[جناب جاوید احمد غامدی کی تحریروں، آڈیوز اور ویڈیوز سے اخذ و استفادہ پر مبنی سوال و جواب]
سوال: کیا دین اسلام امن و سلامتی کا دین ہے؟
جواب: اسلام کا تعارف اگر ایک لفظ میں کرایا جائے تو اطمینان کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ امن اور سلامتی کا دین ہے۔ اس میں دنیا کو جس چیز کی دعوت دی گئی ہے، وہ اس کے سوا کچھ نہیں تھی کہ اللہ کے پیغمبر لوگوں کو امن اور سلامتی کی طرف بلاتے ہیں۔ اسلام کا فلسفہ و حکمت اور قانون و شریعت، دونوں کےبارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ ’سُبُلُ السَّلَام‘، یعنی سلامتی کے راستے ہیں (المائدہ۵: ۱۶)۔ دنیا و آخرت، دونوں کے اعتبار سے اسلام کا فلسفہ و حکمت ہو یا اس کا قانون و شریعت، دونوں اصل میں انسان کی سلامتی کی ضمانت دیتے ، اسے سلامتی کا راستہ دکھاتے اور سلامتی کی طرف بلاتے ہیں۔
چنانچہ اس دنیا کے بعد قرآن مجید جس ابدی دنیا کی خبر دیتا ہے، اس کے لیے بھی قرآن مجید ’دَارُالسَّلَام‘ ہی کی تعبیر استعمال کرتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات متعدد مقامات میں ارشاد فرمائی ہے کہ وہ دنیا جو بعد میں وجود میں آنے والی ہے، وہ ایک ابدی دنیا ہے اور جو تمھیں دنیاوی اعمال کے نتیجے میں ملنے والی ہے، وہ سلامتی کا گھر ہے:
لَهُمْ دَارُ السَّلٰمِ عِنْدَ رَبِّهِمْ.(الانعام۶: ۱۲۷)
’’ اُن کے پروردگار کے ہاں اُن کے لیے سلامتی کا گھر ہے۔‘‘
وَاللّٰهُ يَدْعُوْ٘ا اِلٰي دَارِ السَّلٰمِ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ. (یونس۱۰: ۲۵)
’’اور اللہ تمھیں سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور اِس کے لیے جس کو چاہتا ہے، (اپنے قانون کے مطابق)، سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔‘‘
یعنی اللہ تمھیں سلامتی کےاس گھر کی دعوت دیتا اور اس کی طرف بلاتا ہے۔ ہم مسلمان ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو شعار کے طور پر جس لفظ اور تعبیر کو اختیار کیا گیا ہے، وہ ’السلام علیکم ‘ہے، یعنی تم پر سلامتی ہو۔ اسلام نے یہ اپنے لیے ایک شعار مقرر کر دیا ہے۔ یہ چیز اسلامی معاشرت کا ایسا ناگزیر حصہ بن گئی ہے کہ گویا ہر مسلمان، ہر ملاقات کے موقع پر، ہر شخص سے بات کرتے ہوئے اس کو سلامتی کی دعا دیتا ہے۔ یہ سلامتی کی دعا دنیا کے اعتبار سے بھی ہے اور آخرت کے اعتبار سے بھی۔ یہی وجہ ہے کہ امن اور سلامتی اسلام کے لیے شعار، تعارف اور حقیقت بن کر رہ گئے ہیں۔ قرآن مجید نے دین کا جو فلسفہ و حکمت اور قانون و شریعت پیش کیا ہے، اس پر بھی نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب مواقع جو دنیا میں فساد پیدا کر سکتے ہیں، جس سے امن کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اور جس سے دنیا محبت کے بجاے نفرت میں مبتلا ہو سکتی ہے، وہ ان کو ختم کر دیتا ہے۔ اس کا ایک ایک قدم اسی راہ میں اٹھایا گیا ہے۔
چنانچہ دنیا میں انسان نے مفادات سے اوپر اٹھ کر جب بھی کبھی اس کائنات کےمعاملات کو حل کرنا چاہا تو اس کے راستے میں بڑی رکاوٹ رنگ، نسل اور قوموں کا تفاوت آ گیا ۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ قرآن مجید نے جو فلسفہ دیا، اس کی بنیاد ہی یہ تھی کہ انسان ایک ہی آدم و حوا کی اولاد ہیں(الاعراف۷: ۱۸۹)۔ اس طرح گویا عالمی اخوت کی بنیاد رکھ دی گئی، یعنی اس دنیا میں کوئی انسان رنگ ونسل کے اعتبار سے یا سادہ لفظوں میں، اپنی خلقت کے اعتبار سے کسی پر کوئی فضیلت اور برتری نہیں رکھتا۔ چنانچہ یہی وہ چیز ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں واضح کیا اور وہ لافانی الفاظ آپ کی زبان مبارک سے نکلے جس میں آپ نے یہ فرمایا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کسی نوعیت کی کوئی فضیلت نہیں ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ إِلَّا بِالتَّقْوَى. (احمد، رقم ۲۳۴۸۹)
”لوگو، تمھارا رب ایک ہے اور تمھارا باپ بھی ایک ہے۔ آگاہ ہو جاؤ، کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ رنگ والے کو کالے رنگ والے پر اور کسی سیاہ رنگ والے کو سرخ رنگ والے پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں، مگر تقویٰ کے ساتھ۔‘‘
گویا انسانوں کے درمیان تصادم کو اپنی اصل اور بنیاد ہی سے ختم کر دیا۔ اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان جب کسی مذہب یا نقطۂ نظر کو اختیار کرتا ہے تو اس میں بھی اس کے کچھ تعلقات و روابط وجود میں آتے ہیں۔ قرآن مجید میں اس کے لیے بھی ’اخوت‘ (بھائی چارہ) کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ.(الحجرات۴۹: ۱۰)
’’ایمان والے تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘
یعنی مسلمان آپس میں دینی اعتبار سے بھی ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ:
اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ.(الحجرات۴۹: ۱۳)
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘
اللہ کے نزدیک انسان کو فضیلت اور برتری کسی قبیلے، قوم، رنگ اور نسل کی بنیاد پر حاصل نہیں ہوتی، بلکہ تقویٰ ، اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے تعلق اور اس کے اخلاقی وجود کے تزکیے کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا تصادم کی گویا بنیاد ہی منہدم کر کے رکھ دی ہے۔ انسان جن بنیادوں پر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے ، تفوق و برتری کا اظہار کرتے اور دنیا کو فساد کی آماج گاہ بناتے تھے، فلسفے کی سطح پر اس کا خاتمہ کر دیا گیا۔
اس سے آگے بڑھ کر جب ہم شریعت کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قدم قدم پر امن و سلامتی اور محبت کا یہی پیغام ہے، جو اس کی روح میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ دین کی دعوت کو دیکھیں تو دنیا میں جب کوئی مذہب اپنے آپ کو اعلیٰ سمجھتا اور دوسروں پر اپنی بات واضح کرنا چاہتا ہے تو بالعموم اس میں تحکم، دھونس اور دوسروں پر اپنا نقطۂ نظر مسلط کرنے کا جذبہ شامل ہو جاتا ہے، لیکن جب قرآن مجید نے دعوت کا طریق کار بتایا تو یہ فرمایا کہ:
اُدْعُ اِلٰي سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ. (النحل۱۶: ۱۲۵)
’’تم، (اے پیغمبر)، اپنے پروردگار کے راستے کی طرف دعوت دیتے رہو حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ، اور اِن کے ساتھ اُس طریقے سے بحث کرو جو پسندیدہ ہے۔‘‘
یعنی اللہ کی راہ کی طرف بلاؤ ، لیکن حکمت کے ساتھ، دانائی کے ساتھ، اچھی نصیحت کے اسلوب میں اور اگر کسی موقع پر کوئی ایسی چیز پیش آ جائے جو تمھارے لیے بحث و مباحثے کا موضوع بن رہی ہو تو اچھے طریقے سے بحث و مباحثہ کرو۔ پھر بطور اصول یہ کہا کہ اس دنیا میں بات چیت اور گفتگو کا جو طریقہ اختیار کرنا ہے، وہ احسن طریقہ ہونا چاہیے، یعنی دوسرا آدمی اعتراض کرے اور اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہوئے اپنے حدود سے تجاوز کرے، تب بھی اس کی برائی کا جواب اچھے اسلوب میں دیا جانا چاہیے تاکہ امن اور محبت کی فضا قائم رہے۔ یہی فضا ہے جس میں درست طریقے سے دوسروں تک دین بھی پہنچایا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ جب تم محبت اور حکمت کے ساتھ اپنی بات کہو گے ، رد عمل کی نفسیات سے اوپر اٹھ کر جواب دو گے، دوسرے کی برائی کے مقابلے میں اچھائی کا رویہ اختیار کرو گے، اپنے آپ کو اشتعال سے بچاؤ گے اور شیطان کی دراندازی کے موقع پر اللہ کی پناہ چاہو گے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جس شخص اور تمھارے درمیان دشمنی ہے، وہاں بھی تم دیکھو گے کہ بڑی خوبی کے ساتھ دوستی کے جذبات وجود پذیر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
معلوم ہوا کہ دین کی دعوت جو اپنے اندر ایک جذباتی پہلو بھی رکھتی ہے کہ ایک شخص اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے اور دوسروں کو بتانا چاہتا ہے، اس میں بھی قرآن مجید نے امن اور سلامتی کا طریقہ اختیار کیا۔ جو رد عمل انسان کو پیش آتا ہے، اس میں بھی جس چیز کی تعلیم دی، وہ تعلیم قرآن مجید اپنی مخصوص اصطلاح ’صبر‘ میں ادا کرتا ہے اور یہ فرمایا کہ اگر کسی موقع پر دوسرا شخص تم کو اشتعال میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے یا تمھارے خلاف کسی زیادتی کا ارتکاب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ صبر کرنےوالوں کو پسند کرتا ہے۔
انسانی جان کی قدر وقیمت کے بارے میں بھی جو بات قرآن مجید نے کہی، وہ دنیا کے سارے الہامی لٹریچر میں تو کیا دنیا کے سارے قانونی لٹریچر میں بھی اپنے اسلوب کے اعتبار سے انتہائی نادر اور انتہائی بے مثل بات ہے۔ قرآن مجید نے وہ واقعہ بیان کیا ہے کہ جب انسان اپنے جذبات سے مغلوب ہوا اور اس نے پہلے قتل کا ارتکاب کیا۔ چنانچہ یہ واقعہ سیدنا آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کےدرمیان پیش آیا۔ تبصرہ کرتے ہوئے قرآن مجید نے کہا کہ یہی واقعہ تھا جس کے نتیجے میں ہم نے اپنی شریعت میں یہ بات ثبت کر دی کہ:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًاۣ بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًاﵧ وَمَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَا٘ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا. (المائدہ۵: ۳۲)
’’جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا، اِس کے بغیر کہ اُس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں کوئی فساد برپا کیا ہو تو اُس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک انسان کو زندگی بخشی، اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔‘‘
جس شخص نے کسی کی جان لے لی اور اس کے بغیر جان لے لی کہ اس نے کسی کی جان لی تھی یا زمین میں فساد برپا کیا تھا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو ختم کر دیا۔ یہاں یہ ’فساد‘ کا لفظ بھی قابل غور ہے، یعنی بد امنی ، محبت کا انقطاع اور آپس کی نفرت۔ اس کو قرآن مجید انسانی جان کے مقابلے میں قیمتی چیز قرار دے رہا ہے۔ یہ ختم ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پھر ہر چیز ختم ہو کر رہ جائے گی۔ بدامنی اور فساد کسی حال میں بھی گوارا نہیں کیے جاسکتے ۔ امن ہر حال میں مطلوب ہے اور اسی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چنانچہ یہ فرمایا ہے کہ اگر اس نے کسی کی جان نہیں لی ہے اور اس کو قتل کر دیا گیا یا اس کی جان لے لی گئی تو گویا اب پوری انسانیت کی جان لے لی گئی۔ اور یہ فرمایا کہ کسی ایک انسان کی زندگی کا سامان کر دیا گیا تو گویا پوری انسانیت کی زندگی کا سامان کر دیا گیا، یعنی قرآن مجید کے نزدیک انسانی جان کی یہ قدر و قیمت ہے۔ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہاں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ جس نے کسی مسلمان کو قتل کیا، بلکہ یہ الفاظ ہیں کہ ’مَنْ قَتَلَ نَفْسًا‘، یعنی کسی انسانی جان کو قتل کر دیا۔ انسانی جان کی یہی اہمیت ہے جس کےپیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری خطبے میں یہ بات بڑی صراحت کے ساتھ فرمائی کہ لوگو، تمھاری عزت، تمھاری جان اور تمھارا مال ایسی ہی حرمت رکھتے ہیں، جیسی حرمت یہ بیت اللہ ، یہ شہر مکہ اور یہ ذوالحج کے ایام رکھتے ہیں، جن میں تم حج کرنےکے لیے آتے ہو۔ گویا مذہبی تقدس کی جتنی چیزیں آخر ی درجے میں ہو سکتی تھیں، ان کی مثال دے کر یہ واضح کر دیا کہ جو حرمت و تقدس ان کو حاصل ہے، جیسا احترام ان کا ہونا چاہیے، جس طرح ان کے معاملے میں آدمی کو محتاط ہونا چاہیے، اسی طرح انسانی جان کے بارے میں بھی محتاط رہنا چاہیے۔
مسلمانوں کے باہمی معاملات میں یہ اصول قائم کیا کہ ان کے ظاہر پر معاملہ کیا جائے گا، یعنی انسان جب دوسروں کی نیتوں کے پیچھے بھاگتا ہے، ان کے بارے میں ظنون و اوہام قائم کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ ان کے اندر اتر کر ان کے عقیدے اور نظریے کا فیصلہ کرے تو اس کو اسلام نے ممنوع قرار دے دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی بہترین مثال قائم کی، جب آپ کو یہ بتایا گیا کہ ایک شخص نے میدان جنگ میں اس کے باوجود کہ اس نے اس بات کا اقرار کر لیا تھا کہ وہ اللہ کے سوا کسی کو معبود نہیں مانتا تو اس کو قتل کر دیا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ تم نے یہ اقدام کیوں کیا؟ تو انھوں نے کہا کہ میں نے جب یہ دیکھا کہ یہ محض زبان سے اقرار کر رہا ہے اور جیسے ہی میں تلوار پیچھے ہٹاتا ہوں، وہ فوراً اپنے اس اقرار سے انحراف کرتا ہے تو میں نے اس کو قتل کردیا۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا کہ تم نے اس کے دل کو پھاڑ کر دیکھ لیا تھا؟ کیا تم نے اس کےسینے کو چیر کر دیکھ لیا تھا ؟ تم کو کیا حق تھا کہ جب اس نے اقرار کیا تو اس کے بعد اس کے اوپر کسی بھی نوعیت کی تعدی یا زیادتی کرتے؟ وہ صحابی کہتے ہیں کہ مجھے یہ خیال ہوا کہ اے کاش! میں زمین میں دفن ہو گیا ہوتا اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے یہ بات سننے کے لیے اس زمین پر نہ رہنا پڑتا(مسلم، رقم۲۷۷)۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ واضح فرما دیا کہ ایک انسان ایک حقیقت کو مان رہا ہے، اس کا اقرار کر رہا ہے تو تم کو کوئی حق نہیں ہے کہ اس کے دل میں اتر کر دیکھو، اس کی نیت پر حملہ کرو ، اس کے محرکات کا جائزہ لو اور یہ جاننے کی کوشش کر و کہ یہ فی الواقع درست کہہ رہا ہے یا غلط ۔ قرآن مجید میں بھی یہی تعلیم ہمارے سامنے آتی ہے، یعنی وہ لوگ جن کو اسلامی اصطلاح میں ’منافقین‘ کہا جاتا ہے، ان پر تبصرہ کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بار بار بتایا گیا کہ ان کے جتنے معاملات ہیں، ان کی اصلاح تو کی جائے گی، لیکن ان کو اسلامی معاشرے سے کاٹا نہیں جا سکتا، ان کے ساتھ مشورے کا تعلق ختم نہیں کیا جا سکتا اور ان کے معاملے میں عفو و درگذر ہی کا رویہ اختیار کرنا ہو گا۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت کی یہ خصوصیت بیان کی گئی کہ اسی وجہ سے لوگ آپ کے گرد جمع ہوئےہیں کہ آپ نرم خو اور محبت سےبات کرنے والے ہیں، آپ کا پیغام محبت کا پیغام ہے، آپ کی شخصیت محبت کی شخصیت ہے، آپ مثبت اقدار کے حامل ہیں جو محبت سے فروغ پاتی ہیں اور آپ دنیا میں بدامنی پھیلانے کے لیے نہیں آئے ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں بتایا گیا ہے کہ:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْﵐ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَﵣ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْاَمْرِﵐ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِﵧ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ.(آل عمران۳: ۱۵۹)
’’سو یہ اللہ کی عنایت ہے کہ تم اِن کے لیے بڑے نرم خو واقع ہوئے ہو، ( اے پیغمبر)۔ اگر تم درشت خو اور سخت دل ہوتے تو یہ سب تمھارے پاس سے منتشر ہوجاتے۔ اِس لیے اِن سے درگذر کرو، اِن کے لیے مغفرت چاہو اور معاملات میں اِن سے مشورہ لیتے رہو۔ پھر جب فیصلہ کرلو تو اللہ پر بھروسا کرو، اِس لیے کہ اللہ کو وہی لوگ پسند ہیں جو اُس پر بھروسا کرنے والے ہوں۔‘‘
یعنی یہ اللہ تعالیٰ کا آپ پر بڑا کرم ہے کہ اس نے آپ کو نرم خو بنایا ہے۔ اگر آپ درشت خو ہوتے، سخت کلامی سے کام لیتے اور دوسرے لوگوں پر شدت برتتے تو یہ لوگ آپ کے گرد جمع نہ ہو سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خاص طور پر یہ بشارت دی کہ اللہ کا تم پر کرم ہوا ہے کہ اس نے تمھارے دلوں میں محبت پیدا کر دی ہے (آل عمران۳: ۱۰۳)۔ اگر آپ دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ فلسفہ و حکمت کے اعتبار سے بھی اور قانون و شریعت کے اعتبار سے بھی قدم قدم پر دین کی دعوت یہی ہے کہ لوگوں کو امن اور سلامتی کا پیغام دیا جائے اور ان محرکات کا خاتمہ کیا جائے جو دنیا میں بدامنی کا باعث بنتے ہیں۔ ’فساد فی الارض‘ قرآن مجید کی خاص اصطلاح ہے اور ایک مقام پر اس کی وضاحت کی ہے کہ جب لوگوں کے جان و مال اور امن و امان کے لیے خطرہ پیدا کر دیا جائے، جب محبت اور سلامتی کی فضا ختم کر دی جائے، جب لوگوں کو دنیا میں اعتماد سے جینے کے مواقع ختم کر دیے جائیں تو یہ فساد فی الارض ہے۔ فساد سے بڑھ کر قابل مذمت کوئی اورچیز نہیں ہے۔ قرآن مجید نے حدود و تعزیرات کے ضمن میں سب سے سخت سزا اسی کی مقر ر کی ہے۔ قرآن مجید میں تین چار سزائیں ایسی ہیں جن کی سزا خود قرآن مجید نے مقرر کی ہے، ان میں سے سب سے زیادہ سخت سزا اسی کی ہے۔ اس حوالے سے جو اس نے الفاظ استعمال کیے ہیں ، وہ یہ ہیں کہ:
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْ٘ا اَوْ يُصَلَّبُوْ٘ا اَوْ تُقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ.(المائدہ۵: ۳۳)
’’جو اللہ اور اُس کے رسول سے لڑیں گے اور اِس طرح زمین میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کریں گے، اُن کی سزا پھر یہی ہے کہ عبرت ناک طریقے سے قتل کیے جائیں یا سولی پر چڑھائے جائیں یا اُن کے ہاتھ اور پاؤں بے ترتیب کاٹ دیے جائیں یا اُنھیں علاقہ بدر کردیا جائے۔‘‘
وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں سرکشی اختیار کرتے ہیں اور اس طرح سرکشی اختیار کرتے ہیں کہ زمین میں فساد برپا کرتے ہیں، امن کے خاتمے کے پیامبر بن جاتے ہیں ، سارے نظم کو درہم برہم کر دینا چاہتے ہیں، قانون کو چیلنج کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، ان کی سزا یہ ہے کہ ان کو عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیا جائے۔
یہ قرآن مجید انسانی جان کی قدر و قیمت بیان کرتا ہے ۔ وہ فساد کو ایک بڑا جرم قرار دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید نے جب جہاد و قتال کے احکام دیے تو اس میں بھی یہ بات بڑی وضاحت سے بیان کر دی کہ یہ تلوار اٹھانے کا حق اس لیے نہیں دیا جا رہا کہ تم اپنا عقیدہ ان پر ٹھونس دو اور جس پر چاہے، چڑھ دوڑو، یہ حق اس لیے دیا جا رہا کہ تمھارے خلاف ظلم کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے یہ قانون اس لیے بنایا ہے کہ کلیسے، گرجے، خانقاہیں، راہبوں کے بیٹھنے کی جگہیں، یہودیوں کے کنیسے اور مسلمانوں کی مسجدیں برباد نہ کر دی جائیں، یعنی صورت حال یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کی مسجدوں کی حفاظت کی بات کی جا رہی ہے، بلکہ قرآن مجید نے تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کے نام گنوائے اور یہ بتایا کہ اگر ہم یہ اجازت نہ دیتے تو لوگ ان کو منہدم کردیتے اور یہ سب وہ جگہیں ہیں جن میں اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔
اس سے زیادہ رواداری، محبت اور دوسروں کی عبادت گاہوں کے احترام کی اور کیا صورت ہو سکتی ہے کہ مسلمانوں کو جہاد اور قتال کا بھی حکم دیتے وقت کہا جا رہا ہے کہ اللہ کا نام جن جگہوں پر لیا جا رہا ہے اور جو لوگوں نے اللہ کی عبادت کے لیے گھر بنا رکھے ہیں، قطع نظر اس کے کہ وہ مسلمانوں کے ہیں یا کسی اور گروہ یا فرقے کے ہیں، ان کا احترام تم کو کرنا ہے اور ان کی حفاظت کے لیے جان لڑا دینی ہے۔ یہ اسلام میں جہاد اور قتال میں بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ امن و محبت اور لوگوں کے درمیان مثبت اقدار کے فروغ کے لیے اگر پیغمبروں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا سارا کا سارا نقطۂ نظر عدم تشدد (non-violence) پر مبنی ہے۔ وہ بد سے بدترین حالات کا مقابلہ کرتے ہیں، لیکن تلوار اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی دیکھیں کہ ۱۳ سال تک مکے میں ہر طرح کا ظلم سہ لیا گیا اور ہر طرح کے تشدد کا مقابلہ کر لیا گیا اور ہر وہ برائی جس کا تصور کیا جا سکتا ہے، وہ آنکھوں کے سامنے دیکھ لی گئی، یہاں تک کہ بیت اللہ کو اس حال میں دیکھا گیا کہ اس میں بت رکھ دیے گئے تھے، اس کے باوجود کسی اقدام کی اجازت نہیں دی گئی۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کے اطمینان کے لیے اگر کسی موقع پر کچھ کہا بھی تو یہ کہا کہ یہ جو تم پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے، میں اس کے مقابلے میں تم کو جنت کی بشارت دیتا ہوں۔ گویا دین نے امن اور سلامتی کو اپنی بنیاد بنا کر اپنی دعوت پیش کی۔ جب ایک منظم ریاست قائم ہوئی، تب بھی اس نے تلوار اٹھائی تو زیادتی اور ظلم و عدوان کے خاتمے ، لوگوں کو تحفظ دینے اور امن قائم کرنے کے لیے تلوار اٹھائی۔ یہ بتایا کہ یہ امن اور سلامتی ہے، جس کے لیے ایک مسلمان کو جان دینے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔[1]
___________
[1]۔https://ghamidi.com/videos/islam-640