گذشتہ سے پیوستہ
قرآن مجید کی روشنی میں اس تصور کو سمجھنے کے لیے ہمیں نبوت اور رسالت کے تصور کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اپنی تصنیف ’’میزان‘‘ میں جاوید احمد غامدی صاحب رقم طراز ہیں:
’’خدا کے جو پیغمبر اِس دین کو لے کر آئے ،اُنھیں ’’نبی‘‘کہا جاتا ہے ۔قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن میں سے بعض ’’نبوت‘‘کے ساتھ ’’رسالت‘‘ کے منصب پر بھی فائز ہوئے تھے۔
’’نبوت‘‘ یہ ہے کہ بنی آدم میں سے کوئی شخص آسمان سے وحی پا کر لوگوں کو حق بتائے اور اُس کے ماننے والوں کو قیامت میں اچھے انجام کی خوش خبری دے اور نہ ماننے والوں کو برے انجام سے خبردار کرے ۔ قرآن اِسے ’’انذار‘‘ اور ’’بشارت‘‘ سے تعبیر کرتا ہے :
كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ، مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ.(البقرہ ۲: ۲۱۳)
’’ لوگ ایک ہی امت تھے۔ پھر(اُن میں اختلاف پیدا ہوا تو) اللہ نے نبی بھیجے، بشارت دیتے اور انذار کرتے ہوئے ۔‘‘
’’رسالت‘‘ یہ ہے کہ نبوت کے منصب پر فائز کوئی شخص اپنی قوم کے لیے اِس طرح خدا کی عدالت بن کر آئے کہ اُس کی قوم اگر اُسے جھٹلا دے تو اُس کے بارے میں خدا کا فیصلہ اِسی دنیا میں اُس پر نافذ کر کے وہ حق کا غلبہ عملاً اُس پر قائم کر دے:
وَلِكُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلٌ، فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ، وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ. (یونس۱۰: ۴۷)
’’ (اُس کا قانون یہی ہے کہ) ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب اُن کا رسول آجاتا ہے تو اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔‘‘
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحَآدُّوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ٘، اُولٰٓئِكَ فِي الْاَذَلِّيْنَ. كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ، اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ. (المجادلہ ۵۸: ۲۰ -۲۱)
’’(تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) جو اللہ اور اُس کے رسول سے دشمنی کریں گے، وہی سب سے بڑھ کر ذلیل ہونے والوں میں ہوں گے۔ اِس لیے کہ اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہو کر رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑے زور والا اور بڑا زبردست ہے۔‘‘
رسالت کا یہی قانون ہے جس کے مطابق خاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے :
هُوَ الَّذِيْ٘ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ. (الصف ۶۱: ۹)
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ (اِس سرزمین کے) تمام ادیان پر اُس کو غالب کر دے، خواہ یہ مشرکین بھی اِسے کتنا ہی ناپسند کریں۔‘‘
اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اِن رسولوں کو اپنی دینونت کے ظہور کے لیے منتخب فرماتا اور پھر قیامت سے پہلے ایک قیامت صغریٰ اُن کے ذریعے سے اِسی دنیا میں برپا کر دیتا ہے ۔ اُنھیں بتا دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ اپنے میثاق پر قائم رہیں گے تو اِس کی جزا اور اِس سے انحراف کریں گے تو اِس کی سزا اُنھیں دنیا ہی میں مل جائے گی۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُن کا وجود لوگوں کے لیے ایک آیت الٰہی بن جاتا ہے اور وہ خدا کو گویا اُن کے ساتھ زمین پر چلتے پھرتے اور عدالت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔‘‘ (میزان ۷۱- ۷۲)
درج بالا اقتباس کی رو سے:
۱۔ نبوت کا منصب عام ہے اور رسالت کا منصب خاص ہے۔
۲۔ رسول اپنی قوم کی طرف خدا کی عدالت بن کر آتا ہے۔ رسول کے ساتھ خدا کی دینونت کا ظہور ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں حق کا غلبہ قائم ہو جاتا ہے اور رسول کے دشمن لازماً مغلوب ہو جاتے ہیں۔
۳۔ لوگ خدا کو گویا رسول کے ساتھ زمین پر چلتے پھرتے اور عدالت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔
۴۔ اللہ تعالیٰ رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ ’اظہار دین‘ کے مقصد کے لیے بھیجتا ہے۔
۵۔ اللہ تعالیٰ رسول کے ذریعے سے ’قیامت کبریٰ‘ سے پہلے ’قیامت صغریٰ‘ برپا کرتا ہے۔
صاحب ’’تدبر قرآن‘‘ مولانا امین احسن اصلاحی اپنی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:
’’ ’وَيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلّٰهِ‘ کا صحیح موقع و محل اور اس کا اصلی زور سمجھنے کے لیے یہاں بالا جمال اس سنت اللہ کو سمجھ لینا ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے باب میں پسند فرمائی ہے۔ وہ سنت اللہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کی طرف اپنا رسول بھیجتا ہے تو وہ رسول اس قوم کے لیے خدا کی آخری اور کامل حجت ہوتا ہے۔ جس کے بعد کسی مزید حجت و برہان کی اس قوم کے لیے ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ اس کے بعد بھی اگر وہ قوم ایمان نہیں لاتی بلکہ تکذیبِ رسول اور عداوتِ حق ہی پر اڑی رہ جاتی ہے تو وہ فنا کر دی جاتی ہے۔ عام اس سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کسی عذاب کے ذریعہ سے فنا ہو یا حق کے اعوان و انصار اور رسول کے ساتھیوں کے ہاتھوں اور عام اس سے کہ یہ واقعہ رسول کی زندگی ہی میں ظہور میں آئے یا اس کی وفات کے بعد۔ ’لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا‘ اور اس مضمون کی دوسری آیات میں اسی سنت اللہ کی طرف اشارہ ہے اور اس کے ظہور کے لیے قرآن میں ایک مخصوص ضابطہ بیان ہوا ہے...۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۴۷۸)
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
’’یہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس سنت کااعلان فرمایا ہے جو ازل سے اس نے لکھ رکھی ہے کہ جو کشمکش اللہ و رسول اور حزب الشیطان کے درمیان برپا ہو گی اس میں غلبہ اللہ اور اس کے رسولوں کو حاصل ہو گا، شیطان کی پارٹی ذلیل و خوار ہو گی۔ اس سنت اللہ کی وضاحت ہم جگہ جگہ کرتے آ رہے ہیں کہ رسول جتنے بھی دنیا میں آئے وہ جس قوم کے اندر آئے اس کے لیے خدا کی عدالت بن کر آئے۔ اس کے بعد اس قوم کا لازماً فیصلہ ہو گیا۔ اگر قوم نے بحیثیت مجموعی رسول کی تکذیب کر دی تواس کے اندر سے رسول اور اس پر ایمان لانے والے افراد کو الگ کر کے باقی قوم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی عذاب کے ذریعہ سے فنا کر دیا۔ اور اگر ایمان لانے والوں کی تعداد معتدبہ ہوئی تو اتمام حجت کے بعد اہل ایمان کو حکم دیا گیا کہ وہ جہاد کے لیے تلوار اٹھائیں اور ان اعدائے حق سے مقابلہ کر کے ان کا زور توڑ دیں کہ زمین ان کے فتنہ سے پاک ہو جائے۔ قرآن نے رسولوں کی جو تاریخ پیش کی ہے ان میں سے اکثر کو پہلی صورت پیش آئی یعنی رسول اور اس کے ساتھیوں کی ہجرت کے بعد قوم پر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ کن عذاب آ گیا۔ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں دوسری صورت پیش آئی کہ ہجرت کے بعد آپ کو جہاد کا حکم ہوا اور آپ کے اعداء نے آپ کے صحابہؓ کی تلوار سے شکست کھائی یہاں تک کہ ان کا بالکل قلع قمع ہو گیا۔‘‘ (تدبر قرآن ۸/ ۲۷۳)
درج بالا اقتباسات سے جو اضافی باتیں واضح ہوتی ہیں، وہ یہ ہیں:
۱۔ رسول کی قوم کے لیے خدا تعالیٰ کی عدالت کا ظہور رسول کے ذریعے سے ’اتمام حجت‘ کے بعد ہوتا ہے۔ اتمام حجت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ علم و عقل کی شہادت کے بعد رسولوں کے ذریعے سے ایک دوسری شہادت بھی پیش کر دی جائے جو حق کو اِس درجہ واضح کر دے کہ کسی کے پاس انکار کرنے کا کوئی عذر باقی نہ رہے۔
۲۔ رسول کے منکرین پر خدا تعالیٰ کا عذاب یا تو قدرتی آفات کے ذریعے سے آتا ہے یا پھر اہل حق کے ہاتھوں سے۔
۳۔ دوسری صورت کا عذاب صرف محمد صلی الله علیہ وسلم کے معاملے میں پیش آیا۔
یہ بات بھی قرآن مجید سے واضح ہے کہ جو عذاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسولوں کے منکرین پر آتا ہے، خاص طور پر قدرتی آفات کے ذریعے سے آنے والا عذاب، اسے فرشتے ہی نافذ کرتے ہیں۔ سیدنا لوط علیہ السلام کی سرگذشت میں اس کا تذکرہ موجود ہے[15]۔ فرشتوں کا خدا کی جزا و سزا کا آلۂ کار بننے کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے:
وَقَالُوْا لَوْلَا٘ اُنْزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا يُنْظَرُوْنَ. (الانعام ۶: ۸)
’’کہتے ہیں کہ اِس نبی پر (علانیہ) کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا؟ (یہ احمق نہیں سمجھتے کہ) اگر ہم نے کوئی فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک فیصلہ ہو جاتا، پھر اِن کو کوئی مہلت نہ ملتی۔ ‘‘
رسول کے ساتھیوں کے ہاتھوں سے منکرین و معاندین کو دیے جانے والے عذاب میں بھی فرشتوں کا کردار قرآن مجید میں نمایاں کیا گیا ہے۔ نیز سورۂ آل عمران اور سورۂ انفال میں اس کی صراحت موجود ہے۔ رسولوں کی قوموں کے لیے خدا تعالیٰ کی عدالت کے ظہور میں فرشتوں کے کردار کا مطالعہ اور اس کی روشنی میں ہندو کتابوں میں متعلقہ مقامات کا تجزیہ ہم ایک الگ مضمون میں کریں گے۔
بھگود گیتا میں اوتار کے لیے جن الفاظ و اسالیب کا استعمال ہوا ہے، اب ہم ان کا موازنہ قرآن مجید میں مستعمل الفاظ واسالیب سے کر لیتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی دینونت کے ظہور کے لیے جو اسالیب استعمال ہوئے ہیں،ان میں کبھی اللہ تعالیٰ کے آنے کی بات ہے، کبھی فرشتوں کے آنے کی اور کبھی اس کے فیصلے کے آنے کی۔ چند آیات غور طلب ہیں:
هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا٘ اَنْ يَّاْتِيَهُمُ اللّٰهُ فِيْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰٓئِكَةُ وَقُضِيَ الْاَمْرُ وَاِلَي اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ.(البقرہ ۲: ۲۱۰)
’’(اِس اتمام حجت کے باوجود) کیا یہ اِسی کے منتظر ہیں کہ اللہ اور اُس کے فرشتے بدلیوں کے سایے میں اِن پر نمودار ہو جائیں اور معاملے کا فیصلہ کر دیا جائے؟ (لیکن یہ اللہ کا طریقہ نہیں ہے) اور اِس طرح کے معاملات تو اللہ ہی کے حوالے ہیں۔‘‘
هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا٘ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ اَوْ يَاْتِيَ رَبُّكَ اَوْ يَاْتِيَ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِيْ٘ اِيْمَانِهَا خَيْرًا قُلِ انْتَظِرُوْ٘ا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ.(الانعام ۶: ۱۵۸)
’’کیا وہ اِسی کے منتظر ہیں کہ اُن کے پاس فرشتے آئیں یا تیرا پروردگار آجائے یا تیرے پروردگار کی نشانیوں میں سے کوئی خاص نشانی ظاہر ہو جائے؟ جس دن تیرے پروردگار کی نشانیوں میں سے (اِس طرح کی) کوئی نشانی ظاہر ہوجائے گی، اُس دن کسی ایسے شخص کو اُس کا ایمان کچھ نفع نہ دے گا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو یا اپنے ایمان میں اُس نے کوئی بھلائی نہ کمائی ہو۔ کہہ دو کہ (اِسی پر اصرار کرتے ہو تو) انتظار کرو، ہم بھی انتظار کررہے ہیں۔‘‘
هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا٘ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ اَوْ يَاْتِيَ اَمْرُ رَبِّكَ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ وَلٰكِنْ كَانُوْ٘ا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ.(النحل ۱۶: ۳۳)
’’کیا یہ اِسی کے منتظر ہیں کہ اِن کے پاس فرشتے آپہنچیں یا تیرے پروردگار کا فیصلہ صادر ہو جائے؟ اِن سے پہلے والوں نے بھی یہی کیا تھا۔ (پھر جو کچھ ہوا، وہ) اللہ نے اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا، بلکہ وہی اپنے اوپر ظلم کررہے تھے۔‘‘
هُوَ الَّذِيْ٘ اَخْرَجَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ يَّخْرُجُوْا وَظَنُّوْ٘ا اَنَّهُمْ مَّانِعَتُهُمْ حُصُوْنُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوْا.(الحشر ۵۹: ۲)
’’وہی ہے جس نے اہل کتاب کے منکروں کو پہلے حشر کے لیے اُن کے گھروں سے نکال باہر کیا ہے۔ تمھیں گمان نہ تھا کہ وہ کبھی (اِس طرح) نکلیں گے اور وہ بھی یہی سمجھتے تھے کہ اُن کے قلعے اُنھیں اللہ کے عذاب سے بچالیں گے۔ مگر اللہ اُن پروہاں سے آ پہنچا، جہاں سے اُنھوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔‘‘
درج بالا آیات میں مستعمل الفاظ کی وجہ سے ہمارے مفسرین کو خدا تعالیٰ کی ذات کے انتقال و حرکت وغیرہ کی بحثیں کر کے اس کی نفی کرنا پڑی ہے۔ مثلاً امام قرطبی سورۂ بقرہ کی آیات ۲۱۰ کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں :
قال الزّجاج: التقدير في ظلل من الغمام ومن الملائكة. وقيل: ليس الكلام على ظاهره في حقّه سبحانه، وإنما المعنى يأتيهم أمر اللّٰه وحكمه. وقيل: أي بما وعدهم من الحساب والعذاب في ظُلَل مثل:﴿فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوْا﴾ [الحشر:۲] .(الجامع لاحکام القرآن ۳/ ۲۵)
’’زجاج نے کہا ہے: تقدیر کلام اس طرح ہے: ’في ظلل من الغمام ومن الملائكة‘ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سبحانہٗ کے حق میں کلام اپنے ظاہر پر نہیں ہے، بلکہ معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا امر اور اس کا حکم ان کے پاس آ جائے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حساب و عذاب میں سے جس کا ان کے ساتھ وعدہ فرما رکھا ہے، اس کے ساتھ چھائے ہوئے بادلوں میں ان کے پاس آجائے، جیسا کہ یہ ارشاد ہے: ’فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوْا‘۔‘‘
امام قرطبی آگے لکھتے ہیں:
لا يجوز أن يحمل هذا وما أشبهه مما جاء في القرآن والخبر على وجه الانتقال والحركة والزوال، لأن ذلك من صفات الأجرام والأجسام، تعالى اللّٰه الكبير المتعال، ذو الجلال والإكرام عن مماثلة الأجسام عُلُوًّا كبيرًا.(الجامع لاحکام القرآن ۳/ ۲۶)
’’یہ جائز نہیں کہ اسے اور جو کچھ اس کے مشابہ قرآن و حدیث میں مذکور ہے، اسے وجہ انتقال، حرکت اور زوال پر محمول کیا جائے، کیونکہ یہ اجرام و اجسام کی صفات میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے انتہائی بلند و برتر ہے۔ وہ ذوالجلال والاکرام ہے اور اجسام کی مماثلت سے بلند و بالا اور برتر ہے۔‘‘
کئی مفسرین نے اللہ تعالیٰ کے آنے کو متشابہات میں سے مانا ہے اور صاف لکھ دیا ہے کہ اس پر اجمالی ایمان کافی ہے، تفصیل انسانوں کی عقل سے ماورا ہے۔ بعض نے ’يَاْتِىَ رَبُّكَ‘ وغیرہ جیسے الفاظ کے درمیان کوئی اور لفظ مثلاً ’امر‘ یا ’باس‘ مان کر معنی یہ کیے ہیں کہ اللہ کا حکم آ پہنچے یا عذاب آ جائے،اور پیچھے مذکورسورۂ نحل کی آیت میں لفظ ’امر‘ موجود بھی ہے۔
عن أبي سعيد، وأبي هريرة، قالا: قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: ’’إن اللّٰه يمهل حتى إذا ذهب ثلث الليل الأول، نزل إلى السماء الدنيا، فيقول: هل من مستغفر؟ هل من تائب؟ هل من سائل؟ هل من داع؟ حتى ينفجر الفجر‘‘. (مسلم، رقم ۱۷۷۷)
’’حضرت ابو سعید اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ مہلت دیتا ہے، یہاں تک کہ ہر رات کو جب رات کا پہلا تہائی حصہ گزر جاتا ہےتو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر اترتا ہے اور کہتا ہے: کون ہے جو مغفرت طلب کرے ؟ کون ہے جو توبہ کرے، کون ہے جو مجھ سے مانگے؟ کون ہے جو دعا کرے؟ وہ برابر اسی طرح فرماتا رہتا ہے، یہاں تک کہ فجر روشن ہو جاتی ہے۔ ‘‘
اس روایت کا اصل منشا تو واضح ہے کہ رات کے ایک خاص حصے میں بندوں پر رحمت خداوندی کی خصوصی توجہ ہوتی ہے، جس سے خدا کے بندے عبادت اور دعا و مناجات میں گزار کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ تاہم چونکہ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ سماء دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں‘‘، اس لیے اس حدیث میں بڑے کلامی مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ اہل علم کی ایک جماعت نے اس طرح کی روایت کے بارے میں کہا کہ یہ متشابہات میں سے ہیں، اگر چہ ’نزول‘ کے ظاہری معنی جو تشبیہ کو مستلزم ہیں، وہ مراد نہیں۔ متکلمین کا کہنا تھا کہ ان الفاظ کا ظاہری مفہوم ہرگز مراد نہیں، لیکن ان کے مجازی معنی مراد ہیں، مثلاً ’نزول‘ سے مراد ’نزول رحمت‘ یا ’نزول ملائکہ‘ ہے۔ اس موضوع پر امام ابن تیمیہ کی ایک مستقل کتاب ہے جو ’’شرح حدیث النزول‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ ایک اور علمی زاویہ اس طرح کے الفاظ کو زبان و بیان کے فطری اصولوں کی روشنی میں دیکھنے کا ہو سکتا ہے۔
پچھلی ساری بحث کی بنیاد پر اوتار کے تصور اورعقیدۂ رسالت کی ’اصلاحی و غامدی تفہیم‘ میں مماثلت نظر آتی ہے اور اوتار کے تصور کا عقیدۂ رسالت کی ایک بگڑی ہوئی صورت ہونا قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ تاہم کسی کے ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ اس تجزیہ کے بعد کیا ایک ’رسول‘ کو ’اوتار‘ کہا جا سکتا ہے ؟ ہمارے نزدیک یہ نتیجہ درست نہیں ہوگا۔ ہاں ’اوتار کے تصور‘ کا ’رسالت کے عقیدے‘ کے ساتھ تقابل میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ قرآن مجید کی رو سے دیکھا جائے تو اوتار کے تصور میں خدا کی ذات کا زمین پر نزول دراصل ایک خاص قانون کے تحت اس کے فیصلے یا عدالت کا ظہور ہے، نہ کہ ذات باری کی بشری و حیوانی صورت میں تشریف آوری۔ یوں، ایک رسول کو اوتار کا درجہ نہیں دیا جا سکتا، بلکہ خدا تعالیٰ کے فیصلے کے نفاذ کو ہی خدا کا نزول قرار دیا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی منو کی کہانی میں منو کو اوتار نہیں کہا گیا، بلکہ اس مچھلی کو اوتار کہا گیا جس نے منو کو پہلے طوفان کی خبر دی اور پھر ان کے ساتھیوں کے ہم راہ انھیں طوفان سے نجات بھی دی۔
ہماری تاریخ میں بعض اہل علم نے ’رسول‘ کو ’اوتار‘ بھی کہا ہے۔ مثال کے طور پر ابو ریحان البیرونی (المتوفى ۱۰۵۰ء) نے کلمۂ طیبہ کا ترجمہ عربی سے سنسکرت میں یوں کیا تھا:
अव्यक्तमेक मुहम्मद अवतार[16]
’’اویکت (ذات باری جو مخفی ہے) ایک ہے، محمد اوتار ہیں۔‘‘
کلمۂ طیبہ کا یہ سنسکرت ترجمہ سلطان محمود غزنوی کے عہد میں سرکاری سکوں پر درج کیا گیا۔ یہ سکے ذو لسانی (bilingual) تھے، جن کی ایک جانب عربی عبارت اور دوسری جانب سنسکرت عبارت لکھی تھی۔[17]
مضمون کے اس حصے میں ہم نے صرف بھگود گیتا کے متعلقہ مقام کو پیش نظر رکھا ہے۔ تاہم ہندومت میں دھرم کی تفہیم و تشریح کے حوالے سے ویدوں کو اصل ماخذ کی حیثیت حاصل ہے، اس لیے ان کا تجزیہ بھی ناگزیر ہے۔ لیکن اس کاوش کو پھر کسی مضمون کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ سوال بھی تحقیق طلب ہے کہ اگر اہل ہند اللہ تعالیٰ کے ایک جلیل القدر رسول کی شخصیت سے واقف ہیں تو عقیدۂ نبوت سے ان کے غیرمانوس ہو جانے کے کیا اسباب ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کی اہمیت کا اندازہ اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق روزِ قیامت سیدنا نوح علیہ السلام کی امت اس بات ہی سے انکار کر دے گی کہ سیدنا نوح نے ان تک خدا کا کوئی پیغام پہنچایا تھا۔[18] اس روایت کا تجزیہ بھی ان شاء اللہ کسی اور مضمون میں کرنے کی کوشش کریں گے۔
ـــــــــــــــــــــــــ
[15]۔ دیکھیے: سورۂ ہود ۱۱: ۶۹ -۷۰۔ سورۂ حجر ۱۵: ۵۸ - ۶۰۔ سورۂ ذاریات ۵۱: ۳۲ - ۳۴۔
[16]۔ اَوْیَکْتَم ایكَ محمّدَ اَوَتار(avyaktameka Muhammada avatāra)
[17]۔ Raza, S. Jabir. “COINAGE AND METALLURGY UNDER THE GHAZNAVID SULTAN MAHMUD.” Proceedings of the Indian History Congress 75 (2014): 227–28. http://www.jstor.org/stable/44158383.
[18] ۔عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم: ’’يَجِيءُ نُوحٌ وَأُمَّتُهُ فَيَقُولُ اللّٰهُ تَعَالَى: هَلْ بَلَّغْتَ؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، أَيْ رَبِّ. فَيَقُولُ لأُمَّتِهِ هَلْ بَلَّغَكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: لاَ، مَا جَاءَنَا مِنْ نَبِيٍّ. فَيَقُولُ لِنُوحٍ: مَنْ يَشْهَدُ لَكَ؟ فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ صلى اللّٰه عليه وسلم وَأُمَّتُهُ، فَنَشْهَدُ أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ، وَهْوَ قَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ: ﴿وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ﴾‘‘ (بخاری، رقم ۳۳۳۹)۔