HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: حٰم السجدہ ۴۱: ۱۳ - ۲۴ (۲)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ ١٣ اِذْ جَآءَتْهُمُ الرُّسُلُ مِنْۣ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ اَلَّا تَعْبُدُوْ٘ا اِلَّا اللّٰهَ قَالُوْا لَوْ شَآءَ رَبُّنَا لَاَنْزَلَ مَلٰٓئِكَةً فَاِنَّا بِمَا٘ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ ١٤

اب بھی اگر منہ موڑتے ہیں تو کہہ دو کہ جیسی کڑک عاد و ثمود پر ہوئی تھی،[19] میں تم کو اُسی طرح کی کڑک سے ڈراتا ہوں، جب اُن کے آگے اور پیچھے سے[20]  اُن کے رسول اُن کے پاس آئے کہ اُنھیں ہر پہلو سے سجھا دیں کہ اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو۔ اُنھوں نے جواب دیا کہ اگر ہمارا رب چاہتا کہ کسی کو رسول بنا کر بھیجے تو فرشتے اتارتا، اِس لیے ہم تو اُس پیغام کے منکر ہیں جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو۔[21] ۱۳- ۱۴


فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوْا فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَهُمْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَكَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْحَدُوْنَ ١٥ فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا صَرْصَرًا فِيْ٘ اَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيْقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَخْزٰي وَهُمْ لَا يُنْصَرُوْنَ ١٦

سو عاد کا معاملہ تو یہ تھا کہ وہ بغیر کسی حق کے[22]  زمین میں بڑے بن بیٹھے اور کہنے لگے کہ ہم سے بڑھ کر طاقت میں کون ہے! کیا اُنھوں نے سوچا نہیں کہ جس خدا نے اُن کو پیدا کیا ہے، وہ اُن سے طاقت میں کہیں بڑھ چڑھ کر ہے؟ (اِس طرح بڑے بن بیٹھے) اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے ۔ سو ہم نے نحوست کے چند دنوں میں[23] اُن پر سرما کی تند ہوا[24] بھیج دی تاکہ اُن کو اِسی دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب[25] چکھائیں اور آخرت کا عذاب تو اِس سے کہیں زیادہ رسوا کردینے والا ہو گا اور وہاں اُن کو کوئی مدد بھی نہیں پہنچے گی۔[26] ۱۵- ۱۶


وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَيْنٰهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمٰي عَلَي الْهُدٰي فَاَخَذَتْهُمْ صٰعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُوْنِ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ١٧ وَنَجَّيْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ ١٨

رہے ثمود تو ہم نے اُن کو بھی ہدایت کی راہ دکھائی، مگر اُنھوں نے ہدایت پر اندھا بن کر رہنے کو ترجیح دی۔ سو اُن کے اعمال کی پاداش میں اُن کو ذلت کے عذاب کی کڑک نے آ دبوچا اور ہم نے اُن کو بچا لیا جو ایمان لائے اور ہم سے ڈرنے والے تھے۔ ۱۷- ۱۸


وَيَوْمَ يُحْشَرُ اَعْدَآءُ اللّٰهِ اِلَي النَّارِ فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ ١٩ حَتّٰ٘ي اِذَا مَا جَآءُوْهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَاَبْصَارُهُمْ وَجُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ٢٠ وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَيْنَا قَالُوْ٘ا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِيْ٘ اَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَّهُوَ خَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ٢١

اُس دن کا خیال کرو، جب اللہ کے یہ دشمن دوزخ کی طرف ہانک کر اکٹھے کیے جائیں گے۔[27] پھر (اِن کے اعمال کے لحاظ سے) اِن کی درجہ بندی کی جائے گی۔ یہاں تک کہ جب وہ وقت آجائے گا کہ دوزخ تک آ پہنچیں گے تو جو کچھ یہ کرتے رہے،اِن کے کان اور اِن کی آنکھیں اور اِن کے جسم کے رونگٹے[28] اِن پر اُس کی گواہی دیں گے۔یہ اپنے جسموں سے پوچھیں گے: تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی؟ وہ جواب دیں گے: ہم کو اُسی اللہ نے گویاکر دیا جس نے ہر چیز کو گویا کیا ہے۔ (اِس طرح گواہی دیں گے اور لوگو، یہ بات بھی یاد رکھو کہ) اُسی نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا اور اب اُسی کی طرف لوٹائے جارہے ہو۔[29] ۱۹- ۲۱


وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا٘ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ ٢٢ وَذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِيْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدٰىكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَ ٢٣

تم یہ اندیشہ نہیں رکھتے تھے[30]  کہ تمھارے کان اور تمھاری آنکھیں اور تمھارے جسموں کے رونگٹے تمھارے خلاف گواہی دیں گے، بلکہ تم نے تو گمان کر رکھا تھا کہ اللہ بھی اُن بہت سی چیزوں سے واقف نہیں ہے جو تم کرتے ہو۔ تمھارا یہی گمان ہے جو تم نے اپنے پروردگار کے بارے میں کیا تھا، جس نے تم کو غارت کیا اور تم خسارے میں پڑ گئے۔۲۲- ۲۳


فَاِنْ يَّصْبِرُوْا فَالنَّارُ مَثْوًي لَّهُمْ وَاِنْ يَّسْتَعْتِبُوْا فَمَا هُمْ مِّنَ الْمُعْتَبِيْنَ ٢٤

سو اگر یہ صبر کریں، تب بھی دوزخ ہی اِن کا ٹھکانا ہے اور اگر نہ کریں، تب بھی۔ اور اگر یہ معافی چاہیں گے تو اِنھیں معافی بھی نہیں دی جائے گی۔۲۴

[19]۔ عاد عرب کی قدیم ترین قوم ہے۔ یہ سامی نسل سے تعلق رکھتے تھے اور اِن کا مسکن احقاف کا علاقہ تھا جو حجاز، یمن اور یمامہ کے درمیان الربع الخالی کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ ہود علیہ السلام اِنھی کی طرف بھیجے گئے تھے۔ ثمود عاد کے بقایا میں سے ہیں۔ چنانچہ اِنھیں عاد ثانی بھی کہا جاتا ہے۔اِن کی طرف حضرت صالح کی بعثت ہوئی۔ دوسرے مقامات میں تفصیل ہے کہ اِن قوموں پر جو عذاب آیا، اُس میں شمال کی تند ہوائیں، ژالہ باری اور رعد و برق، سب جمع ہو گئے تھے۔ قرآن اِسی بنا پر اُسے کبھی ایک اور کبھی دوسری چیز سے تعبیر کرتا ہے۔ یہاں اُس کے ایک نمایاں وصف ’صٰعِقَة‘سے اُس کا ذکر فرمایا ہے۔

[20]۔ یہ وہی تعبیر ہے جو ابلیس نے اپنے چیلنج میں اختیار کی تھی کہ میں آگے اور پیچھے سے اُن کو گھیروں گا ، یعنی ہر طرف سے اُن پر حملہ کر وں گا۔ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے لیے اِسی تعبیر کو اختیار کرکے واضح فرمایا کہ ابلیس کے فتنوں سے بچانے کے لیے وہ بھی اِسی طرح آگے اور پیچھے، ہر طرف سے آ کر انتھک، ہمہ جہت اور شبانہ روز جاں فشانی کے ساتھ اپنے مخاطبین کو سجھاتے رہے۔

[21]۔ اِس اسلوب میں جو طنز ہے، وہ اہل ذوق سے مخفی نہیں ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... اُن کا مطلب یہ تھا کہ آپ لوگ بزعم خویش جس پیغام کے حامل بن کر آئے ہو، ہمیں اُس سے صاف انکار ہے، یعنی نہ ہم آپ لوگوں کو رسول مانتے اور نہ آپ لوگوں کے پیغام کو پیغام۔ اِس وجہ سے ہم پر اِس قسم کی کوئی دھونس جمانے کی کوشش نہ کی جائے۔‘‘(تدبرقرآن۷/ ۹۱)

[22]۔ یہ اِس لیے فرمایا کہ اپنی بڑائی کا اظہار صرف اُسی کو زیبا ہے جو کائنات کا خالق ہے۔ اُس کے سوا جو بھی اِس کا اظہار کرے گا، ناحق کرے گا۔ یہ اُس کے سوا کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہے۔

[23]۔ یعنی جب سردی کی شدت سے ہر چیز پر اداسی، افسردگی اور نحوست چھائی ہوئی تھی۔

[24]۔ یہ عرب میں شمال سے چلتی تھی اور اِس کے ساتھ سرما کے بادل بھی ہوتے تھے اور گرج چمک بھی۔ اللہ تعالیٰ نے اِسی کو انتہا تک پہنچا کر اُن کے لیے عذاب بنا دیا۔

[25]۔ یعنی ایسا عذاب جو اُن کو دیکھنے والوں کی نگاہوں میں نمونۂ عبرت بنا دے۔ یہ، ظاہر ہے کہ اُس سنت الہٰی کے مطابق ہوا جو رسولوں کے مکذبین کے لیے مقرر ہے۔

[26]۔ یعنی نہ اُن کے دیوی دیوتا کچھ کام آئیں گے اور نہ اُن کی قوت و جمعیت، جس پر دنیا میں نازاں رہے۔

[27]۔ آیت میں ’يُحْشَرُ‘ کے بعد ’اِلٰي‘ہے۔ یہ اِس بات کا قرینہ ہے کہ یہاں یہ لفظ ’يُسَاقُوْنَ‘ یا اِس کے ہم معنی کسی لفظ پر متضمن ہے۔

[28]۔ یہ احاطے کے لیے ہے۔ گویا مدعا یہ ہے کہ آدمی کے جسم کا روآں روآں اُس دن گواہی کے لیے زبان بن جائے گا۔یہ ،اگرچہ یہاں بھی بنا ہوا ہے، لیکن اِس کو سنتے وہی ہیں جن کے دل شنوا ہیں۔

[29]۔ یہ جملہ ’جُلُوْد‘ کے جواب کا حصہ نہیں ہے، بلکہ اِس کا عطف اصل سلسلۂ کلام پر ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... ’جُلُوْد‘ سے سوال اور اُن کے جواب کا ذکر بیچ میں بطور جملۂ معترضہ آگیا ہے۔ اصل بات جو اوپر فرمائی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ اُس دن اُن کے کان، آنکھ اور اُن کے دوسرے تمام اعضا اُن کے خلاف گواہی دیں گے اور مقصود اِس سے اِس حقیقت کی وضاحت ہے کہ جب صورت حال یہ ہے کہ آدمی کے اپنے ہی اعضا اُس کے سارے راز کھول دینے کے لیے ناطق ہو جائیں گے تو کسی اور کی گواہی اور شہادت و شفاعت اُس کے لیے کیا نافع ہو سکے گی؟ مدعی کی اپنی گواہی تو لاکھوں کی گواہی پر بھاری ہو سکتی ہے۔ اِسی پر عطف کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ اور یہ بات بھی یاد رکھو کہ اُسی نے تم کو اول بار پیدا کیا ہے اور اُسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے‘‘۔ یعنی اگرتم نے یہ امید باندھ رکھی ہے کہ تمھاری واپسی تمھارے اِن مزعومہ دیویوں دیوتاؤں میں سے کسی کی طرف ہو گی، جن کی تم پرستش کرتے ہو تو یہ خیال محض وہم پر مبنی ہے۔ جن کو خلق و تدبیر میں کوئی دخل نہیں ہے، آخر وہ مولیٰ و مرجع کس طرح بن جائیں گے!‘‘ (تدبرقرآن۷/ ۹۴)

[30]۔ اصل الفاظ ہیں:’مَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُوْنَ‘(تم چھپتے نہیں تھے)۔ یہ،ظاہر ہے کہ اِسی لیے کہ اُنھیں اپنے اعضا سے اپنے خلاف کسی گواہی کا اندیشہ نہیں تھا۔ یہ لازم سے ملزوم پر استدلال کا اسلوب ہے۔ ترجمہ اِسی رعایت سے کیا گیا ہے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B