انسان کے لیے اُس کے علم کا موضوع دو ہی چیزیں ہو سکتی ہیں: ایک، نفس اور دوسرے، مادہ۔ پھر اِن کے مظاہر پر غور کیجیے تو وہ بھی دو ہی صورتوں میں نمایاں ہوتے ہیں: ایک، شے اور دوسرے، اُس میں قوت کا ظہور۔ اسم اور فعل کے الفاظ دنیا کی تمام زبانوں میں اِسی حقیقت کو بیان کرتے، اور اِسی بنا پر اُن کے قواعد کی بنیاد قرار پاتے ہیں۔ اِن کو سمجھنے کے لیے جو ملکہ انسان کو عطا ہوا ہے، اُسے ہم عقل سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہی انسان کا اصلی شرف ہے۔ اِس کو جو ذرائع نفس اور مادہ، دونوں تک پہنچنے کے لیے میسر ہیں، اُنھیں حواس کہا جاتا ہے۔ عقل کے لیے اِن کی حیثیت گویا باب العلم کی ہے۔ یہ حواس جس طرح ظاہری ہیں، اُسی طرح باطنی بھی ہیں۔ ظاہری حواس انسان کی عقل کو مادے سے متعلق کرتے اور باطنی نفس کے ساتھ اُس کے ربط و تعلق کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اِس سے جو حقائق انسان کے علم میں آتے ہیں، اُن کے لیے کسی استدلال کی ضرورت نہیں ہوتی، گویا آفتاب آمد دلیل آفتاب۔ اِسی بنا پر اُنھیں وجودی حقائق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ انسان کے علم کی ابتدا اِنھی حقائق کے ادراک سے ہوتی ہے۔
یہ ادراک علم کس طرح بنتا ہے، اِس کی وضاحت ہم اِسی کتاب[*] میں پیچھے ’’علم کی بنیاد‘‘ کے زیرعنوان کرآئے ہیں۔ انسان کی عقل جب اِس علم سے بہرہ یاب ہوتی، اور اِن وجودی حقائق کا ادراک کر لیتی ہے تو اِس سے آگے معلوم سے نامعلوم تک پہنچنے کا سفر شروع کر دیتی ہے۔ اِسی کو استدلال کہا جاتا ہے۔ ادراک کے بعد یہ علم کا دوسرا ذریعہ ہے۔ یہ استدلال جب انسان کی شعوری ساخت میں موجود اضطراری علم کے حقائق کو بناے استدلال بنا کر کیا جاتا ہے تو اِس کا نتیجہ بعض دوسرے حقائق کا وجوب ہے، جیسے اثر ہے تو موثر بھی ہے اور فعل ہے تو فاعل بھی ہے، یا فعل میں جن صفات کا ظہور ہو اہے، وہ فاعل میں بھی لازماً ہونی چاہییں۔ اور جب متخیلہ کی بنا پر کیا جاتا ہے تو علم کی نئی دنیاؤں کے امکانات کا دفتر کھول دیتا ہے۔ علم کے تمام مفروضات، خواہ وہ نفسی علوم ہوں، یا سائنس اور عمرانیات، سب اِسی سے پیدا ہوتےاور رد و قبول کے مراحل سے گزرتے ہیں۔
پھر یہی نہیں، اِس کا حاصل بھی بہت غیرمعمولی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انسان کی عقل جب نفس کے اعماق میں اتری تو ملکۂ بلقیس کا تخت چشم زدن میں یمن سے اٹھا کر یروشلم پہنچا دیا گیا اور مادے کے اعماق میں اتر کر ذروں کا دل چیر لینے میں کامیاب ہوئی تو ہمارے وجود کی شبیہ ایک زندہ وجود کی طرح ہر گھر اور ہر مجلس میں پہنچا دی گئی، یہاں تک کہ ہمارے ہی بنائے ہوئے آلات ہمارے لیے معلم بن کر کھڑے ہو گئے۔
یہ سب ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، مگر نہیں کہا جا سکتا کہ اِس عروس ہزار شیوہ کو ابھی اور کیا کرشمے دکھانے ہیں، جو جلد یا بدیر اِسی طرح منصۂ عالم پر نمودار ہو جائیں گے۔
تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ نفس اور مادے کی اِس دنیا سے آگے بھی اِس کے لیے رسائی کا کوئی امکان ہے۔ ہرگز نہیں، اِس کی جولان گاہ یہی دنیا ہے، جس کے حدود قرآن نے ’اَقْطَارُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ‘ کے الفاظ سے متعین کر دیے ہیں۔ اِس لیے اِس سے آگے نہ ادراک کے لیے کوئی جگہ ہے، نہ استدلال کے لیے۔ نفس اور مادے کی دنیا سے ماورا پرواز کی خواہش ہو تو اِس کے لیے ’سلطان‘ (پروانہ) چاہیے اور وہ صرف خداوند عالم کی بارگاہ ہی سے میسر ہو سکتا ہے:
يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا، لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ، فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ.(الرحمٰن ۵۵: ۳۳ - ۳۴)
’’اے گروہ جن و انس، زمین اور آسمانوں کی سرحدوں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ دیکھو۔ نہیں بھاگ سکتے، اِس کے لیے پروانہ چاہیے۔ پھر تم اپنے رب کی کن کن شانوں کو جھٹلاؤ گے!‘‘
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[*] مقامات۔