جدید دور میں،آنے والے دو ر میں شاید آہستہ آہستہ الحاد بھی اس طرح سے مستحکم ہوجائے۔یہ خارج از امکان نہیں ہے۔

مطیع سید:اجتہاد کا دائرہ دین کے اندر تو محمود ہے کہ اگر کوئی درست جگہ پہنچ جاتاہے تو اس کے لیے دہرا اجر ہے اور اگر نہیں بھی پہنچ سکا تو ایک درجہ میں اس کو اجر مل جاتا ہے۔ کیا مختلف ادیان کے چناؤ میں بھی یہی اصول ہے کہ آدمی اخلاص سے کوئی بھی مذہب چن لے تو نجات کا مستحق ہوگا؟

 عمارناصر: دین کے دائرے میں اجتہاد کی گنجایش اور دین کے انتخاب میں اجتہاد کی گنجایش تو ایک جیسی نہیں ہے۔ جہاں حق وباطل کا اختلاف ہو، وہاں گنجایش تو ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔ لیکن تکلیف مالایطاق کا اصول دونوں دائروں میں موثر ہے۔آدمی کی ذمہ داری اتنی ہی ہے جتنی اس پر بات واضح ہے اور جتنا اس کے پاس اختیار ہے۔ اگر کسی آدمی پر اس درجے میں حق واضح نہیں ہو سکا کہ اس کے پاس انکار کا کوئی عذر نہ ہو، اس کا مواخذہ پھر اسی کے لحاظ سے ہوگا۔

مطیع سید: قرآن کو دیکھیں تو وہ تو اس معاملے میں بڑا  سخت حکم لگاتا ہے۔تو کیا ہم کہیں گے کہ جس دور میں پیغمبر بذات خود موجود تھا،یہ ان کے لیے اتنی سختی ہے ؟

 عمارناصر: اس میں دو چیزیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ قرآن کہتاہے کہ جو حق میں واضح کر رہا ہوں،اللہ کی طرف سے وہی حق ہے،اور دین میں لوگوں نے جو بھی اختلافات پیدا کیے،ان کے متعلق میں اللہ کی طرف سے فیصلہ کررہا ہوں۔ یہ تو ظاہرہے کہ کچھ خاص لوگوں کے لیے نہیں ہو سکتا۔ قرآن حق لے کر آیاہے،وہ برحق ہے تو پھر وہ سب کے لیے حق ہے۔اس میں تو کوئی بحث نہیں۔اس کے ساتھ دوسری بات یہ ہے کہ جو اس حق کے سامنے آنے کے بعد اسے قبول نہیں کر رہے،ان کے ساتھ قرآن بات کر رہا ہے اور ان پر ایک حکم لگا رہاہے۔ اس میں بدیہی طورپر فرق واقع ہوگا۔ جن کے سامنے قرآن اتر رہاہے، جن کے سامنے پیغمبر ہے،جن کے سامنے وہ سارا عمل برپا ہو رہا ہےجس کو غامدی صاحب دینونت کہتے ہیں، ان پر تو حکم یہ لگتا ہے، لیکن جیسے جیسے زمانہ گزر رہاہے، حالات بدل رہے ہیں، زمانی و مکانی فاصلہ واقع ہورہاہے، ویسے ویسے اس سارے عمل کی،اس سارے واقعہ کی جو وہاں وقوع پذیر ہوا، اس کی تصویر بھی لوگوں کے سامنے بدل رہی ہے، دھندلا رہی ہے،او روہ تاریخ کے بہت سے واقعات میں سے ایک واقعہ بن رہاہے۔تو یہاں یہ حکم لگانا کہ جو حکم قرآن کے براہ راست مخاطبین کا تھا، وہی آج کے منکروں کابھی ہے، یہ ہمارے انسانی علم کی حد تک بڑا مشکل ہے۔

مطیع سید:لیکن جان بوجھ کر حق کا انکار کرنے والے کیا آج نہیں ہو سکتے؟

 عمارناصر: منکرین پر جو حکم لگایا گیاہے، ان آیات سے ہم ایک اصول اخذ کرسکتے ہیں کہ حق واضح ہونے کے بعد عناد سے یا تعصب سے انکارکرنے والوں کا حکم اللہ کے ہاں یہ ہے۔اب کس میں کتنا تعصب ہے، کتناعناد ہے،کتنا ابہام یا کتنے اس کے شکو ک و شبہات ہیں جو مانع بن رہے ہیں، اس کی تعیین ہماری ذ مہ داری بھی نہیں ہے اور ہمارا اختیار بھی نہیں ہے۔                                                               

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B