HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : شاہد رضا

اسلام اور جہاد

[جناب جاوید احمد غامدی کی تحریروں اور گفتگو سے اخذ و استفادہ پر مبنی]

سوال:   اسلام اگر امن و سلامتی کا مذہب ہے تو اس میں جہاد کا حکم کیوں دیا گیا؟

جواب: اسلام میں جہاد کا حکم سلامتی کے لیے ہی دیا گیا ہے، یعنی کسی جگہ لوگ سرکشی اختیارکرتے ہوئے دوسروں پر ظلم کریں اور یہ ظلم کسی ریاست کے اندر ہو رہا ہو تو  پولیس  اور عدالتیں قائم کی جاتی ہیں، اور مجرموں کو پکڑ کر  سزا دی جاتی۔ آسٹریلیا، امریکا اور یورپ میں بھی  یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ دنیا میں اس وقت دو سو سے زیادہ ممالک ہیں، ان سب میں انسانوں نے انسان کی سرکشی سے نمٹنے کے لیے یہی بند و بست کیا ہے۔ اگر آپ یہ سوال کریں کہ یہ پولیس، عدالتیں، استغاثہ (Prosecution) کیوں ہے اور مجرموں کو کیوں پکڑا جاتا ہے؟ تو اس کا ایک ہی جواب ہے کہ امن و سلامتی کے لیے۔

انسان چونکہ سرکشی اختیار کر لیتا  اور قانون شکنی کرتا ہے ،  اس لیے انسان کو ایک نظم بنانا پڑتا ہے تاکہ مجرموں کی سرکوبی کی جائے۔ یہ امن اور سلامتی کی ضرورت ہے۔ ریاست کو قائم کرنے کی وجہ ہی یہی ہے، ورنہ انسان اپنے اوپر کسی کی حکومت کیوں تسلیم کرے گا؟ یہ ریاست اسی لیے وجود میں آئی کہ اس کے ذریعے سے انسان کو امن دیا جائے۔ ریاست حق تلفی کرنے والوں، لوگوں کی جان، مال اور آبرو کے خلاف زیادتی کرنے والوں کو پکڑتی  اور ان کو سزا دیتی ہے۔ یہی سرکشی اگر کوئی قوم یا ملک کرنے پر اتر آئے تو پھر اس کے خلاف جنگ کی جاتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے آپ فوجیں بناتے ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید نے یہ بیان کیا ہے کہ اگر ہم جنگ کی ہدایت نہ کر دیتے تو یہ معبد، یہ مسجدیں، یہ کلیسا، یہ مندر اجڑ جاتے۔ لوگ اپنی سرکشی کی وجہ سے پوری دنیا کا نظم تباہ کر دیتے:

وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيْرًاﵧ وَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗﵧ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ. (الحج۲۲: ۴۰)
’’(یہ اجازت اِس لیے دی گئی کہ) اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کنیسے اور مسجدیں جن میں کثرت سے اللہ کا نام لیا جاتا ہے، سب ڈھائے جا چکے ہوتے۔ اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اُس کی مدد کے لیے اُٹھیں گے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ زبردست ہے، وہ سب پر غالب  ہے۔‘‘

 اسلام میں سلامتی کو حاصل کرنے کے لیے یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر کہیں ظلم، زیادتی یا انسانوں کے خلاف سرکشی کی جائے گی اور لوگوں کی جان ومال کے لیے خطرات پیدا کیے جائیں گے تو پھر حکومتیں قوموں کے خلاف بھی یہ حق رکھتی ہیں کہ وہ جنگ کریں۔ اسلام میں کسی مذہبی مقصد کے لیے یا شرک، کفر، ارتداد کے خلاف کسی کو جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، بلکہ ظلم کے خلاف جنگ کا حکم دیا گیا ہے، یعنی اگر زیادتی، ظلم، کوئی قوم مجرمانہ اقدامات کرنے کے لیے کھڑی ہو جائے گی تو پھر ہمیں ہدایت کی گئی ہے کہ ہمارے پاس اگر طاقت ہو گی تو ہم ریاست کی قوت سے اس ظلم کو روکنے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:

اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْاﵧ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ اِۨلَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّا٘ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ.(الحج۲۲: ۳۹-۴۰) 
’’(چنانچہ) جن سے جنگ کی جائے، اُنھیں جنگ کی اجازت دے دی گئی ہے، اِس لیے کہ اُن پر ظلم ہوا ہے اور اللہ یقیناً اُن کی مدد پر قادر ہے۔ وہ جو ناحق اپنے گھروں سے نکال دیے گئے، صرف اِس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے۔‘‘

 ساری دنیا میں جنگ اسی مقصد کے لیے کی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ بھی جنگ کی اجازت اسی صورت میں دیتا ہے۔

آپ کے علم میں ہے کہ موجودہ زمانے میں، غلط یا صحیح، جو جنگیں ہوئی ہیں، ان میں بھی یہی عذر پیش کیا گیا ہے۔ افغانستان میں امریکا کو حملہ کرنا پڑا یا نیٹو کی افواج آئیں یا کسی اور ملک میں حملہ ہوا تو خواہ آپ یہ کہیں کہ بہانہ تراشا گیا یا آپ یہ کہیں کہ حقیقت میں یہ بات ہوئی تھی، لیکن کہا یہی گیا کہ ظلم، زیادتی اور سرکشی کے خلاف ہم جنگ کر رہے ہیں۔ اسلام میں جنگ ظلم کے خلاف ہوتی ہے اور یہ ہمیشہ ریاست کرتی ہے۔ اس کا حکم فرد یا گروہ کو نہیں دیا گیا، بلکہ اس کا حکم ریاست یا مسلمانوں کے نظم اجتماعی کو دیا گیا ہے کہ اگر اس کے پاس طاقت ہے تو وہ ظلم کو ختم کرنے کے لیے جنگ کر سکتی ہے۔ اس حوالے سے خاص طور پر قرآن مجید میں مذہبی جبر (persecution) کو موضوع بنایا گیا ہے، یعنی لوگوں کو اگر مذہبی جبر کا نشانہ بنایا جائے، ان کو اپنے مذہب کے اظہار سے روکا جائے، ان کو اپنا دین قبول کرنے یا چھوڑنے سے روکا جائے اور ریاست اس طرح کے ظلم کا ارتکاب کرے تو پھر جنگ کی جا سکتی ہے۔ قرآن مجید میں جنگ کا مقصد یہی بیان ہوا ہے۔

لہٰذا یہ جنگ امن و سلامتی کی ناگزیر ضرورت ہے۔ اسی مقصد کے لیے دنیا میں ہمیشہ بندوقیں اٹھائی جاتی اور فوجیں بنائی جاتی ہیں۔ اگر کوئی جارحیت یا ظلم و عدوان کا ارتکاب کرے گا، کوئی قوم لوگوں کے جان، مال، آبرو کے لیے خطرہ بن جائے گی تو جنگ کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ کوشش یہی کرنی چاہیے کہ اگر لوگ سمجھ جائیں اور بات جاننے کے لیے تیار ہو جائیں تو  اس کی نوبت نہ آئے، لیکن اگر آمادہ نہ ہوں اور سرکشی ہی پر مصر رہیں تو جس طرح ریاست کے اندر مجرموں کے خلاف کارروائی کرنی پڑتی ہے، اسی طرح قوموں کے خلاف بھی کارروائی کرنی پڑتی ہے۔[1]

______


اشاعت اسلام

سوال:   اسلام دنیا میں کیسے پھیلا؟

جواب: کسی بھی چیز کے فروغ میں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں ۔ آپ سائنس کا بھی تجزیہ کریں گے کہ لوگ اس کے ساتھ کیسے متعلق ہوتے ہیں تو بہت سے عوامل بیان کرنے پڑیں گے۔ چنانچہ اسلام کی تاریخ کوبھی اگر دیکھیں تو اس کے بہت سے ادوار ہیں، جن میں کبھی کوئی سیاسی اقدام نہیں کیا گیا۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کی دعوت کو دیکھ لیں کہ وہ دعوت چند لوگوں سے اٹھی  اور اس کے بعد  ایک بڑی دنیا نے اس سے متاثر ہو کر اسے قبول کر لیا۔ یہود نے اس کو ماننے سے انکار کیا، لیکن بہت سی دوسری قومیں  اٹھیں اور انھوں نے اپنے لیے اسے ایک نوید سمجھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعوت کی ابتدا کی تو مکے میں جو لوگ ایمان لائے، وہ دعوت ہی کے نتیجے میں ایمان لائے۔ وہاں کسی کی گردن پر تلوار تو نہیں رکھی گئی۔ آپ نے بہت سے وفود بھیجے؛ انھوں نے بات کی، ان کو دعوت و پیغام دیا اور انھوں نے اس کو قبول کر لیا۔ مکے کی زندگی میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ دور دراز کے لوگوں سے مسیحی آئے اور کافی تعداد میں آ کر انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو نہ صرف قبول کیا، بلکہ بڑی صداقت کے ساتھ اس کا ساتھ دیا۔ یہ بھی معلوم ہے کہ حبشہ کی طرف مسلمانوں نے ہجرت کی اور وہاں کا حکمران مسلمان ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جنازہ پڑھا۔ موجودہ دنیا میں بھی بہت سے ایسے علاقے ہیں جن میں مسلمانوں نے کبھی کوئی اقدام نہیں کیا، مثلاً ملائشیا، انڈونیشیا، یعنی مشرق بعید کے علاقوں میں دعوت اور محض دعوت کی بنیاد پر اسلام پہنچا۔

یہ خیال نہ کیجیے گا کہ  وہ دو یا  دس لوگ ہیں، بلکہ اس وقت سب سے زیادہ مسلم آبادی کا ملک انڈونیشیا ہے۔  وہاں ظاہر ہے کہ اس نوعیت کا اقدام مسلمانوں نے کبھی نہیں کیا۔ یہ البتہ بالکل درست ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر لوگ جب مسلمان ہوتے ہیں تو اس میں جو  سیاسی اقتدار کردار ادا کرتا ہے،  وہ بہت غیرمعمولی ہے۔  اس  میں کوئی شک نہیں ہے کہ عرب تاجروں نے ملائشیا میں جا کر وہاں ملاکا کے سلطان کے سامنے دعوت پیش کی اور وہ مسلمان ہو گئے۔ بادشاہ کو دیکھ کر رعایا بھی مسلمان ہو گئی، اس لیے کہ اُس زمانے میں یہ ہوتا بھی تھا کہ بادشاہ کو عام طور پر ایک باپ کی جگہ دی جاتی تھی۔ اس کے پس منظر میں لوگوں کے تصورات، بلکہ مذہبی تصورات بھی ہمیشہ سے رہے ہیں۔ گاڈ کنگز (god kings) کی ایک پوری روایت رہی ہے۔ لہٰذا اس طرح کے عوامل لوگوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

اسی طرح اگر کسی جگہ پر آپ کا غلبہ ہو گیا ہے یا آپ نے کسی ملک کو فتح کر لیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں ایک دور ایسا رہا ہے جب فتوحات کو بڑی غیرمعمولی اہمیت حاصل تھی۔ بڑے بڑے فاتحین کو لوگ بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ لوگوں کا خیال یہ ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا ہی اسی لیے کیا ہے کہ یہ نکلیں اور دنیا پر قبضہ کریں۔ جس وقت لوگ دیکھتے تھے کہ کوئی بڑا فاتح نکلا ہے،  اس نے ملکوں کو فتح کر لیا ہے اور قوموں کو مفتوح کر کے اپنی حکومت قائم کر لی ہے تو اس سے متاثر ہوتے تھے۔

اسی طرح کسی کو تہذیبی غلبہ حاصل ہو جاتا ہے، جیساکہ مغربی تہذیب کو غلبہ حاصل ہوا۔ مغربی تہذیب نے نئے افکار پیش کیے، سماجی علوم میں بڑی ترقی کا مظاہرہ کیا اور سائنسی علوم میں بہت سی چیزیں بہت کمال تک پہنچا دیں۔ اس سے ایک خاص طرح کا غلبہ محسوس ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ افکار، وہ خیالات یا وہ ازم جو مغربی تہذیب نے پیدا کیے، وہ بھی لوگوں کے ہاں بڑی قبولیت حاصل کر لیتے ہیں۔

لہٰذا اس کی صحیح نوعیت یہ ہے کہ جب کبھی کسی بھی دین یا نظریے یا ازم کو سیاسی قوت حاصل ہو جاتی ہے یا سیاسی اقتدار کی تائید حاصل ہو جاتی ہے تو اپنے اپنے زمانے کے حالات کے لحاظ سے اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بڑے پیمانے پر اس کا فروغ ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں مختلف گروہ یا مسالک  کو دیکھ لیجیے۔ احناف بہت بڑی تعداد میں ہیں، یعنی اب بھی اگر مسلمانوں کو دیکھیں تو کروڑوں کی تعداد میں لوگ حنفی فقہ کو مانتے ہیں، لیکن ہم اس بات سے واقف ہیں کہ حنفی فقہ کو درحقیقت عباسیوں نے اختیار کر لیا تھا۔  بنوامیہ کے زمانے میں تو اس طرح کی کوئی تفریق نہیں ہوئی، لیکن عباسیوں کے زمانے میں آ کر جب قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ کو مقرر کیا گیا اور انھوں نے قاضی القضاۃ کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور ایک لحاظ سے ساری سلطنت کا قضا کا نظام، یعنی عدلیہ  (judiciary) احناف کے تحت آگئی تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اتنے بڑے پیمانے پر اس کی اشاعت ہوئی کہ اب دیکھتے ہیں کہ کروڑوں کی تعداد میں لوگ اسی کو ماننے والے ہیں۔ اس کے بالکل برخلاف، جن علاقوں میں سب سے پہلے شوافع گئے تو وہاں کے حکمرانوں نے انھی کو قبول کیا، جیساکہ ہم نے ملائشیا میں دیکھا کہ وہاں شوافع ہی کی دعوت قبول کی گئی اور اب بھی سب کے سب لوگ شافعی ہیں۔ اگر آپ اس کی پوری تحلیل کریں تو وہاں پر بھی، ظاہر ہے کہ شافعی فقہ کے شیوع کا باعث یہ ہو گا کہ حکمران نے اسلام قبول کر لیا۔ جس اسلام کو قبول کیا، اس کے پیش کرنے والوں کے ہاں فقہی معاملات میں امام شافعی کی راے کو ترجیح دی جاتی تھی۔ جب اس کو بھی اس نے قبول کر لیا تو جس طرح اسلام پھیل گیا، اسی طرح سے فقہ شافعی بھی پھیل گئی۔ اسی طرح آپ دیکھیں تو حنابلہ کو ایسی کوئی حیثیت حاصل نہیں ہو سکی، لیکن موجودہ زمانے میں جب سعودی عرب میں انقلاب برپا ہوا اور وہاں محمد بن عبدالوہاب کے زیراثر ایک حکومت قائم ہوئی تو حنبلی نقطۂ نظر کو زیادہ شیوع حاصل ہوا۔ موجودہ زمانے میں اس کی تصنیفات بہت عام ہوئیں ۔ اس حوالے سےتاریخ میں بڑی چھوٹی چھوٹی مثالیں ملتی ہیں ۔ مالکیہ کو تو مراکش اور اندلس میں بھی بڑی غیرمعمولی اہمیت حاصل ہو گئی تھی  اور سیاسی قوت بھی ان کے پیچھے تھی ۔ اسی طرح امام ابن تیمیہ کے افکار کو بھی بہت شیوع حاصل ہوا۔

چنانچہ سیاست، اقتدار، تہذیبی برتری یا کسی قوم کا ایک فاتح کی حیثیت سے دنیا میں نکل کھڑا ہونا، یہ لوگوں کے اذہان پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اسلام کے معاملے میں بھی یہی ہوا ہے۔ [2]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B