امین احسن کا اللہ تعالیٰ کے سا تھ بہت مضبوط تعلق تھا۔دنیا داری ان کی کبھی بھی تر جیح اول نہ تھی۔ملک عبد الرشید صاحب عراقی کے نام ۱۳ ؍مئی ۱۹۸۰ء کو لاہور سے ایک مکتوب میں امین احسن لکھتے ہیں:
’’میر ی کو شش اور تمنا تو صرف یہ ہے کہ کسی طر ح ’والناس‘ تک پہنچ جاؤ ں ۔ اس کے بعد کا کوئی پروگرام سا منے نہیں ہے۔ اب ’فاذا فرغت فانصب والی ربك فار غب‘ پر عمل کر نے کا جی چا ہتا ہے۔ اوراق بہت سیا ہ کئے۔ اب لکھنے کا حو صلہ با قی نہیں رہا۔لو گو ں سے داد حا صل کر نے کی بھی کو ئی خواہش نہیں ہے۔ ‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء،ص ۱۷)
حیات امین احسن میں ایک مقام ایسا بھی آیا کہ جب ان کے دل میں مذہبی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کے لیے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ منکرین خدا کا موقف صحیح ثابت ہوجائے۔صاف گو امین احسن لکھتے ہیں:
’’جب اول اول مجھے اس حقیقت کا شعور ہوا کہ خدا ہے اور ضرور ہے، نیز یہ کہ انسان اس کا انکار نہیں کرسکتا اور اس سے مفر نہیں ہے، تو اس کے ساتھ ہی مجھے اس بات کا بھی ادراک ہوا کہ اس ماننے سے بہت بھاری ذمہ داریاں انسان پر عائد ہو جاتی ہیں ۔ جب کبھی میں ان ذمہ داریوں کے متعلق سوچتا تو ایسا معلوم ہوتا کہ اس کا بوجھ میری کمر توڑ دے گا۔ جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ کچھ فلسفی ایسے بھی ہیں جو خدا کا انکار کرتے ہیں تو واقعہ یہ ہے کہ مجھے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ان کی چیزوں کا بھی مطالعہ کروں ۔ اور صاف طور پر عرض کیے دیتا ہوں کہ بغیر کسی تعصب کے میں نے ان چیزوں کا مطالعہ کرنا چاہا۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ میرے اندر چھپی ہوئی خواہش بھی موجود تھی کہ اگر یہ فلسفی یہ ثابت کردیں کہ خدا نہیں ہے تو میں اس کا خیر مقدم کروں گا اس لیے کہ اس طرح بہت بڑے بوجھ سے نجات مل جائے گی۔ یہ ایک مخفی راز ہے جومیں آپ پر ظاہر کررہا ہوں ۔ ویسے الحمد للہ! مجھ پر الحاد کا کوئی دور نہیں گزرا ہے لیکن مجھ پر ایک ایسا دور ضرور گزرا ہے کہ جب میرے اندر یہ خواہش تھی کہ اگر یہ فلسفی حضرات خدا کا انکار ثابت کردیں اور مجھے مطمئن کر دیں کہ خدا نہیں ہے تو بہرحال ایک اطمینان کا سانس لینے کا موقع ملے گا اور سر سے ایک بھاری بوجھ اتر جائے گا۔ اس خواہش کے تحت میں نے متکلمین کی، دہریوں کی، منکرین کی، ڈارون کی، مارکس کی، فرائڈ کی، غرض کہ ان سب لوگوں کی کتابیں بڑی دلچسپی سے پڑھیں اور بغیر کسی تعصب کے پڑھیں ، لیکن میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ یہ ساری چیزیں پڑھنے کے بعد مجھ پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ یہ سب خرافات ہیں اور بد یہی حقیقت سے انکار کی خواہش ان سے یہ کام کرا رہی ہے،باقی رہ گیا یہ کہ خدا کے انکار کے لیے ان لوگوں کے پاس واقعی کوئی دلیل ہے تو اس کی سرے سے گنجائش ہی نہیں !جو بات یہ پیش کرتے ہیں اس سے ہزار گنا مضبوط اور بدیہی بات وہ ہے جو قرآن حکیم پیش کرتا ہے کہ ایک خدا کو، ایک رب کو، ایک رحمان کو، ایک رحیم کو، ایک علیم کو، ایک خبیر کو، ایک سمیع کو اور ایک بصیر کو مانو! اس بات پر عقل بھی گواہی دیتی ہے اور فطرت بھی گواہی دیتی ہے۔ ظاہر بھی گواہی دیتا ہے اور باطن بھی گواہی دیتا ہے۔ آفاق بھی گواہی دیتے ہیں اور انفس بھی گواہی دیتے ہیں ۔ غرض کہ ایک ایک چیز گواہی دیتی ہے۔‘‘ (مقالات اصلاحی ۲/ ۲۸۷)
خودداری اوربے نیازی امین احسن کی شخصیت کے اہم اوصاف تھے۔اس ضمن میں ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں:
’’کشادہ دست تھے، پس انداز کرنے کی کبھی عادت نہیں رہی، جو پاس ہوتا بے دریغ خرچ کر ڈالتے۔ سائل کو اپنی حیثیت سے زیادہ دیتے تھے۔ حرص و ہوس کا کوئی شائبہ بھی ان میں نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو جن اعلیٰ و برتر مقاصد کے لیے پیدا کیا تھا انھی میں شب و روز منہمک رہتے۔ گھرگرہستی کے کاموں سے کوئی سروکار نہ رکھتے۔ ان کی ضرورتوں کا سامان ان کے عزیز اور احباب مہیا کرتے تھے جن سے کہا کرتے کہ ’أنتم أعلم بأمور دنیاکم‘۔[10]‘‘ (سہ ماہی تدبر،اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۱۴-۱۵)
ابوسفیان اصلاحی لکھتے ہیں:
’’ایک مرتبہ مولانا نے گفتگو کے درمیان بتایا کہ اسی جگہ صدر مرحوم ضیاء الحق تشریف لائے تھے اور انھوں نے مجھ سے یہ کہا کہ ہم لوگوں کی خواہش ہے کہ آپ ہفتہ میں کسی ایک دن ٹی وی پر درس قرآن دیا کریں ۔ میں نے جواب دیا کہ میرے درس کے بعد رقص کا سلسلہ شروع ہو، میں ایسا درس دینے سے قاصر ہوں۔ ضیاء الحق صاحب کے مطالعہ میں ’’تدبر قرآن‘‘ مستقل رہاکرتی تھی۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۸۸)
مدرس قرآن قاضی محمد کفایت اللہ لکھتے ہیں:
’’... ان دنوں مرحوم صدر ایوب خان نے جب مرحومہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں فتح حاصل کرلی تو امام اصلاحی سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ امام اصلاحی نے انھیں ملاقات کا شرف بخشا۔ مولانا کے حوالے سے یہ ملاقات ماضی کے اکابرین ِامت کی اعلیٰ و شاندار روایات کا احیا تھی۔ امام اصلاحی نے اپنے موقر ماہنامہ ’’میثاق‘‘میں تذکرہ و تبصرہ کے عنوان کے تحت جو لکھا تھا اسے پڑھنے سے مرحوم صدر کو یہ خیال ہوا کہ اصلاحی صاحب نے ان کی بالواسطہ تائید فرمائی ہے، حالانکہ مولانا کے ہاں مسئلہ یہ تھا کہ ’’دین کیا ہے اور کیا نہیں ‘‘، اسے واضح کیا جائے۔
صدر مرحوم نے یہ چاہا کہ وہ اس نصرت و تائید کے لیے امام اصلاحی کے ہاں اپنی ممنونیت کا اظہار کرے۔ ملاقات کے دوران میں مرحوم صدر نے یہ عندیہ بھی دیا کہ وہ آپ کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ صدر ایوب کا کیا طنطنہ تھا اور ان کے ایک اشارۂ ابرو سے کس طرح افراد و جماعات کے بناؤ بگاڑ کے نہ صرف فیصلے ہوتے تھے بلکہ وہ فیصلے واقعاتی صورت میں ڈھلتے ہوئے نظر آتے تھے اور مرحوم صدر کے ہاں مخدومیت پانے کے لیے اس وقت کے بڑے بڑے اہل سیاست اور اصحاب ِجبہ و دستار کس کس طرح حیلوں اور بہانوں کی تلاش میں مارے مارے پھرا کرتے تھے۔ لیکن امام اصلاحی نے مالی عدم سازگاریوں کے باوجود جس شانِ استغنا سے مرحوم صدر کی پیش کش کوٹھکرا دیا،وہ آپ جیسے روشن ضمیر اور صاحب دل ہی کا مقام تھا۔آپ کے اس پیش کش کے جواب میں جو کچھ فرمایا وہ رہتی دنیا تک یادگار رہے گا۔ آپ نے فرمایا: جناب صدر، میں نے اپنے ایمانی و اخلاقی فریضے کو انجام دیا ہے۔ میں نے جس چیز کو حق سمجھا ہے اس کا برملا اظہار کردیا ہے۔میں نے اپنی رائے کے اظہار کے دوران میں اس امر کی قطعاً پروا نہیں کی کہ میری اس رائے کے اظہار سے کس کس کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی۔ کون کون اس سے کیا کیا فائدہ اٹھائے گا یا کس کس کو اس سے کون کون سا نقصان ہوگا۔ میں نے تو ایک ایمانی فریضہ سمجھتے ہوئے جو کچھ صحیح سمجھا اس کا اظہار کردیا۔اس سے آپ کو فائدہ پہنچا مجھے معلوم نہیں ۔ یہ ایک فریضہ تھا، جو ادا ہوگیا۔ اس کے بدلے میں آپ سے کوئی خدمت چاہنا یا اسے قبول کرنا، یہ میرے لیے قطعاً روا نہیں ہے۔ میرے نزدیک حق کا اظہار، دین کا تقاضا ہے اور حق کا کتمان، ایمانی جرم۔ میں نے جو کچھ کیا وہ آپ سے کوئی اجر پانے کے لیے نہیں کیا بلکہ میں نے یہ کام اپنے مالک و مولا کی خوشنودی کے حصول کے لیے کیا ہے اور بس۔ البتہ اگر آپ میری کوئی خدمت کرنا ہی چاہتے ہیں تو اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ آپ پاکستان میں عدل و قسط کی اقدار کو رواج دیں ۔ اپنے اہالی و موالی اور اپنے ماتحت اداروں کو عدل و قسط کا پابند بنائیں ۔ قانون و عدل کی حکمرانی کو ایک محسوس حقیقت بنائیں ۔ کتاب اللہ،سنت رسول اللہ اور خلفائے راشدین کے طرز حکمرانی کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر اپنائیں ۔ اپنے ماتحت تمام انتظامی ادارو ں کو ان نمونوں کے مطابق ڈھالنے کی جدوجہد کو تیز سے تیز تر کردیں ۔ اس کے نتیجے میں مجھے گمان ہی نہیں ، یقین ِواثق ہے کہ آپ کا نام بھی پاکستان کی تاریخ میں تا ابد زندہ رہے گااور آپ کا یہ ایسا صدقۂ جاریہ ہوگا جو رہتی دنیا تک پاکستانیوں کے لیے مینار نور کاکام دیتا رہے گا۔ آنے والے پاکستانی حکمران اس مینار نور سے کسب ِضیا کر کے ملک و ملت کی بہتر سے بہتر انداز میں خدمت انجام دیتے رہیں گے۔
مجھے یہ واقعہ ایک نہایت ثقہ بزرگ نے سنایا تھااور انھوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ آپ کی اس ملاقات کے بعد صدر ایوب کئی دنوں تک ارکان کابینہ اور عمائدین سلطنت کے سامنے فخر کے ساتھ اس ملاقات کا ذکر کرتے رہے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے ارد گرد ایسے علماے وقت اور صلحاے سیاست کی کمی نہیں جو ہمارے حق میں بولنے سے بہت پہلے اپنے ہر قول کا تول لگوانے کی سعیِ بلیغ میں مصروف رہتے ہیں ۔ لیکن دوسری طرف ہمارے اس علامہ صاحب کو دیکھو کہ جنھوں نے اپنے رسالے میں ہمارے حق میں علم و حکمت کے دریا بہا دیے اور جب ہم نے انھیں اپنی جانب سے کسی خدمت کی کچھ پیش کش کی تو آپ نے شانِ استغنا کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہماری اس پیش کش کی جانب نگاہِ غلط بھی نہیں ڈالی۔ حالانکہ ہمیں علم ہے کہ ان کا جواں سال بیٹا انہی دنوں اندوہناک حادثے میں وفات پاچکا ہے اور اس وفات کی وجہ سے آپ کے ناتواں کندھوں پر گوناگوں ذمہ داریوں کا بوجھ آن پڑا ہے۔‘‘(ماہنامہ اشراق،جنوری/ فروری ۱۹۹۸ء، ص ۵۱-۵۲)
امین احسن کی مہمان نوازی صرف کھلانے پلانے تک محدود نہ تھی، بلکہ اس کا دائرہ بڑا وسیع تھا۔اس ضمن میں غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’طبیعت میں بڑی تواضع اور بڑی شفقت تھی۔ جن دنوں رحمٰن آباد میں تھے،میں ایک مرتبہ ملنے کے لیے گیا تو رات وہیں ٹھیرا۔ فجر سے کچھ پہلے میں نے محسوس کیا کہ ذرا دور کوئی ہاتھ کے نل سے پانی کی بالٹی بھرتا اور پھر اسے انڈیل دیتا ہے۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ امین احسن ہوں گے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ میری چارپائی کے پاس آئے اور فرمایا: میں نے تازہ پانی نکال دیا ہے، اٹھیے اور وضو کر لیجیے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کہوں اور کیا کروں ۔‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری / فروری ۱۹۹۸ء، ص ۲۶)
جناب سلیم کیانی اس بارے میں بتاتے ہیں:
’’میں سات برس تک ان سے مستفیض ہوا۔ اس دوران میں میں نے مولانا اصلاحی کو انتہائی حساس، بامروت، ہمدرد، شفیق، بے تکلف لیکن دلیل کو ماننے والا، گرم جوش محبت کرنے والا پایا۔ جو بھی ان سے ملنے آتا یہ محسوس کرتا کہ مولانا اس کو اہمیت دے رہے ہیں اور پوری توجہ اس پر صرف کر رہے ہیں۔ نہ تو وہ لوگوں کو گُھرکتے[ڈانٹنا۔ دھتکارنا۔ تنبیہ کے لیے سخت آواز سے بولنا]اور نہ ہی انھیں بے وقعت سمجھتے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۲۷)
محترم ابوسفیان اصلاحی نے لکھا:
’’میں لاہور آنے کی جب انھیں اطلاع دیتا تو وہ کسی نہ کسی کو اسٹیشن بھیج کر اپنی کار سے مجھے منگواتے اور فرماتے کہ یہ تمھارا کمرا ہے اور یہ تمھارے لیے کار ہے۔ تم جہاں چاہو آ جا سکتے ہو۔ ا کثر ہوا کہ کئی کئی روز مولانا کی خدمت میں قیام رہا ... ایک مرتبہ لاہور آنے کی اطلاع میں نے مولانا کو بھی دی اور ساتھ ہی ساتھ مدیر نقوش محمد طفیل صاحب کو بھی۔ جاوید صاحب مجھے اپنے گھر لے کر چلے گئے۔ شام کو جب جاوید صاحب کے ایک عزیز کے ساتھ مولانا سے ملنے گیا تو ان سے فرمایا: ’’آپ میرے مہمان کو اغوا کر کے لے گئے ‘‘ اس جملہ سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کس قدر مہمان نواز تھے اور چھوٹوں سے کتنا مشفقانہ برتاؤ کیا کرتے تھے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۸۷- ۸۸)
ایک خاتون کوشک پڑ گیا کہ ان پر جادو کیا گیا ہے توامین احسن نے انھیں ایک نصیحت کی۔ غور کریں ، اس خاتون کو گھر میں برکت کے لیے نمازاور تعوذ کے بعدکس بات کی نصیحت کررہے ہیں:
’’ان کو میری طرف سے پیغام دیجئے کہ جادو وغیرہ کا وہم اپنے ذہن سے نکال دیں ۔ اس قسم کے اوہام جاہلوں کے اندر ہوتے ہیں ۔ ان جیسی تعلیم یافتہ خاتون کی شان کے یہ بالکل خلاف ہے کہ وہ کسی جاہلانہ وہم میں مبتلا ہوں ۔ اگر ان کو میرے علم پر اطمینان ہے تومیں ان کو یہ اطمینان دلاتا ہوں کہ یہ محض ایک شیطانی وسوسہ ہے جس میں مبتلا ہونا ایمان کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی شیطانی عمل کسی پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ اور شیطانی اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے نماز کی پابندی اور تعوذ کافی ہے۔
دوسری بات ان کو یہ پہنچائیے کہ دروازے پر جو مہمان بھی آئے، جس وقت بھی آئے، خوش دلی کے ساتھ اس کا خیر مقدم اور حسب توفیق اس کی تواضع ایک اسلامی ذمہ داری ہے، اور اس ذمہ داری کو حسن و خوبی کے ساتھ ادا کرنا اصلاً گھر کی مالکہ کا کام ہے۔ اگر اس میں ادنیٰ کوتاہی بھی ہو تو اس سے میاں بیوی بلکہ پورے خاندان کی عزت خاک میں مل جاتی ہے اور ساتھ ہی گھر کی برکت بھی اٹھ جاتی ہے۔ مہمانوں کے درمیان یہ تفریق بالکل ناجائز ہے کہ وہ بیوی کا مہمان ہے یا شوہر کا۔ ہر مہمان پورے گھر کا مہمان ہوتا ہے اور خاطر مدارت کی ذمہ داری، جیسا کہ میں نے عرض کیا، گھر کی مالکہ پر ہوتی ہے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۲۷)
پڑھنے لکھنے کا ذوق تو ہر عالم فاضل شخصیت کے ہاں ہوتاہی ہے،مگر امین احسن اس معاملے میں بھی منفرد مقام رکھتے تھے۔ ڈاکٹر زاہد منیرعامر اس وصف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مولانا اصلاحی کا کتب خانہ دیکھنے کا اشتیاق تھا۔ اب جو مولانا سے ملاقات ہوئی اور وہ بہت شفقت اور محبت سے پیش آئے تو ہمت کر کے اس اشتیاق کا اظہار کر دیا۔ مولانا نے جواب میں بتایا: میرے پاس تو کوئی کتب خانہ نہیں ۔ مجھے کچھ حیرت ہوئی۔ مولانا فرمانے لگے: میرے پاس (ایک مرتبہ پہلے) ایک صاحب آئے تھے انھیں گمان تھا کہ اصلاحی کے پاس تو بہت بڑا کتب خانہ ہو گا۔ میں نے انھیں بتایا کہ دو الماریاں ، جن میں چند کتابیں ہیں اور بس۔ دراصل ہم نے اپنے استاد سے یہ بات سیکھی کہ ’’کیا پڑھنا ہے‘‘۔ آپ سارا رطب و یابس پڑھنے کی بجائے منتخب چیزیں پڑھیں ۔ سب کچھ نہیں پڑھنا چاہیے۔ پھر ایک واقعہ سنایا کہ مجھے ایک صاحب ایک لائبریری میں لے گئے اور بتانے لگے کہ اس لائبریری میں بتیس ہزار (۳۲۰۰۰) کتابیں ہیں ۔ میں نے ان سے کہا ان میں پڑھنے کی تو چند ایک ہی ہوں گی۔
میں نے عرض کیا، لیکن تفسیر لکھتے ہوئے تو آپ کو بہت سی کتب فراہم کرنا پڑی ہوں گی؟ اس کے جواب میں مولانا نے بتایا:تفسیریں اصل میں تین ہیں ۔ باقی سب ان تفسیروں کی تفسیریں ہیں ۔ (میں نے ان تفسیروں کے نام جاننا چاہے تو مولانا نے فرمایا: ’’اسے چھوڑیں اس سے بحث چھڑ جائے گی‘‘) اسی طرح حدیث کی بھی اصل میں دو یا تین کتابیں ہیں ۔ آگے سب تشریح در تشریح ہے۔ میں نے تفسیر لکھتے وقت اصل چیزوں کو پڑھا، باقی کو چھوڑ دیا۔
میرا اگلا سوال ادب کے بحر ناپیدا کنار کی غواصی سے متعلق تھا، اس کے جواب میں مولانا نے بتایا کہ تفسیر لکھنے کے دوران میں جتنی مقدار میں عربی ادب سے واقفیت ضروری تھی وہ تو سارا پڑھا لیکن بعض جاہلی شعراء کا کلام جس کی تفسیر کے لیے ضرورت نہیں تھی چھوڑتا رہا۔ وہ اب پڑھا ہے۔ اب بعض شعراء کو (جن کے مولانا نے اس وقت نام بھی بتائے) مکمل پڑھا ہے لیکن تفسیر کا کام مکمل کر لینے کے بعد۔
...نماز کے بعد ہم مولاناسے کسی نصیحت کے خواہاں ہوئے۔ مولانا، انتخاب سے پڑھنے کی اہمیت پہلے واضح کر چکے تھے، اب انھوں نے انتخاب سے لکھنے کی ضرورت کو زور دیا اور اس میں بھی سند اپنے استاد سے لائے، فرمانے لگے: مولانا فراہی بہت زیادہ لکھنے کو دوسروں کا وقت ضائع کرنے سے تعبیر کرتے تھے اور کہا کرتے تھے: ’’ہمیں کسی کا وقت ضائع کرنے کا کوئی حق نہیں ۔‘‘ میں یہ کہتا ہوں ’’یونہی کاغذ سیاہ کرنے کا کیا فائدہ... ‘‘ انسان کو بہت سوچ سمجھ کر اور انتخاب سے لکھنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ ہمیشہ طالب علم کی زندگی گزارے۔ ہمیشہ طالب علم رہو، طالب علم رہنے سے ہی کچھ حاصل ہوتا ہے، سب سے اچھی حیثیت طالب علم کی ہے۔ مولانا فراہی اپنے کتب پر ’’المعلم فراہی‘‘ لکھتے تھے، میں نے اپنی کتب پر ہمیشہ ’’المتعلم اصلاحی‘‘ لکھا۔
طالب علم رہنے کی ضرورت پر مزید زور دیتے ہوئے فرمانے لگے: آج کل علم کم یاب ہو گیا ہے۔ لوگوں کی تحریریں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے کچھ نہیں پڑھا۔ سطحی سی معلومات ہیں ۔ مختلف مسالک کے لوگ اپنے مسلک کے ایک دو نام ور علما کی کتابیں پڑھ لیتے ہیں اور بس … فتاویٰ کی کتابیں چھپ گئی ہیں ۔ انھی سے سارا دین سمجھ لیا جاتا ہے۔ اللہ اللہ خیر خیر صلا، اخبارات انھی کو علامہ بنا دیتے ہیں … دین کی صحیح فہم براہ راست حاصل نہیں کرتے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر،اپریل ۱۹۹۸ء، ص۶۲-۶۴)
ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں:
’’ وہ مدرستہ الاصلاح کے گل سر سبدتھے ہی، حق یہ ہے کہ پورے برصغیر میں اس پایہ کے عالم، خطیب اور مصنف کم ہی لوگ ہوں گے۔ان کی کتابوں کی تعداد بعض مصنفین کے مولفات و رسائل کی طرح چاہے سینکڑوں نہ ہو لیکن جن لوگوں کی کمیت کے بجائے کیفیت پر بھی نظر رہتی ہے وہ یہی کہیں گے:
بغاث الطیر أکثر ھا فراخا
و ام الصقر مقلاہ نزور‘‘[11]
(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۱۵)
جناب عبدالحمید برایشق کاتعلق ترکی سے ہے۔انھوں نے اردو تفاسیر پر تحقیقی کام کیا ہے۔ وہ ’’تدبر قرآن‘‘ کے ضمن میں امین احسن سے ملے۔اس ملاقات کی روداد بیان کرتے ہوئے انھوں نے ان کے کچھ شخصی اوصاف پر بھی لکھا:
’’جنوری۱۹۹۴ء میں تفسیر پر گفتگو کرنے کے لیے مولانا سے ان کی قیام گاہ پر ملنے جاتا رہا۔ اس وقت مولانا بہت مشکل سے سنتے تھے۔ لہٰذا میں نے سوالات لکھ کر کیے اور مولانا نے بڑی تفصیل سے ان کے جوابات دیے۔ یہ جوابات مدلل بھی تھے، معقول بھی اور معتدل بھی۔ بیک وقت یہ تین چیزیں برصغیر پاک و ہند کے علما میں مشکل ہی سے جمع ہوتی ہیں ۔ مولانا کے اس پہلو نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ میں ان کی کتابیں اپنے ساتھ ترکی لایا اور ان کو بڑے غور سے پڑھا۔ میں نے دیکھا کہ اعتدال ہی ان کا اصل مزاج اور سرمایہ ہے اور وہ اپنی بات نہایت مدلل طور پر پیش کرتے ہیں ۔
میرے خیال میں عالم اسلام کے مسلمانوں کا عموماً اور برصغیر کے مسلمانوں کا خصوصاً ایک اہم مسئلہ فرقہ بندی ہے۔ اپنے فرقہ کی خاطر لوگ صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح بتا دیتے ہیں ۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک فرقہ یا جماعت کی بزرگ شخصیات اپنے فرقہ کے لیے بت بن جاتی ہیں اور اس فرقہ کے علما اور پڑھے لکھے اشخاص اپنا وقت ان کے فضائل لکھنے میں ضائع کر دیتے ہیں ۔ ہر جماعت دوسری جماعت کے ساتھ اس بارہ میں مقابلہ اور مسابقت کرتی ہے۔ وہ اپنے بزرگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ شان دار الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔ یہ طرز عمل کسی طرح بھی صحیح نہیں قرار دیا جا سکتا۔ جماعت کا وجود اور جماعت کے بزرگوں کا احترام ہونا ایک اچھی بات ہے، لیکن اس میں ایک توازن اور مدح کی ایک حد ہونی چاہیے۔ مولانا اصلاحی کے اندر میں نے اس توازن اور اعتدال کا مشاہدہ کیا۔ وہ کہیں کہیں اپنی علمی تحقیق کی رو سے اپنے استاذ یا کسی قریبی دوست سے بھی اختلاف رائے کا اظہار کر دیتے۔ اگر برصغیر کے تمام علما میں یہ خصوصیت پیدا ہو جائے تو معاشرہ میں ان کا مرتبہ اور مقام بے حد اونچا ہو سکتا ہے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۹۱)
عام طور پر روایتی علما حکومتی مناصب حاصل کرنے کے لیے خود کوششیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ،مگر امین احسن اس معاملے میں بھی سب سے الگ دکھائی دیتے ہیں ۔حکومتی مناصب چل کر ان کے پاس آتے تھے، مگر وہ انھیں ٹھکرا دیتے تھے۔
۱۹۵۶ء میں حکومت نے ملکی آئین کے تقاضے کے تحت ایک اسلامک لاء کمیشن قائم کیا۔ امین احسن کو بھی اس کا رکن بنایا گیا۔دو سا ل گزر گئے،مگر کمیشن کام نہ کرسکا۔ بالآخر جنرل محمدایوب خان کے مارشل لاء نے اسے ختم ہی کردیا۔اس تجربے سے امین احسن اس نتیجے پر پہنچے کہ حکومت اسلامی قانون کے نفاذ میں مخلص نہیں۔ ایسے ادارے قائم کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کوئی کام ڈھنگ سے نہ ہو سکے اور مختلف سوچ رکھنے والے ارکان آپس میں چونچیں لڑاتے رہیں ۔یہ محض دفع الوقتی اور لوگوں کوخاموش کرانے کے لیے ہوتا ہے۔ چنا نچہ اس کے بعد امین احسن نے ایسی ہر پیشکش کو ٹھکرادیا۔
دور ایوب میں حکومت میں مخالف پارٹیوں نے مل کر مس فاطمہ جناح کو صدارت کے لیے نامزد کیا۔ جماعت اسلامی نے اس نامزدگی کی حمایت کی اور اس کے حق میں لٹریچر تیار کیا۔ امین احسن نے اس نامزدگی کی سخت مخالفت کی اور جماعت کے موقف کے تار و پود بکھیر دیے۔ یہ مضامین ’’میثاق‘‘ میں شائع ہوئے۔ظاہر ہے کہ یہ مضامین بالواسطہ طریقے سے ایوب خان کے حق میں جاتے تھے، اس لیے حکومت نے انھیں اپنے اہتمام میں شائع کر کے ملک کے کونے کونے میں پہنچا دیا۔ایوب خان صدر منتخب ہو گئے۔ جب لاہور آئے تو گورنرہاؤس میں امین احسن سے ملاقات کی۔ ان کا شکریہ ادا کیا کہ ان کی تحریروں کا انھیں بڑا فائدہ ہوا ہے۔اس کے بعد انھوں نے پیش کش کی کہ مولانا، پبلک میں آئیں ۔حکومت ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائے گی ا وران کی پسند کے میدان میں ان کو کسی اہم منصب پر فائز کرے گی۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ ان دنوں امین احسن شدید مالی مشکلات میں گھرے ہوئے تھے، مگراس کے باوجودانھوں نے صدرپاکستان کویہ جواب دیا:
’’مضامین میں نے آپ کی حمایت میں نہیں لکھے بلکہ عورت کی سربراہی کے بارے میں دینی موقف کی وضاحت کے لیے لکھے ہیں ۔اس کے علاوہ جو کام اس وقت کررہاہوں وہ میری زندگی کا مشن ہے۔اس میں، میں کسی چیز کو رکاوٹ بننے نہیں دینا چاہتا۔لہٰذا شکریہ کے ساتھ آپ کی پیشکش قبول کرنے سے معذرت چاہتا ہوں۔‘‘
جون ۱۹۷۲ء کی بات ہے۔ ان دنو ں امین احسن اپنی بیماری سے اٹھے تھے۔ایک شخص ملنے آیا۔ امین احسن سے ملکی سیاست کے بارے میں پوچھا۔امین احسن نے جواب دیا:
’’میں نے چھ ماہ سے اخبار کو ہاتھ نہیں لگایا۔ اخبار کی سرخیا ں اب دیکھنے لگاہوں ۔ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم ایک بڑے بحران کے دروازے پر کھڑے ہیں ۔‘‘
وہ شخص بولا:
’’ عوامی حکومت اس بحران کامقابلہ کررہی ہے۔‘‘
پھر اس شخص نے اپنے اصل مقصد کی طرف بڑھناشروع کیا۔ شاید وہ امین احسن کے حالات سے واقف تھا۔ اس نے ان کے مصارف اور وسائل کے بارے میں پوچھا۔امین احسن نے کہا:
’’مہنگائی کازمانہ ہے، مصارف کافی زیادہ ہوتے ہیں ، لیکن خدا دیتا ہے، اسی پر بھروسا ہے۔‘‘
’’آپ جیسے لوگوں کی سر پرستی حکومت بھی کرتی ہے۔‘‘
اس شخص نے امین احسن کو آسان آدمی سمجھا۔امین احسن نے جواب دیا۔
’’کرتی ہوگی، لیکن میں نے کبھی کسی حکومت کاساتھ نہیں دیا۔ہر حکومت پر تنقید کرتا ہوں ۔ کسی کو کیا پڑی ہے کہ ایسے شخص کی سرپرستی کرے۔‘‘
وہ شحص بھی آسانی سے شکست تسلیم کرنے والا نہ تھا۔ بولا:
’’آپ خود اس کے لیے درخواست نہ بھی کریں تو دوسرے لوگ آپ کے لیے تگ و دو کرسکتے ہیں ۔‘‘
امین احسن بھی امین احسن تھے۔ انھوں نے جواب دیا:
’’یہ حرکت وہی شخص کر سکتا ہے جو مجھ سے واقف نہ ہو۔میرے لیے اس سے بڑھ کر کوئی توہین نہیں ہوسکتی۔ حکومتوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ان کے خوشامدیوں اور وظیفہ خواروں کے ہاتھوں آج تک کون سا کارنامہ انجام پا یا ہے۔‘‘
اس پر وہ شخص اجازت لے کر چلا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا دور حکومت تھا۔ان دنوں امین احسن رحمٰن آباد میں تھے۔ضلع کے ڈپٹی کمشنر ان کے پاس آئے اوربتایا:
’’ حکومت آپ کی دینی خدمات کے صلے میں سول ایوارڈ دینا چاہتی ہے۔اس بارے میں آپ کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ ‘‘
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صاحب بھی امین احسن سے کچھ واقف تھے، مگر کچھ ہی واقف تھے زیادہ نہیں، امین احسن نے یہ پیشکش شکریہ کے ساتھ مسترد کر دی اورکہا:
’’ میں نے جو کچھ کیا ہے، اپنا فرض سمجھ کر کیا ہے، ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے نہیں ۔میں اس کا اجر اپنے رب سے چاہتا ہوں ۔‘‘
اگست ۱۹۷۷ء کی بات ہے۔مولانا ظفر احمدانصاری مرحوم جنر ل ضیاء الحق کی طرف سے آپ کو مشاورتی کونسل کی رکنیت پر آمادہ کرنے کے لیے آئے۔امین احسن نے کہا:
’’ میں تین اسباب کی بنا پر رکن بننا پسند نہیں کرتا۔ ایک یہ کہ مجھے ثقل سماعت کاعارضہ ہے۔ میں جب کسی کی سن نہیں سکتا تو مجھے سنانے کا بھی حق نہیں ۔دوسرے یہ کہ میں ہمہ تن تفسیر لکھنے میں مصروف ہوں ،کسی دوسر ی چیز کی طرف توجہ دوں گا، تفسیر لکھنے کا کام متاثر ہو گا جو مجھے قطعاً گوارا نہیں ۔ تیسرے یہ کہ جنر ل صاحب تین ماہ کے لیے حکومت سنبھال رہے ہیں تو اس طرح کے طول طویل کاموں میں کیوں پڑ نا چاہتے ہیں۔ میر ے نزدیک ان کایہ اقدام مناسب نہیں ۔‘‘
جنرل ضیاء الحق نے جب اپنی حکومت مستحکم کر لی تو امین احسن کے پاس ملنے کے لیے آئے اور پیش کش کی کہ وہ ان کی ضروریات پوری کرنا اپنی سعادت سمجھیں گے۔امین احسن کا جواب تھا:
’’میں ایک درویش آدمی ہوں ۔ میری کوئی ضرورت نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر سہولت دے رکھی ہے اور میں نہایت اطمینان سے زندگی بسرکر رہاہوں ۔‘‘
اردو تفاسیر پر کام کرنے والے ترکی کے محقق جناب عبد الحمید برایشق نے امین احسن کے اس وصف کے بارے میں لکھا:
’’صحیح اسلامی معاشر ے میں علم اور عالم کا رتبہ بہت اونچا ہے۔ ’ربة العلم العی الرتب‘۔ عالم کو کسی دنیوی منفعت کے لیے اس کی بے قدری کرنے کا حق حاصل نہیں ۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو ’اشتروا بآیت اللّٰه ثمنا قلیلا‘ (وہ اللہ کی آیات کا حقیر پونجی کے عوض سودا کرتے ہیں ) کا مصداق بن جاتا ہے۔ جب میں پاکستان میں تھا تو اس دوران حکومت چار مرتبہ تبدیل ہوئی۔ ان تبدیلیوں میں کچھ بڑے بڑے عالموں نے معمولی منفعت کی خاطر ایسے لوگوں کا ساتھ دیا جن سے ملک، ملت اور دین اسلام کو کبھی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ مجھے معلوم ہوا کہ مولانا اصلاحی نے اس طرح کی کمزوری بھی کبھی نہیں دکھائی۔ میری معلومات کے مطابق جماعت اسلامی سے ان کی علیحدگی نظم جماعت میں مشاورت کے اصول پر ہوئی۔ جب ایک معاشرہ مشاورت کو حقیقی اہمیت نہ دے تو وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۹۱)
سردار محمد اجمل لغاری کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’امید ہے کہ آپ اور جملہ متعلقین بہمہ وجوہ بالکل بعافیت ہوں گے۔ عرصہ سے آپ کی خیریت نہیں معلوم ہوئی۔ کبھی کبھی دو حرف لکھا دیا کریں تو کیا گناہ ہو !
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
ہم کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو!
میں الحمد للہ اچھا ہوں اور برابر اپنے کام میں مصروف۔ تدبر قرآن کی چوتھی جلد مکمل کر کے ڈاکٹر صاحب کے حوالہ کر دی۔ اب پانچویں پر کام کر رہا ہوں ۔ اس وقت تفسیر سورۂ نمل زیر قلم ہے۔
حکومت کی طرف سے برابر باصرار یہ خواہش ہے کہ مشاورتی کونسل کی رکنیت منظور کر لوں لیکن میں نے بوجوہ گوناگوں معذرت کر دی ہے۔ اگر آپ کو کوئی اس بیچ میں ڈالے تو براہ کرم آپ بھی معذرت کر دیجیے گا۔ میں نے یہ اس لیے عرض کیا ہے کہ بعض وجوہ سے اس کا امکان ہے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ص ۹۴)
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ