HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : رضوان اللہ

الامی

عا م طورپردعویٰ کیاجاتاہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ناخواندہ تھے اورلکھناپڑھنابالکل نہیں جانتے تھے اوراس کے اِثبات میں قرآن وحدیث سے چندایک دلائل بھی پیش کیے جاتے ہیں ۔مثال کے طورپرذیل کی یہ آیت:

۱۔ وَمَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ.  (العنکبوت۲۹: ۴۸)
’’تم اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے،نہ اس کواپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔اگرایساہوتاتویہ جھٹلانے والے،البتہ شک میں پڑسکتے تھے۔‘‘

مگرذراسے تامل سے معلوم کیاجاسکتاہے کہ اس آیت کازیربحث امر سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔اس لیے کہ یہاں ماضی استمراری کے صیغہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معمول کی نفی کی گئی ہے کہ آپ کوئی کتاب پڑھاکرتے یااس کولکھ لیاکرتے تھے اور محض اس بات سے، ظاہرہے کہ کسی شخص کے ناخواندہ ہونے پر ہرگز کوئی استدلال نہیں کیاجاسکتا۔بلکہ ہم تودیکھتے ہیں کہ بعض لوگ اس طرح کی مصروفیت زندگی میں کبھی بھی اختیار نہیں کرتے،مگراس کے باوجود وہ کسی نہ کسی حدتک لکھ پڑھ لینے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔

 آیت میں خواندہ ہونے کی نفی کرنے کے بجاے صرف یہ بتایاگیاہے کہ آپ کوئی کتاب نہیں پڑھتے رہے اور نہ اس کولکھتے رہے ہیں۔اب سوال یہ رہ جاتاہے کہ یہاں ’’کوئی کتاب‘‘ سے درحقیقت مرادکیاہے؟اس کا ایک جواب یہ ہوسکتاہے کہ چونکہ ’كِتٰب‘ پر ایک تنوین اوراس سے پہلے حرف ’مِنْ‘ آیاہے،اس لیے یہاں ہرقسم کی کتاب مرادہے، مگرزبان کے اصولوں کی روشنی میں دیکھاجائے تو ’كِتٰب‘ کی تنکیراوراس میں آجانے والی تعمیم سے یہ کسی طور لازم نہیں آتاکہ صرف یہی معنی مرادلیاجائے کہ بعض اوقات اس طرح کے معنی میں بھی ہم جانتے ہیں کہ سیاق وسباق سے ایک طرح کی تخصیص پیداہوسکتی ہے۔اردومیں اگردیکھناچاہیں تویہ ایساہی معاملہ ہے، جیسے کسی تعلیمی ادارے میں بیٹھے ہوئے ایک ہی مضمون کے دواساتذہ آپس میں گفتگوکرتے ہوئے کہیں کہ ’آج کوئی بھی طالب علم نہیں آیا‘ تو اس ’کوئی بھی‘کی تعمیم کے باوجودہمیں معلوم ہے کہ اس سے صرف اور صرف اُس خاص مضمون کوپڑھنے والے طلبہ بھی مرادہوسکتے ہیں۔

مذکورہ آیت کے سیاق وسباق میں بھی دوگروہوں کامعاملہ زیربحث ہے:ایک وہ لوگ ہیں جوپہلے سے اپنے پاس خداکی ایک کتاب رکھتے ہیں اوردوسرے وہ جونئی کتاب،یعنی قرآن پرایمان لے آئے اوراب اُس کی طرف دعوت دے رہے ہیں۔اول گروہ میں سے جنھوں نے اس دعوت کوماننے سے انکارکردیاہے،وہ قرآن کو خدا کا کلام سمجھنے کے بجاے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی تصنیف قراردے رہے ہیں اوراس کے پیچھے ان کاایک شک کارفرما ہے کہ جس کی بنیاددراصل اس آیت میں ڈھائی گئی ہے۔ وہ شک یہ نہیں ہے کہ آپ لکھنا پڑھنا جانتے ہیں،اس لیے آپ نے قرآن جیسی کتاب لکھ ڈالی ہے کہ کسی شخص کے پڑھے لکھے ہونے اورقرآن تصنیف کردینے میں کوئی ادنیٰ درجے کی بھی مناسبت نہیں ہے، بلکہ ان کاشک اصل میں یہ ہے کہ یہ پچھلی الہامی کتابوں سے مستعارلی گئی تعلیم ہے، جوقرآن کے نام سے پیش کی جارہی ہے،اوراس آیت میں درحقیقت ان کے اسی شک کودورکرناپیش نظرہے۔سویہ سیاق ہے کہ جس نے تنوین اور حرف ’مِنْ‘ کے باوجودلفظ ’كِتٰب‘ میں ایک طرح کی تخصیص پیداکردی ہے اوراس کامطلب اب یہی ہوسکتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ’کوئی بھی کتاب‘،یعنی اس طرح کی کوئی بھی الہامی کتاب کبھی نہیں پڑھتے رہے۔

تعمیم کے بعداس طرح کی تخصیص قرآن کے دیگرمقامات پربھی بہ آسانی دیکھ لی جاسکتی ہے،مثلاًذیل کی آیت میں ’عِلْم‘ کالفظ تنوین اور حرف ’مِنْ‘کے ساتھ آیاہے اور اس سے مرادکسی بھی قسم کانہیں،بلکہ ایک خاص نوعیت کاعلم ہی ہے:

قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْهُ لَنَا.(الانعام۶: ۱۴۸)
’’ان سے پوچھو،تمھارے پاس کوئی علم ہے کہ ہمارے سامنے اسے پیش کرسکو؟‘‘

مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ‘ کابیان کردہ ہمارایہ مفہوم اگرمان لیاجائے تواب ’وَلَا تَخُطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ‘ کادرست محل بھی سمجھ میں آجاتا اور یہاں اسے بیان کرنے کامقصدبھی ہرلحاظ سے واضح ہو جاتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ قرآن کودوسری کتابوں کاچربہ اوراس اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف قراردینے کی کوئی وجہ نہیں ہے،اس لیے کہ آپ کبھی اس طرح کی کوئی کتاب پڑھتے رہے اورنہ اسے لکھ کراپنے پاس محفوظ کرتے رہے کہ یہ شک کیاجائے کہ اس کی مددسے نعوذباللہ !آپ نے قرآن تصنیف کرلیاہو۔

۲۔ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَكَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ. (الاعراف۷: ۱۵۸)
’’سو اللہ اور اس کے نبی امی رسول پر ایمان لاؤ جو خود بھی اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم راہ یاب ہو جاؤ۔‘‘

یہ دوسری آیت ہے، جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناخواندہ ہونے کے حق میں پیش کی جاتی ہے، مگر ہم تفصیل سے بتاتے ہیں کہ اس سے بھی یہ مفہوم مرادلیناکسی صورت ممکن نہیں۔

امي‘ کالفظ اصل میں ’اُمّ‘ سے ہے اوراس میں ’ي‘ نسبت کے لیے آئی ہے۔عربی زبان میں یہ لفظ جب لغوی مفہوم میں استعمال ہوتواس سے مرادوہ شخص ہوتاہے جولکھنے پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہو۔اس خالص لغوی مفہوم میں یہ قرآن میں بھی ایک جگہ استعمال ہواہے،مگراس وضاحت کے ساتھ کہ ان بے پڑھوں سے مراد اصل میں خداکی کتاب نہ پڑھے ہوئے لوگ ہیں:

وَمِنْهُمْ اُمِّيُّوْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّا٘ اَمَانِيَّ.(البقرہ۲: ۷۸)
’’اوران میں بن پڑھے عامی بھی ہیں جواللہ کی کتاب کوصرف اپنی آرزوؤں کاایک مجموعہ سمجھتے ہیں۔‘‘

 اپنے لغوی مفہوم سے آگے بڑھ کرقرآن میں یہ لفظ مشرکین عرب کے لیے بطوراسم بھی آیاہے اوران کے اوپر اس کے اطلاق کی وجہ ان لوگوں کاہدایت کے علم سے محروم ہونااوراہل کتاب کے مقابلے میں بے کتاب ہونا ہے۔[1] دقت نظرسے دیکھاجائے تویہ دونوں پہلوذیل کی دوآیات میں ایک ترتیب سے پڑھ لیے جاسکتے ہیں :

هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَﵯ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ. (الجمعہ۶۲: ۲)
’’اسی نے امیوں کے اندرایک رسول انھی میں سے اٹھایا ہے جواس کی آیتیں انھیں سناتا اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور اس کے لیے انھیں قانون اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سے پہلے یہ لوگ کھلی گم راہی میں تھے۔‘‘
قُلْ لِّلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْاُمِّيّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ.(آل عمران۳: ۲۰)
’’اوراہل کتاب سے اوران امیوں سے پوچھوکہ کیاتم بھی اسی طرح اپنے آپ کواللہ کے حوالے کرتے ہو؟‘‘

چونکہ مشرکین عرب کے اس گروہ کاایک حصہ بنی اسمٰعیل بھی ہیں،اس لیے ان پربھی اس لفظ کااطلاق آپ سے آپ ہوجاتاہے، اوریہیں سے یہ بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس لفظ کا استعمال اصل میں بنی اسمٰعیل کے ایک فردہونے کی وجہ سے ہوتاہے۔چنانچہ پیش کردہ آیت میں بھی ہم سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کے لیے ’امي‘ کالفظ اسی پہلوکی رعایت سے ارشادفرمایاہے۔

 آیت کاسیاق وسباق بھی اسی بات کی تائیدکرتانظرآتاہے، اس لیے کہ یہاں آپ کی دعوت آپ ہی کی زبان سے لوگوں اورخاص طورپربنی اسرائیل کے سامنے پیش کی گئی ہے، اورظاہر ہے کہ اس موقع پرانھیں یہ بتانے کی کوئی حکمت نہیں ہوسکتی کہ آپ خواندہ ہیں یاناخواندہ، بلکہ اس مقام کاتقاضاہے کہ ان کے مغالطے کو دور کرتے ہوئے بتایاجائے کہ آپ صرف بنی اسمٰعیل کے لیے نہیں،بلکہ بنی اسرائیل کے لیے بھی مبعوث ہوئے ہیں اور مزید یہ کہ آپ کے امی،یعنی اسمٰعیلی ہونے کے حوالے سے انھیں اپنی کتاب میں موجودعہدکی بھی یاددہانی کرادی جائے کہ جس میں خاص طورپر’’ان ہی کے بھائیوں ‘‘ کے الفاظ لائے گئے ہیں :

’’میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانندایک نبی برپاکروں گا اوراپناکلام اس کے منہ میں ڈالوں گا۔‘‘(کتاب استثنا۱۸: ۱۸)

خلاصہ یہ کہ اس آیت کابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواندہ ہونے یانہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس میں صرف آپ کے بنی اسمٰعیل میں سے ہونے کونمایاں کیاگیاہے،وگرنہ جہاں تک کتابی اوردرسی علم سے دوری کی بات ہے تویادرہناچاہیے کہ اس میں مشرکین اوربنی اسمٰعیل کاکوئی اختصاص نہ تھا،بلکہ اُس علاقے اور زمانے کے عام رواج کے مطابق وہاں رہنے والے یہودکامعاملہ بھی کم وبیش اسی طرح کاتھا۔

۳۔ اس بحث میں ایک حدیث بھی پیش کی جاتی ہے۔وہ یہ کہ جب غارحرامیں حضرت جبریل وحی لے کرآئے تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ’اقرأ‘ اور اس کے جواب میں آپ نے فرمایا: ’ما أنا بقارئ‘۔ اس جملے کاترجمہ یہ کرتے ہوئے کہ’ میں پڑھ نہیں سکتا‘، آپ کے ناخواندہ ہونے کادعویٰ کیاجاتاہے۔

عربی زبان میں ’قرأ‘ کا مطلب پڑھناہے۔بعض اوقات اس سے مرادکسی لکھی ہوئی شے کودیکھ کر پڑھنا ہوتا ہے، جیسے اس آیت میں  بھی کتاب کودیکھ کرپڑھنامرادہے:

يَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۣ بِاِمَامِهِمْ فَمَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيْنِهٖ فَاُولٰٓئِكَ يَقْرَءُوْنَ كِتٰبَهُمْ.(بنی اسرائیل۱۷ :۷۱)
’’انھیں یاد رکھنا چاہیے جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے رہنماؤں سمیت بلائیں گے۔ پھر جن لوگوں کو ان کا اعمال نامہ ان کے دائیں ہاتھ میں پکڑایا جائے گا، وہی اپنا اعمال نامہ (خوشی سے) پڑھیں گے۔‘‘

کبھی یہ فعل بغیرکسی کتاب کو دیکھے صرف زبانی پڑھنے کے لیے بھی استعمال ہوتاہے۔چنانچہ تہجدکی نمازکے دوران میں قرآن پڑھنے کے لیے، ہم دیکھتے ہیں کہ یہی فعل لایاگیاہے:

فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ.(المزمل۷۳: ۲۰)
’’چنانچہ اب قرآن میں سے جتناممکن ہو، (اس نماز میں) پڑھ لیاکرو۔‘‘

عربی زبان میں جب فعل کے ساتھ کوئی صلہ آتاہے توہمیں معلوم ہے کہ وہ اس کے معنی ومفہوم پر اثرانداز ہو جاتا ہے۔’قرأ‘ کے ساتھ بھی جب حرف ’علي‘ آئے تواب اس کامعنی صرف پڑھنانہیں رہتا،بلکہ پڑھ کر سنانا، یعنی کسی بات کودوسروں تک پہنچانا ہوجاتا ہے۔ مثلاًاس آیت میں یہ بالکل اسی طرح استعمال ہواہے:

وَلَوْ نَزَّلْنٰهُ عَلٰي بَعْضِ الْاَعْجَمِيْنَ. فَقَرَاَهٗ عَلَيْهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ مُؤْمِنِيْنَ.(الشعراء۲۶: ۱۹۸- ۱۹۹)
’’اوراگرہم اس کوکسی عجمی پرنازل کردیتے پھروہ انھیں پڑھ کراسے سناتاتویہ پھربھی اس پرایمان نہ لاتے۔‘‘

اب مذکورہ روایت پرغورکریں تواس میں ’قرأ‘فعل کے بعدکسی کتاب کاکوئی ذکرہواہے اورنہ اس طرف اشارہ کرنے والاکوئی قرینہ ہی اس میں پایاجاتاہے،چنانچہ یہاں دیکھ کرپڑھناتوکسی صورت مرادنہیں ہوسکتا۔ اسی طرح روایت کی روسے چونکہ یہ پہلی وحی کے نازل ہونے کا واقعہ ہے کہ جس میں پہلے سے کچھ حفظ ہونے کابھی کوئی اِمکان نہیں،اس لیے یہاں زبانی پڑھنابھی کسی طرح مرادنہیں لیا جاسکتا۔ یہاں ’اقرأ‘ درحقیقت پڑھ کرسنانے اوراس دعوت کودوسروں تک پہنچانے کے معنی میں ہے کہ روایت میں مذکورساری بات،یعنی اس ذمہ داری کے بعد آپ کے جسم پراس کے اثر سے کپکپی طاری ہوجانااورآپ کا فرماناکہ مجھے اپنی جان کاخوف محسوس ہوتاہے اوراس کے جواب میں حضرت خدیجہ کایہ کہہ کرتسلی دیناکہ آپ ان لوگوں میں بہت اچھے اخلاق کے مالک رہے ہیں،یہ سب یہی بتارہاہے کہ یہاں ’اقرأ‘ دراصل اپنی قوم کودعوت دینے کے معنی میں ہے۔

یہاں کسی کویہ اشکال پیش نہیں آناچاہیے کہ اس روایت میں تو ’قرأ‘فعل کے ساتھ ’علي‘ کا صلہ موجود نہیں ہے، اس لیے کہ یہ صلہ درحقیقت حذف ہوگیاہے اورقرائن کے ہوتے ہوئے ایسا ہو جانا ہر اعتبار سے روا ہے، اور اس کی مثال میں ذیل کی آیت بھی دیکھ لی جاسکتی ہے، جس میں یہ صلہ محذوف ہے اوراس کے باوجود ہر طالب علم پرواضح ہے کہ اس جگہ یہ فعل اسی معنی میں استعمال ہواہے:

وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ.(الاعراف۷: ۲۰۴)
’’جب قرآن سنایا جائے تو اس کو توجہ سے سنو اور خاموش رہوتاکہ تم پررحم کیاجائے۔‘‘

غرض یہ ہے کہ زیربحث روایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب دعوت کابیان ہے اوراس میں بھی آپ کی ناخواندگی کے حق میں کوئی دلیل موجودنہیں ہے۔

۴۔اس ذیل میں ایک اورروایت سے بھی مددلی جاتی ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کوامی قرار دیا ہے اوروہاں ہرلحاظ سے واضح ہے کہ اس لفظ سے مراداس کالغوی مفہوم ہی ہے:

إنا أمة أمیة لانكتب ولا نحسب.(بخاری،رقم۱۸۱۴)
’’ہم ایک بے پڑھی قوم ہیں۔نہ لکھتے ہیں اورنہ حساب کرتے ہیں۔‘‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں یہ اپنے خالص لغوی مفہوم میں آیاہے،مگر واضح رہنا چاہیے کہ زبان میں بعض اوقات کوئی لفظ کسی جماعت کے لیے بولا جاتا ہے اور اس سے مقصود اُس کے سب افراد قطعاً نہیں ہوتے، بلکہ اُس جماعت کامجموعی حیثیت میں ذکرکرنامقصود ہوتا ہے۔مثال کے طورپرمندرجہ ذیل آیت میں مشرکین عرب کے متعلق فرمایاہے کہ یہ لوگ کھلی گم راہی میں مبتلاتھے۔اب ہرطالب علم سمجھ سکتا ہے کہ یہ اس قوم کے بارے میں ایک مجموعی نوعیت کاتبصرہ ہے،اس لیے کہ ہم جانتے ہیں کہ ان میں موحدین اوردین حنیف کے حامل لوگ بھی معتدبہ تعدادمیں موجودتھے:

وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ.(الجمعہ۶۲: ۲)
’’حقیقت یہ ہے کہ اس سے پہلے یہ لوگ کھلی گم راہی میں تھے۔‘‘

مذکورہ روایت میں بھی اہل عرب کی مجموعی حالت کابیان کیاگیاہے،[2]وگرنہ ہمیں علم ہے کہ ان میں سے متعدد افراد لکھ پڑھ سکتے تھے اور ان لوگوں کی یہی صلاحیت[3] باعث ہوئی کہ قرآن کواس زمانے میں لکھاگیااور ادھار لین دین کے معاملات کوبھی خداکی طرف سے لکھنے کی تلقین فرمائی گئی:

نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَ .(القلم۶۸: ۱)
’’یہ سورۂ نون ہے۔قلم گواہی دیتاہے اورجوکچھ (لکھنے والے اس سے )لکھ رہے ہیں۔‘‘
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ٘ا اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰ٘ي اَجَلٍ مُّسَمًّي فَاكْتُبُوْهُ.(البقرہ۲: ۲۸۲)
’’ایمان والو، تم کسی مقرر مدت کے لیے ادھار کا لین دین کروتواسے لکھ لو۔‘‘

مدعایہ ہے کہ دیگردلائل کی طرح یہ روایت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ناخواندہ ہونے کوثابت نہیں کرتی، اس لیے کہ یہ آپ کی قوم پرایک مجموعی تبصرہ ہے اوراسے کسی متعین شخص کے ناخواندہ ہونے پر ہرگز دلیل نہیں بنایاجاسکتا۔

ان سلبی دلائل کی درست حیثیت بیان کرنے کے بعداب ہم اس معاملے میں اثباتاً کچھ چیزوں کو دیکھتے ہیں :

۱۔عرب میں باقاعدہ طورپر مدرسی تعلیم کے ادارے موجودنہ تھے،البتہ ان میں سے بعض لوگ ہمیں انفرادی طور پراس کی تحصیل کرتے ضرورنظرآتے ہیں۔مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تاریخ کے ماخذ میں کوئی ادنیٰ درجے کی بھی شہادت موجودنہیں ہے کہ آپ نے کسی کے سامنے زانوے تلمذتہ کیا ہو اور باقاعدہ طور پر لکھنا پڑھنا سیکھا ہو۔[4]تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض لوگ بناکسی استادکی مددکے واجبی سا لکھنا پڑھنا بہرحال جان جاتے ہیں اوراس کی وجہ عام طورپرطبعی ذوق یاپھر اس سے جڑی ہوئی ان کی کوئی نہ کوئی ضرورت ہوتی ہے۔اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت اورمزاج کودیکھاجائے اورآپ کے معمولات اور خاص طور پر تجارت کی مصروفیات اوراس غرض سے کیے جانے والے اسفاربھی اپنے سامنے رکھے جائیں تو قیاس تقاضا کرتا ہے کہ آپ کے ہاں لکھنے پڑھنے کی کچھ نہ کچھ صلاحیت لازماًموجودرہی ہوگی۔

۲۔اوپرایک آیت ’وَمَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ‘ پرتفصیل سے بحث گزری۔اس کامطلب اگریہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی مذہبی کتاب نہ پڑھتے تھے اورنہ اس کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے تواس میں آپ کے پڑھ لکھ لینے کی صلاحیت پرایک اشارہ بہرصورت پایاجاتا ہے۔ اوریہ ایسا ہی جملہ ہے، جیسے ہم اردوزبان میں کسی طالب علم کے بارے میں کہیں کہ اس لڑکے کو اسلامیات کی کتاب کبھی پڑھتے نہیں دیکھاگیاتواس جملے میں چونکہ ایک خاص نوعیت کی کتاب پڑھنے کی نفی کی گئی ہے،اس لیے اس کا یہ مطلب اِحتمالاًہی سہی،بہرحال لیاجاسکتاہے کہ وہ پڑھ توسکتاہے،مگراسلامیات کی کتاب نہیں پڑھتا۔

۳۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ توقیاس اوراحتمال کے درجے کے دلائل تھے،اب ہم بالکل صریح لفظوں میں بتاتے ہیں کہ آپ حقیقتاً لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔صلح حدیبیہ کے موقع پرجب قریش اور مسلمانوں کے درمیان ایک معاہدہ لکھاگیااوراس کی تحریرمیں یہ الفاظ آئے کہ ’’یہ وہ معاہدہ ہے جومحمدرسول اللہ نے کیا‘‘ تواس پرقریش کی طرف سے اعتراض ہوا کہ اگرہم آپ کواللہ کارسول مانتے توپھر آپ کے آڑے کیوں آتے؟ آپ صرف محمدبن عبداللہ ہیں۔اس پرآپ نے فرمایاکہ میں محمدبن عبداللہ بھی ہوں اورمحمدرسول اللہ بھی۔ اس کے بعدآپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہاکہ اس تحریرسے ’رسول اللہ‘ کالفظ مٹادو۔حضرت علی نے کہاکہ خدا کی قسم!میں اسے کبھی نہیں مٹاؤں گا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تحریراپنے ہاتھ میں لے لی۔ راوی بیان کرتے ہیں :’ولیس یحسن یکتب‘،کہ آپ اچھی طرح نہیں لکھ سکتے تھے۔ ظاہرہے، محض یہ الفاظ بھی آپ میں پائی جانے والی واجبی صلاحیت کا پتا دیتے ہیں، مگراس کے بعدتو روایت میں حد درجہ صراحت ہوگئی ہے کہ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھاکہ یہ وہ معاہدہ ہے جومحمدبن عبداللہ نے قریش کے ساتھ کیا‘‘ (بخاری،رقم ۴۲۵۱)۔

صحیح بخاری کی اس روایت سے یہ بات معلوم ہوجانے کے بعدکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھ پڑھ سکتے تھے، اب آخرمیں ایک ضروری بات بھی سمجھ لینی چاہیے۔وہ یہ کہ آپ کی طرف سے قرآن جیسا کلام پیش کرنے میں جو ایک معجزاتی پہلوپایاجاتاہے،وہ یہ نہیں ہے کہ آپ لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے اوراس کے باوجودآپ نے یہ کلام پیش کیا، بلکہ اصل معجزہ یہ ہے کہ آپ نے کسی استادسے پڑھااورنہ خودسے کسی مذہبی کتاب کاکبھی مطالعہ کیا اور اس کے باوجود،اس قدروقیع اوراعلیٰ کلام پیش کردیاجوظاہرہے کہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ یہ آپ کا اپنا تصنیف کردہ نہیں ،بلکہ لازمی طورپراللہ ہی کاکلام ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[1]۔ لفظ کایہی اطلاق ہے کہ اسے صرف مشرکین عرب کے لیے نہیں،بلکہ فارس کے مجوسیوں کے لیے بھی بولا گیا ہے (الطبری)۔

[2]۔ اوریہ ایساہی ہے، جیسے ہم اردومیں کسی افریقی ملک کے لیے ان پڑھ اورکسی یورپی ملک کے لیے کہیں کہ وہ پڑھی لکھی قوم ہے۔

[3]۔ ان کی اس صلاحیت پریہ امور بھی شاہدہیں کہ شعب ابی طالب اورصلح حدیبیہ کے معاہدات بھی باقاعدہ لکھے گئے اور اسی طرح غزوۂ بدرکے قیدیوں کے ساتھ تعلیم بطورفدیہ کا معاملہ بھی کیاگیا۔

[4]۔ مدرسی تعلیم حاصل نہ کرنے کا یہی وہ پہلو ہے کہ بعض حضرات نے ’الامی‘ کا ترجمہ ’’بے پڑھا‘‘ کیا ہے: کنز الایمان، احمدرضاخان صاحب بریلوی۔

B