سیرة النبی
ترجمہ و تحقیق: محمد رفیع مفتی/محسن ممتاز
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ:1 أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لاَ يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، [ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الخَلَاءُ ] ۲، فَكَانَ يَأْتِي حِرَاءً فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ- وَهْوَ التَّعَبُّدُ- اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ، وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَتُزَوِّدُهُ لِمِثْلِهَا، حَتَّى فَجِئَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فِيهِ فَقَالَ: اقْرَأْ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ. فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ. فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ اقْرَأْ. فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ. فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ: ﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ. خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ. الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ﴾ ۳». فَرَجَعَ بِهَا تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ فَقَالَ: «زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي»، فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ: «يَا خَدِيجَةُ، مَا لِي»؟ وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ وَقَالَ: «قَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي» . فَقَالَتْ لَهُ: كَلَّا أَبْشِرْ، فَوَاللّٰهِ لاَ يُخْزِيكَ اللّٰهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، [وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ ] ۴، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ. ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَيٍّ- وَهْوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخِيْ أَبِيهَا، وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ فَيَكْتُبُ بِالْعَرَبِيَّةِ مِنَ الإِنْجِيلِ مَا شَاءَ اللّٰهُ أَنْ يَكْتُبَ،۵ وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا، قَدْ عَمِيَ، فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ أَيِ ابْنَ عَمِّ، اسْمَعْ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ. فَقَالَ وَرَقَةُ: ابْنَ أَخِي، مَاذَا تَرَى؟ فَأَخْبَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا رَأَى، فَقَالَ وَرَقَةُ: هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى مُوسَى، يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا، أَكُونُ حَيًّا، حِينَ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ»؟ فَقَالَ وَرَقَةُ: نَعَمْ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا. ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ، وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً.
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، وہ فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا نیند میں سچے خوابوں سے ہوئی تھی۔ آپ جو خواب بھی دیکھتے ، اُس کی تاویل روشن صبح کی طرح ظاہر ہو جاتی۔ تب آپ کو تنہائی بھانے لگی اور آپ کھانے پینے کا سامان ساتھ لے کر کئی کئی دنوں کے لیے غار حرا میں خلوت گزیں ہو جایا کرتے تھے۔۱ وہاں آپ ’تحنث‘۲، یعنی دین حنیفی کی عبادت میں مشغول رہتے اور پھر (توشہ ختم ہونے پر) خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لاتے اور وہ آپ کے لیے اتنا ہی توشہ مزید تیار کر دیتی تھیں۔ ( آپ کی خلوت گزینی کا یہ سلسلہ اِسی طرح چلتا رہا)، یہاں تک کہ (ایک دن)جب آپ غار حرا میں تھے، حق آپ پر اچانک ظاہر ہوا، ا للہ کا فرشتہ (جبریل) آپ کے پاس آیا اور کہا : (اے محمد)، پڑھو ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے اُس سے کہا : میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، اِس پر اُس نے مجھے پکڑا اور زور سے بھینچا، جس کی وجہ سے مجھ کو بہت تکلیف ہوئی، پھر اُس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھو، میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے مجھے دوبارہ پکڑا اور بھینچا ، یہاں تک کہ میری طاقت جواب دے گئی، پھراُس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھوتو میں نے پھر کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اِس پر اُس نے مجھے تیسری مرتبہ پکڑا اور اتنے زور سے بھینچا کہ میں بے بس ہو گیا، پھر اُس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا:﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ. خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ. الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ﴾ ،’’(اِنھیں) پڑھ (کرسناؤ)، (اے پیغمبر)، اپنے اُس پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا ہے،جمے ہوئے خون( جیسے ایک لوتھڑے) سے انسان کو پیدا کیا ہے۔ (اِنھیں) پڑھ (کرسناؤ)، اور حقیقت یہ ہے کہ تمھارا پروردگار بڑا ہی کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے سے (یہ قرآن) سکھایا۔انسان کو (اِس میں) وہ علم دیا، جسے وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘ ۳(راوی بتاتے ہیں کہ)پھر ان آیات کے ساتھ۴ آپ کانپتے لرزتے خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور آپ نے فرمایا : مجھے چادر اڑھا دو، مجھے چادر اڑھا دو۔ چنانچہ گھر والوں نے آپ کو چادر اڑھا دی ، حتیٰ کہ آپ کا خوف دور ہو گیا تو آپ نے فرمایا : اے خدیجہ مجھے کیا ہوا ہے، پھر آپ نے اپنا سارا حال اُن سے بیان کیا اور کہا: مجھے تو اب اپنی جان کا خوف لاحق ہو گیا ہے۔۵ سیدہ خدیجہ نے آپ سے کہا: بخدا، ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، آپ خوش ہو جائیے ، اللہ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا، آپ تو کنبہ پرور ہیں، صادق اللسان ہیں، بے کسوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں، مفلسوں کے لیے کماتے ہیں، مہمان نواز ہیں اور لوگوں پر راہ حق میں آنے والی مصیبتوں میں اُن کا ساتھ دیتے ہیں۔۶پھر (مزید تسلی کے لیے) خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی کے پاس لے گئیں۔۷ یہ اُن کے چچا زاد بھائی تھے۔ زمانۂ جاہلیت میں یہ نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عربی میں کتابت کیا کرتے تھے۔ خدا کو جب تک منظور تھا، یہ عربی زبان میں انجیل کی کتابت کرتے رہے تھے ۔ اب یہ عمر رسیدہ تھے اور نابینا ہو چکے تھے۔ سیدہ خدیجہ نے اُن سے کہا: اے میرے چچا زاد بھائی، اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔ ورقہ نے آپ سے پوچھا : بھتیجے، تو نے کیا دیکھا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دیکھا تھا ، اُنھیں بتایا۔ ورقہ نے کہا: یہ تو وہی ناموس ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا ۔ اے کاش، میں آپ کے اِس عہد نبوت میں جوان ہوتا اور اُس وقت زندہ ہوتا ، جب آپ کی قوم آپ کو (اس شہر سے) نکال دے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر (تعجب سے) پوچھا: کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا: ہاں ، کوئی بھی شخص جو آپ کی طرح (امرحق )لے کر آیا ہے، اُس سے دشمنی ہی کی گئی ہے۔ اگر مجھے آپ کا دور نبوت مل گیا تو میں آپ کی پوری مدد کروں گا۔۸ پھر (ہوا یہ کہ) جلد ہی ورقہ کا انتقال ہو گیا ، اور وحی کچھ عرصہ کے لیے رُک گئی۔
______________
۱۔ یہ غالباً کسی رمضان کا ذکر ہے۔ ابن اسحٰق نے لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان میں اعتکاف کے لیے اِسی غار میں جاتے تھے۔ اِس کی وجہ غالباً یہ رہی ہو گی کہ بیت اللہ میں بت رکھ دینے کی وجہ سے دین حنیف کے پیرو خلوت کی اِس عبادت کے لیے کئی دن تک شب و روز بتوں اور اُن کی پرستش کے لیے آنے والوں کے شوروغوغامیں بیٹھنا پسند نہیں کرتے ہوں گے۔ یہاں جس چیزکو ’خلوت گزینی‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، یہ وہی اعتکاف کی خلوت گزینی ہے، جو دین حق کی عبادات میں ہمیشہ شامل رہی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بھی ہر سال اِس کا اہتمام کرتے اور اِس موقع پر جو غربا اور مساکین وہاں آجاتے، اُن کو کھانا بھی کھلاتے تھے۔ اپنے دادا کی یہ روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِسی طرح قائم رکھی۔ چنانچہ روایتوں میں ہے کہ اعتکاف سے اٹھنے کے بعد آپ سب سے پہلے بیت اللہ میں حاضر ہوتے اور اُس کا طواف کرتے تھے (تفصیلات کے لیے دیکھیے: ابن ہشام ۱ / ۲۲۷۔ فتح الباری، ابن حجر ۱۲/ ۳۵۵۔ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ۲۴/ ۱۲۸۔ البحر المحیط الثجاج فی شرح صحيح الامام مسلم بن الحجاج، محمد بن علی بن آدم ۴/ ۳۶۰)۔
۲۔ یہ درحقیقت ’تحنف‘ ہے، جس میں ’ف‘ ’ث‘ سے تبدیل ہو گئی ہے۔ ’جدف‘ سے ’جدث‘ اور ’فم‘ سے ’ثم‘ اِسی کی مثالیں ہیں۔ اِس سے مراد حنیفیت ہے، جس سے اہل عرب بالعموم دین ابراہیمی کی روایت کو تعبیر کرتے تھے۔
۳۔ یہ نزول قرآن کی ابتدا نہیں ہے، بلکہ آپ کا رؤیا ہے، جس میں ابن اسحٰق کی روایت کے مطابق ریشم کے غلاف میں ایک کتاب آپ کو دکھائی گئی۔ اُس میں سورۂ علق کی یہ آیتیں لکھی ہوئی تھیں۔ اُن کا بیان ہے کہ اِس کے بعد آپ نیند سے بیدار ہو کر باہر نکلے اور پہاڑ کے درمیان میں پہنچے تو پہلی مرتبہ جبریل امین کو دیکھا۔ یہ وہی ملاقات ہے، جس کا ذکر سورۂ نجم (۵۳) میں ہے۔ اِسی ملاقات میں آپ کو بتایا گیا کہ آپ کو رسالت کے لیے منتخب کیا گیا ہے (ملاحظہ ہو: ابن ہشام ۱ / ۲۲۹)۔ قر آن مجید کا نزول اِس کے بعد کسی وقت شروع ہوا ہے۔ چنانچہ سورۂ علق کی یہ آیات بھی نزول کے لحاظ سے قر آن کی پہلی آیات نہیں ہیں۔
۴۔ یہ راوی کی غلطی ہے۔ سورۂ علق کی آیات، جیسا کہ پیچھے بیان ہوا ہے، باہر نکلنے سے پہلے آپ اپنے رؤیا میں دیکھ چکے تھے۔ ابن اسحٰق میں صراحت ہے کہ سیدہ خدیجہ غار حرا کے اعتکاف میں اُسی جگہ آپ کے ساتھ موجود تھیں۔ اُنھوں نے وہیں سے کچھ لوگ آپ کی تلاش میں پیچھے بھیجے، لیکن آپ اُن کو نہیں ملے۔ چنانچہ وہ مکہ کے اوپر کے حصے میں آپ کو ڈھونڈ کر واپس آگئے۔ اِس کے بعد کسی وقت آپ پہاڑ کے درمیان سے لوٹے اور سیدہ خدیجہ کے ساتھ وہ گفتگو ہوئی، جو آگے نقل ہوئی ہے (ابن ہشام ۱/ ۲۲۹)۔
۵۔ اِس تاثر کے نقل کرنے میں بھی راویوں سے کچھ غلطی ہوئی ہے۔ آپ نے یہ بات غالباً ورقہ بن نوفل سے ملاقات کے بعد اور اُس ردعمل کے حوالے سے کہی ہے جو قوم کی طرف سے آپ کی دعوت کے جواب میں ہو سکتا تھا۔ وحی و نبوت کے تجربے سے اِس کا، ہرگز کوئی تعلق نہیں ہے۔
۶۔ قر آن کا بیان ہے کہ پیغمبر ’خیار الناس‘ ہوتے ہیں۔ یہ اُس کی بہترین تصویر ہے،جو سیدہ خدیجہ نے اِن الفاظ میں کھینچ دی ہے۔
۷۔ ابن اسحٰق میں صراحت ہے کہ سیدہ آپ کو ساتھ لے کر نہیں، بلکہ تنہا اور اپنی تسلی کے لیے ورقہ بن نوفل کے پاس گئی تھیں، اور اُن سے ملاقات کے بعد وہیں غار میں واپس آکر آپ کو بتایا تھا کہ اُنھوں نے کہا ہے: خدیجہ، اگر تم سچ کہہ رہی ہو تو بے شک، یہ وہی ناموس اکبر ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تھا اور بے شک، وہ اِس امت کے نبی ہیں۔ تم اُن سے جا کر کہو کہ ثابت قدم رہیں (ابن ہشام ۱/ ۲۲۹)۔
۸۔ ابن اسحٰق کا بیان ہے کہ اپنا اعتکاف پورا کر لینے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ واپس آئے اور اپنے معمول کے مطابق گھر جانے سے پہلے بیت اللہ میں طواف کے لیے تشریف لے گئے تو جبریل امین سے ملاقات کے بعد پہلی مرتبہ ورقہ بن نوفل وہیں آپ سے ملے اور پوچھا: بھتیجے، مجھے بتائیے، آپ نے کیا دیکھا اور کیا سنا ہے؟ آپ نے بتایا تو اُنھوں نے کہا: اُس ذات کی قسم، جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، بے شک تم اِس امت کے نبی ہو، تمھارے پاس وہی ناموس اکبر آیا ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تھا۔ اُنھوں نے مزید کہا: بے شک، یہ لوگ تمھیں جھٹلائیں گے اور تکلیف پہنچائیں گے اور تم سے لڑیں گے اور تمھیں نکال دیں گے۔ میں اُس دن تک زندہ رہا تو ضرور خدا کے دین کی مدد کروں گا۔ ابن اسحٰق نے لکھا ہے کہ اُس کے بعد ورقہ نے آپ کے سر کو بوسہ دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اپنے گھر تشریف لے گئے (ابن ہشام ۱/ ۲۲۹)۔
۱۔ اِس روایت کا متن صحیح بخاری، رقم ۶۹۸۲ سے لیا گیا ہے۔ اِس کی راوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ اِس کے متابعات درج ذیل کتب میں منقول ہیں:
مصنف عبدالرزاق، رقم ۹۷۱۹۔مسند اسحٰق بن راہویہ، رقم ۸۴۰۔مسند احمد، رقم ۲۵۹۵۹۔ صحیح بخاری ، رقم ۳، ۴۶۷۰ ، ۴۹۵۳۔ صحیح مسلم، رقم ۱۶۰۔مستخرج ابی عوانہ، رقم۳۲۸۔ مستدرک حاکم، رقم ۴۸۴۳۔ الایمان ، ابن مندہ، رقم ۶۸۱۔ السنن الکبرىٰ، بیہقی، رقم ۱۷۷۲۱۔
۲۔ بعض روایات، مثلاً صحیح بخاری ، رقم ۳ میں اِس جگہ ’الصادقة‘ کے بجاے ’الصالحة ‘ ’’اچھے ‘‘ کا لفظ آیا ہے۔
۳۔ العلق۹۶: ۱- ۵۔
۴۔صحیح بخاری، رقم ۳۔
۵۔بعض روایات مثلاً ، صحیح بخاری، رقم ۳ میں اِس جگہ ’وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ فَيَكْتُبُ بِالْعَرَبِيَّةِ مِنَ الإِنْجِيلِ مَا شَاءَ اللّٰهُ أَنْ يَكْتُبَ‘ کے بجاے ’وَكَانَ يَكْتُبُ الكِتَابَ العِبْرَانِيَّ، فَيَكْتُبُ مِنَ الإِنْجِيلِ بِالعِبْرَانِيَّةِ مَا شَاءَ اللّٰهُ أَنْ يَكْتُبَ‘ ’’ یہ عبرانی میں کتابت کرتے تھے، خدا نے جب تک چاہا، یہ انجیل کی عبرانی میں کتابت کرتے رہے تھے ‘‘ کے الفاظ ہیں۔
عَنْ يَحْيَى، يَقُولُ:1 سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ قَبْلُ؟ قَالَ: ﴿يٰ٘اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ﴾، فَقُلْتُ: أَوِ اقْرَأْ؟ فَقَالَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰهِ أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ قَبْلُ؟ قَالَ: ﴿يٰ٘اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ﴾، فَقُلْتُ: أَوِ اقْرَأْ؟ قَالَ جَابِرٌ: أُحَدِّثُكُمْ مَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ ]2 قَالَ: «جَاوَرْتُ بِحِرَاءٍ شَهْرًا، (و) [فَتَرَ عَنِّي الوَحْيُ فَتْرَةً ]3، فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي نَزَلْتُ فَاسْتَبْطَنْتُ بَطْنَ الْوَادِي، فَنُودِيتُ فَنَظَرْتُ أَمَامِي وَخَلْفِي، وَعَنْ يَمِينِي، وَعَنْ شِمَالِي، فَلَمْ أَرَ أَحَدًا، ثُمَّ نُودِيتُ فَنَظَرْتُ فَلَمْ أَرَ أَحَدًا، ثُمَّ نُودِيتُ فَرَفَعْتُ [بَصَرِي إِلَى السَّمَاءِ فَإِذَا المَلَكُ۴ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ، قَاعِدٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ ] ۵ فَأَخَذَتْنِي رَجْفَةٌ شَدِيدَةٌ، فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ، فَقُلْتُ: دَثِّرُونِي، فَدَثَّرُونِي، فَصَبُّوا عَلَيَّ مَاءً، فَأَنْزَلَ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿يٰ٘اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ. قُمْ فَاَنْذِرْ. وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ. وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ. وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ﴾6، ثُمَّ تَتَابَعَ الْوَحْيُ».
یحییٰ ابن کثیر سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں : میں نے ابو سلمہ سے پوچھا :قرآن کا کون سا حصہ پہلے نازل ہوا تھا؟ انھوں نے کہا: ﴿يٰ٘اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ﴾۔ میں نےپھر پوچھا: ’الْمُدَّثِّرُ‘ یا ’اِقْرَاْ‘؟ اُنھوں نے کہا: میں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا کہ قرآن کا کون سا حصہ پہلے نازل ہوا تھا تو اُنھوں نے جواب دیا تھا: ﴿يٰ٘اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ﴾۔ میں نے (بھی اُن سے) پھر یہی پوچھا تھا کہ ’الْمُدَّثِّرُ‘ یا ’اِقْرَاْ‘؟ جابر رضی اللہ عنہ نے اِس پر مجھ سے کہا تھا کہ (میں نے اِس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تو کچھ نہیں سنا، البتہ) میں تمھیں وہ بات بتاتا ہوں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی میں وقفہ آجانے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ہم سے بیان کی تھی۔ آپ نے فرمایا تھا: میں نے حرا پر ایک ماہ کا اعتکاف کیا ، جب کہ وحی کا سلسلہ کچھ رُکا ہوا تھا۔ پھر جب میں نے اپنا اعتکاف مکمل کر لیا اور میں جبل حرا سےنیچے اترا اور وادی میں پہنچا تو (اچانک) مجھے پکارا گیا ، میں نے آگے اور پیچھے دیکھا، دائیں اور بائیں دیکھا، لیکن مجھے کوئی نظر نہیں آیا۔ مجھے دوبارہ آواز دی گئی اور میں نے پھر دیکھا، مگر اب بھی مجھے کوئی نظر نہیں آیا، پھر(تیسری مرتبہ) مجھے آواز آئی تو میں نے اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی ، کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو حرا میں میرے پاس آیا تھا، وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ ۱(اُس کی یہ عظمت دیکھ کر) مجھ پر سخت لرزہ طاری ہو گیا۔ میں فوراً خدیجہ کے پاس آیا اور گھر والوں سے کہا: مجھے چادر اڑھا دو، مجھے چادر اڑھا دو۔ اُنھوں نے مجھے چادر اڑھا دی، پھرانھوں نے مجھ پرپانی ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اُس کے بعد نازل فرمائیں: ’’اے چادر اوڑھنے والے، اٹھ اور ڈرا ، اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے دامن دل کو (شرک کی آلودگی سے )پاک رکھ۔“ (راوی بتاتے ہیں کہ) اِس کے بعد (وقفہ ختم ہو گیا اور)وحی تسلسل کے ساتھ آنے لگی۔۲
______________
۱۔ یہ رؤیا میں جبریل امین کو دیکھنے کے بعد اصلی صورت میں اُن کو دیکھنے کا پہلا واقعہ ہے، جس کی تفصیلات پیچھے بیان ہو چکی ہیں۔ سورۂ مدثر کے نزول سے پہلے آپ نے دوسری مرتبہ اُن کو اِسی طرح دیکھا۔ اِس کا ذکر سورۂ نجم (۵۳) میں دیکھنا چاہیے۔ وہاں صراحت ہے کہ اِس مرتبہ آپ نے اُنھیں ’سدرة المنتہیٰ‘ کے پاس دیکھا، جب کہ سدرہ پر چھا رہا تھا، جو کچھ کہ چھا رہا تھا۔ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ راویوں کے تصرفات بات کو کس طرح کچھ سے کچھ بنا دیتے ہیں۔
۲۔ روایتوں میں واقعات جس طرح بعض اوقات خلط ملط ہو جاتے ہیں، یہ پوری روایت اُس کی ایک مثال ہے۔ قرآن مجید کا تدبر کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو صاف واضح ہو جاتا ہے کہ اُس کے نزول کی ابتدا سورۂ فاتحہ سے ہوئی۔ بعض روایتوں سے بھی اِسی کی تائید ہوتی ہے۔ اِس کے بعد مرحلۂ انذار کی سورتیں ــــــ ’الملک‘، ’القلم‘، ’الحاقة‘، ’المعارج‘، ’نوح‘ اور ’الجن‘ ــــــ نازل کی گئیں۔اِن کے بعد سورۂ مزمل نازل ہوئی، جس میں آپ کو ہدایت کی گئی کہ تہجد کا اہتمام کریں اور مرحلۂ انذار عام کے لیے تیار ہو جائیں۔ وحی میں جس وقفے کا ذکر روایت میں ہوا ہے، وہ اِس کے بعد آیا اور آپ نے حرا کے پہاڑ پر کھڑے ہوئے جبریل امین کو دوسری مرتبہ کھلی آنکھوں کے ساتھ اور اُن کی اصل صورت میں ’سدرة المنتہیٰ‘ کے پاس دیکھا۔ سورۂ نجم (۵۳) کی آیت ۱۳ میں ’وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰي‘ (اور اُس نے ایک مرتبہ پھر اُسے دیکھا ہے) کے الفاظ اِسی ملاقات کے لیے آئے ہیں۔ سورۂ مدثر اِس کے بعد نازل ہوئی اور وحی کا جو سلسلہ کچھ عرصے کے لیے منقطع ہوا تھا، وہ حسب سابق بحال ہو گیا۔ اِس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ نزول قرآن کے اِس دوسرے مرحلے میں جو پہلی سورہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی، وہ سورۂ مدثر ہی ہے۔
۱۔اِس روایت کا متن اصلاً صحیح مسلم ، رقم ۱۶۱ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی یحییٰ بن ابی کثیر ہیں جو ابو سلمہ سے اور وہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے ہیں۔ اِس کے متابعات درج ذیل کتب میں منقول ہیں:
تفسیر القرآن ، عبدالرزاق ، رقم ، ۳۲۸۰ ، ۳۳۷۷۔ مسند طیالسی، رقم ۱۷۹۳، ۱۷۹۹۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۶۵۵۸۔مسند احمد، رقم ۱۴۴۸۳، ۱۴۵۲۳، ۱۵۰۳۳ ، ۱۵۰۳۵، ۱۵۲۱۴۔صحیح بخاری، رقم ۳۲۳۸، ۴۹۲۲، ۴۹۲۴، ۴۹۲۶، ۶۲۱۴۔ سنن ترمذی، رقم ۳۳۲۵۔ الاوائل، ابن ابی عاصم، رقم۲۹۔ فضائل القران، ابن ضریس، رقم ۲۵۔السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۱۱۵۶۷، ۱۱۵۶۸، ۱۱۵۶۹۔مسند ابی یعلیٰ، رقم ۱۹۴۸، ۱۹۴۹، ۲۲۲۵۔ حدیث السراج، رقم ۲۲۱۳۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم ۳۳۲، ۳۳۵۔صحیح ابن حبان، رقم۳۴، ۳۵۔ الشریعۃ، آجری، رقم ۹۷۰۔ الاوائل، طبرانی، رقم۱۷۔الایمان، ابن مندہ، رقم۶۸۴، ۶۸۷۔ مستدرک حاکم، رقم۲۹۹۳۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۷۷۲۲۔دلائل النبوہ ، بیہقی ۲/ ۱۳۸۔
۲۔ صحیح مسلم، رقم ۱۶۱۔
۳۔صحیح بخاری، رقم ۳۲۳۸۔
۴۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۱۹۴۸ میں ’الملك‘ کی وضاحت ’مُبَشِّرٌ يَعْنِي جِبْرِيلَ‘ ’’بشارت دینے والا، مراد ہے جبریل‘‘کے الفاظ سے کی گئی ہے۔
۵۔ صحیح بخاری، رقم۶۲۱۴۔
۶۔المدثر۷۴ :۱ - ۵۔
عَنْ جُنْدُبِ بْنِ سُفْيَانَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ:1 اشْتَكَى رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَقُمْ لَيْلَتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، فَجَاءَتِ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ شَيْطَانُكَ قَدْ تَرَكَكَ لَمْ أَرَهُ قَرِبَكَ مُنْذُ لَيْلَتَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةٍ2 فَأَنْزَلَ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿وَالضُّحٰي. وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰي. مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰي﴾3.
جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک موقع پر بیمار ہو گئے اور دو یا تین راتوں میں )تہجد کے لیے)نہیں اٹھ سکے۔ اِس کے بعد ایک عورت آئی اور کہنے لگی: اے محمد، مجھے تو لگتا ہے کہ تمھارے شیطان نے تمھیں چھوڑ دیا ہے، دو تین راتوں سے میں دیکھ رہی ہوں کہ وہ تمھارے پاس نہیں آیا۔ اِس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں: ”دن گواہی دیتا ہے، جب وہ روشن ہو؛ اور رات بھی، جب وہ پرسکون ہو جائے کہ تمھارے پروردگار نے تمھیں چھوڑا ہے، نہ وہ تم سے ناراض ہوا ہے۔“۱
______________
۱۔ یہ محض قیاس ہے کہ سورۂ ضحیٰ اِس موقع پر نازل کی گئی تھی۔ ’مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰي‘ کے الفاظ کا صحیح محل کیا ہے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ میں اُس کو واضح فرمایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’مطلب یہ ہوا کہ اِس وقت اگر تم مخالفوں کی مخالفت، اعوان و انصار کی قلت اور اسباب و وسائل کی کمی سے دوچار ہو یا آسمانی و روحانی کمک کی جتنی ضرورت محسوس کر رہے ہو، اتنی تمھیں نہیں پہنچ رہی ہے تو اِس کے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں کہ اب تمھارے رب نے تمھیں چھوڑ دیا ہے یا تم سے بیزار ہو گیا ہے، بلکہ یہ تمھاری تربیت کے لیے تمھارا امتحان ہے تاکہ تم اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے اچھی طرح تیار ہو جاؤ۔‘‘(۹/ ۴۱۳)
۱۔ اِس روایت کا متن صحیح بخاری، رقم ۴۹۵۰ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ ہیں۔ اِس کے متابعات یہ ہیں:
مسند ابی داؤد طیالسی، رقم ۹۷۷۔ مصنف عبدالرزاق، رقم۳۶۳۶۔ مسند حمیدی، رقم ۷۹۵۔ مسند احمد، رقم ۱۸۷۹۶، ۱۸۸۰۱ ، ۱۸۸۰۴، ۱۸۸۰۶ ۔ صحیح بخاری، رقم ۱۱۲۵، ۴۹۵۰، ۴۹۵۱، ۴۹۸۳۔ صحیح مسلم، رقم ۱۷۹۷۔ سنن ترمذی، رقم ۳۳۴۵۔ الآحاد والمثانی ، ابن ابی عاصم، رقم ۲۵۳۳۔السنن الکبریٰ،نسائی، رقم ۱۱۶۱۷۔ مسند رویانی، رقم ۹۶۶۔مستخرج ابی عوانہ، رقم ۳۹۶۷، ۳۹۶۹، ۶۹۱۰، ۶۹۱۱، ۶۹۱۲۔صحیح ابن حبان، رقم ۶۵۶۵، ۶۵۶۶۔المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۷۰۹، ۱۷۱۰، ۱۷۱۲۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۴۷۲۰، ۴۷۲۱۔ دلائل النبوہ ، بیہقی ۷ / ۵۸۔
۲۔بعض روایات، مثلاً صحیح مسلم، رقم ۱۷۹۷میں ’اشْتَكَى رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَقُمْ لَيْلَتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، فَجَاءَتِ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ شَيْطَانُكَ قَدْ تَرَكَكَ لَمْ أَرَهُ قَرِبَكَ مُنْذُ لَيْلَتَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةٍ‘ کے بجاے ’أَبْطَأَ جِبْرِيلُ عَلَى رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: قَدْ وُدِّعَ مُحَمَّدٌ‘، ’’ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل علیہ السلام کی آمد میں تاخیر ہوئی، تو مشرکین کہنے لگے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو(اُن کے رب کی جانب سے) چھوڑ دیا گیا ہے‘‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
۳۔ الضحیٰ۹۳: ۱ - ۳۔
ابن أبي حاتم عبد الرحمٰن الرازي. (1427هـ/2006م). العلل. ط 1. تحقيق: فريق من الباحثين بإشراف وعناية د/ سعد بن عبد الله الحميد و د/ خالد بن عبد الرحمٰن الجريسي. الرياض: مطابع الحميضي.
ابن أبي حاتم عبد الرحمٰن الحنظلي. (1271هـ/1952م). الجرح والتعديل. ط 1. حيدر آباد الدكن. الهند: طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية. بيروت: دار إحياء التراث العربي.
ابن أبي شيبة عبد الله بن محمد. (1409هـ). المصنف في الأحاديث والآثار. ط 1. تحقيق: كمال يوسف الحوت. الرياض: مكتبة الرشد.
ابن أبي عاصم أحمد بن عمرو الشيباني. الأوائل لابن أبي عاصم. المحقق: محمد بن ناصر العجمي. الكويت. دار الخلفاء للكتاب الإسلامي.
ابن أبي عاصم أحمد بن عمرو.(۱٤۱۱هـ/۱۹۹۱م). الآحاد والمثاني. ط۱. تحقيق: د. باسم فيصل أحمد الجوابرة. الرياض: دار الراية.
ابن حبان محمد بن حبان. (1420هـ/2000م). المجروحين من المحدثين. ط1. تحقيق: حمدي بن عبد المجيد السلفى. دار السميعي.
إبن حبان، محمد بن حبان البُستي. (۱٤۱٤هـ/۱۹۹۳م). صحيح ابن حبان. ط۲. تحقيق: شعيب الأرنؤوط. بيروت: مؤسسة الرسالة.
ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1406هـ/1986م). لسان الميزان. ط 3. تحقيق: دائرة المعرف النظامية الهند. بيروت: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات.
ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1417هـ/1997م). تحرير تقريب التهذيب. ط 1. تاليف: الدكتور بشار عواد معروف، الشيخ شعيب الأرنؤوط. بيروت: مؤسسة الرسالة للطباعة والنشر والتوزيع.
ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1403هـ/1983م). طبقات المدلسين. ط 1. تحقيق: د. عاصم بن عبدالله القريوتي. عمان: مكتبة المنار.
ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1404هـ/1984م). النكت على كتاب ابن الصلاح. ط 1. تحقيق: ربيع بن هادي المدخلي. المدينة المنورة، المملكة العربية السعودية: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية.
ابن راهويه إسحٰق بن إبراهيم المروزي. (۱٤۱۲هـ/۱۹۹۱م). مسند إسحٰق بن راهويه. ط۱. تحقيق: د. عبد الغفور بن عبد الحق البلوشي. المدينة المنورة: مکتبة الإيمان.
ابن رجب عبد الرحمٰن السَلامي. (1407هـ/1987م). شرح علل الترمذي. ط1. تحقيق: الدكتور همام عبد الرحيم سعيد. الأردن: مكتبة المنار (الزرقاء).
ابن الضريس أبو عبد الله محمد بن أيوب البجلي. (1408هـ/1987م). فضائل القرآن وما أنزل من القرآن بمكة وما أنزل بالمدينة. ط1. تحقيق: غزوة بدير. دار الفكر، دمشق.
ابن عدي عبدالله بن عدي الجرجاني. (1418هـ/1997م). الكامل في ضعفاء الرجال. ط 1. تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود، علي محمد معوض. بيروت: الكتب العلمية.
ابن الکيال ابو البركات محمد بن احمد. (1420هـ/1999م). الکواکب النيرات. ط 2. تحقيق: عبد القيوم عبد رب النبي. مكة مكرمة: المكتبة الامدادية.
ابن المِبرَد يوسف بن حسن الحنبلي. (1413هـ/1992م). بحر الدم فيمن تكلم فيه الإمام أحمد بمدح أو ذم. ط 1. تحقيق وتعليق: الدكتورة روحية عبد الرحمٰن السويفي. لبنان، بيروت: دار الكتب العلمية.
ابن المديني علي بن عبد الله السعدي. (1980م). العلل. ط 2. تحقيق: محمد مصطفى الأعظمي. بيروت: المكتب الإسلامي.
ابن معين يحيى بن معين البغدادي. (1399هـ/1979م). تاريخ ابن معين. ط 1. تحقيق: د. أحمد محمد نور سيف. مكة المكرمة: مركز البحث العلمي وإحياء التراث الإسلامي.
ابن منده محمد بن إسحٰق. (۱٤۰٦هــ). الإيمان. ط۲. تحقيق: د. علي بن محمد بن ناصر الفقيهي. بيروت: مؤسسة الرسالة.
ابن هشام عبد الملك بن هشام. (1375هـ/1955م). السيرة النبوية. ط 2. تحقيق: مصطفى السقا وإبراهيم الأبياري وعبد الحفيظ الشلبي. شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي.
أبو اسحٰق الحويني. (1433هـ/2012م). نثل النبال بمعجم الرجال. ط 1. جمعه ورتبه: أبو عمرو أحمد بن عطية الوكيل. مصر: دار ابن عباس.
أبو داود سليمان بن الأشعث السَّجِسْتاني. (1403هـ/1983م). سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود السجستاني في الجرح والتعديل. ط 1. تحقيق: محمد علي قاسم العمري. المدينة المنورة: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية.
أبو عوانة يعقوب بن إسحٰق. (۱٤۱۹هـ/۱۹۹۸م). المستخرج. ط۱. تحقيق: أيمن بن عارف الدمشقي. بيروت: دار المعرفة.
أبو نعيم أحمد بن عبد الله. (۱٤۰٦هـ/۱۹۸٦م). دلائل النبوة. ط۲. تحقيق: الدكتور محمد رواس قلعه جي، وعبد البر عباس. بيروت: دار النفائس.
أبو يعلى أحمد بن علي. (1404هـ/1984م). مسند أبي يعلى. ط 1. تحقيق: حسين سليم أسد. دمشق: دار المأمون للتراث.
الآجُرِّيُّ محمد بن الحسين. (۱٤۲۰هـ/۱۹۹۹م). الشريعة. ط ۲. تحقيق: الدكتور عبد الله بن عمر بن سليمان الدميجي. الرياض: دار الوطن.
أحمد بن محمد بن حنبل. (۱٤۱٦هـ/۱۹۹5م). مسند أحمد. ط۱. تحقيق: شعيب الأرنؤوط - عادل مرشد، وآخرون. إشراف: د. عبد الله بن عبد المحسن التركي. بيروت: مؤسسة الرسالة.
أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني. (1422هـ/2001م). العلل و معرفة الرجال. ط 2. تحقيق و تخريج: د. وصي الله بن محمد عباس. الرياض: دار الخاني فرقد فريد الخاني.
أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني. (1408هـ/1988م). العلل و معرفة الرجال. ط 1. تحقيق و تخريج: د. وصي الله بن محمد عباس. بيروت: المكتب الإسلامي. الرياض: دار الخاني.
الأزرقي أبو الوليد محمد بن عبد الله. (1976ء). أخبار مكة وما جاء فيها من الآثار. تحقيق: رشدي الصالح ملحس. دار الأندلس. بيروت.
البخاري محمد بن إسمٰعيل. (1407هـ/1987م). الجامع الصحيح. ط۳. تحقيق: مصطفي ديب البغا. بيروت: دار ابن کثير.
البخاري محمد بن إسمٰعيل الجعفي. (2009م). التاريخ الكبير. تحقيق: السيد هاشم الندوي. بيروت: دار الفكر.
البخاري محمد بن إسمٰعيل الجعفي. (1397هـ/1977م). التاريخ الأوسط. ط 1. حلب. القاهرة. دار الوعي مكتبة دار التراث.
البيهقي أحمد بن الحسين. (1414هـ/1994م). السنن الکبري. ط۱. تحقيق: محمد عبد القادر عطاء. مکة المکرمة: مکتبة دار الباز.
البيهقي أحمد بن الحسين. (1408هـ/1988م). دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة. ط۱. تحقيق: وثق أصوله وخرج أحاديثه وعلق عليه: الدكتور عبد المعطى قلعجى. القاهرة: دار الريان للتراث. بيروت: دار الكتب العلمية.
الترمذي محمد بن عيسى. (1395هـ/1975م). سنن الترمذي. ط 2. تحقيق وتعليق: أحمد محمد شاكر (ج1، 2) ومحمد فؤاد عبد الباقي (ج3) وإبراهيم عطوة عوض المدرس في الأزهر الشريف (ج4، 5). مصر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي.
الحاكم محمد بن عبد الله المعروف بابن البيع. (۱٤۱۱ه/۱۹۹۰م). المستدرك على الصحيحين. ط۱. تحقيق: مصطفى عبد القادر عطاء. بيروت: دار الكتب العلمية.
الحميدي أبو بكر عبد الله بن الزبير. (1996م). مسند الحميدي. ط1. حقق نصوصه وخرج أحاديثه: حسن سليم أسد الدَّارَانيّ. دار السقا، دمشق: سوريا.
خالد الرباط سيد عزت عيد. (1430هـ/2009م). الجامع لعلوم الإمام أحمد (الأدب والزهد). ط1. مصر: دار الفلاح للبحث العلمي وتحقيق التراث.
الدارقطني علي بن عمر. (1405هـ/1985م). العلل الواردة في الأحاديث النبوية. ط 1. تحقيق وتخريج: محفوظ الرحمٰن زين الله السلفي. الرياض. دار طيبة.
الذهبي محمد بن أحمد. (1413هـ/1992م). الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة. ط1. تعليق: امام برهان الدين أبي الوفاء إبراهيم بن محمد. جدة: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علوم القرآن.
الذهبي محمد بن أحمد. (1387هـ/1967م). ديوان الضعفاء والمتروكين. ط 2. تحقيق: حماد بن محمد الأنصاري. مكة: مكتبة النهضة الحديثة.
الرُّوياني محمد بن هارون. (۱٤۱۷هـ). المسند. ط۱. تحقيق: أيمن علي أبو يماني. القاهرة: مؤسسة قرطبة.
سبط ابن العجمي برهان الدين الحلبي. (1988م). الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط. ط 1. تحقيق: علاء الدين علي رضا. القاهرة. دار الحديث.
سبط ابن العجمي برهان الدين الحلبي. (1986م). التبيين لأسماء المدلسين. ط 1. تحقيق: يحيى شفيق حسن. بيروت. دار الكتب العلمية.
سبط ابن العجمي برهان الدين الحلبي. (1407هـ/1987م). الكشف الحثيث عمن رمي بوضع الحديث. ط 1. المحقق: صبحي السامرائي. بيروت. عالم الكتب، مكتبة النهضة العربية.
الصنعاني عبد الرزاق بن همام. (1410هـ). تفسير القرآن. ط1. تحقيق: د. مصطفى مسلم محمد. مكتبة الرشد. الرياض.
الطبراني سليمان بن أحمد. (د.ت). المعجم الكبير. ط۲. تحقيق: حمدي بن عبد المجيد السلفي. القاهرة: مكتبة ابن تيمية.
الطبراني ابو القاسم سليمان بن احمد. (1403ء). الأوائل للطبراني. ط 1. تحقيق: محمد شكور بن محمود. بيروت: مؤسسة الرسالة، دار الفرقان.
الطبري محمد بن جرير. (1420هـ/2000 م). ط1. جامع البيان في تأويل القرآن. ط1. تحقي: احمد محمد شاكر. بيروت: مؤسسة الرسالة.
الطبري محمد بن جرير. (۱۳۸۷هـ/۱۹٦۷م). تاريخ الرسل والملوك، وصلة تاريخ الطبري. ط ۲. تحقيق: محمد أبو الفضل إبراهيم. بيروت: دار التراث.
الطيالسي سليمان بن داود. (1419هـ/1999م). مسند أبي داود الطيالسي. ط 1. تحقيق: الدكتور محمد بن عبد المحسن التركي. مصر: دار هجر.
عبد الرزاق بن همام الحميري. (1403هـ). المصنف. ط 2. تحقيق: حبيب الرحمٰن الأعظمي. الهند: المجلس العلمي.
العجلي أحمد بن عبد الله. (1405هـ/1985م). معرفة الثقات. ط 1. تحقيق: عبد العليم عبد العظيم البستوي. المدينة المنورة. مكتبة الدار.
الفاكهي أبو عبد الله محمد بن إسحٰق المكي. (۱٤۱٤م). أخبار مكة في قديم الدهر وحديثه. ط۲. تحقيق: د. عبد الملك عبد الله دهيش. بيروت: دار خضر.
مسلم بن الحجاج النيسابوري. (د.ت). الجامع الصحيح. د.ط. تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي. بيروت: دار إحياء التراث العربي.
مغلطاي علاء الدين بن قليج. (1422هـ/2001م). إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال. ط 1. تحقيق: أبو عبد الرحمٰن عادل بن محمد، أبو محمد أسامة بن إبراهيم. القاهرة: الفاروق الحديثة للطباعة والنشر.
النسائي احمد بن شعيب. (14۱۱هـ/۱۹۹۱م). السنن الکبري. ط۱. تحقيق: عبد الغفار سليمان البنداري، سيد کسروي حسن. بيروت: دار الکتب العلمية.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ