HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

دوراہا، صبر اور نماز

معاذ بن نور


ہمارے حیوانی وجود کی جبلتوں سے اٹھنے والی خواہشات عجلت میں اپنی تکمیل چاہتی ہیں، جب کہ ہمارا عقلی و اخلاقی شعور عاقبت اندیش ہے اور ہمیں ان خواہشات کی تکمیل میں حائل خطرات اور رکاوٹوں پر متنبہ کرتا رہتا ہے۔ اس بنیاد پر انسان کے باطن میں ان جبلتوں اور عقل و شعور کے مابین ایک کشمکش ہمہ وقت جاری ہے ۔

یہ جبلتیں بہت زور آور ہیں اور ان سے پھوٹنے والی نیتیں اور ارادے اپنی پیدایش کے وقت خالص حیوانی اور اخلاقی لحاظ سے غیر جانب دار ارادے ہوتے ہیں۔ جب یہ جبلی خواہشات اُبھرتی ہیں تو ہم ایک دوراہے پر کھڑے ہوتے ہیں، جسے قرآن مجید تقویٰ (ضبط نفس اور عاقبت اندیشی) اور فجور (عجلت پرستی اور جبلی خواہشوں کی تکمیل کے لیے عقل و شعور کے تقاضوں کو روند دینے والی بے باکی) کے دو راستوں سے تعبیر کرتا ہے، جو انسان کی فطرت میں رکھے گئے ہیں۔

یہی وہ دوراہا ہے جہاں شیطان داخل ہونے کی راہ پاتا ہے۔ وہ ہماری حیوانی خواہشات کو بڑھا کر فوری تسکین کی طرف مائل کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے، یعنی فوراً چڑھائی کردو، تعلق توڑ دو، سب کچھ لٹا دو، ہر لذت پر ہر شے پر پل پڑو وغیرہ۔ دوسری جانب، تقویٰ کا راستہ ہمیں ٹھیراؤ، نتائج پر غور و فکر، اور احتیاط کا درس دیتا ہے، یعنی درگذر کرو، اپنا فرض ادا کرو، مشکل وقت ہے گزر جائے گا، اس لیے جوڑ کر رکھو، ضرورت کے لیے کچھ بچالو، نظریں بچاؤ کہیں لت نہ پڑ جائے وغیرہ۔

آپ خود پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ روزانہ آپ کے دن کا ایک بڑا حصہ اسی حیوانی اور شیطانی حالت میں گزرتا ہے، دن میں کئی بار ہم جبلتوں اور شعور کی کشمکش کے اسی دوراہے پر کھڑے ہوتے، شیطان عجلت پرستی کی طرف مائل کرنے کے لیے ہمارے دل میں وسوسہ اندازی کرنے میں مصروف ہوتا ہے اور ہم کئی بار اس کی اکساہٹ کا شکار ہو کر عقل و شعور کے تقاضوں کو برطرف کر کے عجلت و خواہش پرستی کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیتے ہیں۔

اس فجور پر تقویٰ کو ترجیح دینا ایک سوچا سمجھا عمل ہے، جو ہمیں اپنی حیوانی ذات سے اوپر اٹھنے، شیطان کی سرگوشیوں کو رد کرنے، اور اپنی روح کو عقل و شعور کی روشنی سے منور کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ یہی صبر ہے۔ یہ روزانہ کی جدوجہد ہے، اس لیے کہ جب تک انسانی فطرت میں حیوانی خواہشات موجود ہیں، وہ اپنی تکمیل کے لیے زور آزمائی کریں گی اور شیطان ان کی بنیاد پر آپ کے آخری سانس تک آپ کو بہکانے کی کوشش کرتا رہے گا۔

تاہم جو لوگ ان جبلتوں اور شیطان کی اکساہٹ کو پہچاننے اور بتدریج رد کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں تو اللہ بھی مدد کے لیے آ جاتے ہیں اور اس دوراہے پر بتدریج تقویٰ کی سمت میں ان کی پیش قدمی شروع ہو جاتی ہے۔ پھر ان کے لیے اللہ درست سمت میں اس پیش قدمی کو آسان بناتا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ اس مستقل جنگ میں، اللہ سے مضبوط تعلق قائم کرنا ضروری ہے تاکہ صبر کے راستے پر انسان ثابت قدم رہ سکے۔

 یہی وہ مقام ہے جہاں نماز کی اہمیت نمایاں ہوتی ہے، جو اس کے تقویٰ کی محافظ بن کر انسان کو بے راہ روی سے بچاتی رہتی ہے اور اس جنگ میں اس کے عقل و شعور کو تقویت دیتی ہے۔ قرآن مجید نہایت خوب صورتی سے نصیحت کرتا ہے:

’’اور صبر اور نماز کے ذریعے سے مدد حاصل کرو۔‘‘ (البقرہ ۲: ۴۵)

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہر دوراہے پر ہمیں استقامت کے ساتھ عقل و شعور سے کام لینے، اپنی جبلتوں کی منہ زوری اور شیطان کی اکساہٹ کو پہچاننے کی صلاحیت عطا کرے، اور ضبط و تحمل کو عجلت پرستی پر ترجیح دینے کی حکمت نصیب فرمادے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B