HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

ایمان باللہ اور نماز

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےایک ارشاد میں اسلام کو پانچ چیزوں پر مبنی قرار دیا[1]ہے۔ ان پانچ چیزوں میں سے ایک نماز ہے۔ آپ کا یہ ارشاد قرآن مجید میں نماز کی تاکید اور بار بار اس کے ذکر کی حکمت کو واضح کرتا ہے۔ اس سے یہ نکتہ بھی واضح ہوتا ہے کہ نماز کو ادا کیے بغیر اسلام کے اقرار و اظہار کا کوئی مطلب نہیں ہے۔اسلام نے پرستش کے جوطریقے طے کر دیے ہیں، نماز کو ان میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔اس بات کی تائید حضور کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ اسلام اور کفر میں فرق نمازسے واضح ہو جاتا ہے۔[2]

نماز اپنی حقیقت میں پرستش ہے، یعنی رب کائنات کی رضا جوئی کے لیے حمد وتسبیح، رکوع و سجود اور دعا و مناجات پر مبنی اعمال و اذکار کا مرقع۔ جب کوئی بندہ یہ مان لیتا ہے کہ مالک کائنات اس کا الٰہ ہے تو اس اقرار کا لازمی اور پہلا نتیجہ یہ ہے کہ اس کی زندگی اس الٰہ کی پرستش سے معمور ہو۔ الٰہ ماننے کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ بندہ اپنے الٰہ کی خوشنودی کو حاصل کرنے کے لیے کچھ اعمال کرے۔ اس طرح کے اعمال کے لیے ’مراسم عبودیت‘ کی اصطلاح رائج ہے۔ ان میں حاضر ہونے، نذر نیازپیش کرنے، عاجزی اور پستی ظاہر کرنے اور اپنے آپ کو سپرد کرنے، اپنی حاجتیں پوری کرنے کی درخواستیں کرنےاور اس الٰہ کی شانوں کے بیان و اقرارکے مختلف طریق اختیار کیے جاتے ہیں۔ اسلام نے انھی پرستش کے مظاہر کو ایک دلکش ترتیب اورموزوں وضع دی ہے، جسے ہم ’نماز‘ کے نام سے جانتے اور اختیار کیے ہوئے ہیں۔

قرآن مجید نے جہاں جہاں اہل ایمان کے محاسن و اعمال بیان کیے ہیں، ان مقامات پر نماز یا اس کے احوال کا ذکر لازما ً ہوتا ہے۔ عام مسلمان نماز کے عبادت ہونے کے تصور سے تو بخوبی واقف ہے، لیکن نماز کی اس حقیقت سے غافل ہے کہ یہ اللہ کی بندگی میں ہونے کا لازمی مظہر ہے۔ بندۂ رب ہو اور نماز کا تارک ہو، اسلام کااقرار کرتا ہو، لیکن نماز کے بارے میں بے پروا ہو، اپنے رب سے جڑنے کا دعویٰ کرتا ہو، مگر نماز سے دور ہو تو اس صورت حال کا اس کے سوا کوئی مطلب نہیں کہ اس شخص کی دین داری کی حقیقت اس کے قلب و ذہن میں اپنی پوری جگہ نہیں بنا سکی ہے۔

نماز کے عمل کو دیکھیں : وضو سے لے کر سلام پھیرنے تک ۔طہارت کا انتہائی اعلیٰ درجے کا ذوق کہ احساس نجاست سے گزرنے پر بھی وضو کے بغیر نماز نہیں پڑھی جاتی۔مصلے پر کھڑے ہوئے قبلہ رو ہوئے، تمام امت کا رخ اس اللہ کے گھر کی طرف ہو جو گھر خالصتاً اسی کی عبادت کے لیے تعمیر ہوا تھا۔ انتہائی ادب سے کھڑے ہوئے۔ اس کے حضور اپنا سر اور کمر جھکا دی۔ اس کے سامنے اپنی پیشانی زمین سے لگا دی۔اپنے اعضا و جوارح سے اپنی عاجزی اور خاک ساری کو مجسم کر دیا۔ اس دوران میں حمد و ثنا، دعا و مناجات، تسبیح و تمجید کے اذکار اور کتاب ہدایت کی آیات زبان سے ادا ہوتی رہیں۔ مکمل حاضری، مکمل سپردگی۔زبان قال اور زبان حال، دونوں بندگی کے احساس، ادراک اور اظہار کی مورت۔ اللہ کی عظمت، قدرت، رحمت اور ملکوت کا ادراک اور اپنی بے مائگی کا شعور حاضری کے اس منہج میں ڈھل گیا۔

مسلمان ہونے کا پہلا اور بنیادی مطلب یہ ہے کہ بندہ ایک مذہب کا ماننے والا ہے۔ مراد یہ ہے کہ یہ محض کوئی قانونی نظام سماج نہیں ہے جسے اس نے انفرادی اور اجتماعی سطح پر اختیار کر لیا ہے، بلکہ یہ پوری کائنات کے خالق و مالک کو اس کی صفات اور منصب کے ادراک کے ساتھ واحد الٰہ ماننے کا اقرار ہے۔ یہ اقرار پرستش کے عمل سے اپنا اثبات کرتا ہے ۔ دین اسلام میں اس پرستش کی مشروع صورت نماز ہے۔ پس جو مسلمان نماز نہیں پڑھتا یا نماز کے معاملے میں بے پروا ہےتو وہ اصل میں اپنے اقرار کے لازمی تقاضے کی تکمیل سے قاصر ہے۔

نماز اسی شعور کا تقاضا ہے۔ یہ شعور خود شعور کی اعلیٰ سطح ہے ۔ لہٰذا جب یہ عمل میں اپنی تکمیل کرے تو وہ عمل بھی اعلیٰ سطح کا ہونا چاہیے۔ چنانچہ نماز کی تیاری بھی خوبی کے ساتھ کی جائے۔ نماز کا عمل بھی صحت قواعد اور صحت نیت کے ساتھ ہو۔ عمل کی خوبی کا اثر کردار و اخلاق پر اس طرح ہو کہ عبادت ریا ، سستی اور بے دلی سے پاک ہو اور معاملات ایثار اور خیر خواہی کے محرک سے پیدا ہونے لگ جائیں ۔

ـــــــــــــــــــــــــ

[1]۔ مسلم، رقم۱۲۲۔بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَإِقَامِ الصَّلاَةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَحَجِّ الْبَيْتِ وَصَوْمِ رَمَضَانَ‘۔

[2]۔ مسلم، رقم ۲۵۶۔ ’إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلاَةِ‘۔

B