یہ صرف مرد و عورت نہیں ہیں، جنھیں زوجین کی صورت میں پیدا کیا گیا ہے۔ قرآن نے صراحت فرمائی ہے کہ اِس دنیا کی ہر چیز اِسی طرح پیدا ہوئی ہے، لہٰذا سب جوڑا جوڑا ہیں، الاّ یہ کہ وہ اِنھی میں سے کسی جوڑے کے تکملہ اور تتمہ کے طورپر پیدا کی گئی ہوں۔ انسان اگر دقت نظر کے ساتھ غور کرے تو دیکھ سکتا ہے کہ نفس اور مادہ ہو، نباتات و حیوانات ہوں، نوع انسانی ہو یا قرآن کی سورتیں، خدا کی مخلوقات میں ہر جگہ تزویج کا یہی اصول کارفرما ہے۔ یہاں تک کہ مادے کی بنیادی ترکیب میں بھی مثبت اور منفی برقی توانائی کا ربط و نظام ہی نتیجہ خیز ہو رہا ہے۔ پھر یہی نہیں، اِس سے آگے دیکھیے تو فرد اجتماع کے ساتھ، محنت سرمایے کے ساتھ، علل اپنے معلولات کے ساتھ، قوی آلات کے ساتھ، طبائع ارادوں کے ساتھ اور ارواح بھی اِسی طرح اپنے اجسام کے ساتھ جڑے ہوئے زوجین ہی کی صورت میں نظر آئیں گے۔ چنانچہ فرمایا ہے :
وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ، لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ.(الذاریات ۵۱: ۴۹)
’’اور ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں تا کہ تم یاد دہانی حاصل کرو۔‘‘
مدعا یہ ہے کہ جب دنیا کی ہر چیز جوڑا جوڑا ہے اور اِسی حیثیت سے اپنی معنویت کا اظہار کرتی ہے تو خود دنیا کو بھی اپنا جوڑا چاہیے، جس سے وہ ایک بامقصد اور بامعنی چیز بنے۔ قرآن جس آخرت کی منادی کرتا ہے، یہ اُس کے وجوب پر قرآن کا استدلال ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اُس نے اِسی مقصد سے اِس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے، لیکن غور کیجیے تو ایک دوسری حقیقت بھی اِس کے نتیجے میں آپ سے آپ واضح ہوتی ہے، اور وہ یہ کہ انسان کی تمام تگ و دو کا ہدف اُس کی دنیوی زندگی میں بھی یہی ہونا چاہیے کہ وہ ہر شے، ہر فکر، ہر حرکت اور ہر خیال کے زوجین دریافت کرے، پھر دیکھے کہ وہ کس لحاظ سے زوج زوج ہوئے ہیں، اُن کے مابین کیا پہلو تضادات کے اور کیا توافق کے ہیں، وہ ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ہوتے اور نئے زوجین کے تولد کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ مرد و عورت کے باہمی تعلق سے جو معاشرت پیدا ہو تی ہے، اُس میں بھی زوجین کے اِس تعلق کو سمجھنا ضروری ہے۔ فرد اور اجتماع کے تعلق سے جو سیاست وجود میں آتی ہے، اُس کا بھی یہی تقاضا ہے۔ محنت اور سرمایہ جس معیشت کو وجودمیں لاتے ہیں، اُس کا فہم بھی اِسی پر منحصر ہے۔
یہ کوئی جدلیات نہیں ہے، جسے بعض فلسفیوں نے دریافت کر لینے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ زوج کے اندر زوج کی طلب ہے، جو اُنھیں زوجین بن جانے کے لیے مجبور کر دیتی، اور اِس طرح تضادات سے توافق اور توافق سے تضادات کی صورت میں نئے زوجین پیدا کرتی چلی جاتی ہے۔
دنیا کی فطرت یہی ہے۔ اِس کو سمجھے بغیر اگر علم وعمل کا کوئی نظریہ قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اُس کا حاصل محض انتہا پسندی ہوگی۔ سوشلزم، کمیونزم، فاشزم اور اب فیمنزم وغیرہ، یہ سب اِسی کی مثالیں ہیں۔ فلسفہ کے مختلف مدارس کا مطالعہ کیجیے تو وہاں بھی یہی صورت نظر آتی ہے۔ اِس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ زندگی کا حسن توازن ہے اوریہ اُسی وقت پیدا ہوتا ہے، جب ہم چیزوں کو اُن کی منفرد صورت میں دیکھنے کے بجاے اُنھیں زوجین کی صورت میں دیکھیں۔ پھر جو تعلق اُن میں پیدا ہوا ہے، اُس کو سمجھیں کہ اُس کی نوعیت کیا ہے، پھر اُسی کے مطابق اُن سے معاملہ کرنے کی سعی کریں۔
یہی علم حقیقی ہے، جو دنیا اور آخرت، دونوں میں انسان کو صلاح و فلاح سے ہم کنار کر دیتا ہے۔ خدا کی شریعت اِسی علم کو لے کر نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ اِسی بنا پر فرمایا ہے کہ تمھارے پروردگار نے جب اِس کائنات کو بنایا تو اُس میں میزان قائم کر دی، اِس لیے کہ لوگ بھی اپنے دائرۂ اختیار میں اِسی طرح میزان قائم رکھیں۔ اہل ایمان کے لیے قیام بالقسط کا حکم، جسے قرآن میں ایمان کا لازمی تقاضا قرار دیا گیا ہے، اِسی ہدایت کی ایک تعبیر ہے :
وَالسَّمَآءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيْزَانَ، اَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيْزَانِ، وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيْزَانَ.(الرحمٰن ۵۵: ۷ - ۹)
’’اور اُس نے آسمان کو اونچا کیا اور اُس میں میزان قائم کر دی کہ (اپنے دائرۂ اختیار میں) تم بھی میزان میں خلل نہ ڈالو اور انصاف کے ساتھ سیدھی تول تولو اور وزن میں کمی نہ کرو۔‘‘
ـــــــــــــــــــــــــ