HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: حٰم السجدہ ۴۱: ۱-۱۲ (۱)

حٰم السجدة - الشورٰی

۴۱ –– ۴۲

 

یہ دونوں سورتیں اپنے مضمون کے لحاظ سے توام ہیں۔ دونوں کا موضوع توحید کا اثبات اور اُس کے حوالے سے قریش کو انذار و بشارت ہے۔ پہلی سورہ میں، البتہ تنبیہ اور دوسری میں تفہیم کا پہلو نمایاں ہے۔ دونوں میں خطاب قریش سے ہے اور اِن کے مضمون سے واضح ہے کہ ام القریٰ مکہ میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مرحلۂ ہجرت و براء ت میں نازل ہوئی ہیں۔

ـــــــــــــــــــــــــ

 

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

حٰمٓ ١ تَنْزِيْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ٢ كِتٰبٌ فُصِّلَتْ اٰيٰتُهٗ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا لِّقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ ٣ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًاﵐ فَاَعْرَضَ اَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ ٤ وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْ٘ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَا٘ اِلَيْهِ وَفِيْ٘ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّمِنْۣ بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ ٥

 ــــــ ۱  ــــــ

اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے ، جس کی شفقت ابدی ہے ۔

یہ سورۂ ’حٰمٓ‘ ہے۔[1] یہ خداے رحمٰن و رحیم کی تنزیل ہے۔[2] یہ ایسی کتاب ہے جس کی آیتوں کی تفصیل کی گئی ہے۔ عربی قرآن کی صورت میں، اُن لوگوں کے لیے جو جاننا چاہیں،[3] بشارت دینے والی اور خبردار کرنے والی۔ (اِن پر افسوس)، اِن کی اکثریت نے مگر اِس سے منہ موڑ لیا ہے، لہٰذا سن کر نہیں دے رہے ہیں اور (بڑی رعونت کے ساتھ) کہتے ہیں کہ جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو، ہمارے دل اُس سے پردوں میں ہیں اورجو کچھ ہمیں سنا رہے ہو،[4] ہمارے کان اُس سے بہرے ہیں اور ہمارے اور تمھارے درمیان ایک حجاب حائل ہے ۔ سو جو کچھ تمھیں کرنا ہے، کر گزرو،[5] ہم بھی، جو کچھ کرنا ہے، کرکے رہیں گے۔ ۱- ۵

قُلْ اِنَّمَا٘ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰ٘ي اِلَيَّ اَنَّمَا٘ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِيْمُوْ٘ا اِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوْهُﵧ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِيْنَ ٦ الَّذِيْنَ لَا يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ ٧ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ ٨

اِن سے کہہ دو، (مجھے کیا کرنا ہے، میں خدا نہیں ہوں کہ تم پر عذاب نازل کر دوں)۔ میں بھی اُسی طرح ایک انسان ہی ہوں، جیسے تم ہو۔ مجھے وحی کے ذریعے سے بتایا جاتا ہے کہ تمھارا معبود کے شریک ٹھیراتے ہو؟یہ ہے جہانوں کا پروردگار۔ اور اُس نے زمین کے اندر اُس کے اوپر سے[6] پہاڑ گاڑ دیے اور اُس میں برکتیں رکھ دیں[7] اور سب ضرورت مندوں کے لیے یکساں ، اُس کی غذائیں اُس میں ودیعت کر دیں۔[8] یہ سب ملا کر چار دنوں میں۔[9] پھر اُس نے آسمان کی طرف توجہ ایک ہی معبود ہے۔ سو اپنا رخ سیدھے اُسی کی طرف کیے رہو اور اُس سے مغفرت چاہو۔ اور (سن لو کہ) اِن مشرکوں کے لیے تباہی ہے جو زکوٰۃ (کی صورت میں لوگوں کا جو حق اِن پر عائد ہے، اُسے) ادا نہیں کرتے اور یہی آخرت کے منکر ہیں۔[10] (اِن میں سے)، البتہ جو ایمان لے آئے ہیں اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اُن کے لیے، یقیناً ایسا صلہ ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ ۶- ۸

قُلْ اَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَهٗ٘ اَنْدَادًا ذٰلِكَ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ٩ وَجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبٰرَكَ فِيْهَا وَقَدَّرَ فِيْهَا٘ اَقْوَاتَهَا فِيْ٘ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍﵧ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِيْنَ ١٠ ثُمَّ اسْتَوٰ٘ي اِلَي السَّمَآءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًاﵧ قَالَتَا٘ اَتَيْنَا طَآئِعِيْنَ ١١ فَقَضٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ فِيْ يَوْمَيْنِ وَاَوْحٰي فِيْ كُلِّ سَمَآءٍ اَمْرَهَا وَزَيَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَحِفْظًاﵧ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ ١٢

       اِن سے پوچھو، کیا تم اُس ہستی کا انکار کر رہے ہو[11] جس نے دو دنوں میں[12] زمین بنائی، اور اُس فرمائی جو ( زمین کے ساتھ ہی وجود میں آچکا تھا اور) اُس وقت دھوئیں کی صورت میں تھا۔[13] سو اُس کو اور زمین کو حکم دیا کہ تعمیل کرو، خوشی سے یا نا خوشی سے۔[14] دونوں نے کہا: ہم خوشی سے حاضر ہیں۔[15] پھر دو دنوں میں اُن کے سات آسمان ہونے کا فیصلہ فرمایا[16] اور ہر آسمان میں اُس کا قانون وحی کر دیا اور تمھارے اِس قریبی آسمان کو ہم نے چراغوں سے رونق دی اور اُسے خوب محفوظ بنا دیا۔[17] یہ خداے عزیز و علیم کا منصوبہ ہے۔[18] ۹- ۱۲

[1]۔ اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے متعلق اپنا نقطۂ نظر ہم نے سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر دیا ہے۔

[2]۔ اصل الفاظ ہیں:’تَنْزِيْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ‘۔ اِن میں مبتدا ہمارے نزدیک محذوف ہے۔ لفظ ’تَنْزِيْل‘ کے بارے میں معلوم ہے کہ یہ اہتمام، تدریج اور تفخیم شان پر دلیل ہوتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی اِسی رعایت سے استعمال کیا گیا ہے، یعنی یہ خداے رحمٰن و رحیم کی طرف سے نہایت اہتمام کے ساتھ اتاری ہوئی کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے رحمٰن و رحیم کی صفات کا حوالہ تکذیب کی شناعت کو ظاہر کرتا ہے کہ اُس نے تو اِن لوگوں پر ایک عظیم رحمت و برکت نازل فرمائی، لیکن اِن پر افسوس، یہ اُس کے بجاے عذاب اور نقمت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آگے اِسی کی تفصیل ہے۔

[3]۔ آیت میں فعل،ہمارے نزدیک، ارادۂ فعل کے مفہوم میں ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

  ’’... اِس اسلوب بیان میں عربوں کے لیے ایک تحریص و ترغیب بھی ہے کہ اُنھیں جاننے اور سمجھنے کا حریص ہونا چاہیے،اِس لیے کہ وہ امی رہے ہیں اور اب پہلی بار اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اُن کی تعلیم کے لیے اُن کی زبان میں اپنی کتاب اتاری ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۷/ ۷۸)

[4]۔ یہ الفاظ اصل میں محذوف ہیں۔ ’مِمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَيْهِ‘ کا تقابل اِس حذف کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔

[5]۔ اوپر ’بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا‘کے جو الفاظ وارد ہوئے ہیں، اُن کو سامنے رکھ کر دیکھیے تو گویا مدعا یہ ہے کہ ہم نے جو کچھ کہنا تھا، کہہ دیا ہے۔ اب وہ عذاب وغیرہ لے آؤ، جس کی دھمکی روز ہمیں سناتے ہو۔

[6]۔ یعنی ایسے نمایاں کہ ہر شخص اُن کو دیکھ سکتا ہے۔ دوسری جگہ مزید وضاحت ہے کہ یہ زمین کے توازن کو قائم رکھے ہوئے ہیں، ورنہ اندیشہ ہے کہ اپنی تمام مخلوقات کو لے کر یہ کسی طرف لڑھک جائے۔

[7]۔ زمین میں انسان کی پرورش کا جو اہتمام ہے، یہ اُس کی نہایت جامع تعبیر ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’ اِسی برکت کا کرشمہ ہے کہ یہ ہر قسم کی نباتات اگاتی ہے جن کے پھل اور پھول انسان اور دوسری مخلوقات کے کام آتے ہیں۔ یہ اِسی کا فیض ہے کہ ایک دانہ انسان بوتا ہے اور زمین سیکڑوں دانوں کی شکل میں اُس کا حاصل اُس کو واپس کرتی ہے۔ ایک گٹھلی یا ایک قلم آدمی زمین میں لگاتا ہے اور ایک مدت دراز تک اُس کا پھل وہ اور اُس کے اخلاف کھاتے ہیں۔ علاوہ بریں یہ اِسی برکت کا ثمرہ ہے کہ انسان اپنی سائنس کے ذریعے سے اِس کے جتنے پرت الٹتا چلاجاتا ہے، اتنے ہی اِس کے اندر سے خزانے پر خزانے نکلتے آرہے ہیں اور صاف نظر آتا ہے کہ انسان کی سائنس تھک جائے گی، لیکن زمین کے خزانے کم ہونے والے نہیں ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۷/ ۸۲)

[8]۔ غذاکے یہی ذخائر ہیں جو انسان کی سعی و تدبیر سے برآمد ہوئے ہیں اور قیامت تک برآمد ہوتے رہیں گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...یعنی اللہ تعالیٰ نے جتنی قسم کی مخلوقات پیدا کی ہیں اور اُن کے بقا کے لیے جس قسم کی غذا کی احتیاج اُن کے اندر رکھی ہے، اُن سب کی جبلی احتیاج کے اعتبار سے یہ غذائی ذخیرے ودیعت فرمائے ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ کچھ مخلوقات تو وجود میں آ گئی ہوں، لیکن اُن کی پرورش کے لیے جس غذا کی ضرورت ہے، وہ وجود میں نہ آئی ہو۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر، زمین کی تہوں میں، سمندروں کی تاریکیوں میں، جہاں کہیں بھی کوئی چھوٹی یا بڑی مخلوق موجود ہے، اُس کے گرد و پیش میں اُس کا طبعی رزق موجود ہے۔ ایک بکری گھاس کھا کر زندہ رہتی ہے، اُس کے لیے اللہ نے گھاس پیدا کی ہے۔ ایک شیر گوشت سے زندہ رہتا ہے، اس کو اللہ نے شکار کے اسلحہ بھی دیے ہیں اور شکار کے لیے جانور بھی پیدا کیے ہیں۔ اور یہ بات بھی صاف نظر آتی ہے کہ کسی کو بھی اپنی مایحتاج سے زبردستی مناسبت نہیں پیدا کرنی پڑی ہے، بلکہ جس کو جو کچھ بھی ملا ہے، اُس کے جبلی تقاضوں کے مطابق ملا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۷/ ۸۳)

[9]۔ یعنی دو دن زمین کی خلقت کے اور دو دن اِن سب کاموں کے جن کا ذکر ہوا ہے۔ یہ آخر میں سب کو جمع کرکے فرمایا ہے :’فِيْٓ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ‘۔آیت میں ’سُؤَال‘ کا لفظ اُسی معنی میں ہے، جس میں یہ سورۂ ابراہیم (۱۴) کی آیت ۳۴ میں استعمال ہوا ہے: ’وَ اٰتٰكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ‘۔

[10]۔ اِس لیے کہ اگر مانتے بھی ہیں تو اِس عقیدے کے ساتھ کہ یہ کچھ بھی کرتے رہیں، اِن کے شرکا و شفعا اِن کو بہرحال بخشوا لیں گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...اِس زور و تاکید کے ساتھ اِس بات کے کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اِنھوں نے خدا کے اُس عدل اور اُس حکمت ہی کی نفی کر دی جس پر آخرت کی بنیاد ہے۔ دوسرے اگر منکر ہیں تو محض استبعاد یا شک میں مبتلا ہیں، لیکن اِنھوں نے تو قیامت کا سارا فلسفہ ہی ہدم کر دیا۔‘‘(تدبرقرآن۷/ ۸۰)

[11]۔ قرآن نے یہاں شرک کو خدا کے انکار سے تعبیر فرمایا ہے۔ اِس کی وجہ کیا ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... خدا کو ماننا معتبر صرف وہ ہے جو اُس کی تمام صفات اور اُن کے تمام حقوق و مقتضیات کے ساتھ ہو۔ اگر کوئی شخص خدا کو مانے، لیکن اِس طرح مانے کہ اُس سے خدا کی کل یا بعض صفات کی نفی ہو رہی ہو تو یہ ماننا دین میں معتبر نہیں ہے، بلکہ یہ درحقیقت کفر ہی ہے۔ اِسی وجہ سے قرآن نے شرک کو جگہ جگہ کفر سے تعبیر اور مشرکین کو صریح الفاظ میں ’يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ‘ سے خطاب فرمایا ہے۔ ‘‘(تدبرقرآن۷/ ۸۱)

[12]۔ اِن سے خدائی دن مراد ہیں جن کے بارے میں تصریح ہے کہ بعض صورتوں میں ہمارے شمار سے پچاس ہزار سال کے برابر بھی ہو تے ہیں۔قرآن کے دوسرے مقامات میں بیان کیا گیا ہے کہ زمین اور آسمانوں کو چھ دن میں پیدا کیا گیا۔ یہاں اُن کی تفصیل کی جا رہی ہے کہ کس چیز کی خلقت میں کتنے دن صرف ہوئے۔

[13]۔ یہ غالباًوہی چیز ہے جسے اِس زمانے کے سائنس دان سحابیے(nebula) سے تعبیر کرتے ہیں۔ اُن کا تصور بھی یہی ہے کہ کائنات جس مادے سے بنی ہے، ابتدا میں وہ اِسی دخانی یا سحابی شکل میں منتشر تھا۔

[14]۔ اصل الفاظ ہیں:’اِئْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا‘۔یہ اُسی طرح کا اسلوب ہے، جیسے حضرت سلیمان نے ملکۂ سبا کو لکھا تھا کہ ’وَاْتُوْنِيْ مُسْلِمِيْنَ* ۔مطلب یہ ہے کہ میرے مطیع و فرماں بردار بن کر رہو اور جو حکم دیا جائے، اُس سے انحراف کی جسارت نہ کرو۔

[15]۔ اِس سے معلوم ہوا کہ جن چیزوں کو بظاہر لا یعقل سمجھا جاتا ہے، وہ بھی اپنے رب کی باتوں کو سمجھتی اور اُن کا جواب دیتی ہیں۔ ہم اگر اُن کی باتوں کو یا اُن کی تسبیح و تحمید کو نہیں سمجھتے تو یہ ہماری نارسائی ہے۔ چنانچہ ہمارا یہ حق نہیں ہے کہ اپنے اِس نارسا علم کے ساتھ اِس طرح کی چیزوں پر کوئی حکم لگائیں۔

[16]۔ یعنی آسمان اگرچہ وجود میں آ چکے تھے، لیکن ابھی محض ہیولیٰ تھے، لہٰذا اُن کو بھی آخری صورت دے کر پوری کائنات کو پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا۔

  [17]۔ آیت میں ’حِفْظًا‘ کا نصب تاکید فعل کے لیے ہے، یعنی اچھی طرح محفوظ بنا دیا۔ یہاں، اگر غور کیجیے تو اسلوب تبدیل ہوگیا ہے اور غائب کے بجاے متکلم کے صیغے استعمال فرمائے ہیں جو التفات و امتنان پر دلالت کرتے ہیں۔

[18]۔ مطلب یہ ہے کہ کائنات کی شہادت تو یہ ہے اور اِدھر تمھاری جہالت کا یہ عالم ہے کہ اُس کے شریک ٹھیراتے ہو! اِن آیتوں سے جو تعلیم نکلتی ہے، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اُس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’پہلی بات یہ نکلتی ہے کہ یہ دنیا نہایت تدریج و اہتمام کے ساتھ ایک طے کردہ پروگرام کے مطابق وجود میں آئی ہے۔ یہ خیال بالکل غلط ہے کہ اِس کو کسی نے بس یوں ہی کھیل تماشے کے طور پر بنایا ہے اور یہ یوں ہی چلتی رہے گی یا یوں ہی ختم ہو جائے گی۔ یہ اہتمام اِس کے بامقصد و باغایت ہونے کی ناقابل انکار دلیل ہے اور اِس کا باغایت و بامقصد ہونا لازماً آخرت کو مقتضی ہے۔
دوسری یہ کہ اِس کا خالق بے نہایت قدرت اور غیرمحدود علم کا مالک ہے، اِس وجہ سے اِس کام میں نہ اُس کو کسی کی مدد کی ضرورت ہوئی اور نہ کوئی اُس کی مدد کر سکنے کا اہل ہے۔
تیسری یہ کہ آسمان و زمین، دونوں نے مل کر ایک مکان کی شکل اختیار کی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو فروکش کیا ہے، اِس وجہ سے یہ خیال بالبداہت غلط ہے کہ اِس کی چھت پر کسی اور کا تصرف ہے اور اِس کے فرش کا کوئی اور مالک ہے، بلکہ آسمان و زمین، دونوں کی سازگاری اِس بات کی دلیل ہے کہ جس عزیز و علیم نے اِن کو پیدا کیا ہے، وہی اِن پر متصرف بھی ہے۔
چوتھی یہ کہ اِس دنیا میں ربوبیت کا جو ہمہ گیر نظام ہے، وہ اِس بات پر شاہد ہے کہ یہ خداے عزیز و علیم ہی کا قائم کیا ہوا ہے، کوئی دوسرا اِس نظام کو قائم کرنے پر قادر نہیں ہے۔ اِس وجہ سے بندوں کو چاہیے کہ اُسی کے آگے دست سوال دراز کریں، اِس لیے کہ حقیقی نافع و ضار وہی ہے۔
پانچویں یہ کہ ربوبیت کا یہ وسیع نظام اِس بات کا مقتضی ہے کہ ایک ایسا دن آئے جس میں لوگ اپنے منعم حقیقی کے روبرو حاضر ہوں۔ اُن سے نعمتوں کے حق سے متعلق پرسش ہو۔ جنھوں نے اُن کا حق پہچانا ہو، وہ اُس کا صلہ پائیں اور جنھوں نے ناشکری کی ہو، وہ اُس کی سزا بھگتیں۔‘‘(تدبرقرآن ۷/ ۸۶)

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 * النمل ۲۷: ۳۱۔

B