[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
مولانا امین احسن اصلاحی اپنی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ یہ (حروف مقطعات) جس سورہ میں بھی آئے ہیں بالکل شروع میں اس طرح آئے ہیں جس طرح کتابوں، فصلوں اور ابواب کے شروع میں ان کے نام آیا کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں۔ ... حدیثوں سے بھی ان کا نام ہی ہونا ثابت ہے۔
جو سورتیں ان ناموں سے موسوم ہیں اگر چہ ان میں سے سب اپنے انھی ناموں سے مشہور نہیں ہوئیں، بلکہ بعض دوسرے ناموں سے مشہور ہوئیں، لیکن ان میں سے کچھ اپنے انھی ناموں سے مشہور بھی ہیں۔ مثلاً ’طٰهٰ‘، ’یٰس‘، ’ق ‘ اور ’ن‘ وغیرہ۔ ...
جن لوگوں کی نظر اہل عرب کی روایات اور ان کے لٹریچر پر ہے وہ جانتے ہیں کہ اہل عرب نہ صرف یہ کہ اس طرح کے ناموں سے نامانوس نہیں تھے، بلکہ وہ خود اشخاص، چیزوں، گھوڑوں، جھنڈوں، تلواروں حتیٰ کہ قصائد اور خطبات تک کے نام اسی سے ملتے جلتے رکھتے تھے۔ یہ نام مفردحروف پر بھی ہوتے تھے اور مرکب بھی ہوتے تھے۔...
اور یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ جب ایک شے کے متعلق یہ معلوم ہو گیا کہ یہ نام ہے تو پھر اس کے معنی کا سوال سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا، کیونکہ نام سے اصل مقصود مسمیٰ کا اس نام کے ساتھ خاص ہو جانا ہے نہ کہ اس کے معنی۔...
بس اتنی بات ہے کہ چونکہ یہ نام اللہ تعالیٰ کے رکھے ہوئے ہیں اس وجہ سے آدمی کو یہ خیال ہوتا ہے کہ ضرور یہ کسی نہ کسی مناسبت کی بنا پر رکھے گئے ہوں گے۔...
جو لوگ عربی رسم الخط کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ عربی زبان کے حروف عبرانی سے لیے گئے ہیں اور عبرانی کے یہ حروف ان حروف سے ماخوذ ہیں جو عرب قدیم میں رائج تھے۔ عرب قدیم کے ان حروف کے متعلق استاذ امام کی تحقیق یہ ہے کہ یہ انگریزی اور ہندی کے حروف کی طرح صرف آواز ہی نہیں بتاتے تھے، بلکہ یہ چینی زبان کے حروف کی طرح معانی اور اشیاء پر دلیل بھی ہوتے تھے اور جن معانی یا اشیاء پر وہ دلیل ہوتے تھے عمومًا انھی کی صورت و ہیئت پر لکھے بھی جاتے تھے۔مولانا کی تحقیق یہ ہے کہ یہی حروف ہیں جو قدیم مصریوں نے اخذ کیے اور اپنے تصورات کے مطابق ان میں ترمیم و اصلاح کر کے ان کو اس خط تمثالی کی شکل دی جس کے آثار اہرام مصر کے کتبات میں موجود ہیں۔ ...
مولانا اپنے نظریے کی تائید میں سورۂ ’’ن‘‘ کو پیش کرتے ہیں۔ حرف ’’ نون‘‘ اب بھی اپنے قدیم معنی ہی میں بولا جاتا ہے۔ اس کے معنی مچھلی کے ہیں اور جو سورہ اس نام سے موسوم ہوئی ہے اس میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر ’صاحب الحوت‘، (مچھلی والے)، کے نام سے آیا ہے۔مولانا اس نام کو پیش کر کے فرماتے ہیں کہ اس سے ذہن قدرتی طور پراس طرف جاتا ہے کہ اس سورہ کا نام’’ نون‘‘ (ن) اسی وجہ سے رکھا گیا ہے کہ اس میں ’صاحب الحوت‘(یونس علیہ السلام) کا واقعہ بیان ہوا ہے۔‘‘(۱/ ۸۲- ۸۴)۔
۱۔
حروف مقطعات سورتوں کے نام ہی ہیں۔ اس بات کی وضاحت اس چیز سے بھی ہوتی ہے کہ جن سورتوں کے شروع میں ایک جیسے حروف آئے ہیں، ان سورتوں کو کچھ دوسرے نام دیے گئے ہیں تاکہ ان سورتوں کو ایک دوسرے سے الگ کیا جا سکے، کیونکہ اگر یہ سورتیں انھیں حروف مقطعات والے ناموں سے مشہور ہوتیں تو ان کے نام آپس میں گھل مل جاتے۔ ٹیبل میں لائن نمبر ۱، ۲، ۳ اور ۴ دیکھیے۔ دوسری بات یہ کہ جن سورتوں کے شروع میں کچھ ایسے حروف آئے ہیں جن کی تعداد چار یا چار سے زائد ہے اور پڑھنے میں لمبے ہیں، ان سورتوں کو بھی کچھ دوسرے نام دیے گئے ہیں، جو پڑھنے میں آسان اور مختصر ہوں۔ ٹیبل میں لائن نمبر ۵ دیکھیے۔ اب قابل غور اور دل چسپ بات یہ ہے کہ جن سورتوں کے شروع میں ایسےحروف آئے ہیں جو دوسری سورتوں کے شروع میں آنے والے حروف سے الگ اور پڑھنے میں بہت آسان اور مختصر ہیں، وہ سورتیں اپنے انھی حروف مقطعات والے ناموں سے مشہور ہیں۔ ٹیبل میں لائن نمبر ۶ دیکھیے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تمام حروف مقطعات اصل میں سورتوں کے نام ہی ہیں۔ بس جن سورتوں کے شروع میں ایک جیسےحروف آئے ہیں یا جو پڑھنے میں لمبے ہیں، ان سورتوں کو کچھ دوسرے نام دیے گئے ہیں تاکہ ان سورتوں کے ناموں کو ایک دوسرے سے الگ کیا جا سکے اور سورتوں کے ناموں کو آسانی سے لیا جا سکے۔ اس چیز کی وضاحت کچھ احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ مثلاً:
حضرت عبداللہ بن عتبہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مغرب کی نماز میں سورۂ حٰم الدخان پڑھی(نسائی، رقم ۹۸۹ )۔
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جمعۃ المبارک کے دن صبح کی نماز میں ’الم تنزیل‘ اور ’ھل اتٰی‘ پڑھا کرتے تھے(نسائی، رقم ۹۵۶ )۔
اوپر والی حدیث میں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ سورہ کا نام اصل میں ’حم‘ ہی ہے، لیکن چونکہ ’حم‘ کافی سورتوں کے شروع میں آیا ہے، اس لیے ’حم‘ کے ساتھ ’دخان‘ لگا کر اس کو دوسری سورتوں سے الگ کیا گیا ہے۔ اسی طرح سورۂ حٰم السجدہ سے بھی یہی چیز ثابت ہوتی ہے۔اور نیچے والی حدیث سے بھی یہی چیز ثابت ہوتی ہے۔
۲۔ قرآن مجید میں سورتوں کے نام اس اصول پر رکھے گئے ہیں کہ جس سورہ کا جو نام ہوتا ہے، اس چیز کا اس سورہ کے اندر ذکر ہوتا ہے۔ مثلاً سورہ نمبر ۵۷ کا نام ’ الحدید ‘ ہے اور اس کی آیت ۲۵’ الحدید ‘، یعنی لوہے کا ذکر ہے۔ اب چونکہ حروف مقطعات بھی سورتوں کے نام ہیں، اس لیے یہ بھی اسی اصول پر آئے ہیں۔ مثلًا سورہ نمبر ۶۸ کے شروع میں ’ن‘ آیا ہے اور ’ن‘ کے معنی مچھلی کے ہیں اور اس کی آیت ۴۸ میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر ’صاحب الحوت‘، یعنی مچھلی والے کے طور پر آیا ہے۔ اب اس اصول کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جس چیز پر کسی سورہ کا نام ہوگا، اس چیز کا ذکر دوسری سورتوں میں نہیں ہوگا۔ مثلًا الحدید، یعنی لوہے کا ذکر سورۂ حدید کے علاوہ بعض اور سورتوں میں بھی ہے، لیکن یہ اس سورہ کا نام بھی ہے۔ اسی طرح مچھلی کا ذکر سورہ نمبر ۶۸ کے علاوہ بعض اور سورتوں میں بھی ہے، لیکن اس سورہ کا نام بھی ہے۔
۳۔ قرآن مجید میں سورتوں کے نام شخص، جگہ یا کسی چیز پر بھی ہیں اور فعل پر بھی، مثلًا سورۂ علق اور سورۂ عبس، دونوں سورتوں کے نام فعل پر ہیں۔ اب چونکہ حروف مقطعات بھی سورتوں کے نام ہی ہیں، اس لیے یہ بھی اس اصول پر آسکتے ہیں، مثلاً ’ص‘ کے معنی پتھر کی ہنڈیا کے بھی ہیں، جو کہ ایک چیز ہے اور’ص‘ کے معنی شکار کرنے کے بھی ہیں، جو کہ ایک فعل ہے( تفصیل اور دلائل آگے درج ہیں)۔
۴۔ جیسا کہ تعارف میں بیان ہوا ہے کہ اہل عرب کی روایات اور لٹریچر میں حروف مقطعات مفرد، یعنی اکیلے بھی استعمال ہوئے ہیں اور مرکب بھی، قرآن مجید میں بھی یہ ایسے ہی استعمال ہوئے ہیں، مثلاً ’’ن‘‘ ایک مفرد حرف ہے، جس کے معنی مچھلی کے ہیں اور ’حم‘ ایک مرکب ہے’ح‘اور ’ م‘ کا، جس کو مرکب کے طور پر ’حمیم‘ پڑھتے ہیں، جس کے معنی ’گرم پانی‘ یا ’ گہرے دوست ‘ کے ہیں (تفصیل اور دلائل آگے درج ہیں)۔
۵۔ ایک حرف کے ایک سے زیادہ معنی ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے کم از کم ایک تو سورہ کے اندر لازمی استعمال ہوگا۔ مثلًا ’ع‘ کے معنی آنکھ، چشمہ، جاسوس، سید اور نگران وغیرہ کے ہیں۔
۶۔ جن سورتوں کے نام حروف مقطعات پر ہیں، ان سورتوں کے اندر ضروری نہیں ہے کہ بالکل وہی حروف اپنی لفظی حالت میں آئیں، بلکہ مترادفات بھی آسکتے ہیں۔ مثلاً سورۂ انبیاء( ۲۱) کی آیت ۸۷ میں مچھلی کے لیے لفظ ’’نون ( ن )‘‘ آیا ہے اور سورۂ صافات (۳۷) کی آیت ۱۴۲میں مچھلی کے لیے لفظ ’’حوت‘‘ استعمال ہوا ہے، حالاں کہ مچھلی ایک ہی تھی، جس نے حضرت یونس علیہ السلام کو نگل لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سورہ نمبر ۶۸ کا نام سورۂ ’’ن‘‘ ہے، جس کے معنی مچھلی کے ہیں، لیکن اس سورہ کے اندر آیت ۴۸ میں مچھلی کے لیے لفظ ’ حوت‘ آیا ہے۔ حروف مقطعات کے تناظر میں اس مترادف کی طرف تو قرآن مجید نے خود توجہ دلا دی ہے۔ اسی کو بنیاد بنا کر باقی حروف پر بھی لاگو کیا گیا ہے۔
۷۔ جیسا کہ تعارف میں بیان ہوا کہ عرب قدیم کےیہ حروف جن معانی یا اشیا پر دلیل ہوتے تھے، عموماً انھی کی صورت و ہیئت پر لکھے جاتے تھے۔ اب، ظاہر ہے کہ وقت کے ساتھ ان میں ارتقائی تبدیلیاں آئی ہیں، لیکن کچھ حروف کے معنی اور ان کی شکل میں آج بھی کچھ نہ کچھ مماثلت ہے۔ اس مماثلت کو شکلوں کے ذریعے سے واضح کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔
۸۔ حروف کے معانی Almaany English Arabic dictionary سے لیے گئے ہیں جو گوگل پہ آسانی سے مل سکتے ہیں۔ اور اگر کوئی حرف ( اپنی لفظی حالت میں ) قرآن مجید کے اندر استعمال ہوا ہے تو اس کا حوالہ ساتھ ساتھ دیا گیا ہے۔ مثلاً’ن‘ سورۂ انبیاء آیت ۸۷۔
۹۔ چونکہ عربی حروف عبرانی سے ہی ماخوذ ہیں، اس لیے جہاں ضرورت پڑی ہے وہاں عبرانی سے بھی مدد لی گئی ہے، لیکن عربی کو زیادہ سے زیادہ ترجیح دینے کی کوشش کی گئی ہے، کیونکہ عربی میں جو حروف اس وقت اپنے قدیم معنی میں استعمال ہوتے ہیں، ان کےلیے عبرانی میں جانے کی ضرورت نہیں۔ مثلًا ’ن‘ اور’ع‘ وغیرہ۔
حروف کے معانی میں جہاں عبرانی زبان سے مدد لی گئی ہے، وہاں زیادہ تر عدنان اعجاز صاحب کی تحقیق کو بنیاد بنایا گیا ہے( ان کی یہ تحقیق ماہنامہ اشراق ستمبر ۲۰۱۶، المورد سے چھپ چکی ہے )۔ اس کے علاوہ اگر گوگل پہ Meanings of Hebrew alphabets ٹائپ کریں تو بھی اس پر بہت سارا ڈیٹا مل جائے گا۔
۱۰۔ حروف کی ترتیب استدلال کے حساب سے ہے، یعنی جن حروف کے معنی اور اطلاق میں استدلال مضبوط ہے، انھیں پہلے رکھا گیا اور باقیوں کو بعد میں۔ تین جگہیں ایسی ہیں جہاں معنی کے اطلاق میں مسائل ہیں، وہاں میں نے سورہ کا نام لکھ کر جگہ خالی چھوڑ دی ہے۔ ’’ ہ ‘‘ کے بارے میں کافی مسائل کا سامنا ہے، اس لیے اسے بیان نہیں کیا گیا۔
عربی میں’ن‘ کے معنی مچھلی کے ہیں۔ حوالہ: سورۂ انبیاء (۲۱) کی آیت۸۷۔اس کی شکل بھی کسی حد تک مچھلی جیسی ہے جب وہ اچھلتی ہے اور اگر مچھلی کے آگے والے حصے کی طرف دیکھیں، یعنی آنکھ والاحصہ تو پھر بھی کچھ ’ن‘ جیسی ہی شکل بنتی ہے۔ کچھ اس طرح:
اب جس سورہ کے شروع میں ’’ن‘‘ آئے گا، اس میں مچھلی کا ذکر ہوگا۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۴۸ میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر ’صاحب الحوت‘، یعنی مچھلی والے کے طور پر آیا ہے۔
عربی میں’ع‘ کے معنی آنکھ کے ہیں۔ حوالہ: سورہ نمبر (۵) کی آیت ۴۵۔ اس کی شکل بھی کسی حد تک آنکھ جیسی ہے۔ کچھ اس طرح:
عربی میں’ع‘ کے معنی چشمہ کے بھی ہیں۔ حوالہ، سورہ نمبر (۸۸) کی آیت ۵ اورسورہ نمبر (۱۸) کی آیت ۸۶۔ عربی میں ’ع‘ کے معنی محافظ، نگران اور نگہبان وغیرہ کے بھی ہیں۔
اب جن سورتوں کے شروع میں ’ع‘ آئے گا، ان میں آنکھ، چشمہ یا نگران وغیرہ کا ذکر ہوگا۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۲۶ میں آنکھ اور آیت ۲۴ میں چشمہ کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۶ اور ۴۸ میں نگران کا ذکر ہے۔
’حٰم‘ مرکب ہے’ح‘ اور ’ م‘ کا، جس کو مرکب کے طور پر’حمیم‘ پڑھیں گے۔
عربی میں ’ حمیم‘ کے معنی گرم پانی کے ہیں۔حوالہ: سورہ نمبر (۵۶) کی آیت ۵۴ اور سورہ نمبر (۵۵) کی آیت ۴۴۔
عربی میں ’حمیم‘ کے معنی دوست کےبھی ہیں۔حوالہ: سورہ نمبر (۷۰) کی آیت ۱۰ اور سورہ نمبر (۶۹) کی آیت ۳۵۔
اب جن سورتوں کے شروع میں ’’حٰم‘‘آئے گا، ان میں گرم پانی یا دوست وغیرہ کا ذکر ہوگا۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۷۲ میں گرم پانی اور آیت نمبر ۱۸ میں دوست کاذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۳۱ اور ۳۴ میں دوست کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۶، ۸، ۹، ۲۸، ۳۱، ۴۴ اور ۴۶ میں دوست کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۳۶، ۳۸ اور ۶۷ میں دوست کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۴۶ میں گرم پانی اور آیت نمبر ۴۱ میں دوست کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۱۰ اور ۱۹ میں دوست کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۳۲ میں دوست کا ذکر ہے۔
’’ط‘‘ کو عبرانی میں طیط پڑھا جاتا ہے، جس کے معنی سانپ کے ہیں۔ عبرانی اور عربی، دونوں زبانوں میں یہ آج بھی ایسے لکھا جاتا ہے جیسے کوئی سانپ لٹھ مار کر سر سیدھا اٹھا کر بیٹھا ہو۔ کچھ اس طرح:
اب جن سورتوں کے شروع میں ’’ط‘‘آئے گا، ان میں سانپ کا ذکر ہوگا۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۲۰ میں سانپ کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۳۲ میں سانپ کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۱۰ میں سانپ کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۳۱ میں سانپ کا ذکر ہے۔
عربی میں ’ص‘ کے معنی ’’پتھر کی ہنڈیا‘‘ کے ہیں۔جیسا کہ شاعر نےکہا:
و سود من الصیدان فیھا مذانب
’’ اور سیاہ دیگیں، جن میں نضاد لکڑی کے چمچے رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
اور اسے صاد بھی کہہ دیتے ہیں۔جیسا کہ شاعر نے کہا:
رأیت قدور الصاد حول بیوتنا
’’میں نے پتھر کی ہانڈیاں اپنے خیموں کے گرد دیکھیں۔‘‘ ( الصید، ۵: ۱’ مادہ‘ اسلام ۳۶۰ )
اس پتھر کی ہنڈیا کی شکل کیسی تھی یہ تو معلوم نہیں، لیکن اوپر جو شاعروں کے دو جملے نقل کیے گئے ہیں، ان سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں: ایک یہ کہ پتھر کی ہانڈیاں دوسری یہ کہ ان میں لکڑی کے چمچے۔اب ان دونوں باتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو کچھ ’’ص‘‘جیسی ہی شکل بنتی ہے۔ شاید کچھ ایسی:
عربی میں’ص‘ کے معنی شکار کرنے کے بھی ہیں۔
’ص‘ کو عبرانی میں ’’صادق‘‘ بھی پڑھا جاتا ہے، جس کے معنی سچے آدمی کے ہیں اور عربی میں لفظ ’صادق‘ ’’ص‘‘ اور ’’ق‘‘ سے مل کر بنا ہے، جو’ ص‘ کے اسی معنی کی طرف اشارہ کرتاہے۔ اس کے علاوہ لفظ ’صوم‘ صلوٰة، صبر اور صالح کا اسی حرف ’ص‘ سے شروع ہونا بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کرتاہے۔
اب جن سورتوں کے شروع میں ’ص‘ آئے گا، ان میں پتھر کی ہنڈیا، شکار کرنے یا سچے آدمی کا ذکر ہوگا۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۱۱۷ میں حضرت موسٰی علیہ السلام کی لاٹھی سانپ بن کر دوسرے سانپوں اور رسیوں کو نگل لیتی ہے، یعنی ان کا شکار کر لیتی ہے۔
اس سورہ میں کچھ سچے بندوں کا ذکر ہے اور ان کی سچائی اور اچھائی کو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جن میں حضرت زکریا علیہ السلام، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت مریم علیہا السلام، حضرت عیسٰی علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسٰی علیہ السلام، حضرت اسمٰعیل علیہ السلام، حضرت ادریس علیہ السلام، حضرت اسحٰق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام شامل ہیں۔
اس سورہ میں بھی کچھ سچے بندوں کا ذکر ہے اور ان کی سچائی اور اچھائی کو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جن میں حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت ایوب علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحٰق علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت اسمٰعیل علیہ السلام، حضرت الیسع علیہ السلام اور حضرت ذوالکفل علیہ السلام شامل ہیں۔
اس کے علاوہ، اس سورہ کی آیت نمبر ۳۷ میں معمار جنات اور غوطہ خور شکاری جنات کا بھی ذکر ہے۔ اس سورہ کی آیت نمبر ۳۷ کو سورہ نمبر ۳۴ آیت نمبر ۱۳ کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے، کیونکہ معمار جنات میں پتھر کی دیگیں بنانے والے بھی شامل ہیں۔
عربی میں’الف‘ کے معنی ’’ہزار‘‘ کے ہیں۔حوالہ: سورہ نمبر (۹۷) کی آیت ۳۔
عربی میں ’ الف‘ کے معنی محبت، الفت اور پسند وغیرہ کے بھی ہیں۔ حوالہ: سورہ نمبر (۸) کی آیت ۶۳ اور سورہ نمبر (۳) کی آیت ۱۰۳۔
عربی میں ’ الف‘ کے معنی’جوڑنے یا ملانے‘وغیرہ کے بھی ہیں۔حوالہ: سورہ نمبر (۲۴) کی آیت ۴۳۔
عبرانی میں ’الف‘ کے معنی بیل یا گائے کے ہیں۔ قدیم عبرانی میں یہ لکھا بھی بیل یا گائے کے سر کی طرح جاتا تھا۔ کچھ اس طرح:
اب جن سورتوں کے شروع میں ’الف‘ آئے گا، ان میں ہزار، محبت، پسند، جوڑنے یا گائے وغیرہ کا ذکر ہوگا۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۹۶ اور ۲۴۳ میں ’ہزار‘ کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ اس سورہ میں گائے کا بھی ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۱۲۴ اور ۱۲۵ میں ’ ہزار‘ کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۱۴۸ میں بچھڑے کا ذکر ہے، جس سے گائے کی سی آواز آتی تھی اور آیت ۳۱، ۵۵ اور ۷۹ میں محبت کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۲۴ میں مویشیوں کا ذکر ہے، جن میں گائے بھی شامل ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۶۹ میں بچھڑے کا ذکر ہے اور آیت نمبر ۹۰ میں محبت کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۴۳ میں گائے کا ذکر ہے اور آیت نمبر ۸، ۳۰ اور ۳۳میں محبت کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۲۱ اور ۲۵ میں رشتوں کو جوڑنے کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۳ میں محبت کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۱۴ میں ہزار کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۲۱ اور ۴۵ میں محبت کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۱۸ میں محبت کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۵ میں ہزار کا ذکر ہے۔
’ل‘ کو عبرانی میں ’ لامد‘ پڑھا جاتا ہے، جس کے معنی چرواہے کی لاٹھی کے ہیں۔ اس کی شکل بھی چرواہے کی لاٹھی جیسی ہے۔ کچھ اس طرح:
عربی میں ’ل‘ کے معنی الزام لگانے یا جھوٹ باندھنے کے بھی ہیں۔
عربی میں ’ل‘ کے معنی مرمت کرنے، ( یعنی ایک چیز کے تباہ ہونے کے بعد دوبارہ درست حالت میں لانا ) کے بھی ہیں۔
عربی میں ’ل‘ کے معنی، مادری یا ماں کی طرف سے یا ماں کے رحم کے متعلق، کے بھی ہیں۔
اب جن سورتوں کے شروع میں ’ل‘ آئے گا، ان میں اوپر بیان کردہ معانی استعمال ہوں گے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۶۰ میں لاٹھی کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۶ میں ماں کے رحم کا ذکر ہے اور آیت ۷۸ میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۱۰۷، ۱۱۷ اور ۱۶۰ میں لاٹھی کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۳۸ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر قرآن خود سے گھڑ لینے کا جھوٹا الزام نقل ہوا ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۱۳ اور ۳۵ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖوسلم پر قرآن خود سے گھڑ لینے کا جھوٹا الزام نقل ہوا ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۲۵ میں ایک عورت کا حضرت یوسف علیہ السلام پر جھوٹا الزام نقل ہوا ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۸ میں ماں کے رحم کا ذکر ہے۔ اور آیت ۴۳ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖوسلم پر رسول نہ ہونے کا جھوٹا الزام نقل ہواہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۴۸ میں موجودہ زمین وآسمان کو ایک نئے زمین وآسمان میں تبدیل کرنے کا ذکر ہے (یعنی مرمت کرنا )۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۶ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖوسلم پر مجنون ہونے کا جھوٹا الزام نقل ہوا ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۱۳، ۱۷ اور ۶۸ میں مخالفین کے جھوٹ باندھنے کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۱۱، ۲۴، ۲۷ اور ۵۰ میں مرمت والے معنی کا استعمال ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۱۴ میں ماں کا بچے کو پیٹ میں اٹھائے رکھنے کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۳ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖوسلم پر قرآن خود سے گھڑ لینے کا جھوٹا الزام نقل ہوا ہے۔
عبرانی میں ’م‘ کے معنی، پانی یا پانی کی لہر، وغیرہ کے ہیں۔ اس کی شکل بھی کچھ پانی کی لہر جیسی ہے۔ کچھ اس طرح:
عربی میں ’حمیم‘ کے معنی گرم پانی کے ہیں۔ اس سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ’حمیم‘ میں بھی پانی کا مفہوم ’میم‘ ہی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، کیونکہ ’حمیم‘ بھی ’ح‘ اور ’م‘ کا ہی مرکب ہے۔
’م‘ بادل یا بارش کے پانی کے لیے بھی آسکتا ہے، کیونکہ بادل بھی ایک طرح سے پانی کی لہر ہی ہوتے ہیں۔
جب بہت سارے لوگ آپس میں گڈ مڈ ہوں یا لشکر آپس میں ٹکرائیں یا ایک ہی طرف کو بہت سارے لوگ چلیں تو اس پر بھی لہر یا موج کا لفظ بولا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ یاجوج و ماجوج کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’اس دن ہم چھوڑ دیں گے وہ ایک دوسرے سے موجوں کی طرح ٹکرائیں گے...‘‘ (الکہف ۱۸: ۹۹ )۔ اس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’م‘ لشکروں کے ٹکرانے یا لوگوں کے گڈ مڈ ہونے پر بھی آسکتاہے۔ اور عبرانی میں بھی ’م‘ کے یہ معنی موجود ہیں۔
اب جن سورتوں کے شروع میں ’م‘ آئے گا، ان میں پانی یا پانی کی لہر یا لشکروں وغیرہ کا ذکر ہوگا۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۳۲ میں پانی کی لہر کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۶۳ میں سمندر کے پھٹنے کا ذکر ہے، جس کی لہریں پہاڑوں کی طرح کھڑی ہو گئی تھیں۔ اور آیت ۹۵ اور ۹۶ میں شیطان کے لشکروں کا ذ کر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۱۹، ۲۲ اور ۲۶۵ میں بارش کے پانی کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۱۳ میں دو گروہوں کی آپس میں لڑائی کا ذکر ہے۔اور آیت ۱۲۵ میں پانچ ہزار فرشتوں کو بھیجنے کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۵۷ میں بارش کے پانی کا ذکر ہے اور آیت ۵۰ میں بھی پانی کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۱۷ میں بارش کے پانی کا ذکر ہے۔ اور آیت ۱۴ میں بھی پانی کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۲۳ میں جانوروں کو پانی پلانے کا ذکر ہے اور آیت ۶، ۸، ۳۹ اور ۴۰ میں لشکروں کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۶۳ میں بارش کے پانی کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۲۴ اور ۴۸ میں بارش کے پانی کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۲۷ میں بارش کے پانی کا ذکر ہے۔
’ک‘ کو عبرانی میں’کاف یا کف‘ پڑھتے ہیں، جس کے معنی ’ہتھیلی‘ کےہیں۔ عربی میں بھی ’کف‘ کے معنی ہتھیلی کے ہی ہیں۔حوالہ: سورۂ رعد(۱۳) کی آیت نمبر ۱۴۔اس کی شکل بھی ہتھیلی جیسی ہے۔ کچھ اس طرح:
نوٹ:۔ عبرانی میں ’ک‘ کو ’’کف‘‘ بھی پڑھا جاتا ہے۔ اس لیے عربی میں بھی ’’کف‘‘ کے معنی سے استفادہ کیا گیا ہے، کیونکہ یہ اس کا قدیم تلفظ ہوگا۔ کچھ دوسرے حروف میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔
اب جس سورہ کے شروع میں’ ک‘ آئے گا، اس میں ہتھیلی کا ذکر ہوگا۔
اس سورہ کے شروع میں حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا نقل ہوئی ہے،کیونکہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں، میرے خیال میں اس سورہ کےشروع میں جو’ک‘ آیا ہے، وہ اسی دعا کے لیے آیا ہے۔ان آیات کو سورۂ آل عمران (۳) کی آیت ۳۸ کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے، کیونکہ وہاں لفظ بھی ’دعا‘ استعمال ہوا ہے۔
’س‘ کو عبرانی میں ’’ شن یا شین ‘‘ پڑھتے ہیں، جو کہ عربی میں ’’ سن یا سین ‘‘ کے مترادف ہے۔ دونوں ہی زبانوں میں’’شن یا سن ‘‘ کے معنی دانتوں کے ہیں۔ حوالہ: سورہ نمبر (۵) کی آیت۴۵۔اس آیت میں دانتوں کے لیے لفظ’ سن‘ استعمال ہوا ہے، جس سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہ’س‘ کا قدیم تلفظ ہوگا۔ ’’س‘‘ کی شکل بھی کچھ دانتوں جیسی ہے۔ کچھ اس طرح(بائیں جانب):
عربی میں ’س‘ کے معنی ’شگاف‘ کے بھی ہیں۔ جب کسی چیز میں شگاف پڑ جاتا ہے تو وہاں بھی کنگرے سے بن جاتے ہیں جن کی ’س‘کی شکل سے کچھ مماثلت بھی ہوتی ہے۔ اوپر دائیں طرف شگاف پڑنے کی شکل کو بھی واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عربی میں ’س‘ کے معنی ’عمر‘ کے بھی ہیں۔
اب جن سورتوں کے شروع میں ’س‘آئے گا، ان میں دانتوں، شگاف یا عمر وغیرہ کا ذکر ہوگا۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۱۸ میں ’عمر‘ کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۱۹ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک خاص موقع پر ہنسنا نقل ہوا ہے، جس کے لیے لفظ ’ضَاحِکًا‘ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی خوشی سے دانتوں کے باہر آجانے کے ہیں۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۴۵ میں ’عمر‘ کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۶۸ میں ’عمر‘ کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۵ میں آسمان میں شگاف ہونے کا ذکر ہے۔
’ی‘ کو عبرانی میں ’ید‘ پڑھتے ہیں، جو بازو سمیت ہاتھ کے معنی دیتا ہے۔ عربی میں بھی ’ید‘ کے یہی معنی ہیں۔ ’ی‘ کی شکل بھی کچھ بازو جیسی ہے۔ کچھ اس طرح:
عربی میں ’ید‘ کے معنی فضل یا مہربانی کے بھی ہیں۔
اب جن سورتوں کے شروع میں ’ی‘ آئے گا، ان میں ہاتھ یا مہربانی کا ذکر ہوگا۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۲ میں حضرت زکریا علیہ السلام پر ایک خاص رحمت کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۳۵، ۶۵، ۷۱ اور ۸۳ میں ہاتھ کا ذکر ہے۔
’ر‘ کو عبرانی میں ’ ریش‘ پڑھتے ہیں، جس کے معنی ’انسانی سر‘ کے ہیں۔ عربی میں اس کے لیے لفظ ’راس‘ استعمال ہوتا ہے اور لفظ ’راس‘ بھی حرف ’ر‘ اور ’س‘ سے مل کر بنا ہے۔ اس کی شکل بھی کچھ انسانی سر جیسی ہے کچھ اس طرح:
عربی میں ’راس‘ کے معنی سردار کے بھی ہیں۔ اب جن سورتوں کے شروع میں ’ر‘ آئے گا، ان میں انسانی سر یا سردار وغیرہ کا ذکر ہوگا۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۷۵، ۸۳ اور ۸۸ میں فرعون اور سرداروں کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۲۷، ۳۸ اور ۹۷ میں سرداروں کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۳۶ اور ۴۱ میں انسانی سر کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۴۳ میں انسانی سر کا ذکر ہے۔
عربی میں ’ق‘ بڑے پہاڑ کا نام ہے، جس کو جبل قاف بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا ذکر کافی تفاسیر میں ہے۔ مثلاً تفسیر قرطبی، مظہری اور ابن کثیر۔
اب جن سورتوں کے شروع میں ’ق‘ آئے گا، ان میں پہاڑوں کا ذکر ہوگا۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۷ میں پہاڑوں کا ذکر ہے۔
اس سورہ کی آیت نمبر ۳۲ میں بحری جہازوں کا ذکر ہے۔ چونکہ وہ بھی پہاڑوں کی طرح نظر آتے ہیں، اس لیے قرآن مجید نے انھیں پہاڑوں سے تعبیر کیا ہے۔
امام حمیدالدین فراہی نےحروف مقطعات کے متعلق جو نظریہ پیش کیا ہے، وہ کافی قرین قیاس ہے، لیکن دوسرے تقریبًا تمام مفسرین ان حروف کے بارے میں کیوں کوئی قرین قیاس راے قائم نہیں کر سکے، میں نے اس کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جو میں اس حصے میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
امام فراہی کی حروف مقطعات کے متعلق تحقیق یہ ہے کہ’’یہ چینی زبان کے حروف کی طرح معانی اور اشیا پر بھی دلیل ہوتے تھے اور جن معانی یا اشیا پر وہ دلیل ہوتے تھے عموماً انھی کی صورت و ہیئت پر لکھے بھی جاتے تھے‘‘ ( تدبر قرآن۱ / ۸۴)۔
اب ظاہر ہے کہ جب یہ حروف معانی یا اشیا پر دلیل ہوتے تھے تو پھر ان معانی یا اشیا کو بیان کرنے کے لیے کلام کے اندر استعمال بھی ہوں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ حروف کلام کے اندر استعمال ہوں گے تو کس شکل میں استعمال ہوں گے؟ اپنی حروف تہجی والی شکل میں (مثلاً ’ن‘، ’ع‘ وغیرہ ) یا پھر یہ کلام کے اندر الفاظ کی شکل اختیار کر جائیں گے (مثلاً ’نون‘، ’عین‘ وغیرہ )؟ اس سوال کا سادہ اور واضح جواب یہ ہے کہ یہ حروف جب کلام کے اندر استعمال ہوں گے تو الفاظ کی شکل اختیار کرجائیں گے، کیونکہ امام فراہی کی تحقیق کو نتیجے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کے مطابق یہی وہ الفاظ ہیں (مثلاً ’نون‘، ’عین‘ وغیرہ ) جو حروف تہجی کی شکل میں حروف مقطعات کے طور پر سورتوں کے شروع میں آئے ہیں۔ امام فراہی کے علاوہ باقی مفسرین ایسا نہیں سمجھتے۔ میں اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے قرآن مجید کے اندر سے دو مثالیں نقل کر دیتا ہوں:
۱۔ سورۂ انبیاء (۲۱) کی آیت نمبر ۸۷ میں لفظ ’نون‘ استعمال ہوا ہے، جو وہاں مچھلی کے معنی دیتا ہے۔
۲۔ سورۂ مائدہ (۵) کی آیت نمبر ۴۵ میں لفظ ’عین‘ استعمال ہوا ہے، جو وہاں آنکھ کے معنی دیتا ہے۔
اوپر بیان کردہ دونوں مثالوں میں تمام مفسرین نے ’نون‘ کے معنی مچھلی اور عین کے معنی آنکھ کے ہی لیے ہیں، لیکن جب یہی الفاظ ( ’نون‘، ’عین‘ ) حروف تہجی کی شکل میں ( اس طرح ’ن‘، ’ع‘ ) حروف مقطعات کے طور پر سورتوں کے شروع میں آئے تو زیادہ تر مفسرین نے کہا کہ ان کے معنی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا یا پھر کچھ ایسے قیاسات کیے جن کے پیچھے کوئی مضبوط استدلال نہیں، کیونکہ وہ ان الفاظ اور حروف کو الگ الگ تصور کرتے ہیں۔ میرے خیال میں یہی وہ فرق ہے جو اس چیز کی وجہ بنا ہے کہ امام فراہی کے علاوہ باقی مفسرین حروف مقطعات کے بارے میں کوئی قرین قیاس راے قائم نہیں کر سکے۔ یہ دو مثالیں میں نے دی ہیں، باقی حروف کا بھی یہی معاملہ ہے۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ حروف مقطعات بھی جب اپنی لفظی حالت میں کلام کے اندر استعمال ہوتے ہیں تو یہ بھی عربی زبان کے عام الفاظ کی طرح ہی استعمال ہوتے ہیں اور ان پر بھی وہی گرامر کے اصول لاگو ہوتے ہیں جو عربی کے دوسرے الفاظ پر ہوتے ہیں، اس لیے عربی کے عام الفاظ کی طرح یہ بھی اپنے اطلاقات کے لحاظ سے مختلف حالتوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً، الف جب ہزار کے معنی دیتا ہے تو لام پر جزم کے ساتھ آتا ہے اور جب فعل کے طور پر محبت کے معنی میں آتا ہے تو لام کے نیچے زیر کے ساتھ بھی آجاتاہے۔ حالاں کہ بنیادی لفظ ایک ہی ہے ( اس چیز کی تصدیق ڈکشنری سے کی جا سکتی ہے )۔ اسی طرح جب واحد کے طور پر آتا ہے تو ’’الف‘‘ لکھا جاتاہے اور جب جمع کے طور پر آتا ہے تو ’’ الوف‘‘ لکھا جاتاہے۔ غرض کہ عام عربی الفاظ کی طرح استعمال ہوتا ہے۔
حروف مقطعات کے متعلق ایک عام تاثر یہ ہے کہ ان کے معانی خدا( یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اس تاثر کا ازالہ مولانا مودودی نے اپنی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ میں بہت عمدہ انداز میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ یہ حروف مقطعات قرآن مجید کی بعض سورتوں کے آغاز میں پائے جاتے ہیں۔ جس زمانے میں قرآن مجید نازل ہوا ہے، اس دور کے اسالیب بیان میں اس طرح کے حروف مقطعات کا استعمال عام طور پر معروف تھا۔ خطیب اور شعراء، دونوں اس اسلوب سے کام لیتے تھے۔ چناچہ اب بھی کلام جاہلیت کے جو نمونے محفوظ ہیں ان میں اس کی مثالیں ہمیں ملتی ہیں۔ اس استعمال عام کی وجہ سے یہ مقطعات کوئی چیستاں نہ تھے جس کو بولنے والے کے سوا کوئی نہ سمجھتا ہو، بلکہ سامعین بالعموم جانتے تھے کہ ان سے مراد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے خلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر مخالفین میں سے کسی نے بھی یہ اعتراض کبھی نہیں کیا کہ یہ بےمعنی حروف کیسے ہیں جو تم بعض سورتوں کی ابتدا میں بولتے ہو۔ اور یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام سے بھی ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے معنی پوچھے ہوں۔ بعد میں یہ اسلوب عربی زبان میں متروک ہوتا چلا گیا اور اس بنا پر مفسرین کے لیے ان کے معانی متعین کرنا مشکل ہوگیا۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ نہ تو ان حروف کا مفہوم سمجھنے پر قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کا انحصار ہے۔ اور نہ یہی بات ہے کہ اگر کوئی شخص ان کے معنی نہ جانے گا تو اس کے راہ راست پانے میں کوئی نقص رہ جائے گا۔ لہٰذا ایک عام ناظر کے لیے کچھ ضروری نہیں ہے کہ وہ ان کی تحقیق میں سرگرداں ہو۔‘‘(۱/ ۴۹)۔
ـــــــــــــــــــــــــ