معاذ بن نور
انسان کے سامنے ہر وقت انتخاب (choices) آتے ہیں، اور ان انتخابوں میں وہ کس چیز کو ترجیح (priority) دیتا ہے، یہی اس کا مرکز توجہ(focus) ہوتا ہے۔ اگر میرے فوکس میں اللہ کی ذات ہے تو جب میرے سامنے کوئی بھی انتخاب آئے گا، میری ترجیح اللہ کی ذات ہوگی۔ اسی لیے میں مختلف انتخاب کروں گا۔ لیکن اگر میرا فوکس دنیا کی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں اور میں انھیں اپنی ترجیح بناتا ہوں تو میری ترجیحات مختلف ہوں گی۔
یہ ویسے ہی ہے، جیسے آپ گاڑی کی سمت متعین کرتے ہیں، اور پھر گاڑی اس سمت میں چل نکلتی ہے۔ پھر اگر آپ ایک غلط انتخاب کرتے ہیں اور گاڑی کو نیچے ڈھلوان کی طرف موڑ دیتے ہیں تو اس کے بعد آپ مزید مجبور ہو جاتے ہیں کہ ایک غلط انتخاب کو درست ثابت کرنے کے لیے مزید غلط انتخاب کریں۔ پھر ایک اور غلط انتخاب سامنے آتا ہے، اور یوں غلطیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ زوال کی راہ ہے۔
لیکن اگر آپ اللہ کو اپنی ترجیح بناتے ہیں اور نیک نیتی کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں تو آپ بلندی کی طرف بڑھتے ہیں۔ آپ کے علم و عمل میں ایک طرح کی قوت پیدا ہو جاتی ہے، اور یہ چیزیں ہم اپنی زندگی میں محسوس کرتے ہیں۔ اللہ کے ساتھ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ کو اپنی زندگی میں ترجیح دے۔ یہ بلندی کا سفر ہے اور اس کے مختلف مراحل ہیں، جیسے صالح انسان، شاہد انسان اور صادق انسان کے درجات۔
یہ کہنا کہ اللہ کو اپنی زندگی میں ترجیح دینا ایک چھوٹی سی بات لگتی ہے، لیکن درحقیقت یہ بہت بڑی بات ہے، کیونکہ زندگی کا کوئی لمحہ بھی اس کے تقاضوں سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر، میں دفتر سے آ کر بستر پر بیٹھا ہوں اور موبائل اٹھاتا ہوں۔ اب یہ میرے پاس وقت کی اہمیت ہے اور میرے سامنے حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کتنی بڑی حقیقت ہے اور میری زندگی کی کتنی نعمتیں اس نے دی ہیں۔ اگر میرا فوکس اللہ ہے اور میری ترجیح یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت اس کے ساتھ گزاروں تو پھر یہ دیکھنا ہے کہ میں موبائل پر کن چیزوں میں وقت گزارتا ہوں۔
اگر میں ریلز (Reels) میں ضائع ہو گیا اور بے مقصد ویڈیوز دیکھتا رہا تو یہ تو میرے اوپر ایک الگوردم (Algorithm) کام کر رہا ہے۔ یہ نہیں ہوگا کہ میں اس سفر سے ایک متقی بن کر نکلوں، بلکہ یہ زوال کا سفر ہے۔ اس لمحے میں، میں نے اللہ کو ترجیح نہیں دی اور اپنی جبلتوں (instincts) کے پیچھے چل پڑا۔ اس چیز کے نتائج ہوں گے۔ یہاں پر غیر اخلاقی چیزوں میں وقت صرف کرنے کو جواز دینے کے لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’تھوڑا ریلیکس کرنے دو‘‘، لیکن یہ ترجیحات کا معاملہ ہے۔ یہی چیز پوری زندگی میں پھیلتی ہے۔ انسان کی جبلتیں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ پھر ریلیکسیشن کے نام پر بڑی سے بڑی گم راہی اس کے دل میں اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔ لہٰذا اللہ کی معیت (موجودگی) میں رہنے کا مطلب یہی ہے کہ لمحۂ موجود میں اپنے ہر انتخاب میں ہم اللہ کو اپنی زندگی میں ترجیح دیں، اپنے شعور میں اسے زندہ رکھیں۔
ـــــــــــــــــــــــــ