[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]
۱۳/ نبوی ( جون ۶۲۲ ء ): حج کے موقع پرجمرۂ اولیٰ کی گھاٹی میں انصار نےاپنے بت پرست ساتھیوں سے چھپ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر جو بیعت کی، اسے بیعت عقبۂ ثانیہ کہا جاتا ہے۔ موسم حج میں یثرب کے پچھتر مسلمان اپنے مشرک اہل وطن کے ساتھ فریضۂ حج ادا کرنے نکلے۔ راستے میں باہم مشورہ کرنے لگے کہ ہم کب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کے پہاڑوں میں چکر کاٹتے، خوف زدہ رہنے دیں گے۔ مکہ پہنچ کر انھوں نے آپ سے درپردہ سلسلۂ جنبانی شروع کیا، آخر کار اس امرپر اتفاق ہو گیا کہ وہ ایام تشریق کے درمیانی دن، یعنی ۱۲/ ذی الحجہ کو منیٰ میں جمرۂ عقبہ کی گھاٹی میں آپ کے پاس خفیہ طور پر جمع ہوں گے۔ حضرت کعب بن مالک فرما تے ہیں: تہائی رات گزر گئی تو ہم، تہتر مرد اور دو عورتیں اپنے ڈیروں سے بھٹ تیتر کی طرح سست روی سے چھپتے چھپاتے نکلے اور گھاٹی میں جمع ہو کرآپ کا انتظار کر نے لگے۔ آپ اپنے چچا عبا س بن عبد المطلب کے ساتھ، جو ابھی ایمان نہ لائے تھے، تشریف لائے۔ سب جمع ہو گئے تو دینی و عسکری حلف برداری پر مشورے ہونے لگے۔ انصار مدینہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو مدینہ تشریف لے جانے کی دعوت دی اور عہد کیا کہ ہم لوگ آپ اور اسلام کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں گے۔ آپ کے چچا عباس نے گفتگو شروع کی: اے خزرج (واوس) کے بھائیو، ہم نے دشمنوں کے مقابلہ میں سینہ سپر ہو کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی ہے۔ وہ اپنی قوم میں عزت اور اپنے شہر میں بڑی وقعت رکھتے ہیں۔ ان کے مخالف بھی حسب و شرف کی بنا پر ان کا دفاع کرتے ہیں، لیکن اب وہ تمھارے یہاں جانے پر مصر ہیں۔ تم اگر مرتے دم تک ان کا ساتھ دے سکتے ہو اور انھیں ان کے مخالفین سے بچا سکتے ہو تولے جاؤ۔ اگر تم نے یہاں سے نکل جانے کے بعد ان کا ساتھ چھوڑنا ہے تو ابھی سے کنارہ کش ہو جاؤ۔ مسلمانان یثرب نے عزم و وثوق سے جواب دیا:ہم نے آپ کی بات ذہن نشین کر لی ہے۔ حضرت براء بن عازب طیش میں آ کر کہنے لگے کہ ہم لوگ تلواروں کی گود میں پلے ہیں۔ ہم اس بات پر بیعت کرتے ہیں کہ جس سے آپ جنگ کریں گے، ہم اس سے جنگ کریں گے اور جس سے آپ صلح کریں گے، ہم اس سے صلح کریں گے۔ حضرت ابو الہیثم بن تیہان نے ان کی بات کاٹ کر کہا: یارسول اﷲ ، ہمارے اور یہودکے درمیان عہد وپیمان ہیں اور اب ہم ان کو قطع کرنے لگے ہیں۔ ایسا تو نہیں ہوگا کہ اللہ آپ کو غلبہ عطا فرمائے تو آپ ہمیں چھوڑ کر اپنی قوم کی طرف لوٹ جائیں۔ آپ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:اطمینان رکھو، تمھارا خون میرا خون ہےاور یقین کرو، میرا جینا مرنا تمھارے ساتھ ہے۔ میں تمھارا ہوں اور تم میرے ہو۔ تمھارا دشمن میرا دشمن اور تمھارا دوست میرا دوست ہے۔ حضر ت عباس بن عبادہ بولے: بھائیو، تمھیں خبر بھی ہے کہ تم کس بات کی بیعت کر رہے ہو، تم عرب و عجم کے ساتھ جنگ کرنے کی بیعت کررہے ہو۔ سوچ لو، جب تمھارے مال خرچ ہوں گےاور تمھارے سردار قتل ہوں گے، تب تم نے ان کو چھوڑا تو دنیا و آخرت کی رسوائی ہو گی اوراگر مال وجان کا نقصان اٹھا کر بھی عہد نبھایا تو دنیاو آخرت میں بھلا ہو گا۔ انصار نے پرجوش ہو کر کہا: ہم مال کی تباہی اور اشراف کے قتل کا خطرہ مول لے کر آپ کو لے جائیں گے۔ اے اللہ کے رسول ، ہم نے یہ عہد پورا کیا تو ہمیں اس کے عوض کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایا: جنت۔ حضرت ابوامامہ اسعد بن زرارہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھام کرکہا:رکو اےاہل یثرب، ہم اونٹوں کے کلیجے گھلاکر اس لیے آپ کے پاس آئے ہیں، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ آپ اللہ کےرسول ہیں، آج آپ کو یہاں سے نکال کر لے جانے سے تمام عربوں کو چھوڑنا پڑے گا، اپنے بہترین لوگوں کو قتل کرانا ہو گا، تلواریں تمھیں کاٹ ڈالیں گی، تم صبر کر پاؤ گے تولے جاؤ، تمھارا اجر اللہ کے ذمہ ہو گا اور اگر تم اپنے اندر کم زوری پاتے ہو تورہنے دو، ا للہ کے ہاں تم معذور مانے جاؤ گے۔ ان کے ساتھی بولے: اسعد ، بیٹھ جاؤ، واللہ، ہم ا س بیعت سے کبھی پیچھے ہٹیں گے، نہ روگردانی کریں گے (احمد، رقم ۱۴۴۵۶۔ المعجم الاوسط، رقم ۴۵۳۸)۔
اس قدر بحث و تمحیص کے بعد انصارنے درخواست کی: یا رسول اللہ ، آپ کلام فرمائیں۔ اپنے لیے اور اپنے رب کے لیے جو چاہیں اختیار کر لیں۔ آپ نےقرآن مجید کی آیات تلاوت فرمائیں، اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دی اور اسلام کی رغبت دلائی۔ پھر فرمایا: اپنے رب کے لیے میرا مطالبہ ہے کہ اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیراؤاور اپنے لیے اور اپنے صحابہ کے لیے مانگتا ہوں کہ ہمیں پناہ دو، ہماری نصرت کرو او ر ان معاملات میں ہمارا دفاع کروجن میں اپنا کرتے ہو۔ حاضرین انصار نے پوچھا: ہم نے ایسا کر لیا تو ہمیں کیا ملے گا؟فرمایا:تمھارے لیے جنت ہو گی۔ حضرت براء بن معرور نے آپ کا ہاتھ تھام کر کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے، ہم یقیناً آپ کا اسی طرح دفاع کریں گے، جس طرح ہر شے میں اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ اے اللہ کے رسول ، ہم سے بیعت لیجیے۔ ہم اللہ کی قسم، جنگ کے بیٹے ہیں اور ہتھیار ہمارا کھلونا ہے(صحیح ابن حبان، رقم ۶۲۷۴)۔
عہد بیعت کی تفصیل طے ہو نے اورا نصار کی طرف سے اس کی تائید و تاکید ہونے کے بعد انصار نے عرض کیا: یا رسول اللہ ، اپنا ہاتھ بڑھائیے، چنانچہ بیعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں: ہم نے سوال کیا:یا رسول اللہ، ہم کس امر پر آپ کی بیعت کریں؟آپ نے فرمایا: مستعدی اورکسل مندی میں سمع و طاعت کی، تنگی اور کشادگی میں انفاق کی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی، اس بات کی کہ تم اللہ کی راہ میں اٹھ کھڑے ہو گے، اللہ کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈرو گے، میری نصرت کرو گے۔ جب میں تمھارے پاس آؤں گا، میرا دفاع کرو گے ان معاملات میں جن میں اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا دفاع کرتے ہو، بدلے میں تمھیں جنت ملے گی (احمد، رقم ۱۴۶۵۳۔ مستدرک حاکم، رقم ۴۲۵۱۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۷۷۳۵۔ المعجم الکبیر، طبرانی ۱۵۵۲۴)۔ صحابہ ایک ایک دو دو کرکے آپ کے پاس آئے۔ بنو عبد الاشہل کہتے ہیں:سب سے پہلے حضرت ابو الہیثم بن تیہان نے بیعت کی۔ بنو نجار کا دعویٰ ہے: سب سے کم عمر حضرت اسعد بن زرارہ نے پہلے بیعت کی۔ محمد بن عمر کی روایت ہے:انصار میں سے حضرت ابوالہیثم بن تیہان اور حضرت اسعد بن زرارہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ اپنی قوم میں ان دونوں کوسب سے پہلے رسول اللہ صلى اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا(مستدرک حاکم، رقم ۵۲۴۹)۔ بنو سلمہ حضرت کعب بن مالک کو اور بنو سلمہ ہی کے حضرت کعب بن مالک حضرت براء بن معرور کو پہلے بیعت کرنےوالا بتاتے ہیں۔ یثرب کے ایک معزز سردار عبداللہ بن حرام(حزام:ابن جوزی) نے بھی اس روز اسلام قبول کیا اور بیعت میں شامل ہوئے۔
ایک روایت کے مطابق حضرت ابو مسعودانصاری اور حضرت جابر بن عبداللہ بیعت کرنے والوں میں سب سے کم عمر تھے۔
اس بیعت میں تہتر مرد جن میں سے تیس نوجوان تھے اور دو عورتیں شامل تھیں۔
بنو عبد الاشہل:حضرت اسید بن حضیر، حضرت ابو الہیثم مالک بن تیہان، حضرت سلمہ بن سلامہ۔
بنو حارثہ: حضرت ظہیر بن رافع، حضرت ابو بردہ ہانی بن نیار، حضرت نہیر (بہیز:بلاذری)بن الہیثم۔
بنو عمرو بن عوف: حضرت سعد بن خیثمہ، حضرت رفاعہ بن عبد المنذر، حضرت عبد اللہ بن جبیر، حضرت معن بن عدی، حضرت عویم بن ساعدہ۔
بنونجار: حضرت خالد بن زید(ابو ایوب انصاری)، حضرت معاذ بن حارث ( ابن عفرا)، حضرت عوف بن حارث، حضرت معوذ بن حارث، حضرت عمارہ بن حزم، حضرت اسعد بن زرارہ، حضرت سہل بن عتیک، حضرت اوس بن ثابت، حضرت ابو طلحہ انصاری( زید بن سہل)، حضرت قیس بن ابو صعصہ، حضرت عمرو بن غزیہ(غزیہ بن عمرو: بلاذری)۔
بنوحارث: حضرت سعد بن ربیع، حضرت خارجہ بن زید، حضرت عبد اللہ بن رواحہ، حضرت بشیر بن سعد، حضرت عبد اللہ بن زید، حضرت خلاد بن سوید، حضرت عقبہ بن عمرو۔
بنو بیاضہ بن عامر: حضرت زیاد بن لبید، حضرت فروہ بن عمرو، حضرت خالد بن قیس۔
بنو زریق بن عامر: حضرت رافع بن مالک، حضرت ذکوان بن عبد قیس، حضرت عباد بن قیس، حضرت حارث بن قیس۔
بنو سلمہ بن سعد: حضرت براء بن معرور، حضرت بشر بن براء ، حضرت سنان بن صیفی، حضرت طفیل بن نعمان، حضرت معقل بن منذر، حضرت یزید بن منذر، حضرت مسعود بن یزید(زید:ابن کثیر)، حضرت ضحاک بن حارثہ، حضرت یزید بن حرام(حزام:بلاذری۔ خذام: ابن کثیر)، حضرت جبار بن صخر، حضرت طفیل بن مالک۔
بنو سواد بن غنم: حضرت کعب بن مالک۔
بنو غنم بن سواد: حضرت سلیم بن عامر، حضرت قطبہ بن عامر، حضرت یزید بن عامر، حضرت ابوالیسرکعب بن عمرو، حضرت صیفی بن سواد۔
بنو نابی بن عمرو: حضرت ثعلبہ بن غنمہ، حضرت عمرو بن غنمہ، حضرت عبس (ابو عبس:بلاذری) بن عامر، حضرت عبداللہ بن انیس، حضرت خالد بن عمرو بن ابی(عدی)۔
بنو حرام بن کعب: حضرت عبداللہ بن عمرو، حضرت جابر بن عبد اللہ، حضرت معاذ بن عمرو، حضرت ثابت بن جذع، حضرت عمیر بن حارث، حضرت خدیج بن سلامہ(اوس:دادا کی طرف نسبت، سالم:شاذ روایت )، حضرت معاذ بن جبل۔
بنوعوف بن خزرج: حضرت عبادہ بن صامت، حضرت عباس بن عبادہ، حضرت یزید بن ثعلبہ، حضرت عمرو بن حارث۔
بنو سالم بن غنم: حضرت رفاعہ بن عمرو، حضرت عقبہ بن وہب۔
بنو ساعدہ بن کعب: حضرت سعد بن عبادہ، حضرت منذر بن عمرو۔
عورتوں کے نام:بنو نجار کی حضرت نسیبہ بنت کعب، بنو سلمہ کی حضرت اسماء بنت عمرو۔
دونوں عورتوں کی بیعت زبانی ہوئی۔
بلاذری نے حضرت عوف بن حارث، حضرت معوذ بن حارث اورحضرت خالد بن عمرو بن ابی کے نام شامل نہیں کیے۔
ابن جوزی نے ستر اصحاب اور دو صحابیات کی گنتی بتا کر نواسی اصحاب اور دو صحابیات کی فہرست ترتیب دی اور اس میں حضرت ابی بن کعب، حضرت اوس بن یزید، حضرت خالد بن عمرو بن عدی، حضرت خدیج بن سالم، حضرت رفا عہ بن رافع، حضرت زیاد بن لبید، حضرت سعد بن زید، حضرت سلمہ بن سلامہ، حضرت سلیم بن عمرو، حضرت شمر بن سعد، حضر ت ضحاک بن زید، حضرت عبداللہ بن ربیع، حضرت عبداللہ بن زید، حضرت عبید بن تیہان، حضرت عمرو بن عمیر، حضرت قتادہ بن نعمان، حضرت قیس بن عامر، حضرت مالک بن عبداللہ بن خثیم، حضرت مسعود بن حارث، حضرت نعمان بن حارثہ، حضرت نعمان بن عمرو، حضرت ابویسار بن صیفی اورحضرت ابو عبدالرحمٰن بن یزید کے ناموں کا اضافہ کیا، جب کہ حضرت ظہیر بن رافع اورحضرت عمرو بن عنمہ کے نام انھوں نے بیان نہیں کیے۔
ان اضافی ناموں میں سے حضرت شمر بن سعد، حضر ت ضحاک بن زید، حضرت مالک بن عبداللہ بن خثیم، حضرت مسعود بن حارث، حضرت ابوعبدالرحمٰن بن یزیداور حضرت ابویسار بن صیفی کے نام کتب صحابہ میں سرے سے موجود نہیں۔ ضحاک بن زید اصل میں ضحاک بن حارثہ بن زید ہے، ہو سکتا ہے کہ اپنے داداکی نسبت سے دہرا دیا گیا ہو۔ حضرت مسعود بن حارث غلطی سے حضرت معوذ بن حارث کی جگہ لکھا گیا۔ حضرت یزید بن ثعلبہ کی کنیت ابو عبدالرحمٰن ہے، ہو سکتا ہے کہ نام اورکنیت کے اختلاط سے ابو عبدالرحمٰن بن یزید نیا نام بن گیا۔ حضرت ابویسار بن صیفی شاید حضرت صیفی بن سواد کے نام کی تکرار ہے۔
بیعت مکمل ہوچکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بارہ سربراہ منتخب کر لیے جائیں جو اپنی اپنی قوم کے نقیب ہوں اور اس بیعت کی دفعات کی تنفیذکے لیے اپنی قوم کی طرف سے وہی ذمہ دار اور مکلف ہوں۔ نو خزرج اور تین اوس سے نقیب منتخب کر لیے گئے۔ ان کے نام یہ ہیں:
بنو نجار:حضرت اسعد بن زرارہ۔
بنوسلمہ: حضرت براء بن معرور، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن حرام۔
بنو ساعدہ: حضرت سعد بن عبادہ، حضرت منذر بن عمرو۔
بنو زریق: حضرت رافع بن مالک۔
بنو حارث: حضرت سعد بن ربیع، حضرت عبد اللہ بن رواحہ۔
بنو عوف: حضرت عبادہ بن صامت۔
بنو عبد الاشہل:حضرت اسید بن حضیر۔
بنو عمرو: حضرت سعد بن خیثمہ، حضرت رفاعہ بن عبد المنذر(الدرر فی اختصار المغازی و السیر، ابن عبد البر ۲۳)۔
ابن ہشام کہتے ہیں:کچھ اہل علم حضرت رفاعہ کے بجاے حضرت ابو الہیثم بن تیہان کو نقیب شمار کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسعد بن زرارہ کوتمام نقیبوں کا نگران مقرر فرمایا۔
نقبا کا انتخاب ہوچکا توسردار اور ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک اور عہد لیا۔ آپ نے فرمایا: آپ لوگ اپنی قوم کے جملہ معاملات کے کفیل ہیں۔ جیسے حواری حضرت عیسیٰ کی جانب سے کفیل ہوئے تھے اور میں اپنی قوم، یعنی مسلمانوں کا کفیل ہوں۔ ان سب نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے ارشادفرمایا: کوئی اپنے دل میں خیال نہ لائے کہ اس کے بجاے کسی اور کو چن لیا گیا ہے،کیونکہ یہ انتخاب جبریل علیہ السلام نے کیا ہے۔
عقبہ کی بیعت اولیٰ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوشش تھی کہ اسلام میں داخل ہونے وا لے ہر نئے مومن کا ایمان کامل ہو جائے، اخلاق حسنہ سے مزین ہو اور کبائر سے دور ہو جائے۔ ایک سال گزرنے کےبعد حالات میں تبدیلی آئی اور اسلامی ریاست کے آثار نظر آنے لگےتو نصرت دین اور اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد ضروری ہو گیا، اس لیے عقبہ کے اجتماع ثانیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے اس ا مر پر بیعت لی کہ جس سے آپ جنگ کریں گے، وہ بھی اس سے جنگ کریں اور جس سے آپ صلح کریں گے وہ بھی اس سے صلح کریں گے، اسی لیے اسے ’بیعت الحرب‘ کہتے ہیں۔ بیعت عقبۂ ثانیہ ان تمام مبادی اسلام پر مشتمل تھی جو ہجرت مدینہ کے بعد نافذ کیے گئے، مثلاً جہاد اوردعوت اسلامیہ کا دفاع، یہ چیز اگر چہ مکہ مکرمہ میں مشروع نہیں تھی، مگر آپ کو الہامی طور پر علم تھا کہ مستقبل قریب میں یہ حکم نافذ ہوگا۔
بیعت الحرب کی تکمیل کے بعدصحابہ منیٰ واپس جانے لگے۔ اس اثنا میں ایک شیطان کو خبر ہو گئی، وہ ایک اونچی جگہ پر کھڑے ہو کر نہایت بلند اور صاف آواز میں پکارا: اے منیٰ کے خیمے والو، تمھیں خبر بھی ہے؟ اس وقت بددین محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے ساتھ تم سے لڑنے کے لیے جمع ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ اس گھاٹی کا شیطان لئیم ہے۔ او اللہ کے دشمن، میں تیرے لیے جلد ہی فارغ ہورہا ہوں۔ اس شیطان کی آواز سن کر حضرت عباس بن نضلہ انصاری بولے: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، آپ چاہیں تو ہم کل کفار منیٰ پر اپنی تلواروں کے ساتھ ٹوٹ پڑیں۔ آپ نے فرمایا: نہیں، ابھی ہمیں اس کی اجازت نہیں ملی۔ تم اپنےڈیروں میں اپنے قبیلوں اور رشتہ داروں کے پاسں واپس لوٹ جاؤ (احمد، رقم ۱۵۷۹۸۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۵۵۲۴)۔
قریش پریہ خبر بہت شاق گزری، کیونکہ اس بیعت کے ان کی جان ومال پرگہرے اثرات مرتب ہوسکتے تھے۔ صبح ہوتے ہی ان کے اکابر کے ایک بھاری وفد نے اہل یثرب کے خیموں کا رخ کیا اور شکایت کی کہ خزرج کے لوگو، آپ ہمارے صاحب کے پاس گئے، اسے ہمارے درمیان سے نکال لے جانے اور ہم سے جنگ کرنے کے لیے اس کے ہاتھ پر بیعت کی، حالاں کہ ہم تمھارے قبیلے سے جنگ چھیڑنا سخت ناپسند کرتے ہیں۔ یثرب کے پانچ سو سے زیادہ موجود مشرکین اس بیعت کے بارے میں کچھ نہ جانتے تھے، کیونکہ یہ مکمل راز داری کے ساتھ رات کی تاریکی میں زیر عمل آئی تھی، اس لیے انھوں نے قسمیں کھا کر یقین دلایا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ وفد عبد اللہ بن ابی کے پاس بھی پہنچا۔ اس نے بھی کہا: یہ باطل ہے۔ میری قوم مجھ سے مشورہ کیے بغیر کچھ نہیں کرتی۔ اس موقع پر بیعت کرنے والے مسلمانوں نے نفی یا اثبات کرنے کے بجاے چپ سادھ لی۔ مشرکین مطمئن ہو کر چلے گئے۔
مکہ کے سرداروں کو خبر غلط ہونےکا یقین ہو گیا تھا، لیکن وہ برابر کرید میں لگے رہے۔ انھیں خبر کے صحیح ہونےکا اس وقت پتاچلا جب حجاج اپنے وطن روانہ ہوچکے تھے۔ قریش کے سواروں نے تیز رفتاری سے پیچھا کیا، لیکن موقع نکل چکا تھا۔ البتہ انھوں نے حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت منذر بن عمرو کو دیکھ لیا، حضرت منذر تو تیز رفتاری سے بھا گ نکلے، مگرمکہ سے کچھ دور اذاخر کی گھاٹی میں انھوں نے حضرت سعد بن عبادہ کو پکڑ لیا، انھی کے کجاوے کے تسموں سے ان کو باندھا، ان کے لمبے بالوں سے گھسیٹتے اور مارتے پیٹتے ہوئے مکہ لے گئے (مستدرک حاکم، رقم ۵۱۰۶)۔ قریش کے لوگ اکٹھے ہو گئے، سہیل بن عمرونے انھیں زور کا تھپڑ مارا۔ اس اثنا میں ا بو البختری بن ہشام نے ان کے کان میں سرگوشی کی:کیا تمھارا کسی قریشی سے عہد و پیمان ہے؟ انھوں نے بتایا:ہاں، میں جبیر بن مطعم اور حارث بن امیہ کو پناہ دیا کرتا تھا۔ اس شخص نے کہا:تو ان دونوں کے نام لے کر ان سے اپنا پیمان بتاؤ۔ حضرت سعد کے اعلان کرنے پرانھیں ڈھونڈ کر کعبہ سے بلایا گیا، انھوں نے تصدیق کی کہ سعد ہمارے تاجروں کوپناہ دیتے تھے اوراپنے شہر میں کوئی تعدی نہ ہونے دیتے تھے۔ چنانچہ انھیں یہ کہہ کر چھوڑ دیا گیاکہ اس طرح ہماری ملک شام کی تجارت خطرے میں پڑ جائے گی۔
نبوت کے گیارھویں، بارھویں اور تیرھویں سال حج کے دنوں میں اوس و خزرج کے اسی (۸۰) کے قریب افراد مشرف بہ اسلام ہوئے، یوں اسلام مدینہ کی حدود میں داخل ہوگیا۔ تیرھویں سال کی بیعت عقبۂ کبریٰ کے نتیجے میں اوس اور خزرج قبائل کی صدیوں پرانی دشمنی کا خاتمہ ہوا اور منتشر انصار کے درمیان تعاون وتناصر اور بھائی چارے کا جذبہ پیداہوا۔ اس بیعت کے نتیجے میں مدینہ پریہودیوں کے سیاسی، مذہبی اور معاشی غلبے کا خاتمہ ہوااور مسلمانوں کےبہترمستقبل کی راہ ہموار ہوئی۔
اس بیعت کے بعد انصار یہ بات اچھی طرح سمجھ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کا مطلب یہ ہے کہ اب انھیں آپ کے دشمنوں، مشرکین اور یہود کی عداوت کا سامنا کرنا پڑے گا، یعنی اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہوگا۔
مشرکین مکہ کا مدینہ کے مسلمانوں کو پکڑنے کی تگ و دو کرنا دلیل ہے کہ شرک اور کفر کی ایمان کے ساتھ دشمنی ہمہ وقت اور ہر جگہ ہے۔
اس بیعت اور ملاقات کی رازداری یہ سبق دیتی ہے کہ معاملات انجام دیتے وقت احتیاط برتنا نہایت ضروری ہے، خصوصاً جب کہ معاملہ دعوت و تبلیغ کے مستقبل سے تعلق رکھتا ہو۔
جب کفار مکہ نے یہ سمجھ لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ والوں سے تعلقات ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں تو انھوں نے مسلمانوں کا ناطقہ بند کرنے کی نئی کوششیں شروع کردیں، چنانچہ آپ نے مسلمانوں کو جلد از جلد مدینہ ہجرت کرجانے کا حکم دیا۔ ۱۴/نبوی (۶۲۲ء) میں حکم رسول کے مطابق مسلمان چوری چھپے مدینہ کی طرف جانے لگے۔
مدینہ میں اسلام کو غلبہ حاصل ہوگیا۔ جس نے اپنا اسلام چھپا رکھا تھا، اس نے بھی اپنے ایمان کا اعلان کردیا۔
مابعد نتائج پر غور کرنے سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہ بیعت مدینہ منورہ میں اسلامی حکومت کی بنیاد بنی اور اسلام کے وہاں سے زمین کے کونے کونے میں پھیل جانے کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئی۔
ان فوری اور مابعد نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ بیعت کرنے والوں کی فضیلت ہجرت حبشہ، ہجرت مدینہ، غزوۂ بدر، اور بیعت رضوان میں شریک ہونے والوں سے کسی طرح کم نہیں۔
مشرکین مکہ کو احساس تھا کہ یمن سے شام تک بحر احمر کے ساحل سے جو تجارتی شاہراہ گزرتی ہے، مدینہ اس پر ایک حساس اور نازک مقام پر واقع ہے۔ اس شاہراہ پر تجارت کا دار ومدار اسی پر ہے کہ یہ راستہ پر امن رہے۔ اس شہر میں دعوت اسلامی جڑ پکڑگئی اور اس کے نتیجہ میں دونوں شہروں میں صف آرائی ہوئی تو تجارت ناممکن ہو جائے گی۔ اس خطرے کا مداوا کرنے کے لیے بیعت عقبۂ کبریٰ کےاڑھائی ماہ بعد ۲۶/ صفر ۱۴/نبوی ( ۱۲/ ستمبر ۶۲۲ء) کو مکہ کےدار الندوہ میں اجتماع منعقد ہوا، جس میں قریش کے تمام قبائل کے نمایندے شریک ہوئے۔ بنومخزوم سے ابوجہل بن ہشا م، بنو نوفل سے جبیر بن مطعم، طعیمہ بن عدی اور حارث بن عامر، بنو عبد شمس سے شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ابوسفیان بن حرب، بنو عبدالدار سے نضر بن حارث، بنو اسد سے ابو البختری بن ہشام، زمعہ بن اسود اورحکیم بن حزام، بنو سہم سے نبیہ بن حجاج اور منبہ بن حجاج اور بنوجمح سے امیہ بن خلف نے شرکت کی۔ ابلیس بھی نجد کے شیخ کی صور ت میں مہمان بن گیا۔ سب سے پہلے ابوالاسود نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوجلا وطن کرنے کی تجویز پیش کی۔ شیخ نجدی (ابلیس)نے کہا: یہ شخص اپنے عمدہ اور میٹھے بولوں سے جہاں بھی جائے گا، لوگوں کے دل جیت لے گا۔ ابوالبختری نے کہا: اسے لوہے کی بیڑیوں میں جکڑ کر قید کردو اور اس کے انجام کا انتظار کرو۔ شیخ نجدی نے کہا: اس کی خبر بند دروازے سے بھی باہر نکل جائے گی، پھر اس کےساتھی تم پردھاوا بول دیں گے۔ تیسری تجویز ابوجہل نے پیش کی۔ ہر قبیلے سے ایک مضبوط جوان منتخب کرکے اسے تلوارد ے دی جائے، پھر تمام قبیلوں کے جوان یک باروار کر کے اسے ختم کر دیں۔ اس طرح قتل سارے قبائل میں بکھر جائے گا اور بنو عبد مناف تمام قبیلوں سے جنگ نہ کرسکیں گے۔ شیخ نجدی (ابلیس) نے اس تجویز کی تائید کی توسب نے اس پر اتفاق کرلیا۔ اس تجویز پر عمل کرنے کے لیے تمام قبیلوں کے نمایندوں نے رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرکا محاصرہ کر لیا، لیکن آپ حضرت علی کو اپنے بستر میں لٹا کر مشرکوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر مدینہ روانہ ہو گئے۔
انصار کے مسلمان ہونے کے بعد قریش کا مکہ کے مسلمانوں پرظلم و تشدد بڑھ گیا، لیکن ان کے قبول اسلام سے کفار کے ستائے ہوئے اہل ایمان کو دار امن بھی میسر آ گیا۔ چنانچہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان کو مدینہ ہجرت کرنے کا اذن دیا۔ صحابہ جوق در جوق شہر ہجرت آنے لگے، حتیٰ کہ مکہ میں مریضوں اور ضعیفوں کے سو ا کوئی نہ رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں مقیم رہ کر اللہ کے اذن کا انتظار کرنے لگے۔ حضرت ابوبکر نے بارہا ہجرت کرنے کی اجازت چاہی تو آپ فرماتے: جلدی نہ کرو، ہو سکتا ہے اللہ تمھارا کوئی ساتھی بنا دے۔ بیعت کبریٰ ذی الحجہ۱۳؍ نبوی میں ہوئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد محرم اور صفر کے صرف دو ماہ مکہ میں رہے اور ماہ ربیع الاول ۱۴/ نبوی میں مدینہ تشریف لے گئے۔
بیعت عقبۂ ثانیہ سے پہلے مسلمانوں کو حکم تھا کہ مشرکین مکہ کی ایذاؤں پرصبر کریں اور اللہ سے کشادگی کی دعا کریں، لیکن جب انصار مدینہ نے نصرت و اعانت کی بیعت کر لی اور مسلمانان مکہ مدینہ کو ہجرت کرنے لگے تو اللہ کا حکم نازل ہوا:
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ. اِۨلَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّا٘ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ.(الحج ۲۲: ۳۹ - ۴۰)
’’جن مسلمانوں سے جنگ کی جا رہی ہے، انھیں بھی قتال کی اجازت دے دی گئی ہے، کیونکہ ان پر ظلم ڈھائے گئے۔ بے شک، اللہ ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ ہیں جنھیں ناحق ان کے گھروں سے نکالا گیا، صرف یہ کہنے پر کہ اللہ ہمارارب ہے ۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تقاضا تھا کہ جب تک مسلمانوں کے لیے دار الاسلام مہیا نہیں ہوتا جو ان کے لیے مضبوط و محفوظ پناہ گاہ ہو، ان پر فریضۂ جہاد عائد نہ کیا جائے۔ چنانچہ مدینہ منورہ سب سے پہلادار الاسلام بن گیا۔
مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ(ابن اسحٰق)، السیرة النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، تاریخ الامم والملوک (طبری)، انساب الاشراف (بلاذری)، دلائل النبوة (بیہقی)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، تاریخ الاسلام (ذہبی)، السیرة النبویۃ (ابن کثیر)، البدایۃ والنہایۃ (ابن اثیر)، رحمۃً للعالمین (قاضی سلیمان منصور پوری)، سیرت النبی(شبلی نعمانی)، تاریخ اسلام(ا کبر شاہ نجیب آباد ی)، الرحیق المختوم(صفی الرحمٰن مبارک پوری)۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ