HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

روزہ

معبود کی رضاحاصل کرنا معبود کو ماننے والے کی زندگی کا حاصل ہے۔اس مقصد کے لیے انسان نے اپنے تخلیقی ذہن کی مددسے کئی طریقے وضع کیے ہیں۔ان میں سے ایک چیز ترک خورونوش ہے۔دنیا کے مذاہب کا مطالعہ کریں تو اس کی مختلف صورتیں ہمیں ان مذاہب میں بھی نظر آتی ہیں جو انسانوں کی ایجاد ہیں۔

دوسری طرف خدا کے نازل کردہ مذہب کی روایت ہے۔ قرآن مجید جو اللہ کی اتاری ہوئی آخری کتاب ہدایت ہے، یہ بیان کرتی ہے کہ کچھ دنوں اور کچھ اوقات کے لیے ترک خورونوش، یعنی روزے کی یہ عبادت پہلی امتوں پر بھی فرض کی گئی تھی:

يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ.(البقرہ ۲: ۱۸۳ )
’’ایمان والو،تم پر روزے فرض کیے گیے ہیں، جس طرح تم سے پہلو ں پر فرض کیے گئے تھے۔ ‘‘

قرآن مجید میں روزےکا مقصد بھی بیان ہوا ہے اور اس عبادت کے لیے ماہ رمضان کے مہینے کے تقرر کی حکمت بھی بیان ہوئی ہے۔ روزے کی فرضیت بیان کرکے واضح کیا ہے کہ اس سے مقصود تقویٰ پیدا کرنا ہے:

لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ .(البقرہ ۲: ۱۸۳ )
’’تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جا‌‍ؤ۔‘‘

دین اللہ کے حدود کی پاس داری اور اللہ کے احکام کی پابندی کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ پاس داری اور پابندی کا حق اسی صورت میں ادا کیا جا سکتا ہے جب بندہ اپنے اندر اللہ کا تقویٰ رکھتا ہو۔ماہ رمضان کا انتخاب اس لیے ہوا ہے کہ یہ نزول قرآن کا مہینا ہے۔ قرآن مجیداللہ کی ہدایت کا صحیفہ ہے اور اللہ اور بندے کے مابین اس کی حیثیت ایک عہد کی ہے۔ اللہ کی کبریائی کا شعور اس عہد کی معنویت کو بندے کے لیے زیادہ گہرا کر دیتا ہے۔ اللہ کی کبریائی اور اس کی یہ بے پایاں عنایت کہ اس نے بندے کی ہدایت کی احتیاج کو ہر لحاظ سے پورا کر دیا، دل کو شکر سے لبریز کردیتا ہے۔ارشاد ہوا ہے:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ٘ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًي لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰي وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا هَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ.(البقرہ ۲: ۱۸۵ )
’’رمضان کا مہینا ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، لوگوں کے لیے ہدایت اور اس ہدایت کے لیے واضح کردینے والے دلائل اور حق و باطل کا فیصلہ بھی۔ تم میں جو بھی اس مہینے کو پائےوہ اس میں روزے رکھے۔ جو بیمار ہو یا سفر کر رہا ہو تو دوسرے دنوں میں تعداد پوری کرے۔ اللہ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے وہ تنگی میں نہیں ڈالنا چاہتا تاکہ تم روزوں کی گنتی پوری کر لو اور اللہ نے جو تمھیں ہدایت بخشی ہے، اس پر اس کی کبریائی کرو اور اس کی شکر گزاری کرو۔‘‘

اس آیۂ کریمہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ روزہ اور رمضان اللہ کی بندگی اور اس کی اتاری ہوئی ہدایت سے گہری مناسبت رکھتے ہیں۔ اللہ کی کبریائی کا ادراک، اس کے نظام ہدایت پر شکر گزاری کی کیفیت، اس کے حکم پر بھوک اور پیاس کے باوجود اکل و شرب سے رکے رہنا بندگی اور امتثال امر کا بھرپور اظہار ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کی اسی معنویت کو ان الفاظ میں سمیٹا ہے:

من صام رمضان إيمانًا واحتسابًا غفر له ما تقدم من ذنبه ومن قام ليلة القدر إيمانًا واحتسابًا غفر له ما تقدم من ذنبه. (مسلم، رقم۱۷۵)
’’جس نے رمضان کے رو‌زے ایمان کے باعث اور اجر کی غرض سے رکھے تو اسے گزرے گناہوں کی معافی مل گئی۔‘‘[1]

روزہ ایمان سے پیدا ہونے والے بندگی کے تعلق کا اعلیٰ مظہر ہے۔ بھوک اور پیاس کے اس تجربے کا محرک صرف خدا کی رضا کا حصول ہے۔

رمضان اللہ کی بندگی کا عملی اظہار ہے۔ پورا مہینا ایک رنگ عبادت میں گزرتا ہے۔ قرآن مجید سے لگا‎ؤ بڑھ جاتا ہے۔ پوری کوشش ہونی چاہیے کہ قرآن سے یہ تعلق شعور ہدایت قوی تر کردے۔ اطاعت کا یہ تجربہ پوری زندگی کو محیط ہو جائے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

[1]۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد قرآن مجید میں بیان کیے گئے معافی کے ضابطے ہی کا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں بیان کیا ہے جو کبیرہ گناہوں سے مجتنب رہتا ہے، اس کی برائیاں مٹا دی جائیں گی۔ دیکھیے النساء ۴ : ۳۱۔

B