امین احسن دینی فہم وفراست کے ساتھ ساتھ بہت گہرا سماجی و سیاسی شعور بھی رکھتے تھے۔ صحافی اور کالم نگار عطاء الرحمٰن نے اس حوالے سے لکھا:
’’... انھیں مولانا مودودی کی اس حکمت سے روزِ اول سے اختلاف تھا کہ جماعت کو فوراً انتخابی سیاست میں کود پڑناچاہیے۔ ان کے نزدیک حقیقی اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے معاشرے کو تیار کرنے میں بڑا وقت اور محنت درکار ہے۔ اس کے بغیر انتخابات کے میدان میں مقابلے کے لیے آکھڑا ہونا الٹے نتائج کا حامل ہو گا۔ اس کے باوجود انھوں نے نظم جماعت کے تحت ۱۹۵۱ء کے انتخاباتِ پنجاب میں حصہ لیا، لیکن ۱۹۵۷ء میں اپنے ساتھیوں سمیت اسی بنائے اختلاف پر جماعت سے علیحدہ ہوگئے۔ ایک مرتبہ حکمت عملی کے اسی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے مجھ سے کہا کہ دیکھو عزیز من ! اگر یہ معجزہ رونما ہو بھی جاتا ہے کہ جماعت کو عام انتخابات میں بھر پور کامیابی حاصل ہوجائے حالانکہ مجھے اس کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے تو میں علیٰ وجہ البصیرت تمھیں یہ بتاتا ہوں کہ اسے اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے ایک بہت بڑا اور خونی فوجی انقلاب برپا ہوگا اور کچھ باقی نہ رہے گا۔ یہ غالباً ۱۹۶۸ء کا ذکر ہے۔ اس وقت تو مجھے مولانا اصلاحی کی بات سمجھ میں نہ آئی لیکن بعد میں جب ۱۹۷۰ء کے انتخابی نتائج سامنے آئے اور آگے چل کر ۱۹۹۲ء میں جو کچھ الجزائر میں ہوا، اس سے میں مرحوم کی بے پناہ سیاسی بصیرت اور دور بینی کا بڑی شدت سے قائل ہوتا چلا گیا۔ تاہم میں یہاں پر ذاتی معلومات کی بنا پر یہ بات بھی لکھ دینا چاہتا ہوں کہ مولانا مودودی اپنی عظمت و فکر کی بنا پر ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے بعد اس نتیجے تک پہنچ گئے تھے کہ ان کی حکمت عملی غیر نتیجہ خیز رہی ہے۔ وہ جماعت کو دوبارہ اپنے اصلی طریق کار پر واپس لانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے ۱۹۷۲ء میں مجلس شوریٰ کے اجلاس میں ایک قرار داد بھی منظورکرائی تھی لیکن اس پر عمل نہ ہوا۔ حالانکہ جماعت کی قیادت اگر اس وقت بھی اس راہ پر چل نکلتی تو آج ملک میں ایک بہت بڑی عوامی انقلابی قوت بن چکی ہوتی۔ آج جو اسے بار بار شکستوں کے بعد انتخابات کے بائیکاٹ کی بے معنی پالیسی اختیار کرنا پڑی ہے، اس سے بچی رہتی۔‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ص ۴۷)
غامدی صاحب، امین احسن کے سیاسی شعور کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’وہ صرف دین ہی کے عالم نہ تھے، دستور وقانون اور سیاست ِدوراں کے مسائل پر بھی ان کی نظر اتنی گہری تھی کہ ان کے ماہرین ان کی صحبت میں بیٹھ کر بہت کچھ سیکھ سکتے تھے۔ ان چیزوں کو دیکھنے کا ان کا اپنا ایک انداز تھا جو اہل زمانہ سے بہت کچھ مختلف تھا۔ بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا ہوئی تو مذہبی حلقوں میں، بالعموم اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ اس سے اگلے روز میں رحمٰن آباد حاضر ہوا تو امین احسن کو افسردہ دیکھا۔ میں نے پوچھا توکچھ دیر کے لیے خاموش رہے، پھر فرمایا: مجھے بھٹو صاحب سے کیا ہمدردی ہو سکتی ہے، لیکن جن احمقوں نے ایک قومی رہنما کو ختم کر دینے کا یہ طریقہ اختیار کیا ہے، وہ نہیں جانتے کہ اس طرح انھوں نے اس ملک کی سیاست میں ایک مستقل عناد کی بنیاد رکھ دی ہے۔افغانستان میں جو کچھ ہوا، اس کے مضمرات انھوں نے جس طرح ابتدا ہی میں سمجھ لیے تھے، اسے آج لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ الجزائر، ترکی اور مصر و شام میں اسلامی تحریکوں کے معاملات کو وہ جس نظر سے دیکھتے تھے، ہمارے مذہبی رہنما شاید اس وقت دیکھیں گے، جب بہت کچھ ڈوب چکا ہو گا۔ جماعت ِ اسلامی سے ان کی علیحدگی جس موقف کی بنیاد پر ہوئی، وہ اب اپنی صحت کے لیے کسی بحث و استدلال کا محتاج نہیں رہا۔ اس کی اصابت خود ان لوگوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دی ہے جو اس وقت مولانا مودودی کے مشیروں میں ان کے سب سے بڑے مخالف تھے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سن لیا ہے کہ اپنے امیر سے وہ آج وہی کچھ کہہ رہے ہیں جو آج سے برسوں پہلے امین احسن نے ان کے ’’امیر المومنین‘‘ سے کہا تھا۔‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری / فروری ۱۹۹۸ء، ص ۲۷-۲۸)
امین احسن کا طنز و مزاح تفکر وتفنن کا حسین امتزاج ہوتا تھا۔ جب ان کی رگِ ظرافت پھڑ کتی تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی۔ایسی مسکراہٹ دیکھ کر انھیں جاننے والے جان لیتے تھے کہ اب قوس قزح کے رنگ بکھرنے لگے ہیں، حتیٰ کہ بیماری میں بھی یہ رنگ پھیکے نہیں پڑتے تھے۔ عبدالرزاق صاحب اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں :
’’آج مولانا کی طبیعت اتنی اچھی نہ تھی کہ وہ اٹھ بھی سکتے، اس لیے ہم خود ہی ان کے کمرے میں چلے گئے۔ مولانا کمرے میں بیڈ پر آرام فرما رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد تکیے کی ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور آہستہ آہستہ گفتگو کی۔ میرے لیے یہ بات بڑی حیرت کی ہے کہ اتنی ضعیفی اور کمزوری کے باوجود مولانا کی حسِ مزاح اور شگفتگی ابھی تک برقرار ہے۔
مولانا کا موقع و محل کے مطابق مزاح بہت ہی اعلیٰ پائے کا ہوتا ہے۔ ‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۷۸)
غامد ی صاحب نے اس ضمن میں لکھا:
’’ایک صاحب نے، جن سے دین کی خدمت کے معاملے میں وہ ایک زمانے میں اچھی توقعات رکھتے تھے، بڑے اہتمام کے ساتھ کانفرنسیں منعقد کرنا شروع کیں۔ ان میں وہ تمام مکاتب فکر کے علما کو بلاتے اور ان سے تقریریں کراتے تھے۔ دین کی خدمت کا جو تصور امین احسن رکھتے تھے، اس میں ظاہر ہے کہ اس طرح کی چیزوں کے لیے کوئی گنجایش نہ تھی۔ وہ صاحب انھیں بھی دعوت دینے آئے۔ امین احسن نے پوچھا: ان کانفرنسوں سے آپ کا مقصد کیا ہے؟ میں چاہتا ہوں کہ سب نقطہ ہاے نظر کے لوگ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں۔ انھوں نے جواب دیا تو امین احسن نے بے ساختہ کہا: بھانت بھانت کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی یہ خدمت تو ریلوے پچھلے سو سال سے انجام دے رہی ہے۔ میرا خیال ہے، اس کے لیے آپ کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
اس معاملے میں بھی وہ صاحب ِطرز تھے۔ ایک بڑے عالم اور مصنف سے ناراض ہوئے تو ان پر پڑھے کم، لکھے زیادہ کا فقرہ چست کیا۔ مستشرقین کے اسلوبِ تحقیق پر تنقید کی تو اس کے لیے مکھی کو گھس گھس کر بھینس بنانے اور ٹڈے کی ٹانگ پر ہاتھی کا خول چڑھانے کے محاورے ایجاد کیے۔ فاطمہ جناح کی حمایت میں متحدہ محاذ بنا تو اسے مینڈکوں کی پنسیری باندھنے سے تعبیر کیا۔ اسی زمانے میں مولانا مودودی کا ایک جملہ بہت مشہور ہوا کہ ایک طرف ایک مرد ہے جس میں مرد ہونے کے سوا کوئی خوبی نہیں اوردوسری طرف ایک عورت ہے جس میں عورت ہونے کے سوا کوئی خرابی نہیں۔ امین احسن نے اس پر تبصرہ کیا: تعجب ہے، ان لوگوں میں کوئی ایک مرد بھی ایسا نہیں نکلا جو ایک ایسے مرد کا مقابلہ کر سکے جس میں مرد ہونے کے سوا کوئی خوبی نہیں ہے۔ ...
... ان کے ایک پرانے ساتھی نے بتایا کہ ’’جماعت‘‘ کی طرف سے انھیں میانوالی بھیجا گیا۔ میں ان کا رفیق سفر تھا۔ ہم بس کے ذریعے سے جا رہے تھے۔ سرگودھا کے اڈے پر بس رکی تو انھوں نے مجھ سے کہا : گھی سمجھ کر تیل کھانے سے بہتر ہے کہ تیل سمجھ کر تیل ہی کھایا جائے۔ جاؤ ایک نان اور کچھ پکوڑے لے آؤ۔ ...
... طبیعت میں شگفتگی تھی، اپنی بیماری کا ذکر بھی کرتے تو لب و لہجہ ایسا ہوتا کہ چہروں پر مسکراہٹ پھیل جاتی۔ مذہبی حماقتوں پر ان کی خاص نظر رہتی تھی، یہ ذکر چھڑ جاتا تو ان کی گل افشانیِ گفتار کا عالم دیکھنے کی چیز ہوتا۔ لفظ لفظ میں تلمیح و تعریض سے وہ مضمون پیدا کرتے کہ سننے والا صاحب ِذوق ہوتا تو اش اش کر اٹھتا۔ ان کے پرانے دوستوں میں سے ایک مذہبی رہنما سے اسی طرح کی بعض باتیں سرزد ہوئیں تو ان پر تبصرے کے لیے ایسے خوب صورت اسالیب ایجاد کیے کہ خوف فساد خلق نہ ہوتا تو میں سناتا اور لوگ دیکھتے کہ امین احسن کو قدرت نے لفظ و معنی کو رشتہ بپا کرنے کی کیا صلاحیت بخشی تھی اور کس کمال سے نوازا تھا۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ص ۲۱، ۲۵، ۲۸)
ایک دفعہ ڈاکٹر خورشیدرضوی صاحب نے ان کی بعض منفر د آرا کے بارے میں سوال کیا کہ مولانا، آپ سے پہلے بھی کسی نے یہ بات کہی ہے ؟ امین احسن مسکرائے او رکہنے لگے:
’’اگر مجھ سے پہلے بھی کسی نے یہ بات کہی ہوتی تو اللہ تعالیٰ مجھے کیوں پیدا کرتا۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۶۸)
عبد الرزاق صاحب نے اپنی ڈائری میں لکھا:
’’اس بار بھی مولانا نے بڑی دلچسپ باتیں کیں ۔ کہنے لگے کہ میں حیران ہوتا ہوں کہ میں نے اتنی کتابیں لکھ کیسے لیں ۔ آج تو ایک صفحہ تک نہیں لکھ سکتا اور حیرت ہوتی ہے کہ میں نے ۹ جلدوں پر مشتمل تدبر قرآن تک لکھ ڈالی۔ مولانا نے مزید کہا کہ وہ آج کل اپنی ہی لکھی ہوئی تحریروں کو پڑھ رہے ہیں اور بعض اوقات کو انھیں خود اپنی لکھی ہوئی تحریر پر یقین نہیں آتا کہ میں نے کیسے لکھ لی۔
مولانا نے مولانا حمید الدین فراہی کی بے حد تعریف کی اور کہا کہ وہ بڑے ذہین شخص تھے۔ اگر وہ برطانیہ جیسے ملک میں ہوتے تو زیادہ بہتر کام کر سکتے تھے۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۷۸)
جسٹس (ر)محمد افضل چیمہ لکھتے ہیں :
’’ایک مرتبہ کافی عرصہ کے بعد ملاقات ہوئی۔ میں نے صحت کا حال دریافت کیا۔ فرمانے لگے : دوران سر کی تکلیف ہے۔ گراں گوشی بھی ہے، کسی کی سنتا نہیں اپنی سنائے جاتا ہوں ۔ کراچی گیا تھا۔ وہاں ڈاکٹروں نے جدید آلات سے معائنہ کیا، دوائیں تجویز کیں مگر چند اں افاقہ نہیں ہوا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۸۱)
ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی اپنی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہیں :
’’مو لا نا امین احسن اصلا حی صا حب سے ایک گھنٹہ گفتگو رہی۔مجھے جو کچھ بھی پو چھنا ہوتا اسے کا غذ پر لکھ کر انہیں پیش کر تا چو نکہ مو لا نا کی قوت سما عت یکسر دم توڑ چکی تھی، البتہ بو لتے بالکل صاف تھے۔ نقا ہت کا ذکر کرتے ہو ئے بتا یا کہ نما ز میں میرے دونوں جانب دو آدمی اس اندیشہ کے تحت ہو تے ہیں کہ کہیں میں زمین بوس نہ ہو جا ؤں۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۷۴)
امین احسن لاہور سے بیگم توصیف محمود صاحبہ کے نام ایک خط میں دین کی جزوی باتوں کی اہمیت واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مجھے اس با ت سے اطمینا ن ہو ا کہ آپ داڑھی کو دین کا ایک جزو ما نتی ہیں ۔ اگر ما نتی ہیں تو پھر اس سے کچھ زیادہ فر ق نہیں پیدا ہو تا کہ یہ چھوٹا جزو ہے یابڑا جزو۔ اگر چھوٹا جزو ہے جب بھی انسا ن کی سعا دت اسی میں ہے کہ اس کا اہتما م کر ے جو با تیں چھوٹی ہوتی ہیں ۔ سچ پوچھئے تو دین کے سا تھ آدمی کے گہر ے تعلق کا اظہار انہی کے اہتما م سے ہو تا ہے جو آدمی دین کے فرائض وو اجبا ت سے غفلت کر تا ہے اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کا اہتما م کر تا ہے، وہ تو بلا شبہ، حضرت مسیح ؑ کے ارشا د کے مطا بق، مچھر کو چھا نتا اور او نٹ کو نگلتا ہے۔ لیکن جو آدمی فرائض و واجبات کو ادا کر تا ہے اس کے لئے چھو ٹی چیزوں سے بے پروائی کی تو قع نہیں کی جا سکتی۔ اگر ایک شخص لو گو ں کی ہزاروں لا کھو ں کی اما نتیں ادا کر تا ہے تو یہ کس طر ح ممکن ہے کہ وہ کسی کے چند روپوں کی امانت میں خیا نت کر کے خائن اور نا دہندہ کہلا ئے۔ چنا نچہ واقعہ یہ ہے کہ جو لو گ دین کی بنیا دی با تو ں میں سرگرم ہوتے ہیں وہ جزئیا ت کے اہتما م میں بھی بڑے سرگرم ہو تے ہیں۔ وہ یہ نہیں پسند کر تے کہ وہ خدا اور رسول سے کسی معمو لی با ت کے معا ملے میں شر مندہ ہوں۔ ایک دوسرا پہلو اس سے بھی زیا دہ اہم یہ ہے کہ دین کی کسی با ت کو، خوا ہ وہ چھو ٹی ہو یا بڑی، اگر لو گ حقیر سمجھنے لگیں اور اس کا اختیا ر کر نا تہذیب اور فیشن کے خلا ف سمجھا جا نے لگے تو ہر صا حب ایما ن پر یہ فر ض ہو جا تا ہے کہ اہل زما نہ کے علی الر غم وہ اس چیز کو زندہ اور قائم رکھنے کی کو شش کر ے۔ جو مسلمان دین کی کسی چھو ٹی سے چھو ٹی چیز کے لئے یہ غیر ت دکھا تا ہے اور مذاقِ زمانہ سے مر عو ب ہو ئے بغیر اس کا اہتما م کر تا ہے اور اس کی خا طر اندر اور با ہر کے لو گوں کے طعن و تشنیع کا ہدف بنتا ہے، دین میں اس شخص کا درجہ مجا ہد فی سبیل اللہ کا ہے۔ چنا نچہ اس دور میں جو تعلیم یا فتہ نو جوان کا لجوں اور یونیو رسٹیوں کے ما حو ل میں بھی دا ڑھی رکھتے ہیں میں ان کو مجا ہد سمجھتا ہو ں اور انہی سے یہ تو قع رکھتا ہو ں کہ اس زما نے میں وہ اسلا م کی کچھ خدمت کر سکیں گے۔ علی ہٰذا القیاس جدید تعلیم پائی ہو ئی ان لڑکیوں کے لئے بھی میرے دل میں بڑا احترام ہے جو محض حکمِ شریعت ہو نے کی بنا پر پر دہ کا اہتما م کر تی ہیں، اس لیے کہ تہذیب ِجدید کے ماحول میں پر دہ بھی اسی طر ح مذا ق بن کے رہ گیا ہے جس طر ح دا ڑھی۔
در حقیت دین کے احکا م کی قدر و قیمت کے تعین میں ان حا لا ت کو بڑا د خل ہو تا ہے جن حالات میں وہ کا م انجا م دیے جا تے ہیں ۔ اگر دین کا ایک چھو ٹے سے چھو ٹا کا م بھی ایسے زمانے میں کیا جائے جس زما نے میں اس کا م کا کر نے والا ہر محفل میں نکو بن جا تا ہو تو اس کا م کا درجہ بہت او نچا ہو جا تا ہے۔ اس زما نے میں داڑھی صرف ایک نیکی ہی نہیں بلکہ آدمی کی ایما نی غیرت اور اس کے عز م و رسو خ کا سب سے بڑا نشا ن ہے۔
یہ میں نے جو کچھ کہا ہے اس مفروضے پر کہا ہے کہ دا ڑھی ایک چھو ٹی چیز ہے۔ لیکن میرے نزدیک داڑھی چھو ٹی چیز نہیں ہے بلکہ اس کی حیثیت ایک ملی و اسلا می شعار کی ہے۔ یہ ایک مسلمان کے مسلمان ہو نے کی ظاہر ی علا مت ہے۔ اس وجہ سے اگرکوئی شخص اس کو مٹاتا ہے تو وہ ایک اسلا می شعار کو مٹا تا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ شخص اپنے مسلمان ہو نے پر احسا سِ فخر کی بجا ئے احسا س ِکمتری میں مبتلا ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کیجئے کہ جو شخص اپنے دین کے معا ملے میں احسا سِ کمتری میں مبتلا ہو ا س سے کس خیر کی امید کی جا سکتی ہے۔
آخر میں یہ بات بھی عرض کر وں کہ جو لو گ دین کی معمو لی با تو ں کی ہمت نہیں رکھتے ان سے دین کے کسی بڑے کا م کی تو قع نہیں کی جا سکتی۔ حضرت مسیح ؑ نے فر ما یا ہے کہ جو شخص ایک پیسے میں چور ہے، ایک لا کھ امانت کس طر ح ادا کر سکتا ہے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۲۴-۲۵)
امین احسن کے قریبی رفیق ڈاکٹر شہباز حسین روایت کرتے ہیں کہ مولانا امین احسن نے بتایا کہ ایک دفعہ انھوں نے مولانا فراہی سے ڈاڑھی کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ جس طرح دیگ کا ایک چاول پوری دیگ کی کیفیت کی غمازی کرتاہے، اسی طرح ڈاڑھی پوری شخصیت کی غمازی کرتی ہے۔ اس کے بعد میں نے مولانا فراہی سے ڈاڑھی کے بارے میں کبھی سوال نہیں کیا۔ڈاکٹر شہباز حسین کے بقول مولانا اصلاحی کہا کرتے تھے کہ میں ڈاڑھی کے اندر سے نکلنے کا قائل ہوں، یعنی لوگ دل سے اور برضا ورغبت رکھیں۔
امین احسن بڑی تیز حس ِمزاح رکھتے تھے۔بعض اوقات تو محسوس ہوتا تھاکہ انھوں نے جو جملہ کسا ہے، وہ بہت غوروفکر کے بعد تخلیق کیا ہے، مگر عمر کے آخری حصے میں غیر معمولی نسیان کی وجہ سے بعض اوقات ان سے غیر شعوری طور پر مزاح کاصدور ہوجا تا تھا۔مثال کے طور پر چند دن پرانی بات کوبرسوں پرانی بات کہہ کر بیان کررہے ہوتے تھے۔ایک آدمی ان کے ساتھ صبح کسی مسئلے پر بات کر کے گیاتوشام میں اسی آدمی کے ساتھ وہی بات کسی اور آدمی کی بات کہہ کر کر رہے ہوتے تھے۔رجم کے معاملے میں ان کے موقف سے ہماری مذہبی دنیا میں ہلچل پید ا ہوگئی تھی۔ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھا:اب آپ کی رجم کے بارے میں کیا راے ہے؟ تو انھوں نے ذہن پر زور ڈالا، پھر بے بسی کے عالم میں اپنے پرانے رفیق اسحاق ناگی صاحب سے پوچھا: کیوں بھئی، رجم کے بارے میں کیا راے ہے؟کہیں میں اس کا منکر تو نہیں ہوں ؟ ناگی صاحب اس پر ہنسنے لگے۔ پھرامین احسن بولے : بھئی، جو بھی راے ہوگی، دلائل کی بنیاد پر ہی قائم کی ہوگی، آج بھی کوئی دلائل کے ساتھ اسے غلط ثابت کر دے تو ڈگیں ڈال دیں گے۔
امین احسن غیرت حق کو جزو ایمان قرار دیتے تھے۔وہ ہر معا ملے پر بہت غورو فکر کیا کرتے تھے۔ مخالف اور موافق دلائل کا اچھی طرح جائزہ لیا کرتے تھے۔جب حق اچھی طرح واضح ہوجاتا توپھر مخالفین کو کوئی رعایت دینے کے قائل نہ تھے۔رجم کی سزا کے اطلاق کے بارے میں انھوں نے مسئلے کوصحیح معنوں میں قرآن کی روشنی میں دیکھا اور پھر ہر خوف سے بے نیاز ہو کر اپنا موقف کھل کر بیا ن کیا۔ دوسر ے اہل علم اس مسئلے میں روایا ت کی روشنی میں قرآن کی شرح کرتے تھے، مگر امین احسن قرآن کی روشنی میں روایا ت کی وضاحت کرتے تھے۔ اس سے ان کی فطری طور پر رائج موقف سے مختلف راے قائم ہوئی۔ملک اور بیرون ملک میں تقلید و جمود کے رسیا لوگوں نے ان کے خلاف طوفان کھڑ ا کردیا۔آداب علم سے بے بہرہ ایک گروہ کی جانب سے انھیں یہ بھی کہا گیا کہ اپنی راے واپس لیں، ورنہ نقصان اٹھانا پڑے گا، مگر امین احسن اس دھمکی کو بالکل خاطر میں نہ لائے۔پھر انھیں کہا گیا کہ ہم آپ کو عدالتو ں میں گھسیٹیں گے۔امین احسن کا جواب تھا:ضرور ایسا کیجیے تاکہ مجھے اور باتیں کہنے کا موقع ملے، جو میں ابھی تک زبان پر نہیں لایا۔ایک عزیز دوست نے ان کے اپنی راے پراصرارکو خلاف مصلحت قرار دیا تو امین احسن کا جواب تھا:
’’میرے اور آپ کے درمیان ایک اصولی اختلاف ایسا ہے کہ میں آپ کو اپنی رائے کا قائل نہیں کر سکتا۔ وہ یہ کہ میں کوئی رائے اختیار کرنے میں اصل اہمیت دلیل کودیتا ہوں ، اشخاص کو اہمیت میرے نزدیک ثانوی ہے۔ اس کے برعکس میں آپ کو اصل اعتماد اشخاص پر ہوتا ہے، دلیل کو آپ دوسرے درجے میں رکھتے ہیں ۔ میں اس معاملے میں آپ کو ملامت نہیں کرتا۔ اول تو اس میں مزاج کو دخل ہے۔ثانیاً میری ذمہ داریاں آپ کی ذمہ داریوں سے مختلف ہیں۔ مجھ پر تحقیق سے اگر کوئی حق واضح ہو جائے تو واجب ہے کہ اس کو عند الضرورت برملا کہو، اگرچہ میرا سر قلم کر دیا جائے۔ لیکن آپ پر یہ ذمہ داری نہیں ہے۔‘‘ (۲۷)
امین احسن پر ذمہ داری چاہے مالی نوعیت کی ہو یا علمی نوعیت کی، وہ دونوں پہلوؤں سے بہت حساس تھے۔ ۲۲؍ مارچ ۱۹۷۳ء کو رحمان آباد سے سردار محمد اجمل لغاری کو خط میں لکھتے ہیں :
’’امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہو گا۔ میں آپ کی حسن و تدبیر و تدبر کا نہایت ممنوں ہوں کہ میں عزت و آبرو کے ساتھ رقبہ پر آ گیا ہوں ۔ الحمد للہ اب میں کسی کا قرض دار نہیں ہوں ۔ سب قرضے آپ کی تدبیر سے اللہ تعالیٰ نے ادا کر دیے ہیں ۔ میں نے یہ قسم کھائی تھی کہ میں جب تک لوگوں کا پائی پائی ادا نہ کر لوں گا اس وقت تک لاہور سے نہ نکلوں گا۔ قرضوں کے بار کا احساس یوں تو مجھے ہمیشہ رہا لیکن بیماری کے بعد تو اس احساس نے اتنی شدت اختیار کر لی تھی کہ اس سے میری کمر ٹوٹی جا رہی تھی۔ الحمد للہ اب میں اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہوں ۔ اور اس کے لیے تہ دل سے آپ کا شکر گزار ہوں ۔ صورت حال اتنی سنجیدہ ہو گئی تھی کہ آپ کے سوا کوئی دوسرا اس کو حل نہیں کر سکتا تھا۔
یہاں میرے آشیانے پر اگرچہ دن میں چڑیوں ، مکھیوں ، بھڑوں کی یورش رہتی ہے اور شب میں چمگادڑوں کی، لیکن الحمد للہ میں لکھنے کا کام پورا کر لیتا ہوں ۔ البتہ شب میں لکھنے کا کام نہیں کر سکتا، اس لیے کہ لالٹین کی روشنی میں نگاہ پر زور پڑتا ہے۔ اگر حالات مساعد رہے تو تین ماہ میں چوتھی جلد تیار کر دوں گا جو سورۂ نور پر تمام ہو گی۔ آدھے سے زیادہ کام اس کا ہو چکا ہے۔‘‘( سہ ماہی تدبر،جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۸۳)
۲۱/ اکتوبر ۱۹۶۵ء میں محمود احمد لودھی کے نام ایک خط میں امین احسن نے اپنی جنگجو طبیعت کے بارے میں لکھا:
’’یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ آپ کا مطالعہ قرآن جاری ہے۔ میں نے بھی کسی نہ کسی شکل میں کچھ نہ کچھ کام جاری رکھ چھوڑا ہے۔ یہ کام اس دور کے لوگوں کے لیے ایک بے مزہ اور غیرمفید کام ہے۔ اس وجہ سے نہ میں پہلے پرامید تھا نہ اب ہوں۔ لیکن اداے فرض کے طور پر کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہتا ہوں ۔ کسی کو اس سے نفع پہنچے یا نہ پہنچے، خود میرے لیے یہ نافع ہے۔
افسو س ہے کہ ادھر تحریر کے کام میں رکاوٹ پیدا ہو گئی۔ کچھ تو بار بار مکان کی تبدیلی کے سبب سے ایک الجھن سی رہی۔ پھر جنگ نے ساری توجہ اپنی طرف جذب کر لی۔ میں آدمی تو قرطاس و قلم کا ہوں لیکن طبیعت جنگجو پائی ہے۔ اس وجہ سے اس چیز سے بڑی دلچسپی ہے۔ ریڈیو اور اخبارات سے اس دوران میں طبیعت کا یہ شوق پورا کرتا رہا ہوں ۔
مجھے امید ہے کہ ڈھاکے کی آب و ہوا آپ کو راس آئی ہو گی اور آپ وہاں زندگی کے نئے تجربات سے آشنا ہوں گے۔ اس دوران میں اپنے مشرقی بھائیوں سے متعلق میرے علم میں بھی بعض نئے اضافے ہوئے ہیں ۔ اب تک انگریزوں کے پروپیگنڈے کے زیر اثر ہمارا ذہن یہ بنا ہوا تھا کہ بنگال کے لوگ جنگ کے لیے موزوں نہیں ہیں ۔ لیکن اس جنگ میں یہاں جو مشاہدے ہوئے ہیں ان سے یہ ثابت ہو گیا کہ یہ انگریزوں کی شرارت تھی کہ انھوں نے بنگال کے لوگوں کو فوج سے الگ رکھا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی ہو گی کہ سید احمد شہیدؒ کی دعوت جہاد کو سب سے زیادہ آدمی اسی علاقے سے ملے تھے۔ بہرحال اس جنگ کے فوائد میں سے ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ بنگال کے متعلق یہ دیرینہ غلط فہمی رفع ہو گئی اور دنیا پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ اللہ کے فضل سے ہمارے دونوں بازو شمشیر زن ہیں ، ایک سے ایک بڑھ کر۔‘‘(سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۹۱)
سینئر صحافی مجیب الرحمٰن شامی نے امین احسن کی عالمانہ شان، اندھی تقلید سے بے زاری اور ذوق تحقیق کے بارے میں لکھا:
’’مو لا نا اصلا حی نے بڑی سرگرم زندگی گزاری۔ وہ قلم کے بھی دھنی تھے اور زبا ن کے بھی۔ اردو تو ان کی مادری زبا ن تھی ہی عر بی کے رموز وا سرا ر پر بھی وہ ایسی عا لما نہ نظر رکھتے تھے کہ ان کا شا ید ہی کو ئی ہم سر موجود ہو۔ قرآن کی زبا ن اور زمانہ ٔجاہلیت کے عر بی اد ب پر ان کو بے مثا ل عبورتھا۔ ان کی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ کو تفسیر ی ذخیرے میں انتہا ئی اہم مقا م حا صل ہے۔ ...
مو لا نا اصلا حی آنکھ بند کر کے کسی کے پیچھے چلنے والے نہیں تھے۔ وہ کھلی آنکھ سے مسا ئل کا جائزہ لیتے اور پھر اپنی رائے کا بلا جھجک اور بے دھڑک اظہا ر کر دیتے۔ وہ اپنے شا گردوں اور نیاز مندوں سے اندھی تقلید کا مطا لبہ نہیں کر تے تھے۔ وہ ان کے ذوقِ تحقیق اور تجسس کو ابھا رتے اور ان سے آزادانہ رائے قائم کر نے کی توقع رکھتے۔ تقلید کا بند دروازہ کھولنے پر انھوں نے بڑا زور دیا، اس پر بڑی طا قت صرف کی۔ ‘‘ (ماہنامہ اشراق،جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ۲۹)
لاہور سے ۶/جون ۱۹۶۶ء کو محمود احمد لودھی صاحب کو خط میں امین احسن بے عمل،علم کے بارے میں متنبہ کرتے ہیں :
’’اس میں شبہ نہیں ہے کہ بعض او قا ت زیا دہ تفصیلا ت معلو م کر نے کا شو ق آدمی کے لئے فتنہ بن جا تا ہے۔ اگر چہ علم میں قنا عت پسندی کے بجا ئے حرص کا رویہ صحیح ہے لیکن یہ اسی حالت میں جب اس حرصِ علم کے سا تھ اس کے برابر عمل کا جذبہ بھی ہو۔یہ نہ ہو تو یہ علم وبا ل بن کے رہتا ہے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۲۰)
کسی بھی محقق کو اپنی راے بڑی عزیز ہوتی ہے۔وہ اس میں نشان زد کی جانے والی کسی غلطی کا جلداعتراف نہیں کر پاتا، مگر امین احسن اس معاملے میں بھی ایک استثنا تھے۔اس ضمن میں غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’فراہی سے انھوں نے قرآن پڑھا، اس کی زبان کا وہ ذوق پایا جو شاید ہی کسی کو نصیب ہوا ہو۔ نظم ِقرآن فراہی کی دریافت ہے، لیکن امین احسن نے اپنی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ میں اسے وہاں پہنچا دیا ہے کہ اس کے منکر بھی اب انکار کے لیے کوئی راہ نہیں پاتے۔ امین احسن کا پایۂ علم وہی تھا جو اس امت میں مختلف علوم و فنون کے ائمۂ مجتہدین کا رہا ہے۔ زبان، ادب، فلسفہ و حکمت اور قرآن کے معارف، ان سب میں وہ جس مقام پر فائز تھے، اس سے آگے کوئی مقام آسانی سے تصور میں نہیں آتا۔ ان علوم میں لاریب، وہ اپنے وقت کے امام تھے۔ ان کی بعض نئی تحقیقات سے متعلق جب کوئی شخص ان سے متقدمین کے کسی حوالے کا تقاضا کرتا تو وہ بڑے اعتماد کے ساتھ کہتے :مطمئن رہیے، کچھ عرصے کے بعد ہم بھی متقدمین ہی ہو جائیں گے۔ میں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ میں نے ان کی مجلس میں صدیوں کے عقدے لمحوں میں کھلتے دیکھے اور بارہا اعتراف کیا ہے کہ:
طے می شود ایں رہ بہ درخشیدنِ برقے
ما بے خبراں منتظرِ شمع و چراغیم[12]
ان کا مقام یہی تھا، لیکن اس کے باوجود اپنی کسی عزیز سے عزیز رائے اور تحقیق کے خلاف بھی کوئی حق اگر سامنے آ گیا ہے تو ان کے دل و دماغ کو میں نے اس طرح اس کے سامنے جھکتے دیکھا ہے کہ حیرت ہو جاتی تھی۔ ان کے مدرسۂ علمی کا میں پچھلی صفوں میں بیٹھنے والا ایک طالب علم ہوں۔ سورۂ توبہ میں ’اشہر حرم‘ کا مفہوم انھوں نے جس طرح متعین کیا ہے، اس پر مجھے اطمینان نہیں ہو سکا۔ میرا خیال تھا کہ بات بہت سادہ ہے، لیکن انھوں نے اسے جس طرح دیکھا ہے، اس کے نتیجے میں یہ بہت کچھ الجھ گئی ہے۔ انھی کے فیض تربیت سے جو کچھ پایا ہے، اس کی روشنی میں ایک مرتبہ بہت ڈرتے ڈرتے میں نے اپنا نقطۂ نظر ان کے سامنے رکھ دیا۔ وہ میری بات سنتے رہے، سوالات بھی کیے، اس کے بعد چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گئے، پھر فرمایا: میں نے اس آیت پر برسوں غور کیا اور اس کے بعد ایک رائے قائم کی تھی، لیکن تم ٹھیک کہتے ہو۔ پھر بڑے تاثر کے عالم میں یہ شعر پڑھا:
گماں مبرکہ بہ پایاں رسید کار مغاں
ہزار بادۂ ناخوردہ در رگ تاک است‘‘[13]
(ماہنامہ اشراق، جنوری / فروری ۱۹۹۸ء، ص ۱۷-۱۸)
دکھ در د ہر شخص کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں،مگرعام طور پرلوگ ہمت ہار جاتے ہیں اور جزع فزع کرنے لگتے ہیں،مگر امین احسن اس معاملے میں بہت مضبوط اعصاب رکھتے تھے اور کوئی کم زور بات زبان پر نہ آنے دیتے تھے۔ صحافی اور کالم نگار جناب ارشاد احمد حقانی لکھتے ہیں :
’’ ... جماعت اسلا می حلقۂ لاہور کے ایک اجتما ع کے مو قع پر بھی اس گا ڑی کو سڑک پر حادثہ پیش آگیا تھا جس میں مو لا نا مودودی اور مو لا نا اصلا حی اکٹھے سفر کر رہے تھے۔ مجھے اس تقریب کا ’’نا ظم اجتما ع‘‘مقرر کیا گیا تھا۔ اس حا دثے کے بعد جس میں دونوں بزرگو ں کو چوٹیں آئی تھیں ان کی نگہداشت اور ابتدائی طبی امداد کی فراہمی بھی میرے فرائض میں شامل تھی۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ مو لا نا اصلا حی نے انتہا ئی ضبط ِنفس کا مظا ہر ہ کیا اور تکلیف کے اس وقت میں بھی ان کی زبان اور ادووظائف سے تر تھی اور وہ مسلسل اللہ کا ذکر کررہے تھے۔ ‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ص ۳۷)
امین احسن کی دنیا میں بڑی بڑی شخصیات کی کوئی حیثیت نہ تھی،وہ دلیل کی بنیاد پر بات مانتے تھے اور دلیل کی ہی بنیاد پردوسروں کو قائل کرتے تھے۔ لاہور سے ۵ ؍نومبر ۱۹۸۴ء کو امین احسن نے سردار محمد اجمل خان لغاری کے نام خط میں اسی پہلو سے لکھا:
’’عنا یت نا مہ مو صو ل ہوا۔ ایک مد تِ دراز کے بعد اچا نک عطوفت نا مہ کا نزو ل طویل حبس کے بعد ابر ِرحمت کے بر سنے سے زیا دہ خوش آئندہ تھا۔ اس تو جہ فر مائی کا دلی شکریہ۔میں نے اس کی رسید بھجوادی تھی اور خط رکھ لیا تھا کہ بعض ضرور ی کا مو ں سے فر صت پا نے کے بعد مفصل جواب لکھو ں گا۔ لیکن آج جوا ب لکھنا چا ہا تو دو صفحے لکھنے کے بعد یہ اندازہ ہو ا کہ اس طول کلا م سے کوئی فا ئد ہ نہیں ہو گا۔ میر ے اور آپ کے درمیان ایک اصولی اختلاف ایسا ہے کہ میں آپ کو اپنی کسی رائے کا قا ئل نہیں کر سکتا۔وہ یہ کہ میں کو ئی رائے اختیا ر کر نے میں اصل اہمیت دلیل کو دیتا ہوں ۔ اشخا ص کی اہمیت میرے نزد یک ثا نو ی ہے۔ اس کے بر عکس آپ کا اصل اعتما د اشخا ص پر ہوتا ہے، دلیل کو آپ دوسرے درجہ میں رکھتے ہیں۔
میں اس معا ملہ میں آپ کو ملا مت نہیں کر تا۔ اول تو اس میں مزا ج کو دخل ہے۔ ثا نیاً میر ی ذمہ داریاں آپ کی ذمہ داریوں سے مختلف ہیں ۔ مجھ پر تحقیق سے اگر کو ئی حق وا ضح ہو جائے تو واجب ہے کہ اس کو عندالضرورت بر ملا کہو ں اگر چہ میر ا سرقلم کر دیا جا ئے۔ لیکن آپ پر یہ ذمہ داری نہیں ہے۔
رجم کے معا ملہ میں آپ کو میر ی رائے سمجھ میں نہیں آئی، لیکن جو رائے آپ اختیار کیے ہوئے ہیں کیا آپ اس کو سمجھ کر اختیار کیے ہوئے ہیں ؟ ظا ہر ہے کہ نہیں بلکہ محض تقلید کی بنا ء پر اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ آپ تقلید کے سا تھ کسی مسلک کو اختیار کر کے عند اللہ بر ی ہو سکتے ہیں لیکن میں نہیں بری ہو سکتا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۲۹)
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ