فقه النبی
ترجمہ و تحقیق: محسن ممتاز
ــــــ ۱ ــــــ
عن جَابِرٍ قال:۱ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاةِ».
جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ آدمی کے کفر و شرک اور ایمان کے درمیان حد فاصل نماز چھوڑ دینا ہے۔۱
_____________
۱۔ مدعا یہ ہے کہ انسان کے ظاہر میں اُس کے اسلام کا ظہور جن اعمال میں ہوتا ہے یا ہونا چاہیے، اُن میں سب سے اہم نماز ہے۔ چنانچہ یہ اگر باقی ہے تو اُس کا اسلام باقی ہے اور اِس کو چھوڑ دیا گیا ہے تو اُس کے ظاہر میں ایمان و اسلام کی گواہی بھی باقی نہیں رہی۔ اِس کے بعد مسلمان معاشرہ اگر مسلمان کی حیثیت سے کسی شخص کے مطالبۂ حقوق کو ماننے سے انکار کر دے تو یقیناً حق بجانب ہو گا۔ قرآن نے فرمایا ہے کہ یہی حیثیت زکوٰۃ کی بھی ہے۔ سورۂ توبہ (۹) کی آیت ۱۱ میں قرآن نے اِس کی صراحت فرمائی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد قرآن کی اِنھی تصریحات پر مبنی ہے۔
۱۔اِس روایت کا متن اصلاً صحیح مسلم، رقم ۲۴۷ سے لیا گیا ہے، اس کے راوی جابر بن عبداللہ انصاری ہیں۔ الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ یہی مضمون بریدہ بن حصیب اسلمی اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہوا ہے۔
جابر بن عبداللہ انصاری سے اس کے متابعات درج ذیل کتب میں منقول ہیں :
مصنف عبدالرزاق، رقم ۵۰۰۹،۵۰۰۶۔الایمان، ابن ابی شیبہ، رقم۴۴۔مسند عبد بن حمید،رقم۱۰۲۲۔ مسند احمد، رقم ۱۴۹۷۹، ۱۵۱۸۳۔صحیح مسلم، رقم ۲۵۷۔ تعظیم قدر الصلاۃ، مروزی، رقم ۸۸۶، ۸۸۷، ۸۸۸، ۸۸۹، ۸۹۰، ۸۹۳۔سنن ابی داؤد،رقم ۴۶۷۸۔ سنن ترمذی، رقم ۲۶۱۸، ۲۶۱۹، ۲۶۲۰۔ سنن نسائی، رقم ۴۸۴۔ سنن ابن ماجہ،رقم ۱۰۷۸۔ السنن الکبریٰ، نسائی،رقم ۳۲۸۔ سنن دارمی،رقم۱۲۶۹۔صحیح ابن حبان، رقم ۱۴۵۳۔ سنن دارقطنی، رقم ۱۷۵۳، ۱۷۵۴۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۱۷۸۳، ۱۹۵۳۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۶۴۹۵، ۶۴۹۷، ۶۴۹۸۔
بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ سے اس کے شواہد ان مصادر میں دیکھ لیے جا سکتے ہیں :
مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۰۳۹۶۔ الایمان، ابن ابی شیبہ، رقم ۴۶۔ مسند احمد، رقم ۲۲۹۳۷، ۲۳۰۰۷۔ تعظیم قدر الصلاۃ، مروزی، رقم۸۹۴، ۸۹۶۔ السنہ،عبداللہ بن احمد، رقم۷۶۹۔ سنن نسائی، رقم ۴۶۳۔ السنن الکبریٰ، نسائی،رقم ۳۲۶۔سنن ابن ماجہ، رقم۱۰۷۹۔صحیح ابن حبان، رقم۱۴۵۴۔سنن دارقطنی،رقم۱۷۵۱۔ السنن الکبریٰ، بیہقی،رقم۶۴۹۹۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس کا ایک شاہد معجم ابن الاعرابی،رقم ۲۶۳ میں نقل ہوا ہے۔
ــــــ ۲ ــــــ
عن عُبَادَة بْن الصَّامِت قال: ۱ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللّٰهُ عَلَى عِبَادِهِ، مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ، فَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَسُجُودَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ كَانَ لَهُ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدٌ إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ، وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ».
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ آپ نے فرمایا : یہ پانچ نمازیں ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر فرض کیا ہے، جس نے اِن کے لیے اچھے طریقے سے وضو کیا، اِنھیں وقت پر ادا کیا اور اپنا ظاہر و باطن اِن میں پوری طرح اپنے پروردگار کے سامنے جھکا دیا، اُس کے لیے اللہ کا عہد ہے کہ اُسے بخش دے گا۱ اور جس نے یہ نہیں کیا، اُس کے لیے اللہ کا کوئی عہد نہیں ہے۔۲ اللہ چاہے گا تو اُسے بخشے گا اور چاہے گا تو عذاب دے گا۔
_____________
۱۔ یہ بشارت، ظاہر ہے کہ اُنھی لوگوں کے لیے ہے، جو حقوق العباد سے متعلق کسی بڑے گناہ میں ماخوذ نہیں ہوں گے۔
۲۔ یعنی حقوق اللہ کے معاملے میں بھی کوئی عہد نہیں ہے، لہٰذا عفو و درگذر کی گنجایش اگر اُس کے لیے پیدا ہو گی تو اُنھی قوانین کے تحت ہو گی، جو اللہ نے عفو و درگذر کے لیے مقرر کر رکھے ہیں اور اُس وقت نہیں کہا جاسکتا کہ نماز جیسی چیز کو ترک کر دینے کے بعد وہ اِس کا مستحق بھی ٹھیرے گا یا نہیں ٹھیرے گا۔
متن کے حواشی
۱۔ اس روایت کا متن اصلاً مسند احمد، رقم ۲۲۷۰۴ سے لیا گیا ہے۔اس کے تنہا راوی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس کے متابعات درج ذیل مصادر میں دیکھے جا سکتے ہیں :
سنن ابی داؤد،رقم۴۲۵۔تعظیم قدر الصلاۃ، مروزی، رقم ۱۰۳۴۔فوائد ابی بکر، رقم۸۵۴۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۴۶۵۸، ۹۳۱۵۔السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۳۱۶۶، ۶۵۰۰۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ